Wednesday, March 4, 2015

Mar2015: Rising Peshawar

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
نیا پشاور: مثالی طرزعمل
یقین نہیں آ رہا کہ یہ پشاور کا وہی ’گھنٹہ گھر بازار‘ ہے کہ جہاں سے پیدل گزرنا تک محال ہوا کرتا تھا! اٹھائیس فروری کی شب میونسپل کارپوریشن کے کارکنوں نے ’تاریخی گھنٹہ گھر‘ کی عمارت کے اردگرد قائم اُن 12تجاوزات کو بھاری مشینری کے استعمال سے مسمار کر دیا‘ جو 1955ء میں تعمیر کی گئیں تھیں اُور سیاسی اثرورسوخ رکھنے گروہوں کی موجودگی میں اِس بات کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا کہ ’مرکزی و مصروف ترین بازار سے پختہ تعمیرات کبھی ہٹائی بھی جا سکیں گی یقیناً’گھنٹہ گھر آپریشن‘ کی کامیابی کے بعد میونسپل حکام اور ضلعی انتظامیہ کے اعتماد‘ قوت اِرادی اُور ساکھ میں اضافہ جبکہ تجاوزات کی پشت پناہی کرنے والوں کی ’حوصلہ شکنی‘ ہوئی ہے جنہیں مزید باور کرانے کی قطعی کوئی ضرورت نہیں رہی کہ ۔۔۔ ’’اَب اُن کی من مانی نہیں چلے گی۔‘‘

پشاور کے وسائل ایک عرصے تک لوٹنے والوں تک یہ پیغام بھی پہنچ چکا ہے کہ تحریک انصاف کی صوبائی حکومت کسی قسم کے دباؤ (پریشر) میں آنے والی نہیں۔ میونسپل کارپوریشن پشاور کے نگران (ایڈمنسٹریٹر) سیّد ظفر علی شاہ کے بقول ’’وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا پرویز خٹک کی خصوصی ہدایت پر گھنٹہ گھر کے اردگرد سے دکانیں ہٹائی گئیں ہیں‘ تاکہ اِس تاریخی عمارت کو شایان شان طور پر نمایاں کیا جاسکے۔‘‘ یاد رہے کہ ملکۂ برطانیہ نے 85فٹ بلند اور ’43 ضرب 13فٹ رقبے پر کھڑی ’گھنٹہ گھر‘ کی عمارت 1900ء میں تعمیر کرائی تھی اُور اِسے برطانوی راج کے گورنر ’سرجارج کننگھم‘ کے نام سے منسوب کیا تھا۔ گھنٹہ گھر کی عمارت سیاحتی مقامات کی فہرست میں شامل ہے‘ جس کی اصل حالت میں بحالی کی کوششوں پر اہل علاقہ و پشاور ممنون و مشکور اور خوشگوار حیرت کا اظہار بھی کر رہے ہیں لیکن بجلی و ٹیلی فون کی لٹکتی ہوئی تاریں اور جابجا ملبے کے ڈھیر خاطرخواہ توجہ چاہتے ہیں۔

’’نئے پشاور‘‘ کی بنیاد رکھتے ہوئے میونسپل حکام نے پشاور کے مختلف حصوں میں تجاوزات کا نام و نشان مٹا دیا ہے۔ مجموعی طور پر 80فیصد کام مکمل بھی کر لیا گیا ہے جس کا نتیجہ عیاں ہے کہ پشاور کے بازار نہ تو کبھی اس قدر کشادہ اور نہ ہی تجاوزات کی پشت پناہی کرنے والے معروف کردار اِس قدر پسپائی اختیار کرنے پر مجبور ہوئے تھے۔ میونسپل کارپوریشن کی جانب سے پشاور کے 400 سے زائد دکانداروں کو تجاوزات ازخود ہٹانے کے لئے ’نوٹسیز‘ جاری کرتے ہوئے 20 فروری کی حتمی تاریخ دی گئی تھی‘ جس کے بعد سے شہر کے مختلف بازاروں میں مرحلہ وار آپریشن کیا گیا اور انتظامیہ کی سنجیدگی کا اندازہ اِس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ پشاور کے ڈپٹی کمشنر ریاض محسود نے آپریشن میں حصہ لینے والے متعلقہ ملازمین بشمول اسسٹنٹ کمشنر ممتاز احمد کی ہفتہ وار تعطیلات تاحکم ثانی معطل کر دیں لیکن سوال یہ ہے کہ ’تجاوزات کے خلاف پرعزم جدوجہد کی تکمیل کے بعد کیا ہوگا؟ اُور وہ سجے سنورے بازار جنہیں کھنڈرات میں بدل دیا گیا ہے‘ اُن کی قسمت کے بارے میں کیا کچھ سوچا جا رہا ہے؟ میونسپل حکام کے مطابق جہاں تک گھنٹہ گھر کے اردگرد سے تجاوزات ہٹانے کا عمل تھا‘ تو وہ مکمل کر لیا گیا ہے اور مرحلہ یہ درپیش ہے کہ تجاوزات کے دوبارہ قائم ہونے کی راہ روکی جائے۔ انتظامیہ اِس بات کے امکان کو بھی خارج نہیں کرتی کہ جس طرح ماضی میں میونسپل کارکنوں کی ملی بھگت سے تجاوزات قائم ہوئیں‘ وہی عمل پھر سے دہرایا جائے اور اِس امکان کو ختم کرنے کے لئے تجرباتی طورپر مرکزی بازاروں کی ’کلوز سرکٹ ٹیلی ویژن کیمروں‘ سے نگرانی کرنے کا فیصلہ بھی کیا گیا ہے۔ مرکزی بازاروں میں ’سی سی ٹی وی کیمرے‘ نصب کئے جائیں گے تاکہ میونسپل کارپوریشن یا ضلعی انتظامیہ کے اہلکار اگر بھتہ خوری یا تجاوزات کے قیام کی کہیں پشت پناہی کریں تو بروقت کارروائی کی جاسکے۔

 گھنٹہ گھر کی عمارت کو شایان شان طورپر بحال کرنے کے لئے نہ صرف خیبرپختونخوا کے محکمۂ آثار قدیمہ سے مشاورت کی گئی ہے بلکہ لاہور اور کراچی سے بھی ماہرین کو طلب کیا گیا ہے‘ جو اِس مقام کے اردگرد کچھ ایسا تعمیر کرنے کا مشورہ دیں گے جو نہ صرف گھنٹہ گھر کے مینار جیسی عمارت کے ساتھ مطابقت رکھتا ہو بلکہ وہاں تجاوزات بھی قائم نہ ہوسکیں۔ اِس سلسلے میں آنے والی تجاویز میں اِس بات پر بھی غور ہونا چاہئے کہ گھنٹہ گھر مغلیہ طرز تعمیر کا نمونہ نہیں کہ اِس کے اردگرد باغیچہ یا فوارہ بنا دیاجائے چونکہ اس کی تعمیر برطانوی راج کے دوران ہوئی تھی جن کا عمومی رویہ یہی ہوتا ہے کہ وہ ایک نہایت سادگی سے بلند پلیٹ فارم کے درمیان میں پروقار عمارت ایستادہ کردیتے ہیں۔

گھنٹہ گھر کے اردگرد بھی اگر سیڑھیوں کے ساتھ ایک ’پلیٹ فارم‘ تعمیر کیا جائے تو اِس سے نہ صرف ایک سو چودہ سال پرانے مینار کو مضبوطی ملے گی بلکہ اِس کے اردگرد توسیع سے دیکھنے والے کو وسعت کا احساس بھی ہوگا۔ گھنٹہ گھر کی عمارت پر پلستر اور روغن کی تہہ سے اِس کی اینٹیں (خشت) پر مبنی خوبصورتی چھپ گئی ہے۔ جاری غوروخوض کے عمل میں اِس کی ’اصل شکل و صورت‘ میں بحالی پر توجہ ضروری ہے۔ اگرچہ ہشتنگری (شہری حدود) سے نوتھیہ (صدر) تک تجاوزات ہٹائی جا رہی ہیں لیکن ترقیاتی کاموں کے لئے حکمت عملیاں (پی سی ون) مرتب کرنے کے مراحل ابھی باقی ہیں۔ 
تجویز ہے کہ ’پوسٹ آپریشن‘ سیمینار کا انعقاد کرکے پشاور سے تعلق رکھنے والے سیاسی‘ سماجی حلقوں بالخصوص مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے ماہرین سے رائے طلب کی جائے۔ ایک مشاورتی عمل ہو‘ جس میں ہر کوئی اپنے نکتۂ نظر سے پشاور کو خوبصورت کو مثالی بنانے کے لئے تجاویز دے اور انہی کی روشنی میں نئی ترقیاتی حکمت عملی مرتب ہونی چاہئے۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو کروڑوں روپے کی لاگت سے تعمیر ہونے والے پشاور کے اُن دروازوں کو طرح بعدازاں نئی تعمیرات و سہولیات بھی مسمار کرنے جیسی تجاویز پر غور ہونے لگے گا۔ ترقی پائیدار‘ حسب ضرورت اور آثار قدیمہ کے شایان شان ہونی چاہئے۔ ماضی میں چوک یادگار کا ڈیزائن تبدیل کرنے پیدا ہونے والی پیچیدگیوں کے سبب اندرون شہر ٹریفک کا نظام تاحال تہس نہس ہے۔ اگر گورگٹھڑی کے اطراف میں پارکنگ جبکہ گھنٹہ گھر‘ بازار کلاں‘ محلہ سیٹھیان تا گورگٹھڑی تک ٹریفک کو ’یک طرفہ (ون وے)‘ رکھا جائے تو اِس سے اندرون شہر کے بازاروں پر دباؤ (رش) بڑی حد تک کم ہو جائے گا۔
 میونسپل حکام ’ٹرک اڈے‘ کی جگہ پر کثیرالمنزلہ عمارت‘ اڈے کے سامنے پچیس کنال اراضی پر عمارت‘ قذافی ہوٹل (چوک یادگار) اور اس سے ملحقہ عمارت پر کثیرالمنزلہ عمارت بنانے کا ارادہ رکھتے ہیں‘ جس میں 2 منزلہ (سات سے آٹھ سو گاڑیوں) کو پارک (کھڑا) کرنے کی سہولت کا بندوبست ہوگا۔ قصہ خوانی بازار کو یک طرفہ ٹریفک کے لئے مقرر کر کے صرف آدھی سڑک کو باقی رکھا جائے گا‘ جبکہ سڑک کا ایک حصہ پیدل آمدروفت کے لئے دستیاب ہوگا۔ نئے پشاور کی تخلیق خوش آئند لیکن قبرستانوں کی اراضی پر تعمیرات‘ نقشہ جات کے مطابق تعمیر نہ ہونے والی کثیرالمنزلہ عمارتیں‘ بجلی و ٹیلی فون کے کھمبے اور ٹیوب ویل کی عمارتیں بھی تجاوزات ہی زمرے میں آتی ہیں‘ جن کی اصلاح سے جامع نتائج کا حصول ممکن ہے جبکہ ’پوسٹ آپریشن مشاورت‘ کے ذریعے ’مثالی پشاور کی تخلیق‘ کا ہدف حاصل کیا جاسکتا ہے اگر ترقی کے پائیدار پہلو ہی مطلوب ہیں تو ان کی نشاندہی کے لئے ’اجتماعی دانش‘ سے استفادہ کرنے میں مضائقہ نہیں۔
Anti Enchrochment drive in full swing and proven fruitful in Peshawar

No comments:

Post a Comment