ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
یونین کونسل سلہڈ
یونین کونسل سلہڈ
خیبرپختونخوا کے ضلع ایبٹ آباد کی رونقیں موسم گرما میں دیدنی ہوتی ہیں۔
ملک کے وسطی‘ جنوبی اور میدانی علاقوں کے رہنے والوں کو جب گرمی کی شدت
ستاتی ہے تو وسائل رکھنے والے جنت نظیر بالائی علاقوں کی وادیوں کا رخ کرتے
ہیں‘ جہاں کے مسائل میں سرفہرست آمدروفت کے وسائل کی خستہ حالی‘ پینے کے
صاف پانی کی قلت‘ صفائی کی ابتر صورتحال اور برقی رو کا ناقابل بھروسہ نظام
ہے۔
ایبٹ آباد میں کل 51 یونین کونسلیں ہیں جن میں شامل یونین کونسل سلہڈ کا بیشتر حصہ پہاڑی رقبے یا اونچے نیچے ٹیلوں پر مشتمل ہے۔ دس برس قبل یونین کونسل کی آبادی 21 ہزار جبکہ ایک اندازے کے مطابق موجودہ آبادی 40 ہزار سے تجاوز کر چکی ہے اور چونکہ ’ہزارہ ڈویژن‘ کی مجموعی آبادی بڑھی ہے جس کا اِجتماعی اَثر یونین کونسل سلہڈ پر دیکھا جاسکتا ہے جہاں ’سبزی منڈی‘ اور ’فروٹ منڈی‘ جیسے پھیلنے والے کاروبار نے اِس یونین کونسل کو ایک ایسا ’غیراعلانیہ تجارتی مرکز‘ بنا دیا ہے‘ جو گردوپیش گنجان آباد علاقوں کی آبادی کے لئے ’درد سر‘ اور اِس کی وجہ سے مقامی افراد کے ’ناک میں دم‘ دکھائی دیتا ہے۔ ملک کے دیگر چھوٹے بڑے شہروں کی طرح سبزی منڈی و فروٹ منڈی میں صفائی کی ابتر صورتحال جیسی تشویشناک حالت یہاں کا رہائشیوں کے لئے مکھیوں‘ مچھروں اور تعفن کا مستقل ذریعہ ہے جس کے مستقل حل کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے مقامی اَفراد کا مطالبہ ہے کہ ’’سلہڈ گاؤں کے رہنے والوں کی مشکلات میں کمی کی بجائے اضافہ کا سبب بننے والے محرکات پر غور ہونا چاہئے جیسا کہ زیرتعمیر سڑک پر ترقیاتی کام عرصہ چار ماہ سے جاری ہے اور ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا! اَپر سلہڈ محلہ درّہ کے رہائشی توقیر اَحمد جدون کے بقول ’’سبزی منڈی اور فروٹ منڈی کا قیام 1983-84ء میں عمل میں لایا گیا تھا‘ جہاں مجموعی طور پر دکانوں کی تعداد پچاس سے زیادہ ہو چکی ہے‘ جبکہ سبزی و پھل ذخیرہ کرنے کے گودام الگ ہیں۔ فجر سے دن دس بجے تک سبزی و فروٹ کی ہول سیل نیلامی بذریعہ بولی کی جاتی ہے جبکہ بعدازاں پرچون فروخت اور تمام دن دیگر شہروں سے اجناس کی آمد جاری رہتی ہے۔ بھاری ٹریفک کے سبب ہزارہ ڈویژن کی اِس ’گیٹ وے یونین کونسل‘ کے رہائشی مشکلات سے دوچار ہیں‘ جن کا مستقل حل ضروری ہے۔ سلہڈ کا دوسرا مسئلہ شاہراہ کی تعمیر کا وہ منصوبہ ہے جو عرصہ چار ماہ سے سست روی سے جاری ہے۔ اہل سلہڈ کی اَکثریت نے اِتفاق کیا ہے کہ اگر آئندہ چند ہفتوں میں سلہڈ سے گزرنے والی ’مرکزی شاہراہ‘ پر تعمیرات کا کام مکمل نہیں کیا جاتا تو احتجاج کرتے ہوئے مذکورہ شاہراہ پر ہرقسم کی آمدورفت معطل کر دی جائے گی۔ لمحۂ فکریہ ہے کہ جاری تعمیراتی کام سے اُٹھنے والے گردوغبار نے نہ صرف سرسبزوشاداب علاقے کی خوبصورتی متاثر ہو رہی ہے بلکہ اِہل علاقہ بالخصوص بچے‘ خواتین اور بزرگ سانس کی بیماریوں میں مبتلا ہیں!‘‘ قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 17 اور صوبائی اسمبلی کے حلقہ پی کے 46 کا آغاز بھی ’یونین کونسل سلہڈ‘ ہی سے ہوتا ہے‘ جس سے گزر کر ’ہزارہ ڈویژن‘ کے صدر مقام ایبٹ آباد تک رسائی ممکن ہوتی ہے لیکن جس انداز میں ’یونین کونسل سلہڈ‘ کے مسائل مقامی باشندوں اُور ہر ملکی و غیرملکی سیاح کا اِستقبال کرتے ہیں‘ وہ کسی بھی صورت خوش آئند نہیں اور متعلقہ منتخب نمائندوں سمیت فیصلہ سازوں کی توجہ کے مستحق ہیں تاکہ ’حقیقی تبدیلی‘ کا اطلاق عملی طور پر دکھائی دے۔
نیشنل ہائی وے اتھارٹی (این ایچ اے) کے اَسسٹنٹ ڈائریکٹر فتح اللہ کے مطابق ’’سلہڈ کے مقام پر چونکہ زیرزمین سڑک کی حالت اس قدر خراب ہے کہ سڑک کی اوپری سطح بچھانے اور مرمت کے کام میں باوجود کوشش بھی تیزی نہیں آ رہی۔ دوسری اہم بات مذکورہ شاہراہ پر ٹریفک کا دباؤ ہے‘ جن میں مال بردار بھاری گاڑیاں بھی شامل ہوتی ہیں اور یہ سلسلہ چوبیس گھنٹے جاری رہتا ہے‘ اِس لئے ایک کلومیٹر سے کچھ زیادہ کے اِس ترقیاتی کام پر معمول سے زیادہ وقت خرچ ہو رہا ہے لیکن جب اُن سے اب تک مکمل ہوئے کام کی شرح اور تکمیل کی کوئی حتمی تاریخ پوچھی گئی تو اُنہوں نے ضلعی دفتر سے رابطہ کرنے کا (مفت) مشورہ دیا۔
یہ امر لائق توجہ رہے کہ این ایچ اے وفاقی ادارہ ہے جہاں ہفتہ وار دو دن (ہفتہ اور اتوار) تعطیل ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جمعہ کے روز کسی انتظامی نگران یا افسر کا دفتر میں ملنا ممکن نہیں ہوتا۔ نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست (یعنی جان کی امان مانگتے ہوئے) ایک پرسنل اسسٹنٹ نے کہا کہ ’’صاحبان کی اکثریت جمعہ کا مبارک دن خصوصی طور پر ترقیاتی کاموں کا دورہ کرنے کے لئے مخصوص رکھتے ہیں جس کے لئے صبح حاضری لگانے کے بعد سرکاری گاڑی میں سرکاری ایندھن اور بسا اوقات سرکاری ڈرائیور کے ساتھ اپنے آبائی علاقوں کو سدھار جاتے ہیں!‘‘ یاد رہے کہ ’’ایبٹ آباد میں نیشنل ہائی وے اتھارٹی (این ایچ اے) کے جنرل منیجر عبداللہ جان ہیں جن کے ماتحت ڈائریکٹر بابو رام‘ اُن کے ماتحت دیکھ بھال اور تعمیر و مرمت کے شعبۂ مینٹیننس کے نگران ڈپٹی ڈائریکٹر سیّد نواز ہیں۔ اُن کے ماتحت اسٹنٹ ڈائریکٹر فتح اللہ ہیں اور اُن کے ماتحت انسپکٹر کا نام ثناء اللہ ہے۔ یہ سبھی افسر اور ماتحت عملہ سلہڈ کی ایک کلومیٹر شاہراہ کی مرمت کے عمل کی گذشتہ کئی ماہ سے نگرانی کر رہے ہیں‘ جن سے باوجود کوشش بھی نہ تو دفتری نمبروں اور نہ ہی موبائل نمبرز پر رابطہ ممکن ہوسکا۔
ایبٹ آباد میں کل 51 یونین کونسلیں ہیں جن میں شامل یونین کونسل سلہڈ کا بیشتر حصہ پہاڑی رقبے یا اونچے نیچے ٹیلوں پر مشتمل ہے۔ دس برس قبل یونین کونسل کی آبادی 21 ہزار جبکہ ایک اندازے کے مطابق موجودہ آبادی 40 ہزار سے تجاوز کر چکی ہے اور چونکہ ’ہزارہ ڈویژن‘ کی مجموعی آبادی بڑھی ہے جس کا اِجتماعی اَثر یونین کونسل سلہڈ پر دیکھا جاسکتا ہے جہاں ’سبزی منڈی‘ اور ’فروٹ منڈی‘ جیسے پھیلنے والے کاروبار نے اِس یونین کونسل کو ایک ایسا ’غیراعلانیہ تجارتی مرکز‘ بنا دیا ہے‘ جو گردوپیش گنجان آباد علاقوں کی آبادی کے لئے ’درد سر‘ اور اِس کی وجہ سے مقامی افراد کے ’ناک میں دم‘ دکھائی دیتا ہے۔ ملک کے دیگر چھوٹے بڑے شہروں کی طرح سبزی منڈی و فروٹ منڈی میں صفائی کی ابتر صورتحال جیسی تشویشناک حالت یہاں کا رہائشیوں کے لئے مکھیوں‘ مچھروں اور تعفن کا مستقل ذریعہ ہے جس کے مستقل حل کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے مقامی اَفراد کا مطالبہ ہے کہ ’’سلہڈ گاؤں کے رہنے والوں کی مشکلات میں کمی کی بجائے اضافہ کا سبب بننے والے محرکات پر غور ہونا چاہئے جیسا کہ زیرتعمیر سڑک پر ترقیاتی کام عرصہ چار ماہ سے جاری ہے اور ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا! اَپر سلہڈ محلہ درّہ کے رہائشی توقیر اَحمد جدون کے بقول ’’سبزی منڈی اور فروٹ منڈی کا قیام 1983-84ء میں عمل میں لایا گیا تھا‘ جہاں مجموعی طور پر دکانوں کی تعداد پچاس سے زیادہ ہو چکی ہے‘ جبکہ سبزی و پھل ذخیرہ کرنے کے گودام الگ ہیں۔ فجر سے دن دس بجے تک سبزی و فروٹ کی ہول سیل نیلامی بذریعہ بولی کی جاتی ہے جبکہ بعدازاں پرچون فروخت اور تمام دن دیگر شہروں سے اجناس کی آمد جاری رہتی ہے۔ بھاری ٹریفک کے سبب ہزارہ ڈویژن کی اِس ’گیٹ وے یونین کونسل‘ کے رہائشی مشکلات سے دوچار ہیں‘ جن کا مستقل حل ضروری ہے۔ سلہڈ کا دوسرا مسئلہ شاہراہ کی تعمیر کا وہ منصوبہ ہے جو عرصہ چار ماہ سے سست روی سے جاری ہے۔ اہل سلہڈ کی اَکثریت نے اِتفاق کیا ہے کہ اگر آئندہ چند ہفتوں میں سلہڈ سے گزرنے والی ’مرکزی شاہراہ‘ پر تعمیرات کا کام مکمل نہیں کیا جاتا تو احتجاج کرتے ہوئے مذکورہ شاہراہ پر ہرقسم کی آمدورفت معطل کر دی جائے گی۔ لمحۂ فکریہ ہے کہ جاری تعمیراتی کام سے اُٹھنے والے گردوغبار نے نہ صرف سرسبزوشاداب علاقے کی خوبصورتی متاثر ہو رہی ہے بلکہ اِہل علاقہ بالخصوص بچے‘ خواتین اور بزرگ سانس کی بیماریوں میں مبتلا ہیں!‘‘ قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 17 اور صوبائی اسمبلی کے حلقہ پی کے 46 کا آغاز بھی ’یونین کونسل سلہڈ‘ ہی سے ہوتا ہے‘ جس سے گزر کر ’ہزارہ ڈویژن‘ کے صدر مقام ایبٹ آباد تک رسائی ممکن ہوتی ہے لیکن جس انداز میں ’یونین کونسل سلہڈ‘ کے مسائل مقامی باشندوں اُور ہر ملکی و غیرملکی سیاح کا اِستقبال کرتے ہیں‘ وہ کسی بھی صورت خوش آئند نہیں اور متعلقہ منتخب نمائندوں سمیت فیصلہ سازوں کی توجہ کے مستحق ہیں تاکہ ’حقیقی تبدیلی‘ کا اطلاق عملی طور پر دکھائی دے۔
نیشنل ہائی وے اتھارٹی (این ایچ اے) کے اَسسٹنٹ ڈائریکٹر فتح اللہ کے مطابق ’’سلہڈ کے مقام پر چونکہ زیرزمین سڑک کی حالت اس قدر خراب ہے کہ سڑک کی اوپری سطح بچھانے اور مرمت کے کام میں باوجود کوشش بھی تیزی نہیں آ رہی۔ دوسری اہم بات مذکورہ شاہراہ پر ٹریفک کا دباؤ ہے‘ جن میں مال بردار بھاری گاڑیاں بھی شامل ہوتی ہیں اور یہ سلسلہ چوبیس گھنٹے جاری رہتا ہے‘ اِس لئے ایک کلومیٹر سے کچھ زیادہ کے اِس ترقیاتی کام پر معمول سے زیادہ وقت خرچ ہو رہا ہے لیکن جب اُن سے اب تک مکمل ہوئے کام کی شرح اور تکمیل کی کوئی حتمی تاریخ پوچھی گئی تو اُنہوں نے ضلعی دفتر سے رابطہ کرنے کا (مفت) مشورہ دیا۔
یہ امر لائق توجہ رہے کہ این ایچ اے وفاقی ادارہ ہے جہاں ہفتہ وار دو دن (ہفتہ اور اتوار) تعطیل ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جمعہ کے روز کسی انتظامی نگران یا افسر کا دفتر میں ملنا ممکن نہیں ہوتا۔ نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست (یعنی جان کی امان مانگتے ہوئے) ایک پرسنل اسسٹنٹ نے کہا کہ ’’صاحبان کی اکثریت جمعہ کا مبارک دن خصوصی طور پر ترقیاتی کاموں کا دورہ کرنے کے لئے مخصوص رکھتے ہیں جس کے لئے صبح حاضری لگانے کے بعد سرکاری گاڑی میں سرکاری ایندھن اور بسا اوقات سرکاری ڈرائیور کے ساتھ اپنے آبائی علاقوں کو سدھار جاتے ہیں!‘‘ یاد رہے کہ ’’ایبٹ آباد میں نیشنل ہائی وے اتھارٹی (این ایچ اے) کے جنرل منیجر عبداللہ جان ہیں جن کے ماتحت ڈائریکٹر بابو رام‘ اُن کے ماتحت دیکھ بھال اور تعمیر و مرمت کے شعبۂ مینٹیننس کے نگران ڈپٹی ڈائریکٹر سیّد نواز ہیں۔ اُن کے ماتحت اسٹنٹ ڈائریکٹر فتح اللہ ہیں اور اُن کے ماتحت انسپکٹر کا نام ثناء اللہ ہے۔ یہ سبھی افسر اور ماتحت عملہ سلہڈ کی ایک کلومیٹر شاہراہ کی مرمت کے عمل کی گذشتہ کئی ماہ سے نگرانی کر رہے ہیں‘ جن سے باوجود کوشش بھی نہ تو دفتری نمبروں اور نہ ہی موبائل نمبرز پر رابطہ ممکن ہوسکا۔
![]() |
Road constructions projects in Abbottabad are slow pace |
No comments:
Post a Comment