ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
موسمی تبدیلیاں اُور زراعت
موسمی تبدیلیاں اُور زراعت
بارش ’باران رحمت‘ کہلاتی ہے‘ اگر اِس کا ضبط برقرار رہے کیونکہ آسمان سے
برسنے والے ہر قطرے کا تعلق کسی نہ کسی صورت زرعی شعبے سے ہوتا ہے‘ جہاں
موسمی تبدیلیوں کے منفی اثرات پیداوار میں کمی کی صورت ظاہر ہو رہے ہیں اور
اگر اِن تغیرات کو نہ سمجھا گیا اور ان حالات سے نمٹنے کے لئے خاطرخواہ
اقدامات نہ کئے گئے تو اندیشہ ہے کہ فی ایکڑ پیداوار میں کمی کے ساتھ
کاشتکاروں کے خسارے میں اضافہ ہوگا‘ جو پہلے ہی کسی فصل کے پیداواری
اخراجات میں آئے روز اضافے سے پریشان ہیں۔
غذائی خودکفالت جیسے ہدف کا حصول موسمیاتی تبدیلیوں کو سمجھے بناء ممکن نہیں۔ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ موسمیاتی تغیرات کی وجہ سے گذشتہ برس کے مقابلے اِس سال چار ماہ کی بارشوں کے مساوی پانی صرف دوماہ میں آسمان سے برسا ہے! اگر موسم کا مزاج بدل رہا ہے‘ جس کے کئی ایک عوامل ہیں تو ایسا نہیں کہ اِس بارے میں ’غوروفکر‘ نہ کی جائے‘ اُور موسم کی پیشگی صورتحال کا اندازہ نہ لگایا جا سکے بلکہ مسئلہ تو یہ ہے کہ پاکستان میں ماحول کے تحفظ کا ادارہ تو موجود ہے لیکن یہ ذمہ داری معاشرے کے ہر ایک فرد کو منتقل نہیں کی جاسکی اور نہ ہی موسم کے بارے میں علاقائی سطح پر پیشنگوئی کرنے کی ضرورت محسوس کی جاتی ہے۔ ایک محکمۂ موسمیات ہے جو پورے صوبے اور ڈویژنوں کی سطح پر ہونے والے موسم کے بارے میں واجبی اور سطحی معلومات دیتا ہے‘ جسے ٹیلی ویژن چینل اہم خبروں کی بجائے ایک دوسرے کے دیکھا دیکھی نشر کرتے ہیں اور لمحۂ فکریہ ہے کہ نجی اور سرکاری ذرائع ابلاغ کے وسائل ماسوائے موسم کے ہر شعبے سے متعلق زیادہ خبریں ناظرین و سامعین تک پہنچانے کے لئے سرمایہ کاری کرتے ہیں۔ یہی حال تجزیہ نگاروں اور ماہرین کا ہے‘ جن کی اکثریت سیاسی موضوعات پر بناء سانس لئے بولنے کی ماہر ہے اُور اکثر کو تو اِس بات پر ملکہ حاصل ہے کہ وہ بیوقوفی کی بات نہایت ہی سنجیدگی سے کرتے ہیں۔ سیاسی تجزیہ کاری کا جنون صرف ماہرین ہی تک محدود نہیں بلکہ حجام کی دکان سے سبزی فروش تک‘ ہر کوئی اپنی سیاسی بصیرت کا اظہار کرنے میں جس جوش وجذبے کا مظاہرہ کرتا ہے‘اُس سے اتفاق کئے بناء تعلق میں وہ گہرائی پیدا نہیں ہوتی‘ جس کی بناء پر صارف رعایت کا مستحق ٹھہرے۔
ہمیں اپنے گردوپیش موسم کو سمجھنا ہے۔ حال ہی میں ماحولیات اور جنگلی حیات کے تحفظ کے لئے کام کرنے والی عالمی تنظیم ’ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ (ڈبلیو ڈبلیو ایف)‘ کی پاکستان شاخ نے ایک تجزیاتی رپورٹ جاری کی‘ جس کا عنوان ’’موسمی تبدیلیاں اُور ماحول سے تصرف‘‘ تھا اُور اس میں دریائے سندھ و اِس سے ملحقہ علاقوں میں زراعت و کاشتکاری سے متعلق عوامل کا جائزہ لیتے ہوئے تین بنیادی فصلوں گندم‘ کپاس اور چاول کی پیداوار پر تحقیق کی گئی جس کا نچوڑ پیش کرتے ہوئے کہا گیا کہ آئندہ پچیس برس میں اِن تینوں فصلوں کی پیداوار میں 8 سے 10فیصد کمی آئے گی اگر ہمارے چھوٹے بڑے کاشتکاروں اُور زمینداروں نے موسمیاتی تبدیلیوں کے تیزی سے رونما ہونے والے اثرات کو محسوس نہ کیا اُور ان سے نمٹنے کے لئے روائتی زرعی طور طریقوں میں تبدیلی نہ لائے۔ تحقیق میں اِس بات پر بہت زور دیا گیا کہ حکومت موسم پر نظر رکھنے کے لئے زیادہ وسیع پیمانے اور باریک بینی پر مبنی تجزئیات جاری کرنے کی اپنی ذمہ داری پوری کرے کیونکہ موسم کے بارے میں جاننے کے حوالے سے کاشتکاروں کا کلی طورپر انحصار حکومتی وسائل پر ہے اور اگر حکومت رہنمائی نہیں کرے گی تو فصلوں کی پیداوار نہ تو بڑھائی جاسکتی ہے اور نہ ہی فصلوں کو موسم کے منفی تغیرات سے بچایا جاسکتا ہے۔ موبائل فون‘ جی پی ایس‘ جی پی آر ایس اُور انٹرنیٹ کے وسائل (ٹیکنالوجی) سے کاشتکاروں کو روشناس کرانے کی ذمہ داری بھی حکومت ہی کی ہے‘ جو مواصلات کے شعبے میں ہونے والی ترقی سے خاطرخواہ فائدہ اٹھانے کے لئے اقدامات تجویز نہیں کر رہی۔ ہم آج بھی ٹریکٹر کے لئے قرض دینے کی پالیسی میں پھنسے ہوئے ہیں جبکہ زمینوں کو ہموار کرنے‘ مٹی کے فوری کیمیائی تجزیئے‘ پانی کے معیار کی جانچ اور مقدار وغیرہ معلوم کرنے کے لئے ٹیکنالوجی ہماری بہت مدد کر سکتی ہے۔ یاد رہے کہ آٹھ سے دس فیصد پیداوار میں کمی کا مطلب گندم‘ کپاس اور چاول کے کاشتکاروں کو فی ایکڑ کم وبیش 30 ہزار روپے کا نقصان ہوگا۔ اِس قدر نقصان سے بچنے کے لئے ’ڈبلیو ڈبلیو ایف‘ نے پانچ اقدامات الگ سے تجویز کئے ہیں جن میں فصل کاشت کرنے کے روائتی اوقات اور طریقۂ کار میں تبدیلی‘ زیادہ قوت مدافعت رکھنے والے بیج کا استعمال‘ مٹی کی زرخیزی بڑھانے کے اقدامات‘ آبپاشی کے جدید طریقوں سے استفادہ جس سے پانی کی بچت اور مٹی کی زرخیزی جیسے اہداف کا بیک وقت حصول ممکن ہو۔
پاکستان میں کاشتکاروں کی صرف پچاس فیصد تعداد ہی ایسی بتائی جاتی ہے جو موسمی اثرات کے بارے میں سنجیدگی سے جاننے کی لگن رکھتے ہیں یا اُن کی رسائی معلومات کے قابل بھروسہ وسائل تک ہے‘ باقی ماندہ کاشتکاروں کہ جن کی اکثریت چھوٹے پیمانے پر زراعت کرنے والوں کی ہے‘ کے لئے موسموں کے بارے آگاہی سے متعلق نہ تو وسائل موجود ہیں اُور نہ ہی اِس سلسلے میں متعلقہ محکمے خاطرخواہ رہنمائی کا حق اَدا کر رہے ہیں۔
موسمی تغیرات عالمی سطح پر رونما ہونے والا عمل ہے جس کے منفی اثرات سے پاکستان محفوظ نہیں۔ ہمارے ہاں اِس مرتبہ سردی کا موسم اور بارشیں مختلف اطوار کا مظاہرہ کر رہی ہیں۔ تین ماہ کے خشک موسم اُور مارچ کے دوسرے ہفتے تک اوسط درجہ حرارت گیارہ سے پندرہ درجے سنٹی گریڈ تک رہنے کے بعد اچانک پچیس ڈگری کو چھونے لگا‘ جو کسی بھی طور معمولی ردوبدل نہیں۔ بارشوں کا موجودہ سلسلہ بالخصوص بارانی علاقوں کی زراعت کے لئے اچھا ہے لیکن اگر چار ماہ کے مساوی بارش‘ تین ماہ میں برس کر پورے نظام کو تہہ و بالا کر دیتی ہے تو اِس سے زرعی شعبے کے متاثر ہونے کو صرف ایک ہی صورت محفوظ رکھا جاسکتا ہے کہ ہم دعاؤں کے ساتھ موسمی تغیرات کو سمجھیں۔ موسم کو اہمیت دیں۔ علاقائی سطح پر موسمی پیشنگوئیاں کاشتکاروں تک پہنچائیں۔ سیٹلائٹ و انٹرنیٹ ٹیکنالوجی سے استفادہ کریں۔ تیزی سے تبدیل ہونے والے موسموں کا مقابلہ کرنے والا بیج تیار کریں۔ آبپاشی کے طریقۂ کارکی اصلاح اور پانی کے دستیاب وسائل کا دانشمندی سے استعمال کریں۔ اگر ہم سستی پن بجلی کی پیداوار حاصل کرنے کے لئے پانی کے بڑے ذخیرے (ڈیم) تعمیر نہیں کرسکتے تو آبپاشی کے مقاصد کے لئے پانی کے چھوٹے بڑے ذخیرے تو بنائے جا سکتے ہیں۔ موسمی تبدیلیوں کی وجہ سے ’آئندہ ماہ و سال‘ زیادہ بڑے چیلنجز لاسکتے ہیں‘ جن سے نمٹنے کے لئے خالق کائنات کی رحمت و کرم پر بھروسے کے ساتھ موافق عمل اختیار کرنے اُور بناء مزید تاخیر تیاری کرنا ہوگی۔
غذائی خودکفالت جیسے ہدف کا حصول موسمیاتی تبدیلیوں کو سمجھے بناء ممکن نہیں۔ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ موسمیاتی تغیرات کی وجہ سے گذشتہ برس کے مقابلے اِس سال چار ماہ کی بارشوں کے مساوی پانی صرف دوماہ میں آسمان سے برسا ہے! اگر موسم کا مزاج بدل رہا ہے‘ جس کے کئی ایک عوامل ہیں تو ایسا نہیں کہ اِس بارے میں ’غوروفکر‘ نہ کی جائے‘ اُور موسم کی پیشگی صورتحال کا اندازہ نہ لگایا جا سکے بلکہ مسئلہ تو یہ ہے کہ پاکستان میں ماحول کے تحفظ کا ادارہ تو موجود ہے لیکن یہ ذمہ داری معاشرے کے ہر ایک فرد کو منتقل نہیں کی جاسکی اور نہ ہی موسم کے بارے میں علاقائی سطح پر پیشنگوئی کرنے کی ضرورت محسوس کی جاتی ہے۔ ایک محکمۂ موسمیات ہے جو پورے صوبے اور ڈویژنوں کی سطح پر ہونے والے موسم کے بارے میں واجبی اور سطحی معلومات دیتا ہے‘ جسے ٹیلی ویژن چینل اہم خبروں کی بجائے ایک دوسرے کے دیکھا دیکھی نشر کرتے ہیں اور لمحۂ فکریہ ہے کہ نجی اور سرکاری ذرائع ابلاغ کے وسائل ماسوائے موسم کے ہر شعبے سے متعلق زیادہ خبریں ناظرین و سامعین تک پہنچانے کے لئے سرمایہ کاری کرتے ہیں۔ یہی حال تجزیہ نگاروں اور ماہرین کا ہے‘ جن کی اکثریت سیاسی موضوعات پر بناء سانس لئے بولنے کی ماہر ہے اُور اکثر کو تو اِس بات پر ملکہ حاصل ہے کہ وہ بیوقوفی کی بات نہایت ہی سنجیدگی سے کرتے ہیں۔ سیاسی تجزیہ کاری کا جنون صرف ماہرین ہی تک محدود نہیں بلکہ حجام کی دکان سے سبزی فروش تک‘ ہر کوئی اپنی سیاسی بصیرت کا اظہار کرنے میں جس جوش وجذبے کا مظاہرہ کرتا ہے‘اُس سے اتفاق کئے بناء تعلق میں وہ گہرائی پیدا نہیں ہوتی‘ جس کی بناء پر صارف رعایت کا مستحق ٹھہرے۔
ہمیں اپنے گردوپیش موسم کو سمجھنا ہے۔ حال ہی میں ماحولیات اور جنگلی حیات کے تحفظ کے لئے کام کرنے والی عالمی تنظیم ’ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ (ڈبلیو ڈبلیو ایف)‘ کی پاکستان شاخ نے ایک تجزیاتی رپورٹ جاری کی‘ جس کا عنوان ’’موسمی تبدیلیاں اُور ماحول سے تصرف‘‘ تھا اُور اس میں دریائے سندھ و اِس سے ملحقہ علاقوں میں زراعت و کاشتکاری سے متعلق عوامل کا جائزہ لیتے ہوئے تین بنیادی فصلوں گندم‘ کپاس اور چاول کی پیداوار پر تحقیق کی گئی جس کا نچوڑ پیش کرتے ہوئے کہا گیا کہ آئندہ پچیس برس میں اِن تینوں فصلوں کی پیداوار میں 8 سے 10فیصد کمی آئے گی اگر ہمارے چھوٹے بڑے کاشتکاروں اُور زمینداروں نے موسمیاتی تبدیلیوں کے تیزی سے رونما ہونے والے اثرات کو محسوس نہ کیا اُور ان سے نمٹنے کے لئے روائتی زرعی طور طریقوں میں تبدیلی نہ لائے۔ تحقیق میں اِس بات پر بہت زور دیا گیا کہ حکومت موسم پر نظر رکھنے کے لئے زیادہ وسیع پیمانے اور باریک بینی پر مبنی تجزئیات جاری کرنے کی اپنی ذمہ داری پوری کرے کیونکہ موسم کے بارے میں جاننے کے حوالے سے کاشتکاروں کا کلی طورپر انحصار حکومتی وسائل پر ہے اور اگر حکومت رہنمائی نہیں کرے گی تو فصلوں کی پیداوار نہ تو بڑھائی جاسکتی ہے اور نہ ہی فصلوں کو موسم کے منفی تغیرات سے بچایا جاسکتا ہے۔ موبائل فون‘ جی پی ایس‘ جی پی آر ایس اُور انٹرنیٹ کے وسائل (ٹیکنالوجی) سے کاشتکاروں کو روشناس کرانے کی ذمہ داری بھی حکومت ہی کی ہے‘ جو مواصلات کے شعبے میں ہونے والی ترقی سے خاطرخواہ فائدہ اٹھانے کے لئے اقدامات تجویز نہیں کر رہی۔ ہم آج بھی ٹریکٹر کے لئے قرض دینے کی پالیسی میں پھنسے ہوئے ہیں جبکہ زمینوں کو ہموار کرنے‘ مٹی کے فوری کیمیائی تجزیئے‘ پانی کے معیار کی جانچ اور مقدار وغیرہ معلوم کرنے کے لئے ٹیکنالوجی ہماری بہت مدد کر سکتی ہے۔ یاد رہے کہ آٹھ سے دس فیصد پیداوار میں کمی کا مطلب گندم‘ کپاس اور چاول کے کاشتکاروں کو فی ایکڑ کم وبیش 30 ہزار روپے کا نقصان ہوگا۔ اِس قدر نقصان سے بچنے کے لئے ’ڈبلیو ڈبلیو ایف‘ نے پانچ اقدامات الگ سے تجویز کئے ہیں جن میں فصل کاشت کرنے کے روائتی اوقات اور طریقۂ کار میں تبدیلی‘ زیادہ قوت مدافعت رکھنے والے بیج کا استعمال‘ مٹی کی زرخیزی بڑھانے کے اقدامات‘ آبپاشی کے جدید طریقوں سے استفادہ جس سے پانی کی بچت اور مٹی کی زرخیزی جیسے اہداف کا بیک وقت حصول ممکن ہو۔
پاکستان میں کاشتکاروں کی صرف پچاس فیصد تعداد ہی ایسی بتائی جاتی ہے جو موسمی اثرات کے بارے میں سنجیدگی سے جاننے کی لگن رکھتے ہیں یا اُن کی رسائی معلومات کے قابل بھروسہ وسائل تک ہے‘ باقی ماندہ کاشتکاروں کہ جن کی اکثریت چھوٹے پیمانے پر زراعت کرنے والوں کی ہے‘ کے لئے موسموں کے بارے آگاہی سے متعلق نہ تو وسائل موجود ہیں اُور نہ ہی اِس سلسلے میں متعلقہ محکمے خاطرخواہ رہنمائی کا حق اَدا کر رہے ہیں۔
موسمی تغیرات عالمی سطح پر رونما ہونے والا عمل ہے جس کے منفی اثرات سے پاکستان محفوظ نہیں۔ ہمارے ہاں اِس مرتبہ سردی کا موسم اور بارشیں مختلف اطوار کا مظاہرہ کر رہی ہیں۔ تین ماہ کے خشک موسم اُور مارچ کے دوسرے ہفتے تک اوسط درجہ حرارت گیارہ سے پندرہ درجے سنٹی گریڈ تک رہنے کے بعد اچانک پچیس ڈگری کو چھونے لگا‘ جو کسی بھی طور معمولی ردوبدل نہیں۔ بارشوں کا موجودہ سلسلہ بالخصوص بارانی علاقوں کی زراعت کے لئے اچھا ہے لیکن اگر چار ماہ کے مساوی بارش‘ تین ماہ میں برس کر پورے نظام کو تہہ و بالا کر دیتی ہے تو اِس سے زرعی شعبے کے متاثر ہونے کو صرف ایک ہی صورت محفوظ رکھا جاسکتا ہے کہ ہم دعاؤں کے ساتھ موسمی تغیرات کو سمجھیں۔ موسم کو اہمیت دیں۔ علاقائی سطح پر موسمی پیشنگوئیاں کاشتکاروں تک پہنچائیں۔ سیٹلائٹ و انٹرنیٹ ٹیکنالوجی سے استفادہ کریں۔ تیزی سے تبدیل ہونے والے موسموں کا مقابلہ کرنے والا بیج تیار کریں۔ آبپاشی کے طریقۂ کارکی اصلاح اور پانی کے دستیاب وسائل کا دانشمندی سے استعمال کریں۔ اگر ہم سستی پن بجلی کی پیداوار حاصل کرنے کے لئے پانی کے بڑے ذخیرے (ڈیم) تعمیر نہیں کرسکتے تو آبپاشی کے مقاصد کے لئے پانی کے چھوٹے بڑے ذخیرے تو بنائے جا سکتے ہیں۔ موسمی تبدیلیوں کی وجہ سے ’آئندہ ماہ و سال‘ زیادہ بڑے چیلنجز لاسکتے ہیں‘ جن سے نمٹنے کے لئے خالق کائنات کی رحمت و کرم پر بھروسے کے ساتھ موافق عمل اختیار کرنے اُور بناء مزید تاخیر تیاری کرنا ہوگی۔
![]() |
Climate change impact on Pakistan's agriculture sector, need to be compensated |
No comments:
Post a Comment