ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
اِنتخابات: کار جہاں!
اِنتخابات: کار جہاں!
برطانوی راج کے دوران حفاظتی نکتۂ نظر سے شہری و دیہی علاقوں سے قدرے فاصلے
پر نئی فوجی چھاؤنیاں (بستیاں) آباد کیں گئیں جنہیں باقاعدہ منصوبہ بندی
سے ترتیب دیا گیا۔ بعدازاں قیام پاکستان کے بعد نہ صرف اِن چھاؤنیوں کو
برقرار رکھا گیا بلکہ اِن کی تعداد میں بھی اضافہ کیا گیا اور فی الوقت
پاکستان میں بیالیس (خیبرپختونخوا میں گیارہ) چھاؤنیاں ہیں‘ جن پر یوں تو
صرف اور صرف فوج ہی کا حکم چلتا ہے لیکن سے چونکہ یہ چھاؤنیاں بڑھتی ہوئی
آبادی کی وجہ سے دیگر علاقوں سے ’گھل مل‘ گئیں ہیں اِس لئے انہیں رقبے و
آبادی کے تناسب سے وارڈز میں تقسیم کرکے متعلقہ فیصلہ سازی کے عمل میں عوام
کے منتخب کردہ نمائندوں کو بھی شریک کیا جاتا ہے اگرچہ اِن انتخابات کا
اِنعقاد ایک طویل انتظار یعنی 17برس بعد پچیس اپریل کے روز ہوا لیکن 199
وارڈوں (نشستوں) کے لئے ایک ہزار ایک سو اکیاون اُمیدواروں اور دس ہزار سے
زائد انتخابی عملے کی تعیناتی سے زیادہ اگر انتخابی عمل میں کسی دوسرے طبقے
نے نسبتاً زیادہ دلچسپی لی تو وہ ذرائع ابلاغ تھے‘ جن میں بالخصوص
الیکٹرانک میڈیا (نجی نیوز چینلوں) نے آئندہ بلدیاتی انتخابات کی ’الیکشن
ٹرانسمیشن‘ کی ڈٹ کر مشق کی جو یقیناًزیادہ بڑے اور زیادہ اہمیت کے حامل
ہوں گے۔ اگرچہ کنٹونمنٹ بورڈز اراکین کا چناؤ طویل انتظار کے بعد مکمل ہوا
لیکن ’کم ترین شرح پولنگ‘ اِس بات کا ثبوت ہے کہ ہمارے ہاں ’انتخابی عمل‘
سے ایک خاص طبقے کے مفادات وابستہ ہیں‘ جن کا کوئی دوسرا کام نہیں اور وہ
ایک انتخاب سے دوسرے انتخاب تک تیاری (سوچ بچار) میں اپنا وقت خرچ کرتے
ہیں! اُور جانتے ہیں کہ انتخابات میں کامیابی محض گھر گھر جاکر ووٹ مانگنے
کا نام نہیں بلکہ یہ ایک ایسی سائنس ہے‘ جس کی تعلیم نہ تو جامعات و کتابوں
سے ملتی ہے اور نہ ہی اِس کے لئے خلوص‘ امانت و دیانت اور نیک نامی (ساکھ)
ہی کام آتی ہیں بلکہ ’دل کی مرادیں‘ پانے کے لئے ایسی ’دھونس‘ کی بھی
ضرورت ہوتی ہے کہ جس کا سامنا کرنے کی مخالفین میں ’تاب‘ نہ ہو۔ اگرچہ
’’اُور بھی دُکھ ہیں زمانے میں محبت (الیکشنز) کے سوأ‘‘ لیکن ہمارے ہاں
’ہمہ وقت انتخابی سوچ‘ رکھنے والوں کی کمی نہیں جن کے لئے یہی ’کار جہاں‘
کسی دوسرے شعبے میں وقت‘ جسمانی توانائیاں اور مال و متاع کی سرمایہ کاری
سے زیادہ بہتر ہے۔ خیبرپختونخوا میں ہوئے ’کنٹونمنٹ بورڈز‘ کے انتخابات
میں مجموعی شرح پولنگ 40 فیصد کے آس پاس رہی جبکہ خواتین کی شرح پولنگ کا
رجحان بھی اوسطاً مزید دس فیصد کم رہا تو یہی رویہ آئندہ ماہ کے آخر میں
ہونے جا رہے ’بلدیاتی انتخابات‘ کے موقع پر بھی دیکھنے میں آئیں گے اور صرف
وہی لوگ کامیاب ہوں گے جنہیں سیاسی جماعتوں کی حمایت حاصل ہوگی۔ یہ بالکل
بھی صحت مند اور خوش آئند رجحان نہیں۔ بلدیاتی اِنتخابات میں آزاد حیثیت سے
حصہ لینے والوں کی کامیابی کے امکانات ’کم شرح پولنگ‘ کی وجہ سے زیادہ
’گھٹ‘ جاتی ہے!
کنٹونمنٹ بورڈز کے انتخابات میں ’شرح پولنگ‘ سے کئی ایک اسباق پوشیدہ ہیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ چھاؤنی کی حدود میں رہنے والوں کو زیادہ سہولیات میسر ہوتی ہیں لیکن وہ نہ تو تعمیر وترقی سے متاثر ہوتے ہیں اور نہ ہی وہ کشادہ و سرسبزوشاداب گردوپیش اُن کے لئے ’باعث شکر‘ ہوتا ہے جس سے ملحقہ ضلعی حکومت کے علاقے محروم ہوتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ وہ انتخابی عمل کے جھنجھٹ میں نہیں پڑتے لیکن کنٹونمنٹ بورڈز کے جو علاقے نسبتاً کم ترقی یافتہ ہوتے ہیں وہاں کے رہنے والے زیادہ بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہوتے ہیں کیونکہ اُنہیں اپنی محرومی کا احساس ہوتا ہے۔ معلوم یہ بھی ہوا کہ تعمیر و ترقی کے حوالے سے ترجیحات کا تعین ’مساوی و غیرامتیازی بنیادوں‘ پر ہونا چاہئے۔
کنٹونمنٹ بورڈ کے انتخابات سے قبل (برسرزمین حقائق اور سائنسی بنیادوں پر) حلقہ بندیاں کرنے کی ضرورت تھی۔ یوں لگ رہا تھا کہ جیسے انتخابات نے ہمیں اچانک آ لیا ہو حالانکہ یہ عمل سترہ برس کے تعطل کے بعد ہوا۔ ایبٹ آباد ہی کی مثال ملاحظہ کیجئے جہاں چھاؤنی کی حدود پر تنازعہ انتخابات سے قبل حل ہونا چاہئے تھا۔ ایبٹ آباد کا ایک محلہ ایسا بھی ہے کہ جہاں ایک گھر یونین کونسل شیخ البانڈی میں ہے تو اُس سے جڑا دوسرا گھر یونین کونسل جھنگی کی حدود میں آتا ہے جبکہ بلمقابل تیسرے گھر کے رہنے والے کنٹونمنٹ بورڈ کے باسی ہیں! علاؤہ ازیں پانچ وارڈوں پر مشتمل کنٹونمنٹ کی حدود میں ایسے متنازعہ علاقے بھی ہیں‘ جن کا شمار بیک وقت ضلعی اور کنٹونمنٹ بورڈ میں کیا جاتا ہے۔ جیسا کہ ’لمبی ڈھیری (سیٹھی مسجد)‘ کا علاقہ جو متنازعہ حیثیت رکھتا اور یہاں کے رہنے والوں کی ایک بڑی تعداد کے اسمائے گرامی کنٹونمنٹ اور ضلعی (دونوں) انتخابات کی ووٹر لسٹوں کا حصہ ہیں! کیا یہ عجب نہیں کہ کنٹونمنٹ بورڈ انتخابات کے لئے پولنگ اسٹیشن ایسے علاقوں میں بھی بنائے گئے جو مقامی افراد کے لئے بھی غیرمعروف تھے اور چھاؤنی کی حدود میں نہیں آتے تھے۔ اگر اُمیدواروں کی دلچسپی‘ گاڑیاں اور تعلق داری (ذات برادری (جنبہ)‘ زبان و لسان‘ عقیدہ‘ سیاسی وابستگی) آڑے نہ ہوتی تو شرح پولنگ مزید مایوس کن ہوتی! ایبٹ آباد کی کنٹونمنٹ انتظامیہ کو وضاحت بھی کرنی ہے کہ اُنہوں نے پولنگ کے عمل کو ذرائع ابلاغ کی نظروں سے پوشیدہ کیوں رکھا اور نصف وقت گزرنے کے بعد اجازت کیوں مرحمت فرمائی؟
ذرائع ابلاغ عوام کی آنکھیں اور کان ہوتے ہیں جنہیں آمرانہ‘ خودساختہ اُور خودفریبی پر مبنی غیرمنطقی ’ضابطۂ اخلاق‘ سے ’محکوم‘ رکھنے کی کوشش کرنے والوں کو ’معافی‘ مانگنی چاہئے۔ اشد ضرورت اِس امر کی بھی ہے کہ چھاؤنی کی حدود کا ازسرنو تعین کیا جائے۔ بہتر ہوگا کہ چھاؤنی کو چھاؤنی ہی رہنے دیا جائے۔ فوجی تنصیبات کا شہری علاقوں کے وسط میں قیام سیکورٹی خدشات کو جنم دیتا ہے اور جس طرح ماضی میں آبادیوں سے دور جا کر نئے شہر آباد کئے گئے تھے‘ آج بھی چھاؤنیاں شہروں سے الگ اور فاصلے پر ہونی چاہیءں‘ جہاں کی فیصلہ سازی و معاملات فوج ہی پاس ہوں اور اُن میں برائے نام منتخب نمائندوں کو شریک کرنے کی روایت بھی تبدیل ہونی چاہئے۔ جو معاملات سترہ برس تک بناء منتخب قیادت ’خوش اسلوبی‘ اور ’بہ احسن و شفافیت‘ سے چلائے جاتے رہے‘ تو وہ مزید عرصہ بھی جاری و ساری رکھے جا سکتے ہیں۔ کون نہیں جانتا کہ منتخب نمائندوں کی اپنی اپنی ترجیحات‘ سیاسی و غیرسیاسی اور سماجی حلقۂ اثرورسوخ سے متعلق مجبوریاں ہوتی ہیں‘ جن سے وابستہ توقعات اِس لئے پوری نہیں ہو پاتیں کیونکہ گلی نالی کی تعمیر‘ صفائی ستھرائی کی صورتحال‘ محصولات کی حسب حال شرح محصولات‘ معاشرت کے اصولوں کے بارے شعور و آگہی عام کرنا‘ ہر کس و ناکس کے بس کی بات نہیں بلکہ اِس کے لئے ’اصلاح کاری‘ کی خصوصیت اور جس درجے کے ’کردار و تعلیمی قابلیت‘ کی ضرورت ہے وہ ہمارے ہاں کے انتخابی عمل میں بطور اُمیدوار حصہ لینے والوں کے لئے لازمی شرط نہیں!
یہی وجہ ہے کہ بار بار یا بارہا عام انتخابات کے بعد بھی ’کلیدی فیصلوں کو معنویت دینے‘ اور اِجتماعی مفاد کے تحفظ جیسے اہداف حاصل نہیں ہو پا رہے! تومعلوم ہوا کہ ۔۔۔ ’’بات چاہے کنٹونمنٹ بورڈز کی ہو یا مقامی حکومتوں (بلدیاتی اِداروں) کے قیام کی‘ جمہوری و اِنتخابی عمل کے روائتی اَسلوب سے زیادہ‘ اِس کے مفہوم و معانی عام کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘
کنٹونمنٹ بورڈز کے انتخابات میں ’شرح پولنگ‘ سے کئی ایک اسباق پوشیدہ ہیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ چھاؤنی کی حدود میں رہنے والوں کو زیادہ سہولیات میسر ہوتی ہیں لیکن وہ نہ تو تعمیر وترقی سے متاثر ہوتے ہیں اور نہ ہی وہ کشادہ و سرسبزوشاداب گردوپیش اُن کے لئے ’باعث شکر‘ ہوتا ہے جس سے ملحقہ ضلعی حکومت کے علاقے محروم ہوتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ وہ انتخابی عمل کے جھنجھٹ میں نہیں پڑتے لیکن کنٹونمنٹ بورڈز کے جو علاقے نسبتاً کم ترقی یافتہ ہوتے ہیں وہاں کے رہنے والے زیادہ بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہوتے ہیں کیونکہ اُنہیں اپنی محرومی کا احساس ہوتا ہے۔ معلوم یہ بھی ہوا کہ تعمیر و ترقی کے حوالے سے ترجیحات کا تعین ’مساوی و غیرامتیازی بنیادوں‘ پر ہونا چاہئے۔
کنٹونمنٹ بورڈ کے انتخابات سے قبل (برسرزمین حقائق اور سائنسی بنیادوں پر) حلقہ بندیاں کرنے کی ضرورت تھی۔ یوں لگ رہا تھا کہ جیسے انتخابات نے ہمیں اچانک آ لیا ہو حالانکہ یہ عمل سترہ برس کے تعطل کے بعد ہوا۔ ایبٹ آباد ہی کی مثال ملاحظہ کیجئے جہاں چھاؤنی کی حدود پر تنازعہ انتخابات سے قبل حل ہونا چاہئے تھا۔ ایبٹ آباد کا ایک محلہ ایسا بھی ہے کہ جہاں ایک گھر یونین کونسل شیخ البانڈی میں ہے تو اُس سے جڑا دوسرا گھر یونین کونسل جھنگی کی حدود میں آتا ہے جبکہ بلمقابل تیسرے گھر کے رہنے والے کنٹونمنٹ بورڈ کے باسی ہیں! علاؤہ ازیں پانچ وارڈوں پر مشتمل کنٹونمنٹ کی حدود میں ایسے متنازعہ علاقے بھی ہیں‘ جن کا شمار بیک وقت ضلعی اور کنٹونمنٹ بورڈ میں کیا جاتا ہے۔ جیسا کہ ’لمبی ڈھیری (سیٹھی مسجد)‘ کا علاقہ جو متنازعہ حیثیت رکھتا اور یہاں کے رہنے والوں کی ایک بڑی تعداد کے اسمائے گرامی کنٹونمنٹ اور ضلعی (دونوں) انتخابات کی ووٹر لسٹوں کا حصہ ہیں! کیا یہ عجب نہیں کہ کنٹونمنٹ بورڈ انتخابات کے لئے پولنگ اسٹیشن ایسے علاقوں میں بھی بنائے گئے جو مقامی افراد کے لئے بھی غیرمعروف تھے اور چھاؤنی کی حدود میں نہیں آتے تھے۔ اگر اُمیدواروں کی دلچسپی‘ گاڑیاں اور تعلق داری (ذات برادری (جنبہ)‘ زبان و لسان‘ عقیدہ‘ سیاسی وابستگی) آڑے نہ ہوتی تو شرح پولنگ مزید مایوس کن ہوتی! ایبٹ آباد کی کنٹونمنٹ انتظامیہ کو وضاحت بھی کرنی ہے کہ اُنہوں نے پولنگ کے عمل کو ذرائع ابلاغ کی نظروں سے پوشیدہ کیوں رکھا اور نصف وقت گزرنے کے بعد اجازت کیوں مرحمت فرمائی؟
ذرائع ابلاغ عوام کی آنکھیں اور کان ہوتے ہیں جنہیں آمرانہ‘ خودساختہ اُور خودفریبی پر مبنی غیرمنطقی ’ضابطۂ اخلاق‘ سے ’محکوم‘ رکھنے کی کوشش کرنے والوں کو ’معافی‘ مانگنی چاہئے۔ اشد ضرورت اِس امر کی بھی ہے کہ چھاؤنی کی حدود کا ازسرنو تعین کیا جائے۔ بہتر ہوگا کہ چھاؤنی کو چھاؤنی ہی رہنے دیا جائے۔ فوجی تنصیبات کا شہری علاقوں کے وسط میں قیام سیکورٹی خدشات کو جنم دیتا ہے اور جس طرح ماضی میں آبادیوں سے دور جا کر نئے شہر آباد کئے گئے تھے‘ آج بھی چھاؤنیاں شہروں سے الگ اور فاصلے پر ہونی چاہیءں‘ جہاں کی فیصلہ سازی و معاملات فوج ہی پاس ہوں اور اُن میں برائے نام منتخب نمائندوں کو شریک کرنے کی روایت بھی تبدیل ہونی چاہئے۔ جو معاملات سترہ برس تک بناء منتخب قیادت ’خوش اسلوبی‘ اور ’بہ احسن و شفافیت‘ سے چلائے جاتے رہے‘ تو وہ مزید عرصہ بھی جاری و ساری رکھے جا سکتے ہیں۔ کون نہیں جانتا کہ منتخب نمائندوں کی اپنی اپنی ترجیحات‘ سیاسی و غیرسیاسی اور سماجی حلقۂ اثرورسوخ سے متعلق مجبوریاں ہوتی ہیں‘ جن سے وابستہ توقعات اِس لئے پوری نہیں ہو پاتیں کیونکہ گلی نالی کی تعمیر‘ صفائی ستھرائی کی صورتحال‘ محصولات کی حسب حال شرح محصولات‘ معاشرت کے اصولوں کے بارے شعور و آگہی عام کرنا‘ ہر کس و ناکس کے بس کی بات نہیں بلکہ اِس کے لئے ’اصلاح کاری‘ کی خصوصیت اور جس درجے کے ’کردار و تعلیمی قابلیت‘ کی ضرورت ہے وہ ہمارے ہاں کے انتخابی عمل میں بطور اُمیدوار حصہ لینے والوں کے لئے لازمی شرط نہیں!
یہی وجہ ہے کہ بار بار یا بارہا عام انتخابات کے بعد بھی ’کلیدی فیصلوں کو معنویت دینے‘ اور اِجتماعی مفاد کے تحفظ جیسے اہداف حاصل نہیں ہو پا رہے! تومعلوم ہوا کہ ۔۔۔ ’’بات چاہے کنٹونمنٹ بورڈز کی ہو یا مقامی حکومتوں (بلدیاتی اِداروں) کے قیام کی‘ جمہوری و اِنتخابی عمل کے روائتی اَسلوب سے زیادہ‘ اِس کے مفہوم و معانی عام کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘
![]() |
LG polls, what we achieved besides the results |
No comments:
Post a Comment