Military-run schools
فوج کے زیرنگرانی تعلیمی ادارے
فوج کے زیرنگرانی تعلیمی ادارے
پاکستان میں کل سرکاری تعلیمی اداروں کی تعداد 1 لاکھ 94 ہزار 151 ہے‘ جن
میں 99 فیصد صوبائی حکومتوں کی زیرنگرانی درس و تدریس کے عمل کو جاری رکھے
ہوئے ہیں۔ فوج کی زیرنگرانی وفاقی حکومت کے زیرکنٹرول تعلیمی اداروں کے
معاملات چلائے جاتے ہیں جن میں 311 سکول اُور 44 کالجز ہیں۔ عجیب ساز باز
اور ایک جیسے معاملات ہیں کہ صوبائی اور وفاقی سطح پر جن تعلیمی اداروں کی
سرپرستی کی جاتی ہے‘ اُن میں کئی ایک مماثلتیں پائی جاتی ہیں۔ جیسا کہ
دونوں طرح کے سرکاری سکولوں میں فی طالبعلم پینتیس روپے فیس وصول کی جاتی
ہے۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے سکولوں کے لئے اساتذہ کا انتخاب بھی ایک
ہی طریقۂ کار کے تحت کیا جاتاہے۔ دونوں قسم کے اداروں میں اساتذہ کو ایک
جیسی تنخواہیں اور مراعات (پے سکیل) دیا جاتا ہے۔ سرکاری خزانے سے فی
طالبعلم مختص مالی وسائل (کم وبیش تعلیمی بجٹ) بھی دونوں طرح کے تعلیمی
اداروں میں ایک جیسے ہی ہوتے ہیں لیکن جب ہم اِن دونوں قسم کے تعلیمی
اداروں سے حاصل ہونے والے نتائج پر نظر کرتے ہیں تو اِس میں بڑا فرق نظر
آتا ہے۔ وفاقی حکومت کی زیرنگرانی چلنے والے سکولوں کے طالبعلم صوبائی
حکومتوں والے سکولوں سے زیادہ بہتر تعلیمی نتائج دیتے ہیں۔ اسی طرح تعلیم
کو جاری رکھنے اور گریجویشن تک پہنچنے والے طالبعلموں میں بھی وفاقی تعلیمی
اداروں کے طلباء و طالبات کی تعداد زیادہ ہوتی ہے۔
توجہ کیجئے کہ وفاقی اور تمام صوبائی حکومتیں مجموعی طور پر 504 ارب روپے سالانہ تعلیمی اداروں پر خرچ کرتے ہیں جن سے دو کروڑ چھیاسٹھ لاکھ کے قریب طالبعلموں کو تعلیم دی جاتی ہے۔ اگر اِس کی اوسط نکالی جائے تو فی طالبعلم 18 ہزار 947 روپے خرچ ہوتے ہیں۔ یہ امر بھی یاد رکھنے لائق ہے کہ وفاقی حکومت وزارت دفاع کے لئے مختص مالی وسائل سے 3.8 ارب روپے منہا کرکے وفاقی تعلیمی اداروں کے 1 لاکھ 85 ہزار 369 طلباء و طالبات کی تعلیم پر خرچ کرتی ہے جس کی فی طالبعلم اوسط 20 ہزار 500 روپے بنتی ہے۔ یہ امر خصوصی توجہ کا مستحق ہے کہ وفاقی سطح پر اور صوبائی حکومتوں کے زیرنگرانی تعلیمی اداروں کے اساتذہ کی تعلیمی قابلیت کا معیار ایک جیسا ہی رکھا گیا ہے اور معلم کے رتبے پر فائز ہونے کے لئے دونوں اقسام کے تعلیمی اداروں نے ایک جیسا ہی چناؤ کا طریقہ کار وضع کر رکھا ہے۔ اِسی طرح اِن دو قسم کے تعلیمی اداروں میں داخلہ دینے کا طریقہ کار اور داخلہ حاصل کرنے کے لئے قابلیت کا معیار بھی ایک جیسا ہی ہے۔
یہ امر بھی توجہ طلب ہے کہ صوبائی حکومت کی زیرنگرانی تعلیمی اداروں میں پڑھایا جانے والا نصاب ’ٹیکسٹ بک بورڈ‘ طے کرتا ہے اور اِسی قسم کا نصاب وفاقی سطح پر بھی ایک ’ٹیکسٹ بک بورڈ‘ تشکیل دیتا ہے جس میں مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے ماہرین تعلیم شامل ہوتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ جب نصاب ایک جیسے حکومتی ادارے تشکیل دے رہے ہیں تو پھر وفاقی تعلیمی اداروں کا معیار (نتائج کے لحاظ سے) صوبائی حکومتوں کے مقابلے کیوں مختلف و بہتر ہے؟ ثابت ہوا کہ بات ایک جیسے مالی وسائل مختص کرنے کی نہیں۔ بات نصاب کی کتابیں تشکیل دیتے ہوئے بھی ایک جیسے اسباق کی نہیں یعنی تعلیم کے بہتر معیار کا تعلق زیادہ مالی وسائل مختص کرنے سے نہیں ہوتا۔ تو پھر وہ محرک کیا ہے جو وفاق اور صوبائی سطح پر تعلیمی اداروں کے درمیان وجۂ امتیاز بنا ہوا ہے۔ اِس سوال کا جواب یہ ہے کہ وسائل کا دانشمندانہ استعمال اور مختص مالی و افرادی وسائل سے بہتر انداز میں استفادہ کرنے سے ایک جیسی کوششوں اور ایک جیسے حالات و سہولیات کے مختلف نتائج برآمد ہو سکتے ہیں اور اس بات کا ثبوت وفاقی و صوبائی تعلیمی اداروں کی کارکردگی‘ نظم و ضبط‘ نتائج اور استفادہ کرنے والے طلباء و طالبات کے رجحانات کو دیکھ کر بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ منصوبہ بندی سب سے کلیدی عنصر ہے‘ جس کے تحت دستیاب وسائل سے بھرپور استفادہ کیا جاتا ہے۔ درست کام کے لئے موزوں افراد کا انتخاب کیا جاتا ہے۔ کارکردگی جانچنے کے لئے سخت معیار اور احتساب کا نظام تشکیل دیا گیا ہے۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے زیرنگرانی تعلیمی اداروں (سکول و کالجز) میں یہ فرق بھی ہے کہ اس سے متعلق ہر ایک کردار اپنے اپنے حصے کا کام دلجمعی سے کرتا ہے۔
وفاقی کے زیرنگرانی تعلیمی اداروں کو یقینی طور پر صوبائی اداروں پر سبقت حاصل ہے اور اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ فوج کے زیرنگرانی اداروں سے متعلق فیصلہ ساز نہ صرف اپنے بال بچوں کے لئے بہتر تعلیمی سہولیات و معیار کو یقینی بنانے کو ترجیح دیتے ہیں بلکہ وہ معیاری تعلیم کی اہمیت سے آگاہ ہیں اور اِس شعبے سے وابستہ ضروریات کا زیادہ بہتر ادراک رکھتے ہیں۔ اگر ہم وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے تعلیمی اداروں کا موازنہ کریں تو ایک کے ہاں تعلیم اوّلین ترجیحات کا حصہ ہے جبکہ صوبائی سطح پر تعلیم کم ترین درجے پر ترجیح کی حامل دکھائی دیتی ہے!
(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ تلخیص و ترجمہ: شبیر حسین اِمام)
توجہ کیجئے کہ وفاقی اور تمام صوبائی حکومتیں مجموعی طور پر 504 ارب روپے سالانہ تعلیمی اداروں پر خرچ کرتے ہیں جن سے دو کروڑ چھیاسٹھ لاکھ کے قریب طالبعلموں کو تعلیم دی جاتی ہے۔ اگر اِس کی اوسط نکالی جائے تو فی طالبعلم 18 ہزار 947 روپے خرچ ہوتے ہیں۔ یہ امر بھی یاد رکھنے لائق ہے کہ وفاقی حکومت وزارت دفاع کے لئے مختص مالی وسائل سے 3.8 ارب روپے منہا کرکے وفاقی تعلیمی اداروں کے 1 لاکھ 85 ہزار 369 طلباء و طالبات کی تعلیم پر خرچ کرتی ہے جس کی فی طالبعلم اوسط 20 ہزار 500 روپے بنتی ہے۔ یہ امر خصوصی توجہ کا مستحق ہے کہ وفاقی سطح پر اور صوبائی حکومتوں کے زیرنگرانی تعلیمی اداروں کے اساتذہ کی تعلیمی قابلیت کا معیار ایک جیسا ہی رکھا گیا ہے اور معلم کے رتبے پر فائز ہونے کے لئے دونوں اقسام کے تعلیمی اداروں نے ایک جیسا ہی چناؤ کا طریقہ کار وضع کر رکھا ہے۔ اِسی طرح اِن دو قسم کے تعلیمی اداروں میں داخلہ دینے کا طریقہ کار اور داخلہ حاصل کرنے کے لئے قابلیت کا معیار بھی ایک جیسا ہی ہے۔
یہ امر بھی توجہ طلب ہے کہ صوبائی حکومت کی زیرنگرانی تعلیمی اداروں میں پڑھایا جانے والا نصاب ’ٹیکسٹ بک بورڈ‘ طے کرتا ہے اور اِسی قسم کا نصاب وفاقی سطح پر بھی ایک ’ٹیکسٹ بک بورڈ‘ تشکیل دیتا ہے جس میں مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے ماہرین تعلیم شامل ہوتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ جب نصاب ایک جیسے حکومتی ادارے تشکیل دے رہے ہیں تو پھر وفاقی تعلیمی اداروں کا معیار (نتائج کے لحاظ سے) صوبائی حکومتوں کے مقابلے کیوں مختلف و بہتر ہے؟ ثابت ہوا کہ بات ایک جیسے مالی وسائل مختص کرنے کی نہیں۔ بات نصاب کی کتابیں تشکیل دیتے ہوئے بھی ایک جیسے اسباق کی نہیں یعنی تعلیم کے بہتر معیار کا تعلق زیادہ مالی وسائل مختص کرنے سے نہیں ہوتا۔ تو پھر وہ محرک کیا ہے جو وفاق اور صوبائی سطح پر تعلیمی اداروں کے درمیان وجۂ امتیاز بنا ہوا ہے۔ اِس سوال کا جواب یہ ہے کہ وسائل کا دانشمندانہ استعمال اور مختص مالی و افرادی وسائل سے بہتر انداز میں استفادہ کرنے سے ایک جیسی کوششوں اور ایک جیسے حالات و سہولیات کے مختلف نتائج برآمد ہو سکتے ہیں اور اس بات کا ثبوت وفاقی و صوبائی تعلیمی اداروں کی کارکردگی‘ نظم و ضبط‘ نتائج اور استفادہ کرنے والے طلباء و طالبات کے رجحانات کو دیکھ کر بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ منصوبہ بندی سب سے کلیدی عنصر ہے‘ جس کے تحت دستیاب وسائل سے بھرپور استفادہ کیا جاتا ہے۔ درست کام کے لئے موزوں افراد کا انتخاب کیا جاتا ہے۔ کارکردگی جانچنے کے لئے سخت معیار اور احتساب کا نظام تشکیل دیا گیا ہے۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے زیرنگرانی تعلیمی اداروں (سکول و کالجز) میں یہ فرق بھی ہے کہ اس سے متعلق ہر ایک کردار اپنے اپنے حصے کا کام دلجمعی سے کرتا ہے۔
وفاقی کے زیرنگرانی تعلیمی اداروں کو یقینی طور پر صوبائی اداروں پر سبقت حاصل ہے اور اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ فوج کے زیرنگرانی اداروں سے متعلق فیصلہ ساز نہ صرف اپنے بال بچوں کے لئے بہتر تعلیمی سہولیات و معیار کو یقینی بنانے کو ترجیح دیتے ہیں بلکہ وہ معیاری تعلیم کی اہمیت سے آگاہ ہیں اور اِس شعبے سے وابستہ ضروریات کا زیادہ بہتر ادراک رکھتے ہیں۔ اگر ہم وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے تعلیمی اداروں کا موازنہ کریں تو ایک کے ہاں تعلیم اوّلین ترجیحات کا حصہ ہے جبکہ صوبائی سطح پر تعلیم کم ترین درجے پر ترجیح کی حامل دکھائی دیتی ہے!
(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ تلخیص و ترجمہ: شبیر حسین اِمام)
![]() |
Military run schools |
No comments:
Post a Comment