Wednesday, April 22, 2015

Apr2015: LG Polls and Development Goals

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
بلدیاتی انتخابات: ترقیاتی ترجیحات
خیبرپختونخوا میں ’پاکستان تحریک انصاف‘ حکومت کا کردار شروع دن سے ایک ایسے ’بت شکن‘ کا رہا‘ جس کے سامنے پہاڑ جیسی مشکلات کھڑی تھیں۔ سرمایہ پرست‘ سیاسی تعصبات کو ہوا دینے والے‘ اختیارات کے غلط استعمال سے مالی و انتظامی بدعنوانیوں کے دلدادہ‘ سرکاری وسائل کی لوٹ مار کے سرپرست‘ رشوت ستانی کا بازار گرم کرکے طبقاتی نظام کے خالق و مالک اُور سفارش و اقرباء پروری پر مبنی طرز حکمرانی کی روایت جاری رکھنے والوں کے لئے ’تبدیلی‘ کا نعرہ ہوش و حواس اُور نیندیں اُڑانے کے لئے کافی تھا۔ ہر طرف اُس انتخابی وعدے کی گونج تھی جس میں ’بلاامتیاز احتساب‘ کا ذکر تھا لیکن محض انتظامی عہدوں پر چہروں کو یہاں وہاں تبدیل کردیا گیا۔ جب تک سرکاری اہلکاروں کے اثاثہ جات کی جانچ پڑتال نہیں ہوتی اور اراکین اسمبلی کی طرح اُنہیں اِس بات کا پابند نہیں بنایا جاتا کہ وہ ہرسال اپنی مالی حیثیت کے بارے میں صوبائی حکومت کو مطلع کریں گے‘ اُس وقت تک ’تبدیلی اُور اصلاحات‘ جیسے اہداف حاصل نہیں ہو پائیں گے۔

یادش بخیر سال 2014ء کے دوران صوبائی خزانے سے سترہ اراکین قومی اسمبلی کو چونتیس کروڑ روپے کے ترقیاتی فنڈز جاری کئے گئے اور چونکہ ایسا ماضی میں ہوتا رہا ہے کہ قانون ساز ایوانوں کے اراکین چاہے اُن کا تعلق وفاق یا کسی بھی صوبے سے ہو‘ اُنہیں صوابدیدی اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے صوبائی حکومت مالی وسائل دیتی رہی‘ اِس لئے کچھ بھی ’تعجب خیز‘ نہیں تھا۔ تحریک انصاف خیبرپختونخوا سے تعلق رکھنے والے جن 17اراکین قومی اسمبلی کو 34کروڑ روپے ’ازرائے تعفن‘ دیئے گئے وہ ہر رکن نے اپنے اپنے حلقۂ انتخاب میں خرچ کئے‘ اگرچہ وہاں سے تعلق رکھنے والے اراکین صوبائی اسمبلی پہلے ہی کروڑوں روپے اِسی مد میں ’ترقی کے نام‘ پر خرچ کر رہے تھے۔ المیہ یہ ہے کہ جب ہم سرکاری خزانے سے پیسہ خرچ کر رہے ہوتے ہیں تو ’امانت و دیانت کا ہمارا معیار‘ اُس کسوٹی سے مختلف ہوتا ہے جس کا پرچار ہمارے سیاسی قائدین عام اِنتخابات کے موقع پر ’نظریاتی یا اَصولی سیاست‘ کے نام پر کرتے ہیں۔ صوبائی حکومت نے دو کروڑ روپے فی رکن قومی اسمبلی بطور ’تحفہ‘ عنایت کئے (خیر کوئی بات نہیں) لیکن کیا اُس 34کروڑ روپے کے مصرف (حساب کتاب) سے متعلق تفصیلات مانگی جا سکتیں ہیں کہ صوبائی خزانے سے دیا جانے والا پیسہ کہاں اُور کس ترجیح کی بنیاد پر خرچ کیا گیا؟ کم وبیش ایک برس قبل جاری ہونے والا پیسہ مالی سال کے ختم ہونے سے پہلے مختلف حکومتی محکموں کے حوالے کر دیا گیا لیکن ترقیاتی کام ایک ایسے وقت میں ہو رہے ہیں جبکہ کنٹونمنٹ بورڈ اور بلدیاتی انتخابات سر پر ہیں۔ جب کسی علاقے کسی ویلج کونسل‘ تحصیل یا ضلع کے بلدیاتی اُمیدوار کو یہ کہا جاتا ہے کہ جاؤ اور اپنے حلقے میں بجلی کے کھمبوں اور ٹرانسفارمر کی تنصیب‘ پانی کی فراہمی کے منصوبے اور دیگر تعمیرات کی نگرانی کرو‘ اُن کی تکمیل کے عمل میں شریک ہو جاؤ تو یہ اُس کے مدمقابل اُن اُمیدواروں کی حق تلفی ہے‘ جو عین ممکن ہے علاقے کے مستقبل کے لئے زیادہ مفید سوچ کے حامل ہوں! سرکاری ادارے اگر اپنا کام وقت پر کرتے تو مالی سال کے آغاز پر جاری ہونے والے پیسوں سے ترقیاتی منصوبے نجانے کب کے تکمیل پا چکے ہوتے! مالی وسائل کی تقسیم‘ اُس کے سیاسی استعمال اور سرکاری اداروں کی کارکردگی کا احتساب ایک ناگزیر ضرورت بن چکی ہے۔ کیا قومی اسمبلی کے کسی حلقے کے لئے ترقیاتی فنڈز کا اجرأ بلدیاتی انتخابات سے ہفتوں قبل جاری ہونا ’بے قاعدگی‘ نہیں؟ کیا اِس سے انتخابی عمل متاثر نہیں ہو رہا؟ کیا یہ بلدیاتی انتخابات سے قبل دھاندلی (پری پول ریگنگ) نہیں؟ اَصولی طور پر ہم صرف اُس شخص کو معاف کرسکتے ہیں جس نے ہمارے خلاف کوئی جرم کیا ہو۔ کسی اُور کے خلاف کئے ہوئے جرم کو معاف کرنے کا اختیار ہمیں قانون نہیں دیتا۔ اسی طرح اگر عوام کے ٹیکسوں سے جمع ہونے والا پیسہ ’سیاسی ساکھ‘ بہتر بنانے کے لئے کسی ’صوابدیدی اختیار‘ کا استعمال کرتے ہوئے تقسیم کیا جاتا ہے تو کیا اُس کے ’جائز استفادہ‘ کے بارے میں سوال نہیں پوچھا جاسکتا؟
جزئیات ملاحظہ کیجئے۔ اَمانت و دیانت اُور اِنصاف کا یہ کونسا اَصول (طرزعمل) ہے کہ سرکاری مالی و انتظامی وسائل ایسی شخصیات کے ’تابع فرمان‘ بنا دیئے جائیں‘ جن کے احتساب کے بارے میں سب سے کم سوچا جاتا ہے! خیبرپختونخوا اسمبلی اجلاس کی کاروائی دیکھیں‘ ماضی کی طرح آج بھی ’حزب اختلاف‘ کے نکتۂ اعتراض پر مائیک بند ہوجاتے ہیں۔ وہی علامتی و غیرعلامتی ’واک آؤٹ‘ ہوتے ہیں۔ وہی اسمبلی ہال کے سامنے مظاہرین پر آنسوگیس کے گولے پھینکے جاتے ہیں۔ وہی لاٹھیاں آج بھی چل رہی ہیں۔ وہی حقوق مانگے جا رہے ہیں۔ جنہیں ادا کرنے والے ماضی ہی کی طرح محفوظ و پرتعیش عمارت میں تشریف فرما ہیں! ماضی ہی کی طرح سینیٹ انتخابات کے موقع پر پولنگ کا عمل ذرائع ابلاغ کی نظروں سے اُوجھل رکھا گیا! وغیرہ وغیرہ۔ تو کیا یہ سبھی اقدامات جمہوریت کا اِستحکام اور اس کی تبدیل ہوئی اِشکال (تقاضے) ہیں یا ہم روایت پرست سیاسی قائدین کی نیت نہیں بلکہ اُن کے ’اَعمال‘ سے یہ نتیجہ اخذ کرنے میں حق بجانب ہیں کہ ’’گلاب کے پھول کو چاہے کسی بھی نام سے پکاریں وہ بہرحال پھول ہی کہلائے گا‘‘ ایک ایسا پھول جس کے ہمراہ ٹہنیوں پر لاتعداد کانٹے بھی ہوتے ہیں!

No comments:

Post a Comment