ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
شمسی توانائی: دانشمندانہ فیصلہ
شمسی توانائی: دانشمندانہ فیصلہ
توانائی کے متبادل ذریعے کے طور پر ’شمسی توانائی‘ سے بہتر کوئی دوسرا حل
ہمارے ہاں دستیاب نہیں لیکن ’شمسی ٹیکنالوجی‘ خریدنے سے اِس بارے اپنی
معلومات میں ضرور اضافہ کرلیں تاکہ حسب ضرورت اور کم مالی وسائل خرچ کرکے
آپ پائیدار نتائج حاصل کرسکیں۔ سورج سے آنے والی روشنی کو توانائی میں
تبدیل کرنے کے لئے پہلی ضرورت ’سولر پینل‘ کی ہوتی ہے اور اِس کی 2 قسمیں
پشاور سمیت خیبرپختونخوا اُور ملک کے دیگر حصوں میں باآسانی دستیاب ہیں۔
وفاقی حکومت نے 9 دسمبر 2014ء سے شمسی توانائی کی مصنوعات پر درآمدی ڈیوٹی
ختم کردی ہے اور ’ٹیکس فری‘ ہونے کی وجہ سے سولر توانائی کا کاروبار
پاکستان میں تیزی اُس طلب کو پورا کررہا ہے‘ جو توانائی کے بحران کے ساتھ
بڑھ رہی ہے۔تجویز ہے کہ حکومت شمسی توانائی حاصل کرنے والی ٹیکنالوجی کے
لئے آسان شرائط پر قرضہ جات کا بھی اعلان کرے تاکہ زراعت و صنعت جیسے شعبوں
میں اِس کا استعمال بڑھ سکے۔ علاؤہ ازیں دیہی علاقوں میں تعلیمی اداروں کو
براہ راست شمسی توانائی کے یونٹس سے منسلک کردیا جائے کیونکہ ان تعلیمی
اِداروں سے دن کے اوقات میں استفادہ کیا جاتا ہے جبکہ ’سورج سوا نیزے‘ پر
ہوتا ہے!
مونوکرسٹلائن ( Monocrystalline) نامی پلیٹ جس پر ’سنگل سلیکان (Silicon)‘ کی دو پرتیں بچھائی گئی ہوتی ہے‘ سورج کی کم روشنی کو بھی زیادہ مقدار میں توانائی سے تبدیل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ قیمت کے لحاظ سے مونوکرسٹلائن قسم کے پینل تھوڑے مہنگے ہوتے ہیں لیکن اگر آپ کے پاس جگہ کم ہے اور آپ اپنے گھر کی چھت پر سولر پینل مستقل لگانا چاہتے ہیں تو یہی بہترین حل ہے۔ دوسری قسم کے سولر پینل ’پولی کرسٹلائن (Polycrystalline)‘ کہلاتے ہیں‘ جن میں سیلیکان دھات کی ایک پرت ہونے کی وجہ سے اِس قسم کے پینل کی قیمت اور بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت نسبتاً کم ہوتی ہے۔ ایسے لوگ جن کے پاس زیادہ رقبہ ہو‘ وہ اِس قسم کے زیادہ سولر پینل لگانے کو ترجیح دیتے ہیں۔ صنعتی پیمانے پر شمسی توانائی سے استفادہ کرنے والوں کو اسی سے استفادہ کرنا چاہئے۔ پاکستان میں تیسری قسم کے ’سولر پینل‘ بھی دستیاب ہیں جو سورج کی روشنی میں موجود صرف حرارت ہی یکجا کرکے زیادہ طاقت سے منتقل کرتے ہیں ایسے سولر تھرمل پینل (Solar Thermal Panel) پانی گرم کرنے کے لئے استعمال کے جاتے ہیں اور گیس یا بجلی کے مقابلے زیادہ مفید ہوتے ہیں۔
مونوکرسٹلائن اور پولی کرسٹلائن قسم کے ’سولر پینل‘ کی شناخت اُن کی ظاہری ساخت سے باآسانی ممکن ہے۔ مونو قسم میں تکونی چار کونے والی ڈبیاں چھوٹے چھوٹے خانوں کو آپس میں جوڑے ہوں گی جبکہ پولی قسم کے پینل میں ڈبی کی بجائے سیلیکان کی پرت لمبائی میں بناء خانے لگی ہوں گی۔ یاد رہے کہ اگر کسی سولر پینل پر یہ لکھا ہو کہ وہ 100 واٹ طاقت کا ہے تو چاہے وہ ’مونو‘ ہو یا ’پولی‘ اُس سے حاصل ہونے والی توانائی مقدار میں ایک جیسی ہی ہوگی۔ فرق صرف اور صرف روشنی کے کم یا زیادہ ہونے کی صورت ہے۔ میدانی علاقوں کے رہنے والے جہاں سورج موسم گرما کے دوران پوری آب و تاب سے ظاہر ہوتا ہے وہاں کے لئے پولی قسم کے پینل کا استعمال بھی یکساں نتائج دے گا لیکن ایسے پہاڑی علاقے جہاں آتے جاتے بادل سورج کی روشنی کم کرنے کا سبب بنتے ہیں وہاں کے رہنے والوں کو مونو قسم کے پینل ہی خریدنے چاہیءں۔ گھریلو استعمال کے لئے ایک کلوواٹ ’ہائبرڈ سولر سسٹم‘ کی قیمت ایک لاکھ بیس ہزار جبکہ دکان یا دفتری استعمال کی ضروریات کے لئے 5 کلوواٹ کے ہائبرڈ سولر سسٹم کی قیمت 5 لاکھ 75 ہزار سے 6لاکھ روپے تک ہوتی ہے۔ ایک لاکھ بیس ہزار روپے کے عوض 800 واٹ کا انورٹر (inverter) ملتا ہے جو شمسی توانائی کو بجلی میں منتقل کردیتا ہے۔ چار عدد پولی سولر پینل اِس میں شامل ہوتے ہیں جن کی مجموعی طاقت 600 واٹ ہوتی ہے۔ 150 امپیئر‘ 12 واٹ کی ایک خشک (Dry) بیٹری تین سے پانچ سال تک کے لئے کارآمد رہتی ہے جبکہ سولر پینل اور انورٹر کم ازکم بیس سے پچیس سال یا اِس سے زیادہ عرصے کے لئے کارآمد رہیں گے۔
شمسی توانائی کے لئے پینل کے بعد دوسری سب سے اہم چیز ’خشک بیٹری‘ ہوتی ہے‘ جو توانائی کو ذخیرہ کرتی ہے اور سورج غروب ہونے یا کم روشنی کی صورت بیٹری میں ذخیرہ کی گئی توانائی انورٹر کی مدد سے 220 واٹ بجلی میں خودبخود تبدیل ہوتی رہے گی۔ پاکستان میں تیار ہونے والی خشک بیٹری (180 امپیئر) کی قیمت کم سے کم 25 ہزار ہے لیکن اگر آپ پشاور میں رہتے ہیں تو افغانستان سے اسمگل ہو کر آنے والی ایسی خشک بیٹری خرید سکتے ہیں‘ جو ٹینکوں میں استعمال ہوتی ہیں اور یہ بیٹریاں نہ صرف توانائی ذخیرہ کرنے کے لحاظ سے بہتر ہوتی ہیں بلکہ زیادہ عرصے تک کارآمد بھی رہتی ہیں لیکن حیات آباد (کارخانو) مارکیٹ میں اِس قسم کی بیٹریاں رواں برس تقریباً ناپید ہیں۔ ایک وقت تھا کہ یونائٹیڈ‘ مدینہ‘ خیبر اور ملک تاج نامی مارکیٹوں میں اِس قسم کی بیٹریاں باآسانی مل جاتی تھیں لیکن اب چونکہ مانگ بڑھ گئی ہے اِس لئے اِن اسمگل شدہ بیٹریوں کی قیمت 27 ہزار روپے کر دی گئی ہے! لیکن اگر ٹینک والی بھاری بھرکم اور زیادہ لوڈ اُٹھانے والی بیٹری نہ بھی میسر آئے تو پاکستان میں بننے والی یہ لیتھیئم آئن (Lithium-ion) بیٹریاں بھی تین سے پانچ سال باآسانی کاٹ ہی لیتی ہیں۔ ویسے بھی تیزاب والی بیٹری بھی سولر پینل کے ساتھ لگائی جاسکتی ہے لیکن گھریلو سطح پر ایسی بیٹری کی دیکھ بھال اُور اِن میں تیزابیت کی مقدار برقرار رکھنا آسان نہیں ہوتا۔
سولر پینل درآمد کرنے والے کاروباری حضرات کی اکثریت اِن کی تکنیکی تفصیلات اُور باریکیوں سے آگاہ نہیں ہوتی۔ اُن کے لئے سولر پینل ایک ایسی چیز ہے جس کی مانگ میں ہرسال 100 فیصد سے زیادہ اضافہ ہورہا ہے لہٰذا دکاندار سے مشورہ لینے کی بجائے سولر ٹیکنالوجی کو سمجھیں اور ایسا کرنے سے پہلے اپنے گھر کے مجموعی لوڈ (بجلی کے خرچ) کی جدول بھی تیار کرلیں۔ موسم گرما کے دوران ہرسال کی طرح اِس مرتبہ بھی طویل لوڈشیڈنگ رہے گی‘ جس کا بہترین‘ سستا‘ فوری‘ آسان‘ کم وقت میں نصب ہونے اور مقامی طورپر دستیاب حل ’سولر پینل‘ ہیں۔ یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ اگر آپ کے گھر یا دکان‘ دفتر یا کاروباری جگہ پر پہلے ہی سے ’یو پی ایس(UPS)‘ نصب ہے تو ایک کلوواٹ کا ’ہابرڈ سولر سسٹم‘ پر نصب کرنے کی مزدوری کے ساتھ 80سے 90 ہزار روپے خرچ آئے گا۔
دانشمندی کا تقاضا یہ ہے کہ ’بیس سے بچیس برس تک کارآمد رہنے والے توانائی کے متبادل نظام کی بدولت ہر دن بچت ہی بچت کی جائے۔‘آسان حساب یہ ہے کہ ’گھریلو سطح پر ایک لاکھ بیس ہزار روپے والا ’سولر سسٹم‘ پندرہ سے اٹھارہ سو دنوں (چار سے پانچ برس) کے استعمال کے بعد اپنی قیمت پوری کر دے گا‘ اگر آپ کے پاس مالی وسائل کی کمی نہیں تو ڈیزل و گیس کے جنریٹر کی بجائے شمسی توانائی میں سرمایہ کاری کریں کیونکہ یہ ٹیکنالوجی ماحول دوست‘ کم قیمت‘ پائیدار‘ نسبتاً آلودگیوں سے پاک اُور سب سے بڑھ کر قابل بھروسہ ہے‘ کیا آپ آنے والے موسم گرما کے دوران رات بھر آرام دہ نیند کے خواہشمند ہیں؟ کیا دن کے اوقات میں بجلی کی طویل و غیراعلانیہ لوڈشیڈنگ آپ کی گھریلو و کاروباری مصروفیات پر اثرانداز ہو رہی ہے تو پریشانی و تکلیف سے بچنے کے لئے ’متبادل توانائی‘ کے دستیاب وسائل سے استفادہ کریں۔
مونوکرسٹلائن ( Monocrystalline) نامی پلیٹ جس پر ’سنگل سلیکان (Silicon)‘ کی دو پرتیں بچھائی گئی ہوتی ہے‘ سورج کی کم روشنی کو بھی زیادہ مقدار میں توانائی سے تبدیل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ قیمت کے لحاظ سے مونوکرسٹلائن قسم کے پینل تھوڑے مہنگے ہوتے ہیں لیکن اگر آپ کے پاس جگہ کم ہے اور آپ اپنے گھر کی چھت پر سولر پینل مستقل لگانا چاہتے ہیں تو یہی بہترین حل ہے۔ دوسری قسم کے سولر پینل ’پولی کرسٹلائن (Polycrystalline)‘ کہلاتے ہیں‘ جن میں سیلیکان دھات کی ایک پرت ہونے کی وجہ سے اِس قسم کے پینل کی قیمت اور بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت نسبتاً کم ہوتی ہے۔ ایسے لوگ جن کے پاس زیادہ رقبہ ہو‘ وہ اِس قسم کے زیادہ سولر پینل لگانے کو ترجیح دیتے ہیں۔ صنعتی پیمانے پر شمسی توانائی سے استفادہ کرنے والوں کو اسی سے استفادہ کرنا چاہئے۔ پاکستان میں تیسری قسم کے ’سولر پینل‘ بھی دستیاب ہیں جو سورج کی روشنی میں موجود صرف حرارت ہی یکجا کرکے زیادہ طاقت سے منتقل کرتے ہیں ایسے سولر تھرمل پینل (Solar Thermal Panel) پانی گرم کرنے کے لئے استعمال کے جاتے ہیں اور گیس یا بجلی کے مقابلے زیادہ مفید ہوتے ہیں۔
مونوکرسٹلائن اور پولی کرسٹلائن قسم کے ’سولر پینل‘ کی شناخت اُن کی ظاہری ساخت سے باآسانی ممکن ہے۔ مونو قسم میں تکونی چار کونے والی ڈبیاں چھوٹے چھوٹے خانوں کو آپس میں جوڑے ہوں گی جبکہ پولی قسم کے پینل میں ڈبی کی بجائے سیلیکان کی پرت لمبائی میں بناء خانے لگی ہوں گی۔ یاد رہے کہ اگر کسی سولر پینل پر یہ لکھا ہو کہ وہ 100 واٹ طاقت کا ہے تو چاہے وہ ’مونو‘ ہو یا ’پولی‘ اُس سے حاصل ہونے والی توانائی مقدار میں ایک جیسی ہی ہوگی۔ فرق صرف اور صرف روشنی کے کم یا زیادہ ہونے کی صورت ہے۔ میدانی علاقوں کے رہنے والے جہاں سورج موسم گرما کے دوران پوری آب و تاب سے ظاہر ہوتا ہے وہاں کے لئے پولی قسم کے پینل کا استعمال بھی یکساں نتائج دے گا لیکن ایسے پہاڑی علاقے جہاں آتے جاتے بادل سورج کی روشنی کم کرنے کا سبب بنتے ہیں وہاں کے رہنے والوں کو مونو قسم کے پینل ہی خریدنے چاہیءں۔ گھریلو استعمال کے لئے ایک کلوواٹ ’ہائبرڈ سولر سسٹم‘ کی قیمت ایک لاکھ بیس ہزار جبکہ دکان یا دفتری استعمال کی ضروریات کے لئے 5 کلوواٹ کے ہائبرڈ سولر سسٹم کی قیمت 5 لاکھ 75 ہزار سے 6لاکھ روپے تک ہوتی ہے۔ ایک لاکھ بیس ہزار روپے کے عوض 800 واٹ کا انورٹر (inverter) ملتا ہے جو شمسی توانائی کو بجلی میں منتقل کردیتا ہے۔ چار عدد پولی سولر پینل اِس میں شامل ہوتے ہیں جن کی مجموعی طاقت 600 واٹ ہوتی ہے۔ 150 امپیئر‘ 12 واٹ کی ایک خشک (Dry) بیٹری تین سے پانچ سال تک کے لئے کارآمد رہتی ہے جبکہ سولر پینل اور انورٹر کم ازکم بیس سے پچیس سال یا اِس سے زیادہ عرصے کے لئے کارآمد رہیں گے۔
شمسی توانائی کے لئے پینل کے بعد دوسری سب سے اہم چیز ’خشک بیٹری‘ ہوتی ہے‘ جو توانائی کو ذخیرہ کرتی ہے اور سورج غروب ہونے یا کم روشنی کی صورت بیٹری میں ذخیرہ کی گئی توانائی انورٹر کی مدد سے 220 واٹ بجلی میں خودبخود تبدیل ہوتی رہے گی۔ پاکستان میں تیار ہونے والی خشک بیٹری (180 امپیئر) کی قیمت کم سے کم 25 ہزار ہے لیکن اگر آپ پشاور میں رہتے ہیں تو افغانستان سے اسمگل ہو کر آنے والی ایسی خشک بیٹری خرید سکتے ہیں‘ جو ٹینکوں میں استعمال ہوتی ہیں اور یہ بیٹریاں نہ صرف توانائی ذخیرہ کرنے کے لحاظ سے بہتر ہوتی ہیں بلکہ زیادہ عرصے تک کارآمد بھی رہتی ہیں لیکن حیات آباد (کارخانو) مارکیٹ میں اِس قسم کی بیٹریاں رواں برس تقریباً ناپید ہیں۔ ایک وقت تھا کہ یونائٹیڈ‘ مدینہ‘ خیبر اور ملک تاج نامی مارکیٹوں میں اِس قسم کی بیٹریاں باآسانی مل جاتی تھیں لیکن اب چونکہ مانگ بڑھ گئی ہے اِس لئے اِن اسمگل شدہ بیٹریوں کی قیمت 27 ہزار روپے کر دی گئی ہے! لیکن اگر ٹینک والی بھاری بھرکم اور زیادہ لوڈ اُٹھانے والی بیٹری نہ بھی میسر آئے تو پاکستان میں بننے والی یہ لیتھیئم آئن (Lithium-ion) بیٹریاں بھی تین سے پانچ سال باآسانی کاٹ ہی لیتی ہیں۔ ویسے بھی تیزاب والی بیٹری بھی سولر پینل کے ساتھ لگائی جاسکتی ہے لیکن گھریلو سطح پر ایسی بیٹری کی دیکھ بھال اُور اِن میں تیزابیت کی مقدار برقرار رکھنا آسان نہیں ہوتا۔
سولر پینل درآمد کرنے والے کاروباری حضرات کی اکثریت اِن کی تکنیکی تفصیلات اُور باریکیوں سے آگاہ نہیں ہوتی۔ اُن کے لئے سولر پینل ایک ایسی چیز ہے جس کی مانگ میں ہرسال 100 فیصد سے زیادہ اضافہ ہورہا ہے لہٰذا دکاندار سے مشورہ لینے کی بجائے سولر ٹیکنالوجی کو سمجھیں اور ایسا کرنے سے پہلے اپنے گھر کے مجموعی لوڈ (بجلی کے خرچ) کی جدول بھی تیار کرلیں۔ موسم گرما کے دوران ہرسال کی طرح اِس مرتبہ بھی طویل لوڈشیڈنگ رہے گی‘ جس کا بہترین‘ سستا‘ فوری‘ آسان‘ کم وقت میں نصب ہونے اور مقامی طورپر دستیاب حل ’سولر پینل‘ ہیں۔ یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ اگر آپ کے گھر یا دکان‘ دفتر یا کاروباری جگہ پر پہلے ہی سے ’یو پی ایس(UPS)‘ نصب ہے تو ایک کلوواٹ کا ’ہابرڈ سولر سسٹم‘ پر نصب کرنے کی مزدوری کے ساتھ 80سے 90 ہزار روپے خرچ آئے گا۔
دانشمندی کا تقاضا یہ ہے کہ ’بیس سے بچیس برس تک کارآمد رہنے والے توانائی کے متبادل نظام کی بدولت ہر دن بچت ہی بچت کی جائے۔‘آسان حساب یہ ہے کہ ’گھریلو سطح پر ایک لاکھ بیس ہزار روپے والا ’سولر سسٹم‘ پندرہ سے اٹھارہ سو دنوں (چار سے پانچ برس) کے استعمال کے بعد اپنی قیمت پوری کر دے گا‘ اگر آپ کے پاس مالی وسائل کی کمی نہیں تو ڈیزل و گیس کے جنریٹر کی بجائے شمسی توانائی میں سرمایہ کاری کریں کیونکہ یہ ٹیکنالوجی ماحول دوست‘ کم قیمت‘ پائیدار‘ نسبتاً آلودگیوں سے پاک اُور سب سے بڑھ کر قابل بھروسہ ہے‘ کیا آپ آنے والے موسم گرما کے دوران رات بھر آرام دہ نیند کے خواہشمند ہیں؟ کیا دن کے اوقات میں بجلی کی طویل و غیراعلانیہ لوڈشیڈنگ آپ کی گھریلو و کاروباری مصروفیات پر اثرانداز ہو رہی ہے تو پریشانی و تکلیف سے بچنے کے لئے ’متبادل توانائی‘ کے دستیاب وسائل سے استفادہ کریں۔
![]() |
How to invest in Solar, as an alternate energy source |
No comments:
Post a Comment