ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
جہالت‘ غربت‘ اَقدار اُور سیاست
جہالت‘ غربت‘ اَقدار اُور سیاست
جہل کی کوئی اِنتہاء نہیں اِس کی جھلک پڑھے لکھے اَفراد کے قول و فعل میں
ملاحظہ کی جا سکتی ہے‘ جہاں لکھا ہو گا کہ یہاں گندگی پھینکنا منع ہے وہیں
ٹھوس گندگی کے ڈھیر لگے ہوئے دکھائی دیں گے۔ جہاں لال رنگ کا نشان لگا ہوگا
کہ ’’ہارن بجانا منع ہے‘‘ وہیں کان پڑی ہوئی آواز سنائی نہیں دے گی۔ جہاں
پارکنگ ممنوع قرار دی گئی ہو گی‘ وہیں گاڑیاں ’قطار در قطار‘ آمدورفت تو
کیا پیدل چلنے والوں کے لئے بھی مشکل بنائے ہوگی۔ جہاں لکھا ہوگا قطار
بنائیں‘ وہیں دھکم پیل ہو رہی ہوگی۔ جہاں تھوکنا منع ہے‘ وہیں درودیوار پر
گل کاریاں نظرآئیں گی وغیرہ وغیرہ۔ اَلغرض تعلیمی اِداروں کے نظم وضبط‘
اِمتحانات میں نقل کے رجحان‘ عہدوں اُور اِختیارات کا غلط استعمال‘ مالی و
اِنتظامی بدعنوانیاں‘ سفارش‘ اَقربا پروری‘ تعصبات‘ طبقات اُور اِمتیازات
کو پروان چڑھانے والے کوئی اُور نہیں بلکہ اِن کی اکثریت بظاہر پڑھے لکھے
اَفراد پر مشتمل دکھائی دے گی۔
’غربت‘ کی بھی کوئی حد نہیں‘ افلاس کی بیماری مال و متاع رکھنے والوں کو ذہنی و فکری طور پر متاثر کر سکتی ہے‘ وہ صرف اپنے ذاتی مفاد کے بارے میں سوچنے تک محدود ہو سکتے ہیں۔ اگر یقین نہ آئے تو سرمایہ پرستوں کی حرص ملاحظہ کیجئے جو ذخیرہ اَندوزی‘ ملاوٹ اُور گراں فروشی کی صورت دکھائی دیتی ہے۔ سرمایہ دار ہونا کوئی جرم نہیں ’سرمایہ پرستی‘ اَلمیہ ہے‘ جس کی وجہ سے اَقدار کا جنازہ نکل چکا ہے۔ اگر یقین نہ آئے تو شہری و اکثر دیہی علاقوں میں گھر گھر ’کیبل نیٹ ورکس‘ کے چینلز پر نظر کریں‘ ’پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا)‘کے صوبائی و مرکزی اراکین کا تجاہل عارفانہ ملاحظہ کیجئے‘ وہ سب کچھ دھرلے سے نشر ہو رہا ہے‘ جس کی پیمرا قواعد میں ممانعت درج ہے۔ یہی حال و بے بسی ’پاکستان ٹیلی کیمونیکشن اتھارٹی (پی ٹی اے)‘ موبائل فون کا استعمال دیکھیں کس طرح ہماری نوجوان نسل ایک فریب کا شکار ہے‘ جس سے اُن کا قیمتی وقت کوڑیوں کے مول ضائع ہو رہا ہے! غربت و جہالت کے عروج اُور اَقدار کے زوال جیسے امراض کا علاج ’سیاست‘ سے ممکن ہے جس کا لغوی معنی ’تربیت‘ ہے۔
لغوی اعتبار سے سیاست دان شعوری ’تربیت کار‘ ہوتا ہے جو اِصلاح کاری کا کردار اَدا کرتا ہے۔ سیاست دان کا طرز عمل یہ ہونا چاہئے کہ اجتماعی مفاد کے لئے مختلف النظریات طبقات کو ’اِتحاد و اِتفاق‘ کو تلقین ہی نہیں بلکہ اُنہیں ہاتھ سے پکڑ پکڑ کر ایک دُوسرے کے قریب لانے کا موقع ضائع نہ کرے۔ مقناطیس کی طرح کشش رکھتا ہو۔ سیاست اِختلافات ختم کرنے اور باہم رنجشیں مٹانے کے ساتھ سب سے پہلے قانون کا اِطلاق اپنی ذات پر کرتا ہے اُور پھر اُس کے دیکھا دیکھی معاشرے میں قانون کا اِحترام جڑیں پکڑنا شروع کرتا ہے۔ جب سیاست دان خود ٹیکس اَدا کررہا ہوتا ہے تو دوسروں کو بھی بہ اَمرمجبوری حسب آمدن ٹیکس دینا پڑتا ہے لیکن ہمارے ہاں ’اَچھا سیاست دان‘ اُسے سمجھا جاتا ہے‘جو ’اِختلافی نکات‘ کو ہوا دے سکے‘ جو اپنے اپنے حلقۂ انتخاب میں ’جرائم پیشہ عناصر (گلو بٹ کرداروں)‘ کا سرپرست ہو‘ جسے جب کبھی ’ترقیاتی فنڈز‘ ملیں تو وہ اپنے منظور نظر افراد پر خرچ کرے اور یہی وجہ ہے کہ قیام پاکستان سے آج تک ’جمہوری سیاست‘ کو جب کبھی بھی اقتدار میں آنے کا موقع ملا‘ اِس نے ضائع ہی کیا۔ اربوں روپے کی ترقیاتی وسائل خرچ ہونے کے باوجود‘ کوئی ایک شعبہ بھی ایسا نہیں جس میں مثالی تعمیر و ترقی ہوئی ہو! خیبرپختونخوا حکومت بضد ہے کہ بلدیاتی انتخابات کے بعد ’ترقیاتی فنڈز‘ کا صرف تیس فیصد ضلعی حکومتوں کو سپرد ہوگا‘ اُور اگر ستر فیصد مالی وسائل قانون ساز اداروں کے اراکین ہی نے خرچ کرنے ہیں تو ’مالی امور کے دانشمندانہ استعمال‘ سے متعلق فیصلہ سازی متنازعہ بھی رہے گی اور اِس کا خاطرخواہ نتیجہ بھی برآمد نہیں ہوگا۔ سیاست دان کی تیسری ذمہ داری ’راہ نمائی‘ ہے لیکن ہمارے ہاں ’تبدیلی‘ کی بجائے روایت پرستی کی معقولیت پر اتفاق ہے اُور یہی وجہ ہے سیاست دان تیز گام ہو کر ’اَقدار کے جنازے‘ کو کندھا دینے میں پیش پیش نظرآتے ہیں!
ایک طویل اور اعصاب شکن انتظار کے بعد ہونے والے ’بلدیاتی اِنتخابات‘ کے موقع پر اُمید ہے کہ جو نئی سیاسی قیادت اُبھر کر سامنے آئی گی‘ وہ ’سیاست دان‘ ہونے کا حقیقی کردار اَدا کرتے ہوئے جہالت و سرمایہ پرستی کی حوصلہ شکنی اور اقدار کے احیاء کے لئے کلیدی کردار ادا کرے گی۔ اُس ایک کمی کو پورا کرنا اشد ضروری ہے جس کے بغیر معاشرے کی ہر خوبی پر تاریک سایہ حاوی دکھائی دیتا ہے۔ کیا بلدیاتی اُمیدواروں کو اِس حقیقت کا بھی ادراک ہے کہ ویلج کونسل‘ تحصیل یا ضلع کے لئے انتخابات میں کامیابی کی صورت اُن سے وابستہ توقعات کس انتہاء کی ہیں اور اُن کے ناتواں کندھوں پر معاشرے کی اصلاح و احوال کی کس قدر بھاری ذمہ داری پڑنے والی ہیں؟ بلدیاتی انتخابات میں ووٹ دینے والوں کو بھی ’سیاست دان‘ کے اصل کردار اُور تقاضوں کو پیش نظر رکھنا ہوگا۔ ہمیں ایسی سیاسی قیادت کی ضرورت ہے جو صرف ’ترقیاتی فنڈز‘ کی لالچ ہی نہ رکھتی ہو اُور نہ سڑکوں‘ گلیوں‘ نالیوں‘صفائی کی صورتحال اور پانی کی فراہمی جیسی سہولیات کی فراہمی کے بارے ہی میں فکرمند و پریشان دکھائی دے۔ قدروں کا اَحیاء‘ قول و فعل میں اِجتماعی بہبود کا غلبہ‘ شعوری و فکری کی بیداری‘ حقوق کے ساتھ ذمہ داریوں کا اِحساس اُور بحیثیت مجموعی ’معاشرتی اِصلاح کاروں‘ کی ضرورت ہے‘ برائے مہربانی اپنا ووٹ سوچ سمجھ کر دیں۔
’غربت‘ کی بھی کوئی حد نہیں‘ افلاس کی بیماری مال و متاع رکھنے والوں کو ذہنی و فکری طور پر متاثر کر سکتی ہے‘ وہ صرف اپنے ذاتی مفاد کے بارے میں سوچنے تک محدود ہو سکتے ہیں۔ اگر یقین نہ آئے تو سرمایہ پرستوں کی حرص ملاحظہ کیجئے جو ذخیرہ اَندوزی‘ ملاوٹ اُور گراں فروشی کی صورت دکھائی دیتی ہے۔ سرمایہ دار ہونا کوئی جرم نہیں ’سرمایہ پرستی‘ اَلمیہ ہے‘ جس کی وجہ سے اَقدار کا جنازہ نکل چکا ہے۔ اگر یقین نہ آئے تو شہری و اکثر دیہی علاقوں میں گھر گھر ’کیبل نیٹ ورکس‘ کے چینلز پر نظر کریں‘ ’پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا)‘کے صوبائی و مرکزی اراکین کا تجاہل عارفانہ ملاحظہ کیجئے‘ وہ سب کچھ دھرلے سے نشر ہو رہا ہے‘ جس کی پیمرا قواعد میں ممانعت درج ہے۔ یہی حال و بے بسی ’پاکستان ٹیلی کیمونیکشن اتھارٹی (پی ٹی اے)‘ موبائل فون کا استعمال دیکھیں کس طرح ہماری نوجوان نسل ایک فریب کا شکار ہے‘ جس سے اُن کا قیمتی وقت کوڑیوں کے مول ضائع ہو رہا ہے! غربت و جہالت کے عروج اُور اَقدار کے زوال جیسے امراض کا علاج ’سیاست‘ سے ممکن ہے جس کا لغوی معنی ’تربیت‘ ہے۔
لغوی اعتبار سے سیاست دان شعوری ’تربیت کار‘ ہوتا ہے جو اِصلاح کاری کا کردار اَدا کرتا ہے۔ سیاست دان کا طرز عمل یہ ہونا چاہئے کہ اجتماعی مفاد کے لئے مختلف النظریات طبقات کو ’اِتحاد و اِتفاق‘ کو تلقین ہی نہیں بلکہ اُنہیں ہاتھ سے پکڑ پکڑ کر ایک دُوسرے کے قریب لانے کا موقع ضائع نہ کرے۔ مقناطیس کی طرح کشش رکھتا ہو۔ سیاست اِختلافات ختم کرنے اور باہم رنجشیں مٹانے کے ساتھ سب سے پہلے قانون کا اِطلاق اپنی ذات پر کرتا ہے اُور پھر اُس کے دیکھا دیکھی معاشرے میں قانون کا اِحترام جڑیں پکڑنا شروع کرتا ہے۔ جب سیاست دان خود ٹیکس اَدا کررہا ہوتا ہے تو دوسروں کو بھی بہ اَمرمجبوری حسب آمدن ٹیکس دینا پڑتا ہے لیکن ہمارے ہاں ’اَچھا سیاست دان‘ اُسے سمجھا جاتا ہے‘جو ’اِختلافی نکات‘ کو ہوا دے سکے‘ جو اپنے اپنے حلقۂ انتخاب میں ’جرائم پیشہ عناصر (گلو بٹ کرداروں)‘ کا سرپرست ہو‘ جسے جب کبھی ’ترقیاتی فنڈز‘ ملیں تو وہ اپنے منظور نظر افراد پر خرچ کرے اور یہی وجہ ہے کہ قیام پاکستان سے آج تک ’جمہوری سیاست‘ کو جب کبھی بھی اقتدار میں آنے کا موقع ملا‘ اِس نے ضائع ہی کیا۔ اربوں روپے کی ترقیاتی وسائل خرچ ہونے کے باوجود‘ کوئی ایک شعبہ بھی ایسا نہیں جس میں مثالی تعمیر و ترقی ہوئی ہو! خیبرپختونخوا حکومت بضد ہے کہ بلدیاتی انتخابات کے بعد ’ترقیاتی فنڈز‘ کا صرف تیس فیصد ضلعی حکومتوں کو سپرد ہوگا‘ اُور اگر ستر فیصد مالی وسائل قانون ساز اداروں کے اراکین ہی نے خرچ کرنے ہیں تو ’مالی امور کے دانشمندانہ استعمال‘ سے متعلق فیصلہ سازی متنازعہ بھی رہے گی اور اِس کا خاطرخواہ نتیجہ بھی برآمد نہیں ہوگا۔ سیاست دان کی تیسری ذمہ داری ’راہ نمائی‘ ہے لیکن ہمارے ہاں ’تبدیلی‘ کی بجائے روایت پرستی کی معقولیت پر اتفاق ہے اُور یہی وجہ ہے سیاست دان تیز گام ہو کر ’اَقدار کے جنازے‘ کو کندھا دینے میں پیش پیش نظرآتے ہیں!
ایک طویل اور اعصاب شکن انتظار کے بعد ہونے والے ’بلدیاتی اِنتخابات‘ کے موقع پر اُمید ہے کہ جو نئی سیاسی قیادت اُبھر کر سامنے آئی گی‘ وہ ’سیاست دان‘ ہونے کا حقیقی کردار اَدا کرتے ہوئے جہالت و سرمایہ پرستی کی حوصلہ شکنی اور اقدار کے احیاء کے لئے کلیدی کردار ادا کرے گی۔ اُس ایک کمی کو پورا کرنا اشد ضروری ہے جس کے بغیر معاشرے کی ہر خوبی پر تاریک سایہ حاوی دکھائی دیتا ہے۔ کیا بلدیاتی اُمیدواروں کو اِس حقیقت کا بھی ادراک ہے کہ ویلج کونسل‘ تحصیل یا ضلع کے لئے انتخابات میں کامیابی کی صورت اُن سے وابستہ توقعات کس انتہاء کی ہیں اور اُن کے ناتواں کندھوں پر معاشرے کی اصلاح و احوال کی کس قدر بھاری ذمہ داری پڑنے والی ہیں؟ بلدیاتی انتخابات میں ووٹ دینے والوں کو بھی ’سیاست دان‘ کے اصل کردار اُور تقاضوں کو پیش نظر رکھنا ہوگا۔ ہمیں ایسی سیاسی قیادت کی ضرورت ہے جو صرف ’ترقیاتی فنڈز‘ کی لالچ ہی نہ رکھتی ہو اُور نہ سڑکوں‘ گلیوں‘ نالیوں‘صفائی کی صورتحال اور پانی کی فراہمی جیسی سہولیات کی فراہمی کے بارے ہی میں فکرمند و پریشان دکھائی دے۔ قدروں کا اَحیاء‘ قول و فعل میں اِجتماعی بہبود کا غلبہ‘ شعوری و فکری کی بیداری‘ حقوق کے ساتھ ذمہ داریوں کا اِحساس اُور بحیثیت مجموعی ’معاشرتی اِصلاح کاروں‘ کی ضرورت ہے‘ برائے مہربانی اپنا ووٹ سوچ سمجھ کر دیں۔
No comments:
Post a Comment