ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
اِنصاف‘ قبائلی سماج اور نہیں کا علاج
اِنصاف‘ قبائلی سماج اور نہیں کا علاج
پاکستان پیپلزپارٹی کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اُس نے ’قبائلی علاقوں میں
آئینی اصلاحات‘ کے لئے قانون ساز ایوان بالا (سینیٹ) میں ایک مسودہ قانون
اراکین کے غور و منظور کے لئے پیش کر رکھا ہے‘ جس کا مرکزی خیال یہ ہے کہ
’سپرئم کورٹ اور ہائی کورٹ کا دائرہ اختیار کو قبائلی علاقوں تک وسعت دی
جائے جیسا کہ ملک کے دیگر بندوبستی علاقوں (چاروں صوبوں) کی صورتحال ہے
تاکہ قبائلی علاقوں کے رہنے والوں کو بھی انصاف کی فراہمی اور اُن کے
انسانی حقوق کا تحفظ کیاجا سکے۔ پاکستان پیپلزپارٹی کی جانب سے سینیٹر فرحت
اللہ بابر نے ایوان بالا میں آئین کے آرٹیکل 247 کی 7ویں شق ختم کرنے کے
لئے ترمیم پیش (دائر) کر رکھی ہے‘ جو سپرئم کورٹ اور ہائی کورٹ کے قبائلی
علاقوں میں فعال نہ ہونے کی راہ میں حائل بنیادی رکاوٹ ہے۔ یہ اَمر بھی
قابل ذکر ہے کہ سینیٹ کی ’قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف‘ پہلے ہی اِس
آئینی ترمیم کو جائز قرار دیتے ہوئے اِس ترمیم کی منظوری دے چکی ہے جبکہ
خیبرپختونخوا اسمبلی سے بھی اِس سلسلے میں ایک قرارداد مئی 2012ء میں منظور
کروائی گئی تھی جو کہ ایک آئینی تقاضا تھا۔ خیبرپختونخوا اسمبلی کے منجملہ
اراکین متفقہ طور پر مطالبہ کر چکے ہیں کہ ۔۔۔ ’’عدالتی طرز انصاف کے
طریقۂ کار میں قبائلی علاقوں کو بھی شامل کیا جائے۔‘‘ اِس سلسلے میں پشاور
ہائی کورٹ نے بھی سفارش کر رکھی ہے کہ قبائلی علاقوں کے رہنے والوں کو ملک
کے دیگر حصوں کی طرح اِنصاف تک رسائی کا حق ملنا چاہئے کیونکہ پاکستان کے
آئین کی پہلی بات ہی یہی ہے کہ ’’چار دیگر صوبوں کی طرح پاکستان قبائلی
علاقوں پر مشتمل ہے۔‘‘ تو اگر قبائلی علاقے پاکستان کا حصہ ہیں‘ جو کہ ہیں
تو پھر یہ طرزعمل مبنی برانصاف نہیں کہ ایک ہی ملک کے باشندوں سے انصاف
کرتے ہوئے دو الگ الگ قوانین کے تحت معاملہ کیا جائے! جبکہ قبائلی علاقوں
کے رہنے والے خود کو اِنصاف سے محروم تصور کرتے ہیں اور ایک ایسی ناقابل
بیان غلاموں جیسی زندگی بسر کر رہے ہیں‘جس میں اُن پر انتظامیہ اور مختلف
گروہوں نے اسلحہ تان رکھا ہے!
قبائلی علاقوں کے طرز حکمرانی میں اِصلاحات کے لئے آواز ہر دور حکومت میں اُٹھتی رہی ہے۔ اِس سلسلے میں کئی ایک کل جماعتی کانفرنسیں بھی منعقد ہو چکی ہیں‘ جن میں حکومتی سرپرستی و تائید والی ایک کانفرنس میں منظور کی جانے والی گیارہ متفقہ قراردادوں میں یہ مطالبہ بھی شامل تھا کہ ’’آئین کے آرٹیکل 247 میں ترمیم لائی جائے۔‘‘ ہمارے سیاستدان اپنے مفادات کے لئے مل بیٹھنے اور راتوں رات آئین کو ترمیم کرنے کے ماہر ہیں تو جب ’’کل جماعتی کانفرنس‘ پشاور ہائی کورٹ‘ سپرئم کورٹ اُور خیبرپختونخوا اسمبلی سے ہوتی ہوئی بات سینیٹ تک جا پہنچی ہے تو بظاہر آسان نظر آنے والا یہ کام (آئینی ترمیم) کیوں نہیں ہو رہی؟ ’’اِس نہیں کا کوئی علاج نہیں۔۔۔روز کہتے ہیں آپ آج نہیں!‘‘
ہمارے قانون ساز ایوانوں کی سمجھ نہیں آتی کہ جن کا بنیادی کام تو ’قانون سازی‘ ہے لیکن یہ کام جب مفاد عامہ کے زمرے میں آئے تو اُن کی ترجیحات کا حصہ نہیں رہتا۔ پھر وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے اَراکین بھی مختلف قسم کے متضاد رویئے اور بیانات رکھتے ہیں‘ جنہیں ’دوغلا‘ کہنا تو اُن کے استحقاق کی توہین کے زمرے میں آئے گا‘ لیکن فوری نوعیت کے اَمور کہ جن کا تعلق اِجتماعی فلاح و بہبود اور بڑے پیمانے پر ہونے والی اِنسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور مالی و انتظامی بدعنوانیوں سے ہے‘ اُس پر توجہ نہیں دی جارہی۔ پشاور ہائی کورٹ نے ’7 اپریل 2014ء‘ کے روز حکومت کو مخاطب کرتے ہوئے آئین کی شق 247(7) میں ترمیم کی سفارش کی تھی جسے وفاقی حکومت نے نہ صرف نظرانداز کیا بلکہ اِس کے خلاف سپرئم کورٹ میں مقدمہ درج کردیا۔ خیبرپختونخوا کی جانب سے ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل وقار احمد خان سپرئم کورٹ کے تین رکنی بینچ کے سامنے پیش ہوئے جس کی سربراہی چیف جسٹس ناصر الملک کر رہے تھے۔ وفاق کا نکتۂ نظر یہ ہے کہ پشاور ہائی کورٹ کو وفاق کے زیرانتظام علاقوں سے متعلق کوئی سفارش حکم یا فیصلے کا حق نہیں پہنچتا۔ عجیب منطق ہے کہ چالیس لاکھ سے زائد لوگوں کو درپیش مشکلات اور اُن کے حقوق کی تلفی نظر نہیں آ رہی لیکن وفاقی حکومت کو اپنے اختیار و استحقاق بچانے کی فکر کھائے جا رہی ہے۔ اگر وفاقی حکومت قبائلی علاقوں کے حقوق ادا کر رہی ہوتی‘ وہاں عدل و انصاف کی حکمرانی چاہے کسی بھی قاعدے قانون کے تحت ہر خاص و عام کے لئے مقرر ہوتی‘ اگر قبائلی علاقوں کی ترقی کے لئے خرچ و مختص ہونے والے مالی وسائل خرد برد نہ ہو رہے ہوتے‘ اگر ’ایف سی آر‘ کی ظالمانہ شقوں کے تحت قبائلیوں سے غلاموں جیسا سلوک نہ ہو رہا ہوتا تو پشاور ہائی کورٹ سمیت کسی بھی سنجیدہ ادارے کی جانب سے تشویش کا اظہار نہ کیا جاتا۔
مسئلہ یہ ہے کہ وفاقی حکومت قبائلی علاقوں کو اپنے زیرکنٹرول رکھنا تو چاہتی ہے اور وہاں ایک افسرشاہی کا نظام بھی اپنے مفادات کو بچانے کے لئے سرگرم عمل ہے لیکن قبائلیوں کا اِستحصال اور اُن کے نام پر خردبرد‘ منظم جرائم‘ اسمگلنگ‘ عسکریت پسندی‘ انتہاء پسندی اور دہشت گردی کرنے والوں سے غرض نہیں رکھنا چاہتی۔ اگر قبائلی علاقوں کے رہنے والوں کو اُن کے حقوق اور انصاف دیا جاتا تو کوئی وجہ نہیں تھی کہ وہ انتہاء پسندوں کو پاؤں جمانے کا موقع ملتا۔ غیور قبائلی پاکستان سے محبت کو نسل درنسل منتقل کرنے پر فخر محسوس کرتے ہیں اور اگر اتنا استحصال ملک کے کسی دوسرے حصے کے رہنے والوں کا ہورہا ہوتا‘ تو وہ کب کے علیحدگی پسندی کی طرف مائل ہو چکے ہوتے۔ اپنے آبائی گھروں سے بیدخلی‘ دربہ دری‘ غربت و افلاس‘ جہالت‘ ڈرون حملے سمیت انواع و اقسام کے زخموں کو پیٹھ پر سجا کر مسکرانے والے قبائلیوں کے حقوق کی ادائیگی کے بناء پاکستان میں امن و سکون کا دور دورہ ممکن نہیں ہوگا۔ ہم میں سے ہر ایک کو اِس ’حقیقت کا اِدراک‘ کرنا ہو گا کہ ۔۔۔ ہر مہلت‘ ہر ظلم اُور ہر برداشت کی بھی ایک حد ہوتی ہے۔ طاقت کے ذریعے کسی کی آواز کو دبانے اور حقوق غصب کرنے کی کوئی تو انتہاء بھی ہونی چاہئے۔
آخر پاکستان کے چار صوبوں پر حکمرانوں کو اپنی ذات اور دیگر صوبوں کی عوام طرح قبائلیوں کیوں انسان دکھائی نہیں دیتے؟ وقت آ گیا ہے کہ قبائلیوں کے غصب شدہ جائز حقوق سے محرومی کا دور ختم کیا جائے اُور انصاف و بنیادی حقوق سے الگ رکھنے کا جاری سلسلہ بھی کہیں نہ کہیں نہیں بلکہ اِس مقام پر رک جانا چاہئے کیونکہ اگر انصاف نہیں ہوگا‘ اگر حقوق ادا نہیں ہوں گے تو ’اِطمینان عام نہیں ہو پائے گا‘ اور سبھی جانتے ہیں کہ ’’اقتدار کو بدعنوان طرز حکمرانی سے تو قائم رکھا جاسکتا ہے‘ لیکن یہ سلسلہ ظلم و ناانصافی سے جاری نہیں رکھا سکتا!‘‘
قبائلی علاقوں کے طرز حکمرانی میں اِصلاحات کے لئے آواز ہر دور حکومت میں اُٹھتی رہی ہے۔ اِس سلسلے میں کئی ایک کل جماعتی کانفرنسیں بھی منعقد ہو چکی ہیں‘ جن میں حکومتی سرپرستی و تائید والی ایک کانفرنس میں منظور کی جانے والی گیارہ متفقہ قراردادوں میں یہ مطالبہ بھی شامل تھا کہ ’’آئین کے آرٹیکل 247 میں ترمیم لائی جائے۔‘‘ ہمارے سیاستدان اپنے مفادات کے لئے مل بیٹھنے اور راتوں رات آئین کو ترمیم کرنے کے ماہر ہیں تو جب ’’کل جماعتی کانفرنس‘ پشاور ہائی کورٹ‘ سپرئم کورٹ اُور خیبرپختونخوا اسمبلی سے ہوتی ہوئی بات سینیٹ تک جا پہنچی ہے تو بظاہر آسان نظر آنے والا یہ کام (آئینی ترمیم) کیوں نہیں ہو رہی؟ ’’اِس نہیں کا کوئی علاج نہیں۔۔۔روز کہتے ہیں آپ آج نہیں!‘‘
ہمارے قانون ساز ایوانوں کی سمجھ نہیں آتی کہ جن کا بنیادی کام تو ’قانون سازی‘ ہے لیکن یہ کام جب مفاد عامہ کے زمرے میں آئے تو اُن کی ترجیحات کا حصہ نہیں رہتا۔ پھر وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے اَراکین بھی مختلف قسم کے متضاد رویئے اور بیانات رکھتے ہیں‘ جنہیں ’دوغلا‘ کہنا تو اُن کے استحقاق کی توہین کے زمرے میں آئے گا‘ لیکن فوری نوعیت کے اَمور کہ جن کا تعلق اِجتماعی فلاح و بہبود اور بڑے پیمانے پر ہونے والی اِنسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور مالی و انتظامی بدعنوانیوں سے ہے‘ اُس پر توجہ نہیں دی جارہی۔ پشاور ہائی کورٹ نے ’7 اپریل 2014ء‘ کے روز حکومت کو مخاطب کرتے ہوئے آئین کی شق 247(7) میں ترمیم کی سفارش کی تھی جسے وفاقی حکومت نے نہ صرف نظرانداز کیا بلکہ اِس کے خلاف سپرئم کورٹ میں مقدمہ درج کردیا۔ خیبرپختونخوا کی جانب سے ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل وقار احمد خان سپرئم کورٹ کے تین رکنی بینچ کے سامنے پیش ہوئے جس کی سربراہی چیف جسٹس ناصر الملک کر رہے تھے۔ وفاق کا نکتۂ نظر یہ ہے کہ پشاور ہائی کورٹ کو وفاق کے زیرانتظام علاقوں سے متعلق کوئی سفارش حکم یا فیصلے کا حق نہیں پہنچتا۔ عجیب منطق ہے کہ چالیس لاکھ سے زائد لوگوں کو درپیش مشکلات اور اُن کے حقوق کی تلفی نظر نہیں آ رہی لیکن وفاقی حکومت کو اپنے اختیار و استحقاق بچانے کی فکر کھائے جا رہی ہے۔ اگر وفاقی حکومت قبائلی علاقوں کے حقوق ادا کر رہی ہوتی‘ وہاں عدل و انصاف کی حکمرانی چاہے کسی بھی قاعدے قانون کے تحت ہر خاص و عام کے لئے مقرر ہوتی‘ اگر قبائلی علاقوں کی ترقی کے لئے خرچ و مختص ہونے والے مالی وسائل خرد برد نہ ہو رہے ہوتے‘ اگر ’ایف سی آر‘ کی ظالمانہ شقوں کے تحت قبائلیوں سے غلاموں جیسا سلوک نہ ہو رہا ہوتا تو پشاور ہائی کورٹ سمیت کسی بھی سنجیدہ ادارے کی جانب سے تشویش کا اظہار نہ کیا جاتا۔
مسئلہ یہ ہے کہ وفاقی حکومت قبائلی علاقوں کو اپنے زیرکنٹرول رکھنا تو چاہتی ہے اور وہاں ایک افسرشاہی کا نظام بھی اپنے مفادات کو بچانے کے لئے سرگرم عمل ہے لیکن قبائلیوں کا اِستحصال اور اُن کے نام پر خردبرد‘ منظم جرائم‘ اسمگلنگ‘ عسکریت پسندی‘ انتہاء پسندی اور دہشت گردی کرنے والوں سے غرض نہیں رکھنا چاہتی۔ اگر قبائلی علاقوں کے رہنے والوں کو اُن کے حقوق اور انصاف دیا جاتا تو کوئی وجہ نہیں تھی کہ وہ انتہاء پسندوں کو پاؤں جمانے کا موقع ملتا۔ غیور قبائلی پاکستان سے محبت کو نسل درنسل منتقل کرنے پر فخر محسوس کرتے ہیں اور اگر اتنا استحصال ملک کے کسی دوسرے حصے کے رہنے والوں کا ہورہا ہوتا‘ تو وہ کب کے علیحدگی پسندی کی طرف مائل ہو چکے ہوتے۔ اپنے آبائی گھروں سے بیدخلی‘ دربہ دری‘ غربت و افلاس‘ جہالت‘ ڈرون حملے سمیت انواع و اقسام کے زخموں کو پیٹھ پر سجا کر مسکرانے والے قبائلیوں کے حقوق کی ادائیگی کے بناء پاکستان میں امن و سکون کا دور دورہ ممکن نہیں ہوگا۔ ہم میں سے ہر ایک کو اِس ’حقیقت کا اِدراک‘ کرنا ہو گا کہ ۔۔۔ ہر مہلت‘ ہر ظلم اُور ہر برداشت کی بھی ایک حد ہوتی ہے۔ طاقت کے ذریعے کسی کی آواز کو دبانے اور حقوق غصب کرنے کی کوئی تو انتہاء بھی ہونی چاہئے۔
آخر پاکستان کے چار صوبوں پر حکمرانوں کو اپنی ذات اور دیگر صوبوں کی عوام طرح قبائلیوں کیوں انسان دکھائی نہیں دیتے؟ وقت آ گیا ہے کہ قبائلیوں کے غصب شدہ جائز حقوق سے محرومی کا دور ختم کیا جائے اُور انصاف و بنیادی حقوق سے الگ رکھنے کا جاری سلسلہ بھی کہیں نہ کہیں نہیں بلکہ اِس مقام پر رک جانا چاہئے کیونکہ اگر انصاف نہیں ہوگا‘ اگر حقوق ادا نہیں ہوں گے تو ’اِطمینان عام نہیں ہو پائے گا‘ اور سبھی جانتے ہیں کہ ’’اقتدار کو بدعنوان طرز حکمرانی سے تو قائم رکھا جاسکتا ہے‘ لیکن یہ سلسلہ ظلم و ناانصافی سے جاری نہیں رکھا سکتا!‘‘
![]() |
Justice system for tribal areas need to be equal like the ones in settled areas of Pakistan |
No comments:
Post a Comment