An unwarranted agreement
ناقابل ضمانت معاہدہ
ناقابل ضمانت معاہدہ
شمالی وزیرستان سے نقل مکانی کرنے والوں کی واپسی کے عمل کا آغاز ہوچکا ہے
اور اس سلسلے میں ’اسپین وام‘ کے علاقے سے تعلق رکھنے والے خاندان 31 مارچ
کے روز واپس گئے ہیں جبکہ باقی ماندہ خاندان بھی آج کل میں واپسی کے لئے
تیار ہیں۔ نقل مکانی کرنے والوں کی یہ واپسی مرحلہ وار تشکیل دی گئی ہے
تاکہ سیکورٹی خدشات اور اِن کی مالی اِمداد کا کام ’بہ طریق احسن‘ سرانجام
دیا جا سکے۔
نقل مکانی کرنے والے خاندانوں کی واپسی کا مرحلہ شروع ہونے پر یہ خاندان بہت خوش تھے لیکن ابھی اُنہیں راحت محسوس بھی نہیں ہوئی تھی کہ حکومت کی جانب سے ایک نیا تصور پیش کر دیا گیا جو ایک تحریری معاہدہ ہے اور اِس کی رو سے ہر نقل مکانی کرنے والے قبائلی خاندان کو ایک ’سماجی معاہدہ‘ دستخط کرنا ہے کہ وہ مستقبل میں اچھے کردار (قول و فعل) کا مظاہرہ کرے گا۔ اس معاہدے پر دستخط کرنے والے اِس بات کہ پابند ہوں گے کہ وہ مستقبل میں اپنے قول و فعل کی کسی ممکنہ خلاف ورزی کے حوالے سے پکڑے جا سکیں۔ معاہدے کے تحت‘ شمالی وزیرستان کے رہنے والے پاکستان کے آئین اور فرنٹیئر کرائمز ریگولیشنز (ایف سی آرز) کے پابند رہیں گے اور ایسے لوگوں کو پناہ نہیں دیں گے جو پاکستان کے دشمن ہیں اور وہ نہ ہی اپنی سرزمین پاکستان کے دشمنوں بشمول ملکیوں اور غیرملکیوں کو استعمال کرنے دیں جو دہشت گرد کاروائیوں اُور عسکریت پسندی سے پاکستان کو عدم استحکام کا شکار بنانا چاہتے ہیں۔ اگر کوئی قبائلی اِس معاہدے کی خلاف ورزی کرتا ہے تو اُسے اِس جرم کی پاداش میں گرفتار کیا جاسکے گا۔ سزا و جرمانہ کیا جاسکے گا۔ یہ ایک قسم کا معاہدہ ہے جس میں قبائلی علاقوں کے رہنے والوں کو اپنے گردوپیش کے بارے میں محافظ بن کر زندگی بسر کرنا ہوگی کیونکہ معاہدے کی رو سے چاہے کوئی بھی ملکی یا غیرملکی اُن کے علاقوں میں پناہ لیتا ہے‘ اُن کے علاقوں کو استعمال کرتا ہے یا اگر کوئی کالعدم قرار دی جانے والی تنظیم اُن کے علاقوں میں اپنا مرکز بنا کر کاروائیاں کرتی ہے تو اِس کے لئے متعلقہ قبائلی لوگوں کو گرفتار کیا جائے گا۔ ایف سی آر قواعد کے تحت ایسا پہلے بھی ممکن تھا اور قبائلی علاقوں کے رہنے والوں کو اُن کی سماجی ذمہ داریوں کے تحت ایسے جرائم کے لئے بھی ذمہ دار ٹھہرایا جاسکتا ہے‘ جس میں وہ براہ راست شریک نہیں۔ اِس معاہدے میں یہ شرط بھی درج ہے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو مطلوب عناصر کی شناخت اور اُن کی گرفتاری میں معاونت کرنا بھی قبائلی علاقوں کے رہنے والوں کی ذمہ داری ہوگی اور اگر وہ اس سلسلے میں قانون نافذ کرنے والے اداروں سے تعاون نہیں کریں گے تو اُن کے خلاف قانونی چارہ جوئی کرتے ہوئے جائیداد ضبط کر لی جائے گی۔
قبائلی علاقوں سے نقل مکانی کرنے والوں کی واپسی کے مرحلے پر اِس قسم کا معاہدہ تشکیل دینا کہ جس میں قبائلیوں سے مشاورت نہیں کی گئی اور نہ ہی اُن کی کمزور سماجی حیثیت اور مضبوط و توانا خطرات کو دھیان میں رکھا گیا ہے۔ یہ ایک ایسا حربہ ہے‘ جس سے قبائلی عوام تحفظ کے احساس کی بجائے خود کو زیادہ خطرات میں گھرا ہوا دیکھ رہے ہیں۔ حقیقت یہی ہے کہ قبائلی علاقوں کے رہنے والوں کی اکثریت نہ تو وہاں کے حالات کے لئے ذمہ دار ہے اور نہ ہی اِس قسم کی طاقت رکھتی ہے کہ اَگر عسکریت پسند کسی علاقے کو اِستعمال کرنا چاہیں‘ تو وہ اِس کے خلاف آواز اُٹھائیں۔ حکومت کو مطلع کریں یا اُن کے خلاف خود مزاحمت کرکے اپنے علاقے واگزار کرائیں۔ یہ ایک مشکل صورتحال ہے‘ جس میں قبائلیوں کا دو اطراف سے گھیراؤ ہو گیا ہے۔ جس مرحلے پر قبائلی اپنے آبائی علاقوں کو واپس جا رہے تھے اُس وقت حکومت کو چاہئے تھا کہ اُن سے زیادہ ہمدردی کرتی‘ اُنہیں زیادہ سہولیات اور ذہنی سکون دیتی لیکن اس کی بجائے ایک معاہدے کی صورت اُنہیں مزید تفکرات میں مبتلا کر دیا گیا ہے جو کسی بھی صورت منطقی نہیں۔ قبائلی پہلے ہی زخم خوردہ ہیں۔ اُن کے دل پہلے ہی افسردہ و غم زدہ ہیں۔ وہ عسکریت پسند نہیں اور نہ ہی اِس بات کے لئے ذمہ دار ہیں کہ جو کچھ بھی آج شمالی وزیرستان میں ہو رہا ہے۔ انہیں ایسے کسی جرم کے لئے قصور وار نہیں قرار دینا چاہئے جو اُنہوں نے سرزد کیا ہی نہیں۔ ضرورت تو اِس امر کی تھی کہ اُنہیں ذہنی صدمے اور سخت حالات کی وجہ سے پریشانیوں سے راحت دلانے کے لئے اقدامات کئے جاتے۔
قبائلی کے لئے نئے معاہدے کی صورت انتظامیہ نے آنے والے دنوں میں پیسہ بنانے کا ایک نیا راستہ تشکیل دیا ہے۔ وہ ذمہ داری جو حکومت کی تھی‘ اُسے قبائلیوں کے کندھوں پر ڈال دی گئی ہے!
برطانوی راج کے دوران افغانستان سے جڑے قبائلی علاقوں کے ریاست مخالف استعمال نہ ہونے کے امکان کے تحت ’ایف سی آر‘ قواعد میں ’اجتماعی ذمہ داری‘ کے عنوان سے چند اقدامات رکھے گئے تھے جیسا کہ اگر کسی کا علاقہ حکومت مخالف سرگرمیوں میں استعمال ہوا تو وہاں کے رہنے والے جملہ قبائل کو اِس کے لئے ذمہ دار سمجھا جائے گا اور اُن سب کے خلاف کاروائی کی جائے گی۔ جب پاکستان بنا تو ضرورت اِس امر کی تھی کہ ’ایف سی آر‘ کی بجائے پاکستان کا قانون قبائلی علاقوں پر لاگو کیا جاتا اور قبائل کی اجتماعی سماجی ذمہ داری کی بجائے قانون نافذ کرنا حکومت پاکستان اور انتظامیہ کی ذمہ داری ٹھہرائی جاتی لیکن ’ایف سی آر‘ کو جوں کا توں برقرار رکھا گیا‘ جو مسائل کی جڑہے۔ جب پہلے ہی ایف سی آر جیسے ظالمانہ قواعد موجود ہیں تو کسی نئے معاہدے کی ضرورت ہی کیا ہے۔ یوں محسوس ہو رہا ہے کہ جیسے شمالی وزیرستان کے قبائلیوں کو اِس معاہدے کے تحت یہ باور کرانے کی کوشش کی گئی ہے کہ وہ پہلے زیادہ غلام اور پہلے سے زیادہ محکوم رہ کر زندگی بسر کریں گے اور اُن کی آزادی درحقیقت ایک غلامی ہی کی شکل ہے۔ سوال یہ ہے کہ عسکریت پسندوں کو تخلیق کرنے والا کون تھا اور وہ کون تھا جس نے اُنہیں قبائلی علاقوں میں منظم ہونے دیا؟
ضرورت اِس امر کی ہے کہ قبائلی علاقوں سے نقل مکانی کرنے والوں کی ہرممکن امداد کی جائے۔ اُنہیں اپنی معیشت و معاشرت بحال کرنے کی سرگرمیوں میں ترجیحی بنیادوں پر معاونت کی جائے۔ اُن کے تحفظات کو سنا جائے لیکن اگر اس قسم کے معاہدوں پر اُن سے دستخط لئے جائیں گے تو اِس سے اُن کے دل مزید غمزدہ و رنجیدہ ہوں گے۔
(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ایاز وزیر۔ تلخیص و ترجمہ:شبیر حسین اِمام)
نقل مکانی کرنے والے خاندانوں کی واپسی کا مرحلہ شروع ہونے پر یہ خاندان بہت خوش تھے لیکن ابھی اُنہیں راحت محسوس بھی نہیں ہوئی تھی کہ حکومت کی جانب سے ایک نیا تصور پیش کر دیا گیا جو ایک تحریری معاہدہ ہے اور اِس کی رو سے ہر نقل مکانی کرنے والے قبائلی خاندان کو ایک ’سماجی معاہدہ‘ دستخط کرنا ہے کہ وہ مستقبل میں اچھے کردار (قول و فعل) کا مظاہرہ کرے گا۔ اس معاہدے پر دستخط کرنے والے اِس بات کہ پابند ہوں گے کہ وہ مستقبل میں اپنے قول و فعل کی کسی ممکنہ خلاف ورزی کے حوالے سے پکڑے جا سکیں۔ معاہدے کے تحت‘ شمالی وزیرستان کے رہنے والے پاکستان کے آئین اور فرنٹیئر کرائمز ریگولیشنز (ایف سی آرز) کے پابند رہیں گے اور ایسے لوگوں کو پناہ نہیں دیں گے جو پاکستان کے دشمن ہیں اور وہ نہ ہی اپنی سرزمین پاکستان کے دشمنوں بشمول ملکیوں اور غیرملکیوں کو استعمال کرنے دیں جو دہشت گرد کاروائیوں اُور عسکریت پسندی سے پاکستان کو عدم استحکام کا شکار بنانا چاہتے ہیں۔ اگر کوئی قبائلی اِس معاہدے کی خلاف ورزی کرتا ہے تو اُسے اِس جرم کی پاداش میں گرفتار کیا جاسکے گا۔ سزا و جرمانہ کیا جاسکے گا۔ یہ ایک قسم کا معاہدہ ہے جس میں قبائلی علاقوں کے رہنے والوں کو اپنے گردوپیش کے بارے میں محافظ بن کر زندگی بسر کرنا ہوگی کیونکہ معاہدے کی رو سے چاہے کوئی بھی ملکی یا غیرملکی اُن کے علاقوں میں پناہ لیتا ہے‘ اُن کے علاقوں کو استعمال کرتا ہے یا اگر کوئی کالعدم قرار دی جانے والی تنظیم اُن کے علاقوں میں اپنا مرکز بنا کر کاروائیاں کرتی ہے تو اِس کے لئے متعلقہ قبائلی لوگوں کو گرفتار کیا جائے گا۔ ایف سی آر قواعد کے تحت ایسا پہلے بھی ممکن تھا اور قبائلی علاقوں کے رہنے والوں کو اُن کی سماجی ذمہ داریوں کے تحت ایسے جرائم کے لئے بھی ذمہ دار ٹھہرایا جاسکتا ہے‘ جس میں وہ براہ راست شریک نہیں۔ اِس معاہدے میں یہ شرط بھی درج ہے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو مطلوب عناصر کی شناخت اور اُن کی گرفتاری میں معاونت کرنا بھی قبائلی علاقوں کے رہنے والوں کی ذمہ داری ہوگی اور اگر وہ اس سلسلے میں قانون نافذ کرنے والے اداروں سے تعاون نہیں کریں گے تو اُن کے خلاف قانونی چارہ جوئی کرتے ہوئے جائیداد ضبط کر لی جائے گی۔
قبائلی علاقوں سے نقل مکانی کرنے والوں کی واپسی کے مرحلے پر اِس قسم کا معاہدہ تشکیل دینا کہ جس میں قبائلیوں سے مشاورت نہیں کی گئی اور نہ ہی اُن کی کمزور سماجی حیثیت اور مضبوط و توانا خطرات کو دھیان میں رکھا گیا ہے۔ یہ ایک ایسا حربہ ہے‘ جس سے قبائلی عوام تحفظ کے احساس کی بجائے خود کو زیادہ خطرات میں گھرا ہوا دیکھ رہے ہیں۔ حقیقت یہی ہے کہ قبائلی علاقوں کے رہنے والوں کی اکثریت نہ تو وہاں کے حالات کے لئے ذمہ دار ہے اور نہ ہی اِس قسم کی طاقت رکھتی ہے کہ اَگر عسکریت پسند کسی علاقے کو اِستعمال کرنا چاہیں‘ تو وہ اِس کے خلاف آواز اُٹھائیں۔ حکومت کو مطلع کریں یا اُن کے خلاف خود مزاحمت کرکے اپنے علاقے واگزار کرائیں۔ یہ ایک مشکل صورتحال ہے‘ جس میں قبائلیوں کا دو اطراف سے گھیراؤ ہو گیا ہے۔ جس مرحلے پر قبائلی اپنے آبائی علاقوں کو واپس جا رہے تھے اُس وقت حکومت کو چاہئے تھا کہ اُن سے زیادہ ہمدردی کرتی‘ اُنہیں زیادہ سہولیات اور ذہنی سکون دیتی لیکن اس کی بجائے ایک معاہدے کی صورت اُنہیں مزید تفکرات میں مبتلا کر دیا گیا ہے جو کسی بھی صورت منطقی نہیں۔ قبائلی پہلے ہی زخم خوردہ ہیں۔ اُن کے دل پہلے ہی افسردہ و غم زدہ ہیں۔ وہ عسکریت پسند نہیں اور نہ ہی اِس بات کے لئے ذمہ دار ہیں کہ جو کچھ بھی آج شمالی وزیرستان میں ہو رہا ہے۔ انہیں ایسے کسی جرم کے لئے قصور وار نہیں قرار دینا چاہئے جو اُنہوں نے سرزد کیا ہی نہیں۔ ضرورت تو اِس امر کی تھی کہ اُنہیں ذہنی صدمے اور سخت حالات کی وجہ سے پریشانیوں سے راحت دلانے کے لئے اقدامات کئے جاتے۔
قبائلی کے لئے نئے معاہدے کی صورت انتظامیہ نے آنے والے دنوں میں پیسہ بنانے کا ایک نیا راستہ تشکیل دیا ہے۔ وہ ذمہ داری جو حکومت کی تھی‘ اُسے قبائلیوں کے کندھوں پر ڈال دی گئی ہے!
برطانوی راج کے دوران افغانستان سے جڑے قبائلی علاقوں کے ریاست مخالف استعمال نہ ہونے کے امکان کے تحت ’ایف سی آر‘ قواعد میں ’اجتماعی ذمہ داری‘ کے عنوان سے چند اقدامات رکھے گئے تھے جیسا کہ اگر کسی کا علاقہ حکومت مخالف سرگرمیوں میں استعمال ہوا تو وہاں کے رہنے والے جملہ قبائل کو اِس کے لئے ذمہ دار سمجھا جائے گا اور اُن سب کے خلاف کاروائی کی جائے گی۔ جب پاکستان بنا تو ضرورت اِس امر کی تھی کہ ’ایف سی آر‘ کی بجائے پاکستان کا قانون قبائلی علاقوں پر لاگو کیا جاتا اور قبائل کی اجتماعی سماجی ذمہ داری کی بجائے قانون نافذ کرنا حکومت پاکستان اور انتظامیہ کی ذمہ داری ٹھہرائی جاتی لیکن ’ایف سی آر‘ کو جوں کا توں برقرار رکھا گیا‘ جو مسائل کی جڑہے۔ جب پہلے ہی ایف سی آر جیسے ظالمانہ قواعد موجود ہیں تو کسی نئے معاہدے کی ضرورت ہی کیا ہے۔ یوں محسوس ہو رہا ہے کہ جیسے شمالی وزیرستان کے قبائلیوں کو اِس معاہدے کے تحت یہ باور کرانے کی کوشش کی گئی ہے کہ وہ پہلے زیادہ غلام اور پہلے سے زیادہ محکوم رہ کر زندگی بسر کریں گے اور اُن کی آزادی درحقیقت ایک غلامی ہی کی شکل ہے۔ سوال یہ ہے کہ عسکریت پسندوں کو تخلیق کرنے والا کون تھا اور وہ کون تھا جس نے اُنہیں قبائلی علاقوں میں منظم ہونے دیا؟
ضرورت اِس امر کی ہے کہ قبائلی علاقوں سے نقل مکانی کرنے والوں کی ہرممکن امداد کی جائے۔ اُنہیں اپنی معیشت و معاشرت بحال کرنے کی سرگرمیوں میں ترجیحی بنیادوں پر معاونت کی جائے۔ اُن کے تحفظات کو سنا جائے لیکن اگر اس قسم کے معاہدوں پر اُن سے دستخط لئے جائیں گے تو اِس سے اُن کے دل مزید غمزدہ و رنجیدہ ہوں گے۔
(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ایاز وزیر۔ تلخیص و ترجمہ:شبیر حسین اِمام)
No comments:
Post a Comment