ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
زراعت: محروم توجہ؟
زراعت: محروم توجہ؟
وفاقی بجٹ برائے مالی سال 2015-16ء تیاریوں کے آخری مرحلے سے گزر رہا ہے
اور آئندہ مالی سال کے لئے حکومتی ترجیحات کا تعین نیز کسی شعبے کے لئے
ترقیاتی حکمت عملیاں مرتب کرنے کے لئے مشاورتی اجلاس ہو رہے ہیں۔ اِسی
سلسلے میں رواں ہفتے ’زرعی شعبے‘ سے تعلق رکھنے والوں سے مشاورت کی جائے
گی‘ جس کے لئے ماہرین کو مطلع کر دیا گیا ہے‘ اُمید ہے کہ ہرسال کی طرح اِس
مرتبہ بھی زراعت اور مال مویشیوں (لائیوسٹاک) سے متعلق سوچ بچار میں
خیبرپختونخوا کے معروضی حالات کو نظرانداز نہیں کیا جائے گا‘ جس کے بیشتر
علاقوں میں زراعت متاثر ہونے کے اسباب میں عسکریت پسندی‘ قدرتی آفات‘ موسمی
تبدیلیاں اور پیداواری ضروریات کی قیمتوں میں آئے روز اضافہ‘ ٹیکس اور اُن
کی آسمان سے باتیں کرتی قیمتیں‘ اجناس کی منڈیوں تک رسائی میں مشکلات
چھوٹے بڑے کاشتکاروں کے لئے مستقل مسئلہ بنی ہوئی ہیں۔ خیبرپختونخوا کے جن
علاقوں کی آب و ہوا پھلوں کے باغات کے لئے موزوں ہے وہاں سے خاطرخواہ
استفادہ نہیں کیا جارہا۔ پھلوں کی پراسیسنگ اور اُن کی برآمدات میں اضافہ
کرنے کے لئے آئندہ مالی سال میں غیرمعمولی رقم مختص کی جائے تو کثیر
زرمبادلہ کمایا جاسکتا ہے۔ دودھ اور اس سے بننے والی اشیاء کی مارکیٹنگ
اگر غیرملکی ادارہ کرکے ہمارے وسائل سے اربوں روپے سالانہ کما رہا ہے تو
یہی کام حکومت کیوں نہیں کرسکتی؟
خیبرپختونخوا کے جنوبی اضلاع بالخصوص قبائلی علاقہ جات اور اِن سے متصل بندوبستی علاقوں میں تیلدار اجناس (زیتون اُور سورج مکھی) کی کاشت کے وسیع امکانات موجود ہیں‘ جنہیں ترقی دینے اور اٹھارہویں آئینی ترمیم کی زد میں آنے والے ’’آئل سیڈ ڈویلپمنٹ بورڈ‘‘ کی خاطرخواہ سرپرستی بھی اشد ضروری ہے‘ جس کے شکستہ دل ماہرین کی صلاحیتوں کو زنگ لگ رہا ہے اور وہ ایک صدمہ جھیلنے کے بعد تاحال نفسیاتی طور پر (مکمل) بحال نہیں ہوئے۔ بھلا یہ کیسے ممکن تھا کہ پاکستان جیسے زرعی ملک کہ جس کی سترفیصد سے زیادہ معیشت کا انحصار زراعت پر ہو‘ وہاں بیک جنبش قلم ایک ایسے زرعی تحقیقی شعبے ہی کو ختم کر دیا جائے جو تیلدار اجناس کی ترقی وتحقیق کے عمل سے جڑا ہو! ہمارے فیصلہ سازوں کو اِس بات پر بڑا فخر محسوس ہوتا ہے کہ وہ ہر سال اَربوں ڈالر کا خوردنی تیل درآمد کریں لیکن اپنے ہاں تیلدار اجناس کی پیداوار کی ترقی انہیں مقصود نہیں کیونکہ درآمدات میں بھاری کمیشن کے امکانات بہرحال موجود ہوتے ہیں! خیبرپختونخوا میں ایسے علاقوں کی کمی نہیں جہاں زیتون کی کاشت ممکن ہے لیکن افسوس کہ زیتون کی ترقی کے لئے بنائے گئے تحقیقاتی فارمز پر بااثر افراد نے قبضہ کرکے وہ محکمہ ہی تحلیل کروا دیا‘ جو ’زیتون فارمنگ‘ میں نہ صرف پاکستان بلکہ عالمی سطح پر شہرت کا حامل تھا!
خوش آئند ہے کہ وزیراعظم میاں محمد نواز شریف متوجہ ہیں اُور زرعی شعبے کی ترقی کے لئے آئندہ مالی سال زیادہ ’عملی اقدامات‘ چاہتے ہیں۔ اس سلسلے میں اُنہوں نے وفاقی وزیر تحفظ خوراک و تحقیق سکندر حیات بوسان سے ایک خصوصی ملاقات بھی کی ہے اور (اگر اطلاعات پر بھروسہ کیا جائے تو اُنہوں نے) ہدایت دی ہے کہ ’’آئندہ مالی سال کے بجٹ میں زرعی شعبے کے لئے زیادہ بڑے پیمانے پر عملی اقدامات کئے جائیں۔‘‘ اگرچہ اِس خبر کو قومی اخبارات نے زیادہ اہمیت نہیں دی لیکن بہرحال اُمید ہو چلی ہے کہ وزیراعظم کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے وفاقی وزیر (ماضی کی طرح) صرف صوبہ پنجاب ہی کی حد تک نہیں بلکہ خیبرپختونخوا میں بھی زراعت کی ترقی پر توجہ دیں گے اُور اب بھی اگر ٹھوس اقدامات کی بجائے ’روائتی اعلانات‘ پر اکتفا کیا گیا تو یہ ایک ایسی غلطی دہرانے کے مترادف اقدام ہوگا‘ جو ہمیں غذائی خودکفالت اور تحفظ خوراک جیسی منزل سے دور کر دے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمیں آبادی کی بڑھتی ہوئی ضروریات کا بھی ادراک کرنا ہے اور موسمی (قدرتی) و غیرموسمی (غیرفطری) منفی اثرات سے بھی زرعی شعبے کو بچانا ہے‘ جو ہر طرف سے دباؤ کا شکار ہے!
آئندہ مالی سال کے لئے کاشتکاروں کے مطالبات میں شامل ہے کہ 1: زرعی پیداواری ضروریات پر عائد ’سیلز ٹیکس‘ کی شرح میں کمی لائی جائے۔عجب ہے کہ سارے کا سارا منافع یا تو ٹیکسوں کی مد میں ادا ہو جاتا ہے یا پھر بجلی کے بل ادا کرنے کے بعد فصل کی اصل قیمت سے زائد اُس پر اخراجات آ جاتے ہیں۔ 2: زرعی شعبے کے زیراستعمال بجلی کی فی یونٹ قیمت میں کمی لائی جائے تاکہ ٹیوب ویل کے ذریعے آبپاشی کے وسائل سے استفادہ کیا جاسکے۔ 3: دوست ممالک سے زرعی ٹیکنالوجی حاصل کرنے کی کوشش کی جائے۔ 4: بیرون ملک زرعی تعلیم کے لئے طالبعلموں کو ترجیحی بنیادوں پر بھیجا جائے۔ 5: فارغ التحصیل زرعی گریجویٹس کو غیرآباد زمینیں اور آسان شرائط پر قرضے دے کر پیداوار بڑھائی جائے۔ 6: زرعی شعبے کی انشورنس حکومتی سرپرستی میں متعارف کرائی جائے۔ 7: زرعی شعبے میں ’شمسی طاقت سے چلنے والے ٹیوب ویل متعارف کرائے جائیں۔‘ اِس سلسلے میں خیبرپختونخوا حکومت کو بھی توجہ دینی ہے جو سٹریٹ لائٹس کے لئے تو ’شمسی وسائل‘ استعمال کرتی ہے لیکن شمسی زرعی ٹیوب ویلوں کے بارے میں ترجیح نہیں رکھتی‘ یقیناًہم سٹریٹ لائٹس کے بغیر زندگی بسر کرسکتے ہیں لیکن اگر غذائی خودکفالت اور خوراک کا تحفظ (فی ایکڑ زیادہ پیداوار‘ تبدیل ہوتے موسم کی سختیاں برداشت کرنے والے بیج‘ آبپاشی کے سائنسی طریقوں پر عمل‘ کاشتکاروں کی رہنمائی کے لئے ذرائع ابلاغ کا مؤثر استعمال‘ فصلوں پر ادویات اور کیمیائی کھادوں کا غیرضروری استعمال ترک کرنے) جیسے عملی اقدامات بروقت نہیں کئے جاتے‘ تو ترقی کا ہر ہدف ثمربار ثابت نہیں ہوگا۔
ہمیں زراعت گریز اپنے طرز فکر و عمل کو بھی تبدیل کرنا ہوگا۔ مثال کے طور پر خیبرپختونخوا کی 70سے 80فیصد آبادی کا روزگار فنون لطیفہ (گائیگی‘ اداکاری‘ موسیقی‘ فلم یا شوبز وغیرہ) یا اِن سے متعلقہ کسی دوسرے شعبے سے نہیں لیکن صوبائی‘ علاقائی اور قومی سطح پر شائع ہونے والے اخبارات‘ نجی و سرکاری ٹیلی ویژن اُور (اے ایم‘ ایف ایم) ریڈیو چینلز کی نشریات اور پرنٹ میڈیا میں ہر روز پورے کے پورے صفحات ملکی و غیرملکی فنکاروں سے متعلق خوش گپیوں سے لبالب ملتے ہیں جبکہ زراعت کے لئے ایک گھنٹہ‘ منٹ یا سکینڈ اور اخبارات و جرائد میں ایک صفحہ بھی مختص نہیں ملتا۔ زرعی جامعات تو موجود ہیں‘ زراعت پر تحقیقی مقالے بھی لکھے جارہے ہیں لیکن متعلقہ دانشور (جو زرعی شعبے سے ماہانہ تنخواہیں اور مراعات وصول کرتے ہیں) تحقیق خود ہی پڑھ کر‘ پڑھا کر اور سن کر محظوظ ہونے کے بعد اسے الماریوں میں دفن کر دیتے ہیں۔ ایسے پروفیسر‘ ملازم اور طالبعلم ہمیں آج تک نہیں ملے جنہوں نے زراعت کے حق میں ’بھوک ہڑتال‘ کی ہو! یہ ’بے رخی‘ ترک کرنے کی ضرورت ہے۔ زرعی شعبے کو روزمرہ بحث کا موضوع بنائے بغیر ملک کی معیشت و اقتصادیات کو بہتر بنانے اور گدائی کا کشکول توڑنے کی کوئی دوسری صورت باقی نہیں رہی۔ زراعت کے بارے میں سوچتے سوچتے سونے اور خواب دیکھ کر اُنہیں عملی جامعہ پہنانے کے لئے جاگنے کی روایت ڈالنے کی ضرورت ہے۔ بھارت ہی کی مثال لیں جہاں سرکاری ٹیلی ویژن (دور درشن) کے ایک درجن سے زائد سیٹلائٹ ٹیلی ویژن چینلز مختلف زبانوں میں شام چار سے رات آٹھ بجے تک پروگرام نشر کرتے ہیں۔ زرعی شعبے کی ترقی بڑے کاشتکاروں اور زمینداروں کے مفادات کا تحفظ کرکے ممکن نہیں۔ زراعت سے اربوں روپے کی آمدنی رکھنے والے ٹیکسوں سے مستثنیٰ شاہانہ زندگی بسر کر رہے ہیں لیکن چھوٹے کاشتکاروں‘ مزدوروں اور محنت کشوں پر ہر ایک فصل کے بعد قرض کے بوجھ میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ خیبرپختونخوا کے زرعی شعبے کو لاحق امراض اور جملہ خطرات کو دیکھتے ہوئے یہ شعبہ رعائت کا مستحق ہی نہیں بلکہ حقدار ہے اور وقت آ گیا ہے کہ ’’ترس کھا کر نہیں‘‘ بلکہ واجب الادأ حق سمجھ کر ’زرعی محنت کشوں کا حکومت کے ذمے قرض چکایا اُور ملک سنوارہ‘ جائے۔
خیبرپختونخوا کے جنوبی اضلاع بالخصوص قبائلی علاقہ جات اور اِن سے متصل بندوبستی علاقوں میں تیلدار اجناس (زیتون اُور سورج مکھی) کی کاشت کے وسیع امکانات موجود ہیں‘ جنہیں ترقی دینے اور اٹھارہویں آئینی ترمیم کی زد میں آنے والے ’’آئل سیڈ ڈویلپمنٹ بورڈ‘‘ کی خاطرخواہ سرپرستی بھی اشد ضروری ہے‘ جس کے شکستہ دل ماہرین کی صلاحیتوں کو زنگ لگ رہا ہے اور وہ ایک صدمہ جھیلنے کے بعد تاحال نفسیاتی طور پر (مکمل) بحال نہیں ہوئے۔ بھلا یہ کیسے ممکن تھا کہ پاکستان جیسے زرعی ملک کہ جس کی سترفیصد سے زیادہ معیشت کا انحصار زراعت پر ہو‘ وہاں بیک جنبش قلم ایک ایسے زرعی تحقیقی شعبے ہی کو ختم کر دیا جائے جو تیلدار اجناس کی ترقی وتحقیق کے عمل سے جڑا ہو! ہمارے فیصلہ سازوں کو اِس بات پر بڑا فخر محسوس ہوتا ہے کہ وہ ہر سال اَربوں ڈالر کا خوردنی تیل درآمد کریں لیکن اپنے ہاں تیلدار اجناس کی پیداوار کی ترقی انہیں مقصود نہیں کیونکہ درآمدات میں بھاری کمیشن کے امکانات بہرحال موجود ہوتے ہیں! خیبرپختونخوا میں ایسے علاقوں کی کمی نہیں جہاں زیتون کی کاشت ممکن ہے لیکن افسوس کہ زیتون کی ترقی کے لئے بنائے گئے تحقیقاتی فارمز پر بااثر افراد نے قبضہ کرکے وہ محکمہ ہی تحلیل کروا دیا‘ جو ’زیتون فارمنگ‘ میں نہ صرف پاکستان بلکہ عالمی سطح پر شہرت کا حامل تھا!
خوش آئند ہے کہ وزیراعظم میاں محمد نواز شریف متوجہ ہیں اُور زرعی شعبے کی ترقی کے لئے آئندہ مالی سال زیادہ ’عملی اقدامات‘ چاہتے ہیں۔ اس سلسلے میں اُنہوں نے وفاقی وزیر تحفظ خوراک و تحقیق سکندر حیات بوسان سے ایک خصوصی ملاقات بھی کی ہے اور (اگر اطلاعات پر بھروسہ کیا جائے تو اُنہوں نے) ہدایت دی ہے کہ ’’آئندہ مالی سال کے بجٹ میں زرعی شعبے کے لئے زیادہ بڑے پیمانے پر عملی اقدامات کئے جائیں۔‘‘ اگرچہ اِس خبر کو قومی اخبارات نے زیادہ اہمیت نہیں دی لیکن بہرحال اُمید ہو چلی ہے کہ وزیراعظم کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے وفاقی وزیر (ماضی کی طرح) صرف صوبہ پنجاب ہی کی حد تک نہیں بلکہ خیبرپختونخوا میں بھی زراعت کی ترقی پر توجہ دیں گے اُور اب بھی اگر ٹھوس اقدامات کی بجائے ’روائتی اعلانات‘ پر اکتفا کیا گیا تو یہ ایک ایسی غلطی دہرانے کے مترادف اقدام ہوگا‘ جو ہمیں غذائی خودکفالت اور تحفظ خوراک جیسی منزل سے دور کر دے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمیں آبادی کی بڑھتی ہوئی ضروریات کا بھی ادراک کرنا ہے اور موسمی (قدرتی) و غیرموسمی (غیرفطری) منفی اثرات سے بھی زرعی شعبے کو بچانا ہے‘ جو ہر طرف سے دباؤ کا شکار ہے!
آئندہ مالی سال کے لئے کاشتکاروں کے مطالبات میں شامل ہے کہ 1: زرعی پیداواری ضروریات پر عائد ’سیلز ٹیکس‘ کی شرح میں کمی لائی جائے۔عجب ہے کہ سارے کا سارا منافع یا تو ٹیکسوں کی مد میں ادا ہو جاتا ہے یا پھر بجلی کے بل ادا کرنے کے بعد فصل کی اصل قیمت سے زائد اُس پر اخراجات آ جاتے ہیں۔ 2: زرعی شعبے کے زیراستعمال بجلی کی فی یونٹ قیمت میں کمی لائی جائے تاکہ ٹیوب ویل کے ذریعے آبپاشی کے وسائل سے استفادہ کیا جاسکے۔ 3: دوست ممالک سے زرعی ٹیکنالوجی حاصل کرنے کی کوشش کی جائے۔ 4: بیرون ملک زرعی تعلیم کے لئے طالبعلموں کو ترجیحی بنیادوں پر بھیجا جائے۔ 5: فارغ التحصیل زرعی گریجویٹس کو غیرآباد زمینیں اور آسان شرائط پر قرضے دے کر پیداوار بڑھائی جائے۔ 6: زرعی شعبے کی انشورنس حکومتی سرپرستی میں متعارف کرائی جائے۔ 7: زرعی شعبے میں ’شمسی طاقت سے چلنے والے ٹیوب ویل متعارف کرائے جائیں۔‘ اِس سلسلے میں خیبرپختونخوا حکومت کو بھی توجہ دینی ہے جو سٹریٹ لائٹس کے لئے تو ’شمسی وسائل‘ استعمال کرتی ہے لیکن شمسی زرعی ٹیوب ویلوں کے بارے میں ترجیح نہیں رکھتی‘ یقیناًہم سٹریٹ لائٹس کے بغیر زندگی بسر کرسکتے ہیں لیکن اگر غذائی خودکفالت اور خوراک کا تحفظ (فی ایکڑ زیادہ پیداوار‘ تبدیل ہوتے موسم کی سختیاں برداشت کرنے والے بیج‘ آبپاشی کے سائنسی طریقوں پر عمل‘ کاشتکاروں کی رہنمائی کے لئے ذرائع ابلاغ کا مؤثر استعمال‘ فصلوں پر ادویات اور کیمیائی کھادوں کا غیرضروری استعمال ترک کرنے) جیسے عملی اقدامات بروقت نہیں کئے جاتے‘ تو ترقی کا ہر ہدف ثمربار ثابت نہیں ہوگا۔
ہمیں زراعت گریز اپنے طرز فکر و عمل کو بھی تبدیل کرنا ہوگا۔ مثال کے طور پر خیبرپختونخوا کی 70سے 80فیصد آبادی کا روزگار فنون لطیفہ (گائیگی‘ اداکاری‘ موسیقی‘ فلم یا شوبز وغیرہ) یا اِن سے متعلقہ کسی دوسرے شعبے سے نہیں لیکن صوبائی‘ علاقائی اور قومی سطح پر شائع ہونے والے اخبارات‘ نجی و سرکاری ٹیلی ویژن اُور (اے ایم‘ ایف ایم) ریڈیو چینلز کی نشریات اور پرنٹ میڈیا میں ہر روز پورے کے پورے صفحات ملکی و غیرملکی فنکاروں سے متعلق خوش گپیوں سے لبالب ملتے ہیں جبکہ زراعت کے لئے ایک گھنٹہ‘ منٹ یا سکینڈ اور اخبارات و جرائد میں ایک صفحہ بھی مختص نہیں ملتا۔ زرعی جامعات تو موجود ہیں‘ زراعت پر تحقیقی مقالے بھی لکھے جارہے ہیں لیکن متعلقہ دانشور (جو زرعی شعبے سے ماہانہ تنخواہیں اور مراعات وصول کرتے ہیں) تحقیق خود ہی پڑھ کر‘ پڑھا کر اور سن کر محظوظ ہونے کے بعد اسے الماریوں میں دفن کر دیتے ہیں۔ ایسے پروفیسر‘ ملازم اور طالبعلم ہمیں آج تک نہیں ملے جنہوں نے زراعت کے حق میں ’بھوک ہڑتال‘ کی ہو! یہ ’بے رخی‘ ترک کرنے کی ضرورت ہے۔ زرعی شعبے کو روزمرہ بحث کا موضوع بنائے بغیر ملک کی معیشت و اقتصادیات کو بہتر بنانے اور گدائی کا کشکول توڑنے کی کوئی دوسری صورت باقی نہیں رہی۔ زراعت کے بارے میں سوچتے سوچتے سونے اور خواب دیکھ کر اُنہیں عملی جامعہ پہنانے کے لئے جاگنے کی روایت ڈالنے کی ضرورت ہے۔ بھارت ہی کی مثال لیں جہاں سرکاری ٹیلی ویژن (دور درشن) کے ایک درجن سے زائد سیٹلائٹ ٹیلی ویژن چینلز مختلف زبانوں میں شام چار سے رات آٹھ بجے تک پروگرام نشر کرتے ہیں۔ زرعی شعبے کی ترقی بڑے کاشتکاروں اور زمینداروں کے مفادات کا تحفظ کرکے ممکن نہیں۔ زراعت سے اربوں روپے کی آمدنی رکھنے والے ٹیکسوں سے مستثنیٰ شاہانہ زندگی بسر کر رہے ہیں لیکن چھوٹے کاشتکاروں‘ مزدوروں اور محنت کشوں پر ہر ایک فصل کے بعد قرض کے بوجھ میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ خیبرپختونخوا کے زرعی شعبے کو لاحق امراض اور جملہ خطرات کو دیکھتے ہوئے یہ شعبہ رعائت کا مستحق ہی نہیں بلکہ حقدار ہے اور وقت آ گیا ہے کہ ’’ترس کھا کر نہیں‘‘ بلکہ واجب الادأ حق سمجھ کر ’زرعی محنت کشوں کا حکومت کے ذمے قرض چکایا اُور ملک سنوارہ‘ جائے۔
![]() |
Hopes of small farmers for upcoming budget |
No comments:
Post a Comment