Thursday, April 2, 2015

Apr2015: Iranian nuclear objectives

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
کرۂ ارض کی تقدیر
بُری خبر یہ ہے کہ ۔۔۔ ’’جمہوری اسلامی ایران کا ’جوہری پروگرام‘ اُن عالمی قوتوں کی آنکھوں میں کھٹک رہا ہے جو مستقبل میں پوری دنیا پر اپنا تسلط قائم کرنے کا خواب دیکھ رہے ہیں‘ اور یہی سبب ہے کہ امریکہ کی سیاسی و دفاعی قیادت اپنے اور اپنے اتحادیوں کے مفادات کی محافظ بن کر اُس مذاکراتی میز پر آ بیٹھی ہے جہاں ایران پر عائد عالمی اقتصادی پابندیاں دور کرنے کے لئے ’کچھ لو اور کچھ دو‘ کے اصول پر بات چیت جاری ہے۔ یہ بات چیت یکم اپریل تک ختم ہونا طے تھی اور اس سلسلے میں ہوئی پیشرفت کو سبھی فریقین اہم قرار دے رہے تھے لیکن مقررہ تاریخ اور وقت ختم ہونے کے بعد بھی مذاکرات کسی حتمی نتیجے پر نہیں پہنچے ہیں اور یہی ’بُری خبر‘ ہے لیکن ایک ’اچھی خبر‘ بھی ہے کہ ’’مذاکرات کا سلسلہ ابھی ختم نہیں ہوا۔‘‘

ایک طرف ایران ہے‘ جس کے جوہری عزائم کو شک کی نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے اور دوسری طرف جدید ترین ہتھیار اور ٹیکنالوجی رکھنے والے ممالک ہیں جن کے پاس مالی و دفاعی وسائل کی کمی نہیں لیکن وہ ہر قیمت پر ’ایران‘ میں ہونے والی جوہری تحیق و ترقی مخالف ہیں۔ فی الوقت جاری مذاکرات کے حوالے سے اگر یہ کہا جائے کہ آدھا گلاس بھرا ہوا ہے یا یہ کہا جائے کہ آدھا گلاس خالی ہے لیکن اِن دونوں صورتوں کا نتیجہ یہی نکلے گا کہ پیچیدہ مسائل چٹکی بجاتے ہوئے حل نہیں ہوتے بالخصوص ایسے مسائل جن کے پیچھے تعصب کی سوچ کارفرما ہو۔ یہ بات راز نہیں رہی کہ امریکہ اور اُس کے اتحادی ممالک انسانی حقوق سمیت ہر مسئلے پر دو قسم کا نکتۂ نظر رکھتے ہیں ایک وہ جس کا استعمال کرکے وہ کسی بھی ملک کو اپنا حکم ماننے پر مجبور کر سکیں اور دوسرا جس کا تعلق اُن کے تسلط کو برقرار رکھنے کے لئے ہو۔ ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان مذاکرات کی حقیقی حتمی تاریخ رواں برس 30 جون مقرر ہے‘ جس سے قبل اگر مرحلہ وار پیش رفت نہیں ہوتی اور ایران کے جوہری عزائم کے بارے عالمی طاقتیں مطمئن نہیں ہوتیں تو اس سے بڑے خوفناک نتائج تیسری عالمی جنگ کی صورت ظاہر ہوسکتے ہیں جن کی طرف روس کے سربراہ پہلے ہی اشارہ کر چکے ہیں۔

ایران کے نکتۂ نظر سے سوئٹزرلینڈ کے شہر لوزان میں وزرائے خارجہ سطح کے مذاکرات کا ’’دوسرا دور‘‘ شروع ہو گیا ہے‘ جس میں ایران و امریکہ کے نائب وزرائے خارجہ سطح کے مذاکرات کار حصہ لے رہے ہیں۔ اس سے قبل ایران کے وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے کہا تھا کہ ’’پانچ جمع ایک گروپ‘ سیاسی عزم ارادے کے اعتبار سے ہمیشہ شک و تردید کا شکار رہا ہے۔ مذاکرات میں پیشرفت کا انحصار سیاسی عزم پر ہوتا ہے اور ایران کے مد مقابل قیادت کا سیاسی عزم ہمیشہ لڑ کھڑاتا رہا ہے۔ لوزان میں مذاکراتی ٹیم کے ساتھ چہل قدمی کرتے ہوئے دو اختلافی مسائل کے حل کے بارے میں کئے گئے سوال کا جواب دیتے ہوئے اُنہوں نے کہا کہ چونکہ بڑی تفصیل کے ساتھ مذاکرت ہورہے ہیں لہٰذا حساس اور کٹھن مراحل درپیش ہیں۔ تاہم امید کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہئے کہ ابھی گفتگو جاری ہے اور ایک ہی وقت میں کئی وفود کے مابین مذاکرات ہو رہے ہیں جن کے نظریات اور رجحانات مختلف ہیں۔ اسی وجہ سے مذاکرات میں پیچیدگی دیکھنے میں ارہی ہے۔ یہ پیجیدگیاں‘ ایران اور پانج جمع ایک گروپ کے مابین اور خود پانچ جمع ایک گروپ کے مابین بھی دیکھی جاسکتی ہیں۔ ‘‘

ایران کے ساتھ مذاکرات کی راہ میں حائل سب سے بڑی رکاوٹ ’اِسرائیل‘ ہے جو اپنی سفارتکاری کے ذریعے مذاکرات کے عمل ہی کا مخالف ہے اور چاہتا ہے کہ ایران پر عالمی دباؤ سمیت اقتصادی پابندیوں میں مزید اضافہ کیا جائے۔ اِس سلسلے میں امریکہ کی سیاسی و عسکری قیادت کی فہم وفراست کی داد دینا پڑتی ہے‘ جنہوں نے سمجھ لیا ہے اور ایران کو جوہری حق اور اِس شعبے میں تحقیق سے روکا تو نہیں جاسکتا لیکن اُس کے ساتھ تعاون کرتے ہوئے جوہری ہتھیاروں کی تیاری ضرور روکی جا سکتی ہے اور اس سلسلے خطے کی دو طاقتیں روس و چین بھی یہی چاہتے ہیں کہ کسی ایسے ٹکراؤ سے بچا جائے‘ جس کا تاثر پہلے سے ترقی پذیر مسلم ممالک اپنے خلاف حملے کی صورت لیں۔

سردست چند سوالات اہم ہیں۔ 1: اِیران سے دنیا کیا چاہتی ہے؟ جوہری صلاحیت کا استعمال کرتے ہوئے ہتھیار نہ بنائے جائیں۔ 2: ایران دنیا سے کیا چاہتا ہے؟ اقتصادی پابندیاں ہٹائی جائیں۔ پرامن مقاصد کے لئے ’پرامن جوہری پروگرام‘ بالخصوص توانائی کے شعبے میں تحقیق کو آگے بڑھانے کی اجازت دی جائے۔3: مذاکرات کی کوئی مدت بھی مقرر ہے؟ سالہا سال کی کوششوں کے بعد جب مذاکرات ہوئے تو اُن کی آخری تاریخ 31 مارچ طے کی گئی تھی لیکن امریکہ کے بقول وہ جلدبازی میں کسی غلط نتیجے تک نہیں پہنچنا چاہتا۔ 4: اگر معاہدہ ہو جاتا ہے تو اس سے کیا حاصل ہوگا؟ مذاکرات ایک نئے دور میں داخل ہو جائیں گے‘ جس میں رواں برس جون کے آخر تک ایران کو اپنے پرامن جوہری پروگرام کے ہر ایک حصے سے متعلق امریکہ کو رسائی دینا ہوگی۔5: دنیا مذاکرات کو کس نظر سے دیکھ رہی ہے؟ اسرائیل اور سعودی عرب نہیں چاہتے کہ ایران پر عائد اقتصادی پابندیاں ختم کی جائیں جبکہ ایران میں سخت گیر مؤقف رکھنے والے بھی امریکہ کے آگے جھکنے اور اپنے جوہری پروگرام سے دستبردار ہونے کے مخالف ہیں۔ 6: اگر معاہدہ نہ ہوا تو کیا ہوگا؟ امریکہ اور اسرائیل کی عسکری قیادت اِس سلسلے میں پہلے ہی لائحہ عمل طے کر چکے ہیں کہ کس طرح ایران کی جوہری تنصیبات کو فضائی حملوں کے ذریعے تباہ کیا جائے گا لیکن اگر ایسا ہوتا ہے تو اس سے عالمی جنگ شروع ہو سکتی ہے۔ 7: پرامن کہلانے والا ایران کا جوہری پروگرام کیا ہے؟ امریکہ کے تکنیکی تعاون سے ایران کا جوہری پروگرام سال 1957ء میں شروع ہوا۔ سال 1970ء کے دوران ایران کے جوہری پروگرام کی تکمیل اور خدوخال واضح ہونا شروع ہوئے لیکن 1979ء میں ایران میں ’اسلامی انقلاب (الفجر)‘ کے برپا ہونے کے بعد امریکہ نے اِس پروگرام کو آگے بڑھانے سے ہاتھ کھینچ لیا۔ 8: کیا ایران واحد ملک ہے جو جوہری شعبے میں تحقیق کو آگے بڑھانا چاہتا ہے؟ دنیا کے آٹھ ممالک کے پاس جوہری صلاحیت ہے۔ جرمنی اور اسرائیل اگرچہ اس بات کی تردید کرتے ہیں کہ اُن کے پاس جوہری صلاحیت موجود ہے لیکن یہ بات راز نہیں کہ اِن دونوں ممالک کے پاس جوہری ہتھیار ہیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق دنیا میں 80 ایٹم بم موجود ہیں۔ 9: دنیا ایران کے جوہری پروگرام سے خطرہ کیوں محسوس کررہی ہے؟ سال 1979ء کے اسلامی انقلاب کی طاقت اور تاثیر سے انکار ممکن نہیں۔ اگر ایران جوہری ہتھیار حاصل کر لیتا ہے تو نہ صرف اُس کا دفاع ناقابل تسخیر ہو جائے گا بلکہ اُس خواب کی تعبیر بھی عملاً ممکن ہو جائے گی جو شاعر مشرق ڈاکٹر علامہ محمد اقبال نے دیکھا تھا۔ ’’تہران گر ہو مشرق وسطیٰ کا جنیوا۔۔۔ شاید کہ کرۂ اَرض کی تقدیر بدل جائے!‘‘

No comments:

Post a Comment