Honeymooning with the IMF
مالی امداد کی محتاجی
مالی امداد کی محتاجی
پاکستان میں اقتصادی شرح نمو کم ہونے کی وجہ سے جہاں بے روزگاری کی شرح
بلند ترین سطح کو چھو رہی ہے وہیں غربت و افلاس میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔
مالی وسائل کم ہونے کی وجہ سے حکومت صحت و تعلیم کے شعبوں کی ترقی کے لئے
خاطرخواہ مالی وسائل مختص نہیں کر پارہی۔ غیرملکی سرمایہ سے انکار ہو رہا
ہے۔ ماسوائے چند بڑے منصوبوں کے ترقیاتی اخراجات کم ہیں۔ بیرونی قرضہ جات
کا حجم اور تجارتی خسارہ بڑھ رہا ہے۔ اقتصادیات کی مجموعی صورتحال مثالی نہ
ہونے کی وجہ سے کئی ایک خرابیاں پیدا ہوئی ہیں‘ جنہیں سمجھنے کے لئے آپ کو
ماہراقتصادیات ہونے کی ضرورت بھی نہیں لیکن وزارت خزانہ اور اسٹیٹ بینک آف
پاکستان کے بیانات پڑھ کر حیرت ہوتی ہے جو مسلسل اِس بات کا اعلان کر رہے
ہیں کہ اقتصادی صورتحال بہتر ہو رہی ہے۔ اِس سلسلے میں جن چار شعبوں میں
بہتری کی بات پورے وثوق و دعوے سے کہی جاتی ہے اُن میں پہلا شعبہ غیرملکی
کرنسی کے ذخائر ہیں جن کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ پاکستان مسلم لیگ
(نواز) کی حکومت آنے کے بعد اِن میں غیرمعمولی اضافہ ہوا ہے۔ دوسرا شعبہ
حکومت کے اخراجات اور آمدن میں خسارے کو کم کیا گیا ہے۔ تیسرا شعبہ بجٹ کے
خسارے سے متعلق ہے جس میں کمی لانے کا دعویٰ کیا جاتا ہے اور چوتھا افراط
زر میں کمی کی بات کہی جاتی ہے۔ دانستہ اور غیرپیشہ ورانہ طور پر وزارت
خزانہ اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان اِن شعبوں میں بہتری کی جو بات کرتے ہیں‘
اُس سے اِن کی غیرسنجیدگی بھی عیاں ہوتی ہے۔ جیسا کہ قبل ازیں بھی متعدد
مرتبہ اپنی تحریروں کے ذریعے میں کہہ چکا ہوں کہ اِن چاروں شعبوں میں ترقی
کے جو دعوے کئے جاتے ہیں درحقیقت وہ اعدادوشمار سے کھیلنے کے مترادف ہے اور
یہ اعدادوشمار ہی کو گول مول کر کے پیش کرنے کا نتیجہ ہیں لیکن اگر میں یہ
تسلیم بھی کر لوں کہ حکومت جیسا کہہ رہی ہے ویسی ہی اقتصادی ترقی ہو رہی
ہے تو اقتصادی بہتری کے اعشاریئے اور ان کے نتائج سب کے سامنے عیاں ہونے
چاہیں۔
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان مسلم لیگ نواز کی حکومت نے جب سے اقتدار سنبھالا ہے اقتصادی بہتری آئی ہے۔ ہمارے پاس غیرملکی کرنسی کے جو ذخائر ہوا کرتے تھے ان میں اضافہ ہوا ہے لیکن یہ سب عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) سے مالی امداد حاصل کرنے کا نتیجہ ہے۔ دوسری جانب اگر دیکھا جائے تو ’آئی ایم ایف‘ کی اپنی ترجیحات اور مفادات ہوتے ہیں جب وہ کسی ملک کو قرض دے رہے ہوتے ہیں تو وہ اصلاحات کے ساتھ مشروط ہوتا ہے جس سے ہمارا انحصار غیرملکی اداروں پر بڑھتا چلا جاتا ہے۔ اگر کسی خاندان کو کوئی فرد قرض لیکر اُسے بینک اکاونٹ میں جمع کرانا شروع کردے اور پھر اُس بینک اکاونٹ کو یہ کہہ کر ظاہر کرے کہ یہ اُس کی بچت ہے تو کوئی بھی معقول شخص یہ ماننے کے لئے تیار نہیں ہوگا کیونکہ اُس نے بچت کے نام پر جو سرمایہ اپنے ذاتی بینک اکاونٹ میں جمع کیا ہوتا ہے وہ درحقیقت اُس پر عائد ذمہ داری ہوتی ہے جسے اُس نے بہرصورت بلکہ اصل حاصل کردہ رقم سے زیادہ واپس کرنا ہوتا ہے تو بچت کا یہ کونسا ڈھب اور طریقہ ہے‘ جس میں مالی وسائل کا حجم ذمہ داری کی صورت واپس بھی کرنا ہو اور پھر واپس کرتے ہوئے بمعہ سود زیادہ بھی دینا پڑے! یقیناًہمیں خود اور بالخصوص پاکستان کے عوام کو دھوکہ نہیں دینا چاہئے۔ ہمارے وزیرخزانہ اقتصادی امور کے ماہر ہیں اور اُن کی اِس مہارت پر شک بھی نہیں کیا جارہا لیکن عرض ہے کہ مالی وسائل کی بجائے اگر وہ اُس میزانئے پر نگاہ ڈالیں جو پاکستان کے ذمے قرضہ جات اور مالی ادائیگیوں کی ذمہ داریوں سے متعلق ہے تو یہ زیادہ حقیقت پسندی سے کام لینے جیسا اقدام ہوگا۔ جن چار شعبوں میں حکومت بہتری کے دعوے کر رہی ہے‘ اُن میں سے ہر ایک دیگر شعبوں کی طرح شدید دباؤ میں ہے‘ جسے عارضی سکون دینے کے لئے ہمیں وقتاً فوقتاً بھاری اور مہنگی شرائط پر قرضہ جات حاصل کرنا پڑتے ہیں۔
ہماری توجہ بجٹ کا خسارہ کم کرنے پر ہونی چاہئے۔ ہمیں اپنے غیرترقیاتی غیر ضروری اخراجات جنہیں شاہانہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا‘ ختم کرنا ہوں گے۔ ہمیں اپنی زرعی معیشت پر انحصار کرنا ہوگا۔ تجارت کا خسارہ کم کرنے کے لئے ملکی پیداوار بڑھانی ہوگی۔ ٹیکس وصول کرنے کی شرح بڑھانی ہوگی وہ ملک بھلا کیسے ترقی کر سکتا ہے جس کی مجموعی قومی آمدنی میں محصولات سے حاصل ہونے مالی وسائل صرف 10فیصد ہوں۔ ہمیں اُن پاکستانیوں کا بھی شکرگزار ہونا چاہئے جن کے دم کرم سے پاکستان کی اقتصادی صورتحال کا کچھ نہ کچھ بھرم باقی ہے اور وہ بیرون ملک محنت مشقت سے جو زرمبادلہ بھیجتے ہیں اُس سے حکومت کو کافی سہارا ہے۔
عالمی سطح پر اشیاء کی قیمتیں کم ہونے کا اثر پاکستان میں بھی مہنگائی (افراط زر) کم ہونے کی صورت ظاہر ہوا ہے لہٰذا حکومت اِس کا کریڈٹ (اعزاز اپنے نام) لینے کی بجائے حقیقت پسندی سے کام لے کیونکہ خام تیل کی قیمتوں میں کمی عارضی بھی ہو سکتی ہے اور اس میں اتاڑ چڑھاؤ آتا رہتا ہے۔ ہمیں ایک ایسی ترقیاتی حکمت عملی چاہئے جس میں برآمدات پر زیادہ سے زیادہ انحصار ہو۔
عالمی مالیاتی ادارے سمیت جتنے ادارے بھی مالی امداد دیتے ہیں اُن کی شرائط مغربی ممالک کے مفادات کا تحفظ کرتی ہیں۔ ہمیں یہ حقیقت فراموش نہیں کرنی ہوگی کہ بیرونی قرضہ جات کے ذریعے معیشت کی فوری بہتری وقتی تدبیر تو ہو سکتی ہے لیکن یہ نہ تو پائیدار حل ہے اور نہ ہی مستقبل میں آبادی کے زیادہ بڑے حصے کی ضروریات موجودہ طرز عمل یا سوچ سے تبدیل کیا جاسکے گا۔ اقتصادی اہداف اور ترقی کے لئے آج کی ضروریات کے ساتھ مستبقل پر بھی نظررکھنا ہوگی۔ وہ سبھی لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ’آئی ایم ایف‘ پاکستان کو اقتصادی مشکلات سے نکالنے کے لئے مالی مدد فراہم کر رہا ہے وہ درحقیقت احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں۔ جب عالمی سطح پر سیاسی حالات تبدیل ہوں گے تو ’آئی ایم ایف‘ بھی آنکھیں بدل لے گا اور وہ سیاسی حکومت کی پالیسیوں پر تنقید شروع کردے گا۔ عالمی سطح پر سیاسی حالات کچھ ایسی سمت جارہے ہیں جہاں امریکہ اور مغربی ممالک کو پاکستان کے تعاون کی ضرورت ہے اور اس تعاون کو حاصل کرنے کے لئے وہ پاکستان کے عوام کو مقروض بنا کر حکمرانوں کو اقتصادی تفکرات سے کچھ دیر کے لئے راحت کا احساس دلا رہے ہیں‘ یاد رکھے جو کچھ مصنوعی ہو‘ اُس کا مصنوعی پن اور غیرپائیداری کہیں نہ کہیں اور کبھی نہ کبھی ضرور عیاں ہوتی ہے۔
(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر محمد یعقوب۔ تلخیص و ترجمہ: شبیر حسین اِمام)
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان مسلم لیگ نواز کی حکومت نے جب سے اقتدار سنبھالا ہے اقتصادی بہتری آئی ہے۔ ہمارے پاس غیرملکی کرنسی کے جو ذخائر ہوا کرتے تھے ان میں اضافہ ہوا ہے لیکن یہ سب عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) سے مالی امداد حاصل کرنے کا نتیجہ ہے۔ دوسری جانب اگر دیکھا جائے تو ’آئی ایم ایف‘ کی اپنی ترجیحات اور مفادات ہوتے ہیں جب وہ کسی ملک کو قرض دے رہے ہوتے ہیں تو وہ اصلاحات کے ساتھ مشروط ہوتا ہے جس سے ہمارا انحصار غیرملکی اداروں پر بڑھتا چلا جاتا ہے۔ اگر کسی خاندان کو کوئی فرد قرض لیکر اُسے بینک اکاونٹ میں جمع کرانا شروع کردے اور پھر اُس بینک اکاونٹ کو یہ کہہ کر ظاہر کرے کہ یہ اُس کی بچت ہے تو کوئی بھی معقول شخص یہ ماننے کے لئے تیار نہیں ہوگا کیونکہ اُس نے بچت کے نام پر جو سرمایہ اپنے ذاتی بینک اکاونٹ میں جمع کیا ہوتا ہے وہ درحقیقت اُس پر عائد ذمہ داری ہوتی ہے جسے اُس نے بہرصورت بلکہ اصل حاصل کردہ رقم سے زیادہ واپس کرنا ہوتا ہے تو بچت کا یہ کونسا ڈھب اور طریقہ ہے‘ جس میں مالی وسائل کا حجم ذمہ داری کی صورت واپس بھی کرنا ہو اور پھر واپس کرتے ہوئے بمعہ سود زیادہ بھی دینا پڑے! یقیناًہمیں خود اور بالخصوص پاکستان کے عوام کو دھوکہ نہیں دینا چاہئے۔ ہمارے وزیرخزانہ اقتصادی امور کے ماہر ہیں اور اُن کی اِس مہارت پر شک بھی نہیں کیا جارہا لیکن عرض ہے کہ مالی وسائل کی بجائے اگر وہ اُس میزانئے پر نگاہ ڈالیں جو پاکستان کے ذمے قرضہ جات اور مالی ادائیگیوں کی ذمہ داریوں سے متعلق ہے تو یہ زیادہ حقیقت پسندی سے کام لینے جیسا اقدام ہوگا۔ جن چار شعبوں میں حکومت بہتری کے دعوے کر رہی ہے‘ اُن میں سے ہر ایک دیگر شعبوں کی طرح شدید دباؤ میں ہے‘ جسے عارضی سکون دینے کے لئے ہمیں وقتاً فوقتاً بھاری اور مہنگی شرائط پر قرضہ جات حاصل کرنا پڑتے ہیں۔
ہماری توجہ بجٹ کا خسارہ کم کرنے پر ہونی چاہئے۔ ہمیں اپنے غیرترقیاتی غیر ضروری اخراجات جنہیں شاہانہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا‘ ختم کرنا ہوں گے۔ ہمیں اپنی زرعی معیشت پر انحصار کرنا ہوگا۔ تجارت کا خسارہ کم کرنے کے لئے ملکی پیداوار بڑھانی ہوگی۔ ٹیکس وصول کرنے کی شرح بڑھانی ہوگی وہ ملک بھلا کیسے ترقی کر سکتا ہے جس کی مجموعی قومی آمدنی میں محصولات سے حاصل ہونے مالی وسائل صرف 10فیصد ہوں۔ ہمیں اُن پاکستانیوں کا بھی شکرگزار ہونا چاہئے جن کے دم کرم سے پاکستان کی اقتصادی صورتحال کا کچھ نہ کچھ بھرم باقی ہے اور وہ بیرون ملک محنت مشقت سے جو زرمبادلہ بھیجتے ہیں اُس سے حکومت کو کافی سہارا ہے۔
عالمی سطح پر اشیاء کی قیمتیں کم ہونے کا اثر پاکستان میں بھی مہنگائی (افراط زر) کم ہونے کی صورت ظاہر ہوا ہے لہٰذا حکومت اِس کا کریڈٹ (اعزاز اپنے نام) لینے کی بجائے حقیقت پسندی سے کام لے کیونکہ خام تیل کی قیمتوں میں کمی عارضی بھی ہو سکتی ہے اور اس میں اتاڑ چڑھاؤ آتا رہتا ہے۔ ہمیں ایک ایسی ترقیاتی حکمت عملی چاہئے جس میں برآمدات پر زیادہ سے زیادہ انحصار ہو۔
عالمی مالیاتی ادارے سمیت جتنے ادارے بھی مالی امداد دیتے ہیں اُن کی شرائط مغربی ممالک کے مفادات کا تحفظ کرتی ہیں۔ ہمیں یہ حقیقت فراموش نہیں کرنی ہوگی کہ بیرونی قرضہ جات کے ذریعے معیشت کی فوری بہتری وقتی تدبیر تو ہو سکتی ہے لیکن یہ نہ تو پائیدار حل ہے اور نہ ہی مستقبل میں آبادی کے زیادہ بڑے حصے کی ضروریات موجودہ طرز عمل یا سوچ سے تبدیل کیا جاسکے گا۔ اقتصادی اہداف اور ترقی کے لئے آج کی ضروریات کے ساتھ مستبقل پر بھی نظررکھنا ہوگی۔ وہ سبھی لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ’آئی ایم ایف‘ پاکستان کو اقتصادی مشکلات سے نکالنے کے لئے مالی مدد فراہم کر رہا ہے وہ درحقیقت احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں۔ جب عالمی سطح پر سیاسی حالات تبدیل ہوں گے تو ’آئی ایم ایف‘ بھی آنکھیں بدل لے گا اور وہ سیاسی حکومت کی پالیسیوں پر تنقید شروع کردے گا۔ عالمی سطح پر سیاسی حالات کچھ ایسی سمت جارہے ہیں جہاں امریکہ اور مغربی ممالک کو پاکستان کے تعاون کی ضرورت ہے اور اس تعاون کو حاصل کرنے کے لئے وہ پاکستان کے عوام کو مقروض بنا کر حکمرانوں کو اقتصادی تفکرات سے کچھ دیر کے لئے راحت کا احساس دلا رہے ہیں‘ یاد رکھے جو کچھ مصنوعی ہو‘ اُس کا مصنوعی پن اور غیرپائیداری کہیں نہ کہیں اور کبھی نہ کبھی ضرور عیاں ہوتی ہے۔
(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر محمد یعقوب۔ تلخیص و ترجمہ: شبیر حسین اِمام)
No comments:
Post a Comment