Friday, April 24, 2015

Apr2015: Our own fight

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
اپنی جنگ!
پشاور میں امن و امان کی صورتحال کی بہتری ’راز کی بات‘ نہیں رہی بلکہ منظم و معمولی جرائم سمیت دہشت گردی کی وارداتیں اگر کم ہوئی ہیں تو کسی نہ کسی کو ’کریڈٹ‘ صوبائی حکومت اُور ملحقہ قبائلی علاقے ’خیبرایجنسی‘ میں جاری فوجی کاروائی کو جاتا ہے‘ جس میں پاک فوج کے جوان قربانیوں کی نئی تاریخ رقم کر رہے ہیں۔ تحریک انصاف حکومت نے خلوص دل سے جتنی بھی کوششیں کی ہیں وہ بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ پولیس جیسے محکمے میں سیاسی مداخلت کم ترین سطح کو چھو رہی ہے اور جہاں سیاسی مداخلت ہو بھی رہی ہے تو وہ ماضی کی طرح کھلم کھلا نہیں۔ البتہ توقع تھی کہ ’تھانہ اور پٹوار خانہ کلچر‘ میں تبدیلی کا وعدہ سرکاری محکموں کی ازسرنو تنظیم نو‘ سرکاری ملازمتوں کے قواعد پر نظرثانی‘ سزا و جزا اور نظم و ضبط متعارف کرانے‘ اداروں کو باہم مربوط کرنے کے ساتھ محکمانہ سطح پر بلاامتیاز احتساب برپا کیا جائے گا۔ پولیس اہلکاروں کی کارکردگی کا معیار اور اُن کے خلاف شکایات سے متعلق خفیہ اداروں سے تحقیقات کرائی جائیں گی۔ پولیس سمیت جملہ سرکاری ملازمین کے اثاثہ جات میں ہوئے ردوبدل یا غیرمعمولی اضافے کا نوٹس لیاجائے گا۔ اِس سلسلے میں ادنی‘ ثانوی و اعلیٰ تعلیم کے نجی اداروں میں زیرتعلیم طلباء و طالبات کے کوائف اکٹھا کر لئے جاتے تو کام مزید آسان ہو سکتا تھا کہ ’سالانہ دس لاکھ روپے‘ سے زائد ٹیوشن فیسوں کی مد میں ادا کرنے والوں کی اکثریت کا تعلق کن کن سرکاری محکموں سے ہے! یہ بات شک و شبے سے بالاتر ہے کہ ’احتساب کے خوف‘ سے ’مالی و انتظامی بدعنوانی کی شرح میں کمی‘ ضرور آئی ہے لیکن ’طریقۂ واردات‘ بھی تو بدل چکا ہے اور جہاں بس چلتا ہے‘ وہاں اگلی پچھلی کسر نکال لی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پولیس جیسے بظاہر خدمتگار و مستعد محکمے کے بارے میں عام آدمی کی رائے آج بھی وہی ہے جو دوہزار تیرہ کے عام انتخابات سے قبل تھی! کوئی نہیں چاہتا کہ وہ خود کو تھانہ کچہری کے جنجال پورہ میں کھڑا پائے؟ یہی وجہ ہے کہ سفید پوش اپنے حقوق سے دستبردار ہونے کو ترجیح دیتے ہیں۔ تحریک انصاف پر اعتراض کرنے والوں کو کم از کم اس بات کا اعزاز تو دینا ہی ہوگا کہ امن و امان کی صورتحال اِس حد تک تو بہتر کر لی گئی ہے کہ ’وی وی آئی پیز‘ سڑکوں پر کھلے عام پیدل چل پھر سکتے ہیں۔ وگرنہ اس سے قبل گورنر خیبرپختونخوا اپنی سرکاری رہائشگاہ سے پیدل چلتے ہوئے چھاؤنی جیسی چاراطراف سے حفاظتی حصار والے علاقے میں بھی چہل قدمی نہیں کر سکتے تھے۔ بہرکیف سیکورٹی حالات اگر معمول پر آ رہے ہیں تو اِن کی رفتار‘ پائیداری اور ان کے بارے میں تاثر قابل بھروسہ نہیں۔ چوبیس اپریل کے روز گلبہار پولیس اسٹیشن کے باہر ہوئے بم دھماکے نے پشاور کے اُن گنجان آباد علاقوں کی سیکورٹی پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے‘ جو براستہ رنگ روڈ قبائلی علاقوں سے جا ملتے ہیں!

تین اطراف سے قبائلی علاقوں میں گھرے ہوئے پشاور کے ’داخلی امن‘ کا انحصار اُس کھلم کھلا آمدورفت پر ہے‘ جو غیرروائتی راستوں کے ذریعے ہوتی ہے۔ اب تک گرفتار ہونے والے عسکریت پسندوں کو کئی ایک حفاظتی چیک پوسٹوں سے گزرنے کے بعد گرفتار کیا گیا ہے اور حال ہی میں یونیورسٹی ٹاؤن کی حدود میں گرفتار ہونے والوں سے تو اسلحہ و بارود کے ساتھ پہلی مرتبہ پیٹرول بھی برآمد ہوا ہے‘ جو کسی دہشت گرد واردات کے بعد نشانہ بننے والوں کی لاشوں اور ثبوت مٹانے کے لئے آگ لگانا چاہتے تھے۔ یہ ایک دل ہلا دینے والی حقیقت ہے کہ عسکریت پسند ہر اُس انتہاء تک جا سکتے ہیں‘ جہاں اِنسانیت کانپ جائے! اتنا گہرا زخم لگے کہ ضبط و برداشت کرنا مشکل ہو! پشاور پولیس کے اعلی انتظامی اہلکار کے بقول پشاور کو محفوظ بنانے کی راہ میں حائل ایک بڑی رکاوٹ وہ اثرورسوخ ہے‘ جو منتخب نمائندے رکھتے ہیں۔ مختلف ادوار میں بھرتی کئے گئے سرکاری ملازمین کی سیکورٹی کلیئرنس بھی ایک مسئلہ ہے کیونکہ سرکاری سطح پر فیصلہ سازی اور حکمت عملیاں راز نہیں رکھی جا سکتیں۔ اگرچہ پولیس کا موجودہ وائرلیس کیمونیکیشن کا نظام ڈیجیٹل ہے لیکن اس کے باوجود ایسی اطلاعات ملی ہیں جس میں عسکریت پسندوں اور منظم جرائم پیشہ عناصر کو پولیس کی آمد سے قبل ہی اطلاع ہوتی رہی۔

یہ ایک پیچیدہ منظرنامہ ہے۔ عسکریت پسندوں کے مذہبی و سیاسی جماعتوں سے بھی تعلق ہیں اور اُن کے پاس ایسے سہولت کار بھی ہیں‘ جہاں قیام و طعام کی سہولیات اور طویل عرصے کے لئے روپوش رہا جاسکتا ہے۔ کیا آپ پولیس سے یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ پشاور کے ہر ایک گھر کی نگرانی کرے۔ پولیس بیک وقت کس کس محاذ پر لڑے۔ افرادی و تکنیکی وسائل محدود ہیں۔ ایک سال سے زیادہ عرصہ ہوچکا ہے کہ پشاور میں پولیس تھانہ جات کی ضروریات کے لئے اضافی مالی وسائل مانگے گئے تھے‘ جو تاحال فراہم نہیں کئے گئے۔ پولیس جرائم پیشہ عناصر‘ بھتہ خوروں‘ اغوأ کاروں‘ قبرستانوں اور شہری و دیہی حدود میں متحرک قبضہ مافیا‘ منشیات فروشوں‘ تجاوزات کی سرپرستی کرنے والوں‘ طرح طرح کے جوئے خانوں‘ سٹریٹ کرائمز کرنے والے چھوٹے بڑے گروہوں سے تن تنہا نمٹے یا عسکریت پسندوں‘ اِنتہاء پسندوں اُور اُن کے سہولت کاروں پر توجہ دے؟

اِس سلسلے میں شہری و دیہی علاقوں میں رہنے والے اپنے گردوپیش پر نظر رکھنا ہوگی‘ سب کو اپنی اپنی ذمہ داری کا احساس کرنا ہوگا اور جہاں کہیں بھی مشکوک افراد کی آمدورفت یا بودوباش نظر آئے تو خاموشی کے ساتھ متعلقہ پولیس تھانے یا اگر زیادہ احتیاط مقصود ہو تو پولیس کنٹرول روم ( 9212222 -091) کو مطلع کریں۔
ہر تھانے کو پہلے ہی ہدایت کر دی گئی ہے کہ وہ پولیس سے رابطہ کے نمبر مرکزی چوراہوں پر آویزاں کریں اور یہ عمل مکمل بھی ہوچکا ہے۔ اگر ہمیں انتہاء پسندی کا پرچار کرنے والوں کو بے نقاب کرنا ہے اور ہمارا ہدف مسلح گروہوں کو شکست دینا ہے تو اِس جنگ کو قانون نافذ کرنے والے اداروں کے سپرد کرنا کافی نہیں ہوگا بلکہ معاشرے کے ہر فرد (مرد اُور عورت) کو اَپنا اَپنا کردار اَدا کرنا ہوگا۔‘‘
Our own war

No comments:

Post a Comment