ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
اَیک دن پشاور کے ساتھ!
اَیک دن پشاور کے ساتھ!
تجاوزات کے خلاف کامیاب حکمت عملی اَپنانے کے نتیجے میں ’پشاور‘ کا کھلا
کھلا چہرہ اُور جس وسعت کا اِحساس پہلی مرتبہ ہوا‘ اُس کے قائم و دائم اُور
پائیدار رہنے کی دعاؤں کے ساتھ اِلتجا ہے کہ ’پشاور کے وسائل پر قابض
قواعد و قوانین شکنوں کے ساتھ معاملہ کرنے پر اِکتفا نہ کیا جائے بلکہ جس
جوش و جذبے اُور پرعزم اَنداز میں تجاوزات کے خلاف مہم شروع کی گئی‘ اُسے
منطقی اَنجام تک بھی پہنچایا جائے یعنی ’اَندرون شہر کے پرپیچ تجارتی مراکز
میں تعمیروترقی کا عمل بھی شروع ہونا چاہئے۔ فٹ پاتھ کا تصور متعارف کرایا
جائے۔ ٹریفک کی یک طرفہ آمدورفت کے قواعد پر سختی سے عمل درآمد کیا جائے۔
اندرون شہر پارکنگ کے لئے مقامات مختص کرکے اُن پر سختی سے عمل درآمد کرایا
جائے۔ بازاروں میں پارکنگ کے رجحان کی حوصلہ شکنی ضروری ہے‘ کیونکہ نصف سے
زائد گاڑیاں خود دکانداروں یا اُن کے عزیزوں کی ہوتی ہیں‘ صاحب جائیداد یہ
بھی راسخ عقیدہ بھی رکھتا ہے کہ وہ اپنی اَراضی (چھوٹی بڑی دکان یا
کثیرالمنزلہ مارکیٹ‘ پلازے) کے سامنے سڑک اور فٹ پاتھ کا بھی بلاشرکت غیرے
مالک ہے اور اِسی سوچ سے منجملہ خرابیاں جنم لیتی ہیں۔ تجاوزات کے خلاف
حکمت عملی میں ہتھ ریڑیاں اور تہہ بازاری کا خاتمہ بھی شامل تھا۔ جس شہر
میں پانچ ہزار چلتی پھرتی تجاوزات ہوں‘ وہاں کے بازار کیسے پرسکون ہو سکتے
ہیں؟
گھنٹہ گھر میں مصنوعی پھول پتیوں اور آرائش کی خریدوفروخت کرنے والے سیّد مسعود علی شاہ‘ متصل محلہ کے رہائشی عامر صدیق خان ایڈوکیٹ‘ کریم پورہ بازار کے تاجر ملک پرویز‘ مسلم مینا بازار کے دکاندار ذوالفقار نقوی‘ اندرون یکہ توت کے وجی الزمان گیلانی‘ پیپل منڈی میں خشک مصالحہ جات اور اَجناس کے تاجر امتیاز سمیت درجنوں مقامی تاجروں نے تجاوزات کے خلاف سخت گیر مؤقف رکھنے پر ’تحریک اِنصاف‘ کے قائدین کا شکریہ اَدا کیا‘ جنہوں نے سیاسی مصلحتوں کو پشاور کے مفادات کی راہ میں حائل ہونے نہیں دیا لیکن جس ایک خدشے کا اِظہار کسی نے سرنامۂ کلام تو کسی نے بات مکمل کرتے ہوئے ضرور کیا وہ یہ تھا کہ ’’تجاوزات اُوجھل تو ہوئی ہیں لیکن ابھی ختم نہیں ہوئیں۔ سیاسی اثرورسوخ رکھنے والے گروہ پھر سے سرگرم عمل ہو گئے ہیں اور چونکہ بلدیاتی انتخابات کا مرحلہ درپیش ہے‘ اِس لئے تاجر تنظیموں کے رہنماؤں کی ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے کہیں نہ کہیں ’دُور اندیشی آڑے‘ بھی آ رہی ہے۔‘‘ لیکن ایک بات طے ہے کہ بات چاہے بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کی ہو یا آئندہ کسی مرحلے پر عام انتخابات کی‘ پشاور کی متفقہ سوچ بس یہی ہے کہ میں یہاں صرف اُسی سیاسی جماعت کا ’وجود اُور مستقبل‘ باقی رہے گا‘ جو مسائل بالخصوص تجاوزات کی مخالفت کرے گی کیونکہ پورے پشاور نے اِس بات کو سمجھ لیا ہے کہ اُنہیں کسی اُور سے نہیں بلکہ ہر دور میں سیاسی جماعتوں ہی سے خطرہ لاحق ہوتا ہے‘ جو اپنے اِقتدار‘ سیاسی اثرورسوخ برقرار رکھنے کے لئے پشاور کے وسائل پر قبضہ کرنے والوں کی مختلف طریقوں سے حوصلہ افزائی‘ پشت پناہی اُور تائید و حمایت کرتے رہے ہیں! پشاور سب کی ضرورت ہے‘ ہاں ہے لیکن پشاور سب کی ترجیح بھی ہے‘ البتہ ایسا نہیں ہے‘ ہونا چاہئے۔
پورے پاکستان کا المیہ ’تجاوزات‘ ہیں۔ کوئی اپنے عہدوں اور اختیارات سے تجاوز کئے دکھائی دیتا ہے تو کسی کی آمدنی معلوم وسائل کی حد سے کہیں زیادہ آگے بڑھ چکی ہے۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ‘ شرفاء اُور عمائدین کے کیا ہی کہنے کہ جن کی حرص و طمع کو ’کسی کروٹ‘ قرار نہیں۔ ذخیرہ اَندوزوں اور مصنوعی مہنگائی تخلیق کرنے کے ماہرین کی لالچ الگ آسمان کو چھو رہی ہے۔ اگر کسی بازار کا کوئی دکاندار یا تاجر اَپنی حد سے متجاوز دکھائی دیتا ہے‘ تو اِس ’آوے کے آوے‘ میں سدھار کی بابت بھی غور ہونا چاہئے۔ اہلیت کی بنیاد پر نوکریاں ملنے لگی ہیں؟ وزراء کے آبائی اضلاع کا ڈومیسائل رکھنے والوں کو ملازمتیں ملنے کی روایت ختم ہو گئی ہے؟ تعمیراتی کاموں کے معیار میں پائیداری کو اِتنی اہمیت دی جانے لگی ہے کہ بارش کے بعد گلیاں اور سڑکیں بہنا بند ہو گئیں ہیں؟ تعلیمی اِداروں اور علاج معالجے کی سہولیات کا معیار اِس قدر بہتر ہوگیا کہ‘ فیصلہ ساز بھی اپنا اور اپنے اہل خانہ کی متعلقہ حاجات کے لئے سرکاری سکولوں و ہسپتالوں کا رُخ کرنے لگے ہیں؟ سرکاری اِداروں سے رشوت‘ سفارش‘ تعصب اُور اَقربا پروری کا مکمل خاتمہ ہوچکا ہے؟ اراکین اسمبلی کی طرح انتظامی عہدوں پر فائز سرکاری فیصلہ سازوں کو پابند بنا دیا گیا ہے کہ وہ اپنے اثاثوں سے متعلق سالانہ گوشوارے جمع کرائیں گے اور غلط بیانی کرنے والے کو نااہل قرار دیا جا سکیگا؟ عہدوں اور اختیارات سمیت سرکاری گاڑیوں کا غیرسرکاری (نجی) استعمال زمانہ جاہلیت کی بات ہے؟ پولیس تھانے سے رجوع کرنے والوں کو ’جھجک‘ نہیں رہی؟ قانون و انصاف برائے فروخت نہیں رہا؟ پٹوار خانوں کا قبلہ درست ہو چکا ہے؟ پینے کے صاف پانی کی فراہمی اور اطراف شہر سمیت ہر گلی کوچے سے سوفیصد گندگی اُٹھانے جیسے اہداف بھی مکمل طور پر حاصل کر لئے گئے ہیں؟
یہ ایک تبدیل ہوئے پشاور کا خواب ہے‘ جس کا ہر کونہ نکھرا‘ اُور ہر نفس خوابوں کی تعبیر دیکھ دیکھ کر شاداب ہو چکا ہے؟ جہاں تفکرات کی جگہ اِطمینان و سکون نے مستقل ڈیرے ڈال دیئے ہیں‘ جہاں اجنبی چہروں کی بہتات نہیں رہی‘ مہاجر چالیس سالہ مہمان نوازی کا شکریہ اَدا کرتے ہوئے اپنے ملک کو سدھار رہے ہیں‘ جہاں فیصلہ سازوں اور عام آدمی کے مفادات ایک دکھائی دیتے ہیں‘ جہاں ’اِجتماعی مفاد‘ کے جنون کا جادو سرچڑھ کر بول رہا ہے؟
ایسے ہی پشاور میں بسر کئے ہوئے ایک دن سے جڑی لاکھوں یادیں‘ اِس شہر اور یہاں کے رہنے والوں کی خوشحالی و سلامتی کی دعاؤں کے ساتھ اختتام پذیر ہے۔’’رات دروازے پہ کتنی دستکوں کے زخم تھے۔۔۔پھر وہی پاگل ہوا تھی‘ پھر مجھے دھوکا ہوا۔‘‘
گھنٹہ گھر میں مصنوعی پھول پتیوں اور آرائش کی خریدوفروخت کرنے والے سیّد مسعود علی شاہ‘ متصل محلہ کے رہائشی عامر صدیق خان ایڈوکیٹ‘ کریم پورہ بازار کے تاجر ملک پرویز‘ مسلم مینا بازار کے دکاندار ذوالفقار نقوی‘ اندرون یکہ توت کے وجی الزمان گیلانی‘ پیپل منڈی میں خشک مصالحہ جات اور اَجناس کے تاجر امتیاز سمیت درجنوں مقامی تاجروں نے تجاوزات کے خلاف سخت گیر مؤقف رکھنے پر ’تحریک اِنصاف‘ کے قائدین کا شکریہ اَدا کیا‘ جنہوں نے سیاسی مصلحتوں کو پشاور کے مفادات کی راہ میں حائل ہونے نہیں دیا لیکن جس ایک خدشے کا اِظہار کسی نے سرنامۂ کلام تو کسی نے بات مکمل کرتے ہوئے ضرور کیا وہ یہ تھا کہ ’’تجاوزات اُوجھل تو ہوئی ہیں لیکن ابھی ختم نہیں ہوئیں۔ سیاسی اثرورسوخ رکھنے والے گروہ پھر سے سرگرم عمل ہو گئے ہیں اور چونکہ بلدیاتی انتخابات کا مرحلہ درپیش ہے‘ اِس لئے تاجر تنظیموں کے رہنماؤں کی ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے کہیں نہ کہیں ’دُور اندیشی آڑے‘ بھی آ رہی ہے۔‘‘ لیکن ایک بات طے ہے کہ بات چاہے بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کی ہو یا آئندہ کسی مرحلے پر عام انتخابات کی‘ پشاور کی متفقہ سوچ بس یہی ہے کہ میں یہاں صرف اُسی سیاسی جماعت کا ’وجود اُور مستقبل‘ باقی رہے گا‘ جو مسائل بالخصوص تجاوزات کی مخالفت کرے گی کیونکہ پورے پشاور نے اِس بات کو سمجھ لیا ہے کہ اُنہیں کسی اُور سے نہیں بلکہ ہر دور میں سیاسی جماعتوں ہی سے خطرہ لاحق ہوتا ہے‘ جو اپنے اِقتدار‘ سیاسی اثرورسوخ برقرار رکھنے کے لئے پشاور کے وسائل پر قبضہ کرنے والوں کی مختلف طریقوں سے حوصلہ افزائی‘ پشت پناہی اُور تائید و حمایت کرتے رہے ہیں! پشاور سب کی ضرورت ہے‘ ہاں ہے لیکن پشاور سب کی ترجیح بھی ہے‘ البتہ ایسا نہیں ہے‘ ہونا چاہئے۔
پورے پاکستان کا المیہ ’تجاوزات‘ ہیں۔ کوئی اپنے عہدوں اور اختیارات سے تجاوز کئے دکھائی دیتا ہے تو کسی کی آمدنی معلوم وسائل کی حد سے کہیں زیادہ آگے بڑھ چکی ہے۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ‘ شرفاء اُور عمائدین کے کیا ہی کہنے کہ جن کی حرص و طمع کو ’کسی کروٹ‘ قرار نہیں۔ ذخیرہ اَندوزوں اور مصنوعی مہنگائی تخلیق کرنے کے ماہرین کی لالچ الگ آسمان کو چھو رہی ہے۔ اگر کسی بازار کا کوئی دکاندار یا تاجر اَپنی حد سے متجاوز دکھائی دیتا ہے‘ تو اِس ’آوے کے آوے‘ میں سدھار کی بابت بھی غور ہونا چاہئے۔ اہلیت کی بنیاد پر نوکریاں ملنے لگی ہیں؟ وزراء کے آبائی اضلاع کا ڈومیسائل رکھنے والوں کو ملازمتیں ملنے کی روایت ختم ہو گئی ہے؟ تعمیراتی کاموں کے معیار میں پائیداری کو اِتنی اہمیت دی جانے لگی ہے کہ بارش کے بعد گلیاں اور سڑکیں بہنا بند ہو گئیں ہیں؟ تعلیمی اِداروں اور علاج معالجے کی سہولیات کا معیار اِس قدر بہتر ہوگیا کہ‘ فیصلہ ساز بھی اپنا اور اپنے اہل خانہ کی متعلقہ حاجات کے لئے سرکاری سکولوں و ہسپتالوں کا رُخ کرنے لگے ہیں؟ سرکاری اِداروں سے رشوت‘ سفارش‘ تعصب اُور اَقربا پروری کا مکمل خاتمہ ہوچکا ہے؟ اراکین اسمبلی کی طرح انتظامی عہدوں پر فائز سرکاری فیصلہ سازوں کو پابند بنا دیا گیا ہے کہ وہ اپنے اثاثوں سے متعلق سالانہ گوشوارے جمع کرائیں گے اور غلط بیانی کرنے والے کو نااہل قرار دیا جا سکیگا؟ عہدوں اور اختیارات سمیت سرکاری گاڑیوں کا غیرسرکاری (نجی) استعمال زمانہ جاہلیت کی بات ہے؟ پولیس تھانے سے رجوع کرنے والوں کو ’جھجک‘ نہیں رہی؟ قانون و انصاف برائے فروخت نہیں رہا؟ پٹوار خانوں کا قبلہ درست ہو چکا ہے؟ پینے کے صاف پانی کی فراہمی اور اطراف شہر سمیت ہر گلی کوچے سے سوفیصد گندگی اُٹھانے جیسے اہداف بھی مکمل طور پر حاصل کر لئے گئے ہیں؟
یہ ایک تبدیل ہوئے پشاور کا خواب ہے‘ جس کا ہر کونہ نکھرا‘ اُور ہر نفس خوابوں کی تعبیر دیکھ دیکھ کر شاداب ہو چکا ہے؟ جہاں تفکرات کی جگہ اِطمینان و سکون نے مستقل ڈیرے ڈال دیئے ہیں‘ جہاں اجنبی چہروں کی بہتات نہیں رہی‘ مہاجر چالیس سالہ مہمان نوازی کا شکریہ اَدا کرتے ہوئے اپنے ملک کو سدھار رہے ہیں‘ جہاں فیصلہ سازوں اور عام آدمی کے مفادات ایک دکھائی دیتے ہیں‘ جہاں ’اِجتماعی مفاد‘ کے جنون کا جادو سرچڑھ کر بول رہا ہے؟
ایسے ہی پشاور میں بسر کئے ہوئے ایک دن سے جڑی لاکھوں یادیں‘ اِس شہر اور یہاں کے رہنے والوں کی خوشحالی و سلامتی کی دعاؤں کے ساتھ اختتام پذیر ہے۔’’رات دروازے پہ کتنی دستکوں کے زخم تھے۔۔۔پھر وہی پاگل ہوا تھی‘ پھر مجھے دھوکا ہوا۔‘‘
![]() |
The anti encroachment drive in Peshawar need to be completed to achieve the ultimate goal |
No comments:
Post a Comment