ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
تبدیلی کی لہر!
تبدیلی کی لہر!
خیبرپختونخوا کے طول و عرض میں حسب توقع اور تیزرفتار آئی تبدیلی محسوس ہو
یا نہ ہو لیکن صوبائی دارالحکومت پشاور کی سطح پر ’طرز حکمرانی‘ میں ایک
واضح ردوبدل ضرور دیکھنے میں آ رہا ہے‘ جسے بجاطور پر ’بیداری کی لہر‘ سے
تعبیر کرنا چاہئے کیونکہ قبل ازیں ایسی کوئی مثالیں نہیں ملتیں‘ جس میں
حکمراں طبقات بشمول اعلیٰ عہدوں پر فائز سرکاری ملازمین (افسرشاہی) نے خود
کو عام آدمی کے سامنے خود کو یوں دادرسی اور جوابدہی کے لئے پیش کیا ہو۔
پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے خیبرپختونخوا میں بہتری لانے کے لئے کئے
گئے اقدامات کے بارے میں ’ایک سے بڑھ کر ایک‘ مثال پیش کی جاسکتی ہے۔
تجاوزات کے خلاف جاری مہم سے لیکر اَشیائے خوردونوش کے مقررہ اُوزان اور
نرخنامے کے مطابق اشیائے خوردونوش کی فروخت ممکن بنانے کے لئے ضلعی
انتظامیہ کبھی بھی اتنی سنجیدہ و فعال دکھائی نہیں دی لیکن ’اصلاحات کا یہی
فل سٹاپ‘ نہیں۔
پشاور کی ضلعی انتظامیہ نے ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے ’عوامی شکایات سے آگہی کے لئے موبائل فون کے استعمال کا فیصلہ کیا ہے‘ اور اِس سلسلے میں ہر خاص و عام مختصر پیغامات (ایس ایم ایس) کے ذریعے کسی بھی بے قاعدگی بالخصوص تجاوزات کے دوبارہ قائم ہونے یا سرکاری وسائل کی لوٹ مار سے متعلق اعلیٰ سطحی ضلعی انتظامیہ کو آگاہ کرنے کا طریقۂ کار وضع کیا ہے‘ جو چوبیس گھنٹے‘ سال کے تین سو پینسٹھ دن فعال رہے گا۔ اِس سلسلے میں ڈپٹی کمشنر پشاور ’ریاض محسود‘ نے اپنے نائب (ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر) اُسامہ اَحمد وڑائچ کو فوکل پرسن مقرر کرتے ہوئے ’ایس ایم ایس 8333 سروس‘ کا نگران بنا دیا ہے۔ اِس نئی سہولت کے تحت کوئی بھی موبائل صارف ایک سو ساٹھ الفاظ پر مشتمل اُردو‘ انگلش‘ پشتو یا رومن اُردو میں ’ایس ایم ایس پیغام‘ لکھ کر نمبر ’8333‘ پر بھیج سکتا ہے{‘ جو ایک خودکار نظام کے تحت ’نگران شکایات‘ کے موبائل فون پر ارسال کر دیا جائے گا۔ یہاں تک تو سب کچھ خودکار ہے اُور کمپیوٹر سافٹ وئر کے کام بس یہی تھا کہ وہ عوام اور انتظامیہ کے درمیان سہولت کاری کا کردار ادا کرے۔ اگلے مرحلے میں عمل (ایکشن) ضلعی انتظامیہ کی ذمہ داری ہے جس کے لئے پرعزم و پرجوش اُسامہ اَحمد وڑائچ کہتے ہیں کہ ’’صوبائی حکومت کی جانب سے ضلعی انتظامیہ پر کسی قسم کا دباؤ نہ ہونے کی وجہ سے پشاور کے مسائل حل کرنا مشکل نہیں رہا‘ لیکن یہ صرف اُور صرف عوام کے تعاون سے ممکن ہے۔ ہم میں سے ہر ایک کو ’اپنی اپنی ذمہ داریوں کا احساس‘ کرنا ہوگا۔ انتظامیہ کا دست و بازو بن کر اُن عناصر کے خلاف اُٹھ کھڑا ہونا ہوگا جو ہمیں ملاوٹ شدہ غیرمعیاری اشیاء فروخت کررہے ہیں۔ جو نرخناموں کا احترام نہیں کرتے اور مصنوعی طور پر مہنگائی کا ماحول بنائے ہوئے ہیں۔‘‘ اہل پشاور ضلعی انتظامیہ کو کسی بھی قسم کی ’بے قاعدگی‘ سے آگاہ کرسکتے ہیں اور شکایت درج کرانے والے کی شناخت (موبائل نمبر) صیغہ راز میں رکھا جائے گا۔ یاد رہے کہ اِسی قسم کے نظام کا استعمال پہلے ہی ’ٹریفک پولیس‘ پشاور کی مختلف شاہراؤں پر ٹریفک کی صورتحال سے متعلق معلومات نشر کرنے کے لئے کر رہی ہے جبکہ صوبائی محکمۂ اطلاعات (ڈائریکٹوریٹ آف انفارمیشن) بھی یہ ٹیکنالوجی حاصل کرچکا ہے۔ اگر آپ پشاور کی مختلف شاہراؤں پر ٹریفک کی صورتحال کے بارے میں جاننا چاہیءں تو PT لکھ کر 8333 پر ’ایس ایم ایس‘ ارسال کردیں‘ اِس پر پچاس پیسے خرچ ہوں گے اور فوری طور پر جواب میں آپ کو ٹریفک پولیس کا ایک ’ایس ایم ایس‘ وصول ہوجائے گا‘ جس میں مختلف شاہراؤں پر ٹریفک کی صورتحال بیان کی گئی ہوگی۔ یوں کسی بھی مقام تک کم وقت میں پہنچنا ممکن ہوسکتا ہے کیونکہ آپ زیادہ ٹریفک کا دباؤ رکھنے والی شاہراؤں کی بجائے نسبتاً کم ٹریفک والے راستوں کا انتخاب کر لیں گے۔ پشاور پولیس بھی اِسی طرز کے ایک نظام کو اختیار کرنے کے لئے تکنیکی مشاورت جاری رکھے ہوئے ہے اور عنقریب پشاور کے کسی بھی پولیس اسٹیشن کے نگران یا محرر یا پولیس کنٹرول سے فوری رابطہ کرنا ممکن ہوگا۔
پشاور سمیت خیبرپختونخوا کے پچیس اضلاع میں اشیائے خوردونوش کی قیمتیں مقرر کرنے کا اختیار ’ضلعی انتظامیہ‘ کے پاس ہوتا ہے۔ تجویز ہے ’ایس ایم ایس‘ کے ذریعے شکایات درج کرانے اور ضلعی انتظامیہ کی جانب سے وقتاً فوقتاً جاری ہونے والے ’اَپ ڈیٹس (اطلاعات)‘ بلاقیمت (مفت) موصول کرنے کے نظام کو دیگر اضلاع تک بھی وسعت دی جائے اور تجویز یہ بھی ہے کہ اشیائے خوردونوش اُور اجناس کے مقرر کردہ نرخنامے بھی اِسی سروس کے ذریعے فراہم کئے جائیں۔ مثال کے طور پر اگر کسی صارف کو سیب کی فی کلوگرام کی قیمت دریافت کرنی ہے تو وہ DCPApple لکھ کر 8333 پر ارسال کرے‘ جس سے نہ صرف اُس ایک دن یا آئندہ چوبیس یا اڑتالیس گھنٹے کے لئے مقرر کردہ نرخنامہ اُس کے موبائل فون پر آ جائے گا بلکہ اگر کوئی دکاندار سیب مقرر کردہ نرخنامے سے زیادہ قیمت پر فروخت کر رہا ہے تو اُس کے بارے شکایت درج کرانے کا طریقۂ کار بھی بتا دیا جائے گا۔ یہ سب کچھ ایک خودکار نظام کے تحت ممکن ہے۔ چونکہ مختلف سرکاری محکمے یکے بعددیگرے ’ایس ایم ایس‘ کے ذریعے خود کو ’حاضر جناب‘ کر رہے ہیں‘ اِس لئے اگر ایک اینڈرائرڈ (Andriod)‘ آئی فون(i-OS)‘ بلیک بیری (Blackberry) اُور ونڈوز (Windows) فون کی اپلیکیشن (app) تخلیق کرکے مختلف سرکاری محکموں سے رابطہ کاری کو آسان بنا دیا جائے تو کم خواندہ‘ اِسمارٹ فونز اِستعمال کرنے والے ناتجربہ کار بالخصوص بزرگ شہری اُور نابینا افراد بھی اِس سے یکساں مستفید ہو سکیں گے بلکہ ایسے ناخواندہ افراد کہ جنہیں پڑھنا نہیں آتا‘ سافٹ وئر کے آپشن سن کر بھی اپنی شکایت ارسال کرسکتے ہیں۔ ایس ایم ایس کے علاؤہ یہ شکایت بذریعہ ای میل کسی ویب سائٹ کا حصہ بھی بن جانی چاہئے تاکہ اگر مختلف محکموں کے مقررہ فوکل پرسن کان نہ دھریں تو کوئی اُن کے کان کھینچنے والا بھی ہو۔
یقیناًیہ دور ذہانت اور ٹیکنالوجی کے استعمال کا ہے‘ افرادی قوت میں اضافہ کرکے طرزحکمرانی بہتر بنانے کی بجائے ٹیکنالوجی پر انحصار کیا جائے تو نہ صرف دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوسکتا ہے بلکہ وقت کے ساتھ دودھ اور پانی خودبخود الگ ہوتے چلے جائیں گے۔ یہ المیہ نہیں تو اُور کیا ہے کہ ہمارے ہاں دودھ کو پتلا اور گوشت کو وزنی بنانے کے لئے پانی کا استعمال کیا جاتا ہے‘ چائے کی پتی‘ مصالحہ جات‘ بچوں کے لئے ٹافیوں وغیرہ میں مضرصحت کیمیائی مادے اور ملاوٹ کرنے والے تاجروں‘ دکانداروں اور منافع خوروں پر اُن کے سیاسی تعلقات کی وجہ سے ہاتھ نہیں ڈالا جا سکتا۔ وہ زمانہ اَب نہیں رہا‘ جب نظام پر اعتماد نہ ہونے کی وجہ سے شکایت درج نہیں کرائی جاتی تھیں۔ اب محض پچاس پیسے کے ایک ’ایس ایم ایس‘ کے ذریعے آپ کسی بھی بے قاعدگی اور بالخصوص مقررہ نرخنامے سے زیادہ نرخ پر اشیاء فروخت کرنے والوں کے بارے میں ضلعی انتظامیہ کو بروقت اور فوری طور پر مطلع کر سکتے ہیں۔ اب کے بعد مہنگے داموں‘ ناقص المعیار ملاوٹ شدہ اشیاء فروخت کرنے والوں کی حرص وطمع پر توجہ نہ کرنا اُور خاموشی اختیار کرنا جرم تصور ہوگی کیونکہ پشاور کی ضلعی انتظامیہ نے آسان ترین شکایات درج کرانے کا طریقہ متعارف کرا دیا ہے‘ جس کی آزمائش بہرحال شرط ہے!
پشاور کی ضلعی انتظامیہ نے ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے ’عوامی شکایات سے آگہی کے لئے موبائل فون کے استعمال کا فیصلہ کیا ہے‘ اور اِس سلسلے میں ہر خاص و عام مختصر پیغامات (ایس ایم ایس) کے ذریعے کسی بھی بے قاعدگی بالخصوص تجاوزات کے دوبارہ قائم ہونے یا سرکاری وسائل کی لوٹ مار سے متعلق اعلیٰ سطحی ضلعی انتظامیہ کو آگاہ کرنے کا طریقۂ کار وضع کیا ہے‘ جو چوبیس گھنٹے‘ سال کے تین سو پینسٹھ دن فعال رہے گا۔ اِس سلسلے میں ڈپٹی کمشنر پشاور ’ریاض محسود‘ نے اپنے نائب (ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر) اُسامہ اَحمد وڑائچ کو فوکل پرسن مقرر کرتے ہوئے ’ایس ایم ایس 8333 سروس‘ کا نگران بنا دیا ہے۔ اِس نئی سہولت کے تحت کوئی بھی موبائل صارف ایک سو ساٹھ الفاظ پر مشتمل اُردو‘ انگلش‘ پشتو یا رومن اُردو میں ’ایس ایم ایس پیغام‘ لکھ کر نمبر ’8333‘ پر بھیج سکتا ہے{‘ جو ایک خودکار نظام کے تحت ’نگران شکایات‘ کے موبائل فون پر ارسال کر دیا جائے گا۔ یہاں تک تو سب کچھ خودکار ہے اُور کمپیوٹر سافٹ وئر کے کام بس یہی تھا کہ وہ عوام اور انتظامیہ کے درمیان سہولت کاری کا کردار ادا کرے۔ اگلے مرحلے میں عمل (ایکشن) ضلعی انتظامیہ کی ذمہ داری ہے جس کے لئے پرعزم و پرجوش اُسامہ اَحمد وڑائچ کہتے ہیں کہ ’’صوبائی حکومت کی جانب سے ضلعی انتظامیہ پر کسی قسم کا دباؤ نہ ہونے کی وجہ سے پشاور کے مسائل حل کرنا مشکل نہیں رہا‘ لیکن یہ صرف اُور صرف عوام کے تعاون سے ممکن ہے۔ ہم میں سے ہر ایک کو ’اپنی اپنی ذمہ داریوں کا احساس‘ کرنا ہوگا۔ انتظامیہ کا دست و بازو بن کر اُن عناصر کے خلاف اُٹھ کھڑا ہونا ہوگا جو ہمیں ملاوٹ شدہ غیرمعیاری اشیاء فروخت کررہے ہیں۔ جو نرخناموں کا احترام نہیں کرتے اور مصنوعی طور پر مہنگائی کا ماحول بنائے ہوئے ہیں۔‘‘ اہل پشاور ضلعی انتظامیہ کو کسی بھی قسم کی ’بے قاعدگی‘ سے آگاہ کرسکتے ہیں اور شکایت درج کرانے والے کی شناخت (موبائل نمبر) صیغہ راز میں رکھا جائے گا۔ یاد رہے کہ اِسی قسم کے نظام کا استعمال پہلے ہی ’ٹریفک پولیس‘ پشاور کی مختلف شاہراؤں پر ٹریفک کی صورتحال سے متعلق معلومات نشر کرنے کے لئے کر رہی ہے جبکہ صوبائی محکمۂ اطلاعات (ڈائریکٹوریٹ آف انفارمیشن) بھی یہ ٹیکنالوجی حاصل کرچکا ہے۔ اگر آپ پشاور کی مختلف شاہراؤں پر ٹریفک کی صورتحال کے بارے میں جاننا چاہیءں تو PT لکھ کر 8333 پر ’ایس ایم ایس‘ ارسال کردیں‘ اِس پر پچاس پیسے خرچ ہوں گے اور فوری طور پر جواب میں آپ کو ٹریفک پولیس کا ایک ’ایس ایم ایس‘ وصول ہوجائے گا‘ جس میں مختلف شاہراؤں پر ٹریفک کی صورتحال بیان کی گئی ہوگی۔ یوں کسی بھی مقام تک کم وقت میں پہنچنا ممکن ہوسکتا ہے کیونکہ آپ زیادہ ٹریفک کا دباؤ رکھنے والی شاہراؤں کی بجائے نسبتاً کم ٹریفک والے راستوں کا انتخاب کر لیں گے۔ پشاور پولیس بھی اِسی طرز کے ایک نظام کو اختیار کرنے کے لئے تکنیکی مشاورت جاری رکھے ہوئے ہے اور عنقریب پشاور کے کسی بھی پولیس اسٹیشن کے نگران یا محرر یا پولیس کنٹرول سے فوری رابطہ کرنا ممکن ہوگا۔
پشاور سمیت خیبرپختونخوا کے پچیس اضلاع میں اشیائے خوردونوش کی قیمتیں مقرر کرنے کا اختیار ’ضلعی انتظامیہ‘ کے پاس ہوتا ہے۔ تجویز ہے ’ایس ایم ایس‘ کے ذریعے شکایات درج کرانے اور ضلعی انتظامیہ کی جانب سے وقتاً فوقتاً جاری ہونے والے ’اَپ ڈیٹس (اطلاعات)‘ بلاقیمت (مفت) موصول کرنے کے نظام کو دیگر اضلاع تک بھی وسعت دی جائے اور تجویز یہ بھی ہے کہ اشیائے خوردونوش اُور اجناس کے مقرر کردہ نرخنامے بھی اِسی سروس کے ذریعے فراہم کئے جائیں۔ مثال کے طور پر اگر کسی صارف کو سیب کی فی کلوگرام کی قیمت دریافت کرنی ہے تو وہ DCPApple لکھ کر 8333 پر ارسال کرے‘ جس سے نہ صرف اُس ایک دن یا آئندہ چوبیس یا اڑتالیس گھنٹے کے لئے مقرر کردہ نرخنامہ اُس کے موبائل فون پر آ جائے گا بلکہ اگر کوئی دکاندار سیب مقرر کردہ نرخنامے سے زیادہ قیمت پر فروخت کر رہا ہے تو اُس کے بارے شکایت درج کرانے کا طریقۂ کار بھی بتا دیا جائے گا۔ یہ سب کچھ ایک خودکار نظام کے تحت ممکن ہے۔ چونکہ مختلف سرکاری محکمے یکے بعددیگرے ’ایس ایم ایس‘ کے ذریعے خود کو ’حاضر جناب‘ کر رہے ہیں‘ اِس لئے اگر ایک اینڈرائرڈ (Andriod)‘ آئی فون(i-OS)‘ بلیک بیری (Blackberry) اُور ونڈوز (Windows) فون کی اپلیکیشن (app) تخلیق کرکے مختلف سرکاری محکموں سے رابطہ کاری کو آسان بنا دیا جائے تو کم خواندہ‘ اِسمارٹ فونز اِستعمال کرنے والے ناتجربہ کار بالخصوص بزرگ شہری اُور نابینا افراد بھی اِس سے یکساں مستفید ہو سکیں گے بلکہ ایسے ناخواندہ افراد کہ جنہیں پڑھنا نہیں آتا‘ سافٹ وئر کے آپشن سن کر بھی اپنی شکایت ارسال کرسکتے ہیں۔ ایس ایم ایس کے علاؤہ یہ شکایت بذریعہ ای میل کسی ویب سائٹ کا حصہ بھی بن جانی چاہئے تاکہ اگر مختلف محکموں کے مقررہ فوکل پرسن کان نہ دھریں تو کوئی اُن کے کان کھینچنے والا بھی ہو۔
یقیناًیہ دور ذہانت اور ٹیکنالوجی کے استعمال کا ہے‘ افرادی قوت میں اضافہ کرکے طرزحکمرانی بہتر بنانے کی بجائے ٹیکنالوجی پر انحصار کیا جائے تو نہ صرف دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوسکتا ہے بلکہ وقت کے ساتھ دودھ اور پانی خودبخود الگ ہوتے چلے جائیں گے۔ یہ المیہ نہیں تو اُور کیا ہے کہ ہمارے ہاں دودھ کو پتلا اور گوشت کو وزنی بنانے کے لئے پانی کا استعمال کیا جاتا ہے‘ چائے کی پتی‘ مصالحہ جات‘ بچوں کے لئے ٹافیوں وغیرہ میں مضرصحت کیمیائی مادے اور ملاوٹ کرنے والے تاجروں‘ دکانداروں اور منافع خوروں پر اُن کے سیاسی تعلقات کی وجہ سے ہاتھ نہیں ڈالا جا سکتا۔ وہ زمانہ اَب نہیں رہا‘ جب نظام پر اعتماد نہ ہونے کی وجہ سے شکایت درج نہیں کرائی جاتی تھیں۔ اب محض پچاس پیسے کے ایک ’ایس ایم ایس‘ کے ذریعے آپ کسی بھی بے قاعدگی اور بالخصوص مقررہ نرخنامے سے زیادہ نرخ پر اشیاء فروخت کرنے والوں کے بارے میں ضلعی انتظامیہ کو بروقت اور فوری طور پر مطلع کر سکتے ہیں۔ اب کے بعد مہنگے داموں‘ ناقص المعیار ملاوٹ شدہ اشیاء فروخت کرنے والوں کی حرص وطمع پر توجہ نہ کرنا اُور خاموشی اختیار کرنا جرم تصور ہوگی کیونکہ پشاور کی ضلعی انتظامیہ نے آسان ترین شکایات درج کرانے کا طریقہ متعارف کرا دیا ہے‘ جس کی آزمائش بہرحال شرط ہے!
No comments:
Post a Comment