Thursday, April 23, 2015

Apr2015: E-Governance without Internet, impossible!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
مستعد طرزِعمل
اصلاح پسند خیبرپختونخوا حکومت جن خباثتوں سے پاک نئے طرز حکمرانی اور عہد کی تشکیل کے لئے پرعزم و پرجوش ہے اُس میں ’انٹرنیٹ‘ کے ذریعے رابطہ کاری کے وسائل سے استفادے کو مرکزی اہمیت حاصل ہونی چاہئے۔ طرزحکمرانی میں جدت(اصلاح)‘ علاج معالجے اور درس تدریس کے شعبوں میں انٹرنیٹ کا استعمال‘ حتیٰ کہ اِسی کی بنیاد پر مستقبل میں شفاف عام انتخابات کے انعقاد پر ماہرین تحقیق اپنی جگہ لیکن پشاور سمیت خیبرپختونخوا کے مختلف اضلاع بالخصوص دور دراز علاقوں میں برق رفتار انٹرنیٹ تک رسائی ممکن بنانا اشد ضروری ہے کیونکہ ارباب اختیار کو اِس حقیقت کا ادراک کرنا ہوگا کہ احتساب ہو یا انٹرنیٹ‘ اگر دونوں کی رفتار سست ہوگی تو وقت گزرنے کے ساتھ اِس سے ادویات کا مرض کے خلاف مزاحمتی کردار کمزور ہوتا چلا جائے گا!

سوال یہ بھی ہے کہ ’انٹرنیٹ کے وسائل سستے کب ہوں گے؟‘ ایک طرف حکومتی ادارے کی ’انٹرنیٹ بینڈوتھ‘ پر اجارہ داری ہے تو دوسری طرف نجی ادارے تھری جی اور فور جی موبائل ٹیکنالوجی کو موبائل فون ہی کی حد تک محدود نہیں رکھنا چاہتے اُور اُنہوں نے ایسے آلات کی فروخت شروع کر دی ہے جن سے بناء موبائل فون بھی انٹرنیٹ کا ’وائی فائی‘ استفادہ ممکن ہوسکتا ہے اور حکومت کے مقرر کردہ نرخ کے مقابلے ایک گھریلو صارف کو 20گیگابائٹ (جی بی) تک کا ماہانہ ڈیٹا پلان پندرہ سو روپے کا ملتا ہے جس کی رفتار حکومتی ادارے کے مقابلے کئی گنا زیادہ ہوتی ہے! کہیں ایسا تو نہیں کہ سرمایہ پرست طبقہ اِس پورے کھیل کو بنائے ہوئے ہو‘ جس میں حکومت کی بجائے نجی اداروں کے مفاد کا زیادہ خیال رکھا جا رہا ہے؟ حال ہی میں چین کے صدر کی پاکستان آمد اور پھر اربوں ڈالر کے ترقیاتی منصوبوں میں ’انفارمیشن ٹیکنالوجی‘ کا ذکر تو ملتا ہے لیکن انٹرنیٹ کے تیزرفتار وسائل کی وسعت کے لئے خاطرخواہ اقدامات یا اعلانات سننے میں نہیں آرہے ہیں۔ یاد رہے کہ عالمی مارکیٹ میں ہر گزرتے سال کے ساتھ ’انٹرنیٹ بینڈوتھ‘ کے دام کم ہوتے جا رہے ہیں جس کا اعدادوشمار میں بیان کیا جائے تو یہ تناسب سالانہ تقریباً پچیس سے پینتیس فیصد بنتا ہے۔ رواں برس عالمی مارکیٹ میں فی گیگابائٹ ڈیٹا ٹرانسفر کی قیمت پاکستانی کرنسی میں 64 روپے بنتی ہے۔ عام صارف کو بارہ سو پچاس روپے ماہانہ میں ملنے والا ایک ایم بی پی ایس کی بجائے آٹھ ایم بی پی ایس (میگا بائٹس فی سیکنڈ) کا انٹرنیٹ کنکشن ملنا چاہئے جبکہ ایک ایم بی پی ایس کی قیمتِ زیادہ سے زیادہ دو سو روپے ہونی چاہئے تھی! پاکستان میں جس قیمت پر ایک ایم بی پی ایس کا کنکشن دستیاب ہے‘ اسی قیمت یا اس سے کچھ زیادہ پر ہمسایہ ملک بھارت میں صفِ اول کی کمپنیاں چار سے سولہ ایم بی پی ایس تک کے کنکشن فراہم کر رہی ہیں! ان پیکجز میں ڈاؤن لوڈنگ اور اپ لوڈنگ کی ایک حد مقرر ہوتی ہے لیکن کیا پاکستان میں اتنی کم قیمت پر اتنی بہترین رفتار کا انٹرنیٹ میسر ہے؟ پاکستان بھر میں ڈھائی کروڑ افراد انٹرنیٹ استعمال کرتے ہیں‘ جن میں نصف سے زیادہ تعداد یعنی ڈیڑھ کروڑ افراد انٹرنیٹ کا بذریعہ موبائل فون کے ذریعے ہرجگہ سے آن لائن ہو سکتے ہیں۔ ڈھائی کروڑ انٹرنیٹ صارفین میں سے صرف کم و بیش چھ فیصد پاکستانی تیز اور بلاتعطل انٹرنیٹ تک رسائی رکھتے ہیں۔ کیا یہ عجب نہیں کہ انٹرنیٹ استعمال کرنے والوں کی کل تعداد کا صرف چھ فیصد ہی مطمئن ہو! اگر ہم اٹھارہ یا اُنیس کروڑ کی آبادی کا تناسب نکالیں تو کل 13 فیصد پاکستانی انٹرنیٹ استعمال کر رہے ہیں اور اس لحاظ سے پاکستان انٹرنیٹ صارفین کی تعداد کے لحاظ سے 161ویں نمبر پر ہے! خطے کے دو ممالک افغانستان اور بنگلہ دیش ہی ہم سے پیچھے ہیں۔

ہمارا مسئلہ ’بھیڑ چال‘ کا بھی ہے۔ اگر کسی ایک صوبے میں ’طلباء و طالبات کو لیپ ٹاپ‘ دیئے گئے تو بجائے اپنے معروضی حالات کو مدنظر رکھنے کے ہم نے بھی مقبولیت کا وہی انداز اپنایا‘ جس کے خاطرخواہ نتائج اِس لئے برآمد نہیں ہوسکتے کیونکہ بناء کم قیمت‘ مستعد و مستحکم انٹرنیٹ کی فراہمی کو ممکن نہیں بنایا جاتا اُس وقت تک انفارمیشن ٹیکنالوجی سمیت کسی بھی شعبے میں ’ای گورننس‘ متعارف سے پوری طرح فائدہ نہیں اُٹھایا جاسکے گا۔ قبل ازیں انہی سطور کے ذریعے خیبرپختونخوا کے مرکزی شہروں کو مکمل یا جزوی طور پر ’وائی فائی ہاٹ سپاٹ‘ بنانے کی تجویز دی گئی ہے جس سے شعبۂ تعلیم میں سب سے زیادہ فائدہ اُٹھایا جا سکتاہے کیونکہ اگر گھر گھر استاد کو بھیجنے سے بیچارہ معلم تھک کے ٹوٹ جائے گا لیکن اگر گھر گھر وائی فائی کے ذریعے طلباء و طالبات ایک ایسے وسیلے سے جڑے رہیں جہاں چوبیس گھنٹے معلم ’حاضر جناب‘ رہیں تو شرح خواندگی کے ساتھ علوم کی منتقلی‘ رہنمائی اور تحقیق کے شعبوں میں زیادہ تیزی سے آگے بڑھا جاسکے گا۔

بناء ترجیحات اہداف کسی کام کے نہیں اور نہ ہی اہداف بناء ترجیحات کی تشکیل سے کوئی مقصد حاصل کیا جا سکے گا۔ ہمیں کچھ ایسے ٹرینڈز (مستعد طرزعمل) اختیار کرنے کو پیش نظر رکھنا ہوگا‘ جو نوجوانوں کی دلچسپی‘ اُن کے عمومی و خصوصی رجحانات (ٹیکنالوجی دوست روئیوں) اُور عالمی سطح پر رابطہ کاری کے لئے اختیار کئے جانے والے وسائل پر اعتماد کا کھلا اظہار ہیں۔ ٹیکنالوجی ہی کی برکات سے خلائیں تسخیر اور زمین کی تہہ میں چھپے خزانوں کا حجم معلوم کر لیا جاتا ہے۔ دوراندیشی متقاضی ہے کہ نیند کی حالت میں نقل و حرکت اُور بول چال کی لاحق بیماری کا علاج کروایا جائے‘ جس سے متاثرہ افراد میں نہ تو بصیرت شرط ہے اُور نہ ہی بصارت!

Internet need to be cheaper and speedy for e-revolution

No comments:

Post a Comment