Back to Shandur
شیندور کا تنازعہ
شیندور کا تنازعہ
خیبرپختونخوا اور گلگت بلتستان حکومتوں کے درمیان ایک دیرینہ تنازعہ حل
ہونے کی وجہ سے دنیا کے بلند ترین کھیل کے میدان ’شیندور‘ میں ہونے والے
سالانہ کھیلوں کے مقابلے جن میں ’پولو‘ کا مقابلہ عالمی توجہ کا مرکز ہوتا
ہے کے روائتی گرمجوش مقابلوں کے انعقاد کے امکانات روشن ہو گئے ہیں اور تین
برس کے وقفے کے بعد رواں برس 7 سے 9 اگست تک شیندور میلے کے دوران گلگت
بلتستان کی پولو ٹیم بھی روائتی حریف کے مدمقابل ہوگی۔ یاد رہے کہ شیندور
کا میدانی علاقہ خیبرپختونخوا کے ضلع چترال کا حصہ ہے جو سطح سمندر سے 12
ہزار 500 فٹ بلندی پر واقع ہے۔
شیندور کے مقام کے حوالے سے جب خیبرپختونخوا اُور وفاق کے زیرانتظام گلگت بلتستان حکومتوں کے درمیان تنازعہ کھڑا ہوا تو اُس کے حل کے لئے کسی نے خاطرخواہ کردار ادا نہیں کیا حتیٰ کہ وفاقی حکومت کی جانب سے اِس سلسلے میں خاطرخواہ کوششیں دیکھنے میں نہیں آئیں۔ گلگت بلتستان سے تعلق رکھنے والے چھ وزرأ پر مشتمل ایک وفد نے پشاور کا دورہ کیا‘ جن کا صوبائی دارالحکومت میں پرتپاک استقبال کیا گیا اور اِس وفد نے خیبرپختونخوا حکومت سے مذاکرات کئے تاکہ شیندور کا تنازعہ حل کیا جاسکے۔20 اپریل کو دونوں فریقین نے ایک مشترکہ کانفرنس میں اعلان کیا کہ شیندور پولو فیسٹول کا انعقاد دونوں حکومتیں مل کر کریں گی۔ تنازعہ کی وجہ گلگت بلتستان کی پولو ٹیم‘ حکام اُور شائقین نے ’شیندور میلے‘ میں شرکت کرنا ترک کردی تھی جس کی وجہ سے اِس میلے کا خاطرخواہ لطف نہیں آ رہا تھا۔ میلے کے دُوران روائتی ٹیموں چترال اور گلگت بلتستان کے مابین مقابلہ ہوتا ہے جو جذبات سے بھرپور ہوتا ہے۔ خیبرپختونخوا حکومت کے مشیر برائے کھیل‘ ثقافت و امور نوجوانان امجد آفریدی کے بقول ’’گلت بلتستان اور چترال کی ٹیموں کے درمیان پولو مقابلہ پاکستان و بھارت کی کرکٹ‘ ہاکی و دیگر کھیلوں کے مقابلوں جیسا ہی ہوتا ہے۔ دونوں حکومت کے درمیان تنازعہ حل ہو جانے کے بعد اگست میں شیندور پولو مقابلہ ہونے امکانات ہیں جب غزر‘ گلگت‘ ہنزہ اور نگر کے علاؤہ سکردو بلتستان کے دور دراز علاقوں سے بھی شائقین شرکت کریں گے۔ گذشتہ تین برس سے گلگت بلتستان کی ٹیم شریک نہ ہونے سے ’شیندور فیسٹیول‘ میں شائقین کی حاضری نسبتاً کم رہی۔ ماضی میں جو حاضری دس ہزار شائقین کی ہوتی تھی وہ کم ہو تین ہزار رہ گئی۔ گذشتہ برس (سال دو ہزار چودہ) کے دوران صرف چند غیرملکی سیاح ہی شیندور میلہ دیکھنے آئے۔ شیندور میلے کو دیکھنے کے لئے غیرملکی سیاحوں کے ساتھ پاکستان میں تعینات غیرملکی سفیر بھی بڑی تعداد میں آتے تھے جس کی وجہ سے علاقے میں معاشی سرگرمیاں بھی پیدا ہوتی تھیں۔
جن وجوہات کی بناء پر گلگت بلتستان کی پولو ٹیم نے ’شیندور فیسٹول‘ میں شرکت کرنے سے معذرت کی‘ وہ انتہائی معمولی نوعیت کی باتیں تھیں جیسا کہ اُنہیں شائقین کے بیٹھنے کے لئے مختص مقامات پر اعتراض تھا کہ وہ بیٹھنے کی جگہ زیادہ ہونی چاہئے۔ اسی طرح گلگت بلتستان کے دور دراز یا مرکزی علاقوں سے آنے والے شائقین کو خیبرپختونخوا آمدورفت میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتاتھا کیونکہ حفاظتی انتظامات آڑے آتے تھے۔ گلگت بلتستان کا یہ مطالبہ بھی تھا کہ مہمان خصوصی جس انعامی رقم کا اعلان کریں وہ خیبرپختونخوا اور گلگت بلتستان کی ٹیموں کے درمیان برابر تقسیم ہو۔ خیبرپختونخوا حکومت نے اِن تمام تحفظات کو دور کرنے پر رضامندی کا اظہار کیا ہے کیونکہ شیندور پولو فیسٹول جیسا مقبول زمانہ اور اپنی نوعیت کے اس منفرد تفریحی ذریعے سے زیادہ کوئی دوسری چیز اہم نہیں ہو سکتی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ گلگت بلتستان کے کھیل و سیاحت کے وزیر عنایت اللہ شمالی نے اِس توقع کا اظہار کیا کہ اِس مرتبہ ’شیندور فیسٹیول‘ سے وابستہ شائقین کی توقعات پوری ہوں گے اور اُنہیں خوب محظوظ ہونے کا موقع ملے گا جبکہ ملکی و غیرملکی سیاح بھی شیندور فیسٹیول دیکھنے آئیں گے۔
جس انداز میں خیبرپختونخوا اور گلگت بلتستان حکومتوں نے اپنے اختلافات بات چیت کے ذریعے دور کئے ہیں وہ دیگر صوبوں کے لئے بھی سبق آموز ہیں کہ وہ بھی ایک دوسرے سے حدود‘ پانی کی تقسیم و دیگر تنازعات بات چیت کے ذریعے ہی زیادہ بہتر و مؤثر انداز میں حل کرسکتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ خیبرپختونخوا اور گلگت بلتستان کے درمیان زیادہ گھمبیر قسم کے تنازعات بھی اسی طریق سے حل ہونے چاہئے جیسا کہ تین مقامات پر حدود کے تعین کا مسئلہ ہے۔ یہ مقامات کوہستان دیامر‘ درہ بابوسر اور شیندور کے ہیں۔ اگرچہ گلگت بلتستان حکومت کے کچھ تحفظات دور تو ہوئے ہیں جو ’شیندور میلے‘ میں شرکت سے متعلق تھے لیکن شیندور کے علاقے پر ملکیت کے حوالے سے وہ اپنے دعوے سے ابھی دستبردار نہیں ہوئے اور اس کی ملکیت کا دعویٰ چترال کا بھی ہے جو عرصہ دراز سے اِس علاقے پر کنٹرول رکھتا ہے۔
دریائے سندھ پر تعمیر ہونے والے ’دیامیر بھاشا ڈیم‘ کا معاملہ قدرے سنگین ہے جو خیبرپختونخوا کے ضلع کوہستان اور ملحقہ گلگت بلتستان کے علاقوں پر مشتمل ہے۔ اس تنازعے کو حل کرنے کے لئے ڈیم کے بجلی گھر کا مقام تبدیل کیا گیا اور اسے ایک ایسے مقام پر تعمیر کیا گیا جس سے خیبرپختونخوا اور گلگت بلتستان دونوں کو فائدہ ہو۔ اسی طرح ڈیم کا اصل نام ’بھاشا ڈیم‘ تھا جسے تبدیل کرکے ’دیامیر بھاشا ڈیم‘ کر دیا گیا ہے۔ اس علاقے میں حدود کا تعین کرنے کے لئے سپرئم کورٹ کے ایک ریٹائرڈ جج تنویر احمد خان کی سرپرستی میں کمیشن بھی تشکیل دیا گیا جبکہ اپرکوہستان اور دیامیر کے رہنے والوں کے درمیان ہوئی ایک مسلح جھڑپ جس میں کئی ایک افراد زخمی ہو گئے تھے کے بعد وفاقی حکومت کے زیرکنٹرول ’پنجاب رینجرز‘ کے دستے علاقے میں تعینات کر دیئے گئے۔ اُمید کی جاسکتی ہے کہ آنے والے دنوں میں جملہ تنازعات خوش اسلوبی سے حل کر لئے جائیں گے۔ یاد رہے کہ کثیرالمقاصد ’دیامیر بھاشا ڈیم‘ پر لاگت کا تخمینہ 14 ارب ڈالر لگایا گیا ہے جس سے 4500 میگاواٹ بجلی حاصل ہونے کے علاؤہ زراعت کی ترقی اور تربیلا ڈیم کی عمر میں اضافہ ہوگا۔ حکومت کی جانب سے دیامیر بھاشا ڈیم سے ملحقہ 32 دیہی علاقوں سے تعلق رکھنے والے کم و بیش 25 ہزار افراد کی نقل مکانی اور تعمیراتی کاموں کے لئے 101 ارب روپے منظور کئے ہیں۔ شیندور فیسٹول کے حوالے سے تنازعات تو معمولی نوعیت کے تھے جو اپنی فطرت میں زیادہ سنگین نوعیت کے نہیں لیکن اراضی کی ملکیت اور حدود کے تنازعات زیادہ سنگین نوعیت ہیں جن کے حل کے لئے پیشرفت ہونی چاہئے اور وفاقی اکائیوں کو مابین اختلافات و تنازعات کے حل کے لئے عملی کوششیں کرنی چاہئیں‘ تاکہ تنازعات کے سبب متاثر ہونے والی خوشحالی و ترقی کا معطل عمل آگے بڑھ سکے۔
(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: رحیم اللہ یوسفزئی۔ ترجمہ: شبیر حسین اِمام)
شیندور کے مقام کے حوالے سے جب خیبرپختونخوا اُور وفاق کے زیرانتظام گلگت بلتستان حکومتوں کے درمیان تنازعہ کھڑا ہوا تو اُس کے حل کے لئے کسی نے خاطرخواہ کردار ادا نہیں کیا حتیٰ کہ وفاقی حکومت کی جانب سے اِس سلسلے میں خاطرخواہ کوششیں دیکھنے میں نہیں آئیں۔ گلگت بلتستان سے تعلق رکھنے والے چھ وزرأ پر مشتمل ایک وفد نے پشاور کا دورہ کیا‘ جن کا صوبائی دارالحکومت میں پرتپاک استقبال کیا گیا اور اِس وفد نے خیبرپختونخوا حکومت سے مذاکرات کئے تاکہ شیندور کا تنازعہ حل کیا جاسکے۔20 اپریل کو دونوں فریقین نے ایک مشترکہ کانفرنس میں اعلان کیا کہ شیندور پولو فیسٹول کا انعقاد دونوں حکومتیں مل کر کریں گی۔ تنازعہ کی وجہ گلگت بلتستان کی پولو ٹیم‘ حکام اُور شائقین نے ’شیندور میلے‘ میں شرکت کرنا ترک کردی تھی جس کی وجہ سے اِس میلے کا خاطرخواہ لطف نہیں آ رہا تھا۔ میلے کے دُوران روائتی ٹیموں چترال اور گلگت بلتستان کے مابین مقابلہ ہوتا ہے جو جذبات سے بھرپور ہوتا ہے۔ خیبرپختونخوا حکومت کے مشیر برائے کھیل‘ ثقافت و امور نوجوانان امجد آفریدی کے بقول ’’گلت بلتستان اور چترال کی ٹیموں کے درمیان پولو مقابلہ پاکستان و بھارت کی کرکٹ‘ ہاکی و دیگر کھیلوں کے مقابلوں جیسا ہی ہوتا ہے۔ دونوں حکومت کے درمیان تنازعہ حل ہو جانے کے بعد اگست میں شیندور پولو مقابلہ ہونے امکانات ہیں جب غزر‘ گلگت‘ ہنزہ اور نگر کے علاؤہ سکردو بلتستان کے دور دراز علاقوں سے بھی شائقین شرکت کریں گے۔ گذشتہ تین برس سے گلگت بلتستان کی ٹیم شریک نہ ہونے سے ’شیندور فیسٹیول‘ میں شائقین کی حاضری نسبتاً کم رہی۔ ماضی میں جو حاضری دس ہزار شائقین کی ہوتی تھی وہ کم ہو تین ہزار رہ گئی۔ گذشتہ برس (سال دو ہزار چودہ) کے دوران صرف چند غیرملکی سیاح ہی شیندور میلہ دیکھنے آئے۔ شیندور میلے کو دیکھنے کے لئے غیرملکی سیاحوں کے ساتھ پاکستان میں تعینات غیرملکی سفیر بھی بڑی تعداد میں آتے تھے جس کی وجہ سے علاقے میں معاشی سرگرمیاں بھی پیدا ہوتی تھیں۔
جن وجوہات کی بناء پر گلگت بلتستان کی پولو ٹیم نے ’شیندور فیسٹول‘ میں شرکت کرنے سے معذرت کی‘ وہ انتہائی معمولی نوعیت کی باتیں تھیں جیسا کہ اُنہیں شائقین کے بیٹھنے کے لئے مختص مقامات پر اعتراض تھا کہ وہ بیٹھنے کی جگہ زیادہ ہونی چاہئے۔ اسی طرح گلگت بلتستان کے دور دراز یا مرکزی علاقوں سے آنے والے شائقین کو خیبرپختونخوا آمدورفت میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتاتھا کیونکہ حفاظتی انتظامات آڑے آتے تھے۔ گلگت بلتستان کا یہ مطالبہ بھی تھا کہ مہمان خصوصی جس انعامی رقم کا اعلان کریں وہ خیبرپختونخوا اور گلگت بلتستان کی ٹیموں کے درمیان برابر تقسیم ہو۔ خیبرپختونخوا حکومت نے اِن تمام تحفظات کو دور کرنے پر رضامندی کا اظہار کیا ہے کیونکہ شیندور پولو فیسٹول جیسا مقبول زمانہ اور اپنی نوعیت کے اس منفرد تفریحی ذریعے سے زیادہ کوئی دوسری چیز اہم نہیں ہو سکتی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ گلگت بلتستان کے کھیل و سیاحت کے وزیر عنایت اللہ شمالی نے اِس توقع کا اظہار کیا کہ اِس مرتبہ ’شیندور فیسٹیول‘ سے وابستہ شائقین کی توقعات پوری ہوں گے اور اُنہیں خوب محظوظ ہونے کا موقع ملے گا جبکہ ملکی و غیرملکی سیاح بھی شیندور فیسٹیول دیکھنے آئیں گے۔
جس انداز میں خیبرپختونخوا اور گلگت بلتستان حکومتوں نے اپنے اختلافات بات چیت کے ذریعے دور کئے ہیں وہ دیگر صوبوں کے لئے بھی سبق آموز ہیں کہ وہ بھی ایک دوسرے سے حدود‘ پانی کی تقسیم و دیگر تنازعات بات چیت کے ذریعے ہی زیادہ بہتر و مؤثر انداز میں حل کرسکتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ خیبرپختونخوا اور گلگت بلتستان کے درمیان زیادہ گھمبیر قسم کے تنازعات بھی اسی طریق سے حل ہونے چاہئے جیسا کہ تین مقامات پر حدود کے تعین کا مسئلہ ہے۔ یہ مقامات کوہستان دیامر‘ درہ بابوسر اور شیندور کے ہیں۔ اگرچہ گلگت بلتستان حکومت کے کچھ تحفظات دور تو ہوئے ہیں جو ’شیندور میلے‘ میں شرکت سے متعلق تھے لیکن شیندور کے علاقے پر ملکیت کے حوالے سے وہ اپنے دعوے سے ابھی دستبردار نہیں ہوئے اور اس کی ملکیت کا دعویٰ چترال کا بھی ہے جو عرصہ دراز سے اِس علاقے پر کنٹرول رکھتا ہے۔
دریائے سندھ پر تعمیر ہونے والے ’دیامیر بھاشا ڈیم‘ کا معاملہ قدرے سنگین ہے جو خیبرپختونخوا کے ضلع کوہستان اور ملحقہ گلگت بلتستان کے علاقوں پر مشتمل ہے۔ اس تنازعے کو حل کرنے کے لئے ڈیم کے بجلی گھر کا مقام تبدیل کیا گیا اور اسے ایک ایسے مقام پر تعمیر کیا گیا جس سے خیبرپختونخوا اور گلگت بلتستان دونوں کو فائدہ ہو۔ اسی طرح ڈیم کا اصل نام ’بھاشا ڈیم‘ تھا جسے تبدیل کرکے ’دیامیر بھاشا ڈیم‘ کر دیا گیا ہے۔ اس علاقے میں حدود کا تعین کرنے کے لئے سپرئم کورٹ کے ایک ریٹائرڈ جج تنویر احمد خان کی سرپرستی میں کمیشن بھی تشکیل دیا گیا جبکہ اپرکوہستان اور دیامیر کے رہنے والوں کے درمیان ہوئی ایک مسلح جھڑپ جس میں کئی ایک افراد زخمی ہو گئے تھے کے بعد وفاقی حکومت کے زیرکنٹرول ’پنجاب رینجرز‘ کے دستے علاقے میں تعینات کر دیئے گئے۔ اُمید کی جاسکتی ہے کہ آنے والے دنوں میں جملہ تنازعات خوش اسلوبی سے حل کر لئے جائیں گے۔ یاد رہے کہ کثیرالمقاصد ’دیامیر بھاشا ڈیم‘ پر لاگت کا تخمینہ 14 ارب ڈالر لگایا گیا ہے جس سے 4500 میگاواٹ بجلی حاصل ہونے کے علاؤہ زراعت کی ترقی اور تربیلا ڈیم کی عمر میں اضافہ ہوگا۔ حکومت کی جانب سے دیامیر بھاشا ڈیم سے ملحقہ 32 دیہی علاقوں سے تعلق رکھنے والے کم و بیش 25 ہزار افراد کی نقل مکانی اور تعمیراتی کاموں کے لئے 101 ارب روپے منظور کئے ہیں۔ شیندور فیسٹول کے حوالے سے تنازعات تو معمولی نوعیت کے تھے جو اپنی فطرت میں زیادہ سنگین نوعیت کے نہیں لیکن اراضی کی ملکیت اور حدود کے تنازعات زیادہ سنگین نوعیت ہیں جن کے حل کے لئے پیشرفت ہونی چاہئے اور وفاقی اکائیوں کو مابین اختلافات و تنازعات کے حل کے لئے عملی کوششیں کرنی چاہئیں‘ تاکہ تنازعات کے سبب متاثر ہونے والی خوشحالی و ترقی کا معطل عمل آگے بڑھ سکے۔
(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: رحیم اللہ یوسفزئی۔ ترجمہ: شبیر حسین اِمام)
![]() |
Back to Shandur |
No comments:
Post a Comment