Turning crisis into opportunity
بحران کا حل
بحران کا حل
سعودی عرب اور اُس کے ہمسایہ ملک یمن کے درمیان جاری تنازعہ میں فریق نہ
بننے اور اِس پورے معاملے میں غیرجانبدار رہنے کا فیصلہ حکومت اور حزب
اختلاف کی جماعتوں نے اکثریت رائے سے کیا لیکن سعودی عرب اور اُس کے اتحادی
عرب ممالک نے پاکستان کی سلامتی کو داخلی سطح پر لاحق خطرات اور چیلنجز کا
ادارک نہ کرتے ہوئے اِس غیرمتوقع فیصلے کو قدر کی نگاہ سے نہیں دیکھا۔
یقیناًدوست تو وہی ہوتا ہے جو آپ کی درون خانہ حالت سے واقف ہو اور آپ سے
کسی ایسی چیز یا اقدام کا مطالبہ یا توقع نہ رکھے‘ جسے سرانجام دینا آپ کے
لئے کلی طور پر یا سردست ممکن نہیں ہوتا۔ جب پاکستان کی جانب سے یمن تنازعہ
میں غیرجانبدار رہنے کا فیصلہ سامنے آیا تو متحدہ عرب امارات کے وزیرخارجہ
نے کہا ’’پاکستان کو اِس فیصلے کی بھاری قیمت چکانا پڑے گی!‘‘ جس کاجواب
دیتے ہوئے پاکستان کے وزیرداخلہ نے متحدہ عرب امارات کو یاد دلایاکہ
’’پاکستان ایک باعزت قوم کا نام ہے اور ایسا بیان پاکستانی قوم کو دھمکی
دینے کے مترادف ہے۔‘‘
پاکستان کی قانون ساز قومی اسمبلی نے کئی دن تک بحث و مباحثے کے بعد فیصلہ کیا لیکن سعودی عرب کی قیادت میں عرب ممالک کے اتحاد کے لئے پاکستان کا یہ فیصلہ ’خطرناک‘ بھی تھا اور اِسے ’غیرمتوقع‘ بھی قرار دیا گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان اور سعودی عرب کی قیادت میں عرب ممالک کا اتحاد ایک ایسے جال میں پھنس گئے ہیں جو ایک دوسرے سے کئے گئے وعدوں سے بُنا ہوا ہے اور دونوں ہی فریق حالات کا اپنے اپنے نکتۂ نظر سے جائزہ لے رہے ہیں اور ایک دوسرے سے مختلف رائے رکھتے ہیں۔ یہ صورتحال نہ تو پاکستان کے حق میں ہے اور نہ ہی اِسے سعودی عرب سمیت اُس کے اتحادی ممالک کے مفاد میں قرار دیا جاسکتا ہے۔ مختلف النظریات دونوں فریقین کو چاہئے کہ وہ ایک دوسرے کی پوزیشن کا ادراک کریں‘ اسے سمجھیں اور ایک دوسرے وابستہ توقعات کو اُس انتہا تک نہ لے جائیں جہاں فاصلے پیدا ہونے لگیں اور ایک دوسرے پر اعتماد کم ہوتا محسوس ہو۔ اس میں شک و شبہ نہیں کہ پاکستان اور سعودی عرب ایک دوسرے دیرینہ دوستانہ تعلقات رکھتے ہیں اور سعودی عرب نے کئی ایک مشکل مواقعوں پر پاکستان کی مدد کی ہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ پاکستان داخلی طور پر ایک ایسی جنگ لڑ رہا ہے جس میں کامیابی اُس کے لئے انتہائی ضروری ہے۔
سعودی عرب اور اس کے اتحادی ممالک جذباتی‘ اپنے مفاد کے اسیر اور حالات کی نزاکت کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔ اُنہیں پاکستان سے جو توقعات اور امیدیں وابستہ تھیں وہ چونکہ پوری نہیں کی گئیں اِس لئے وہ نفسیاتی دباؤ کا شکار ہوگئے۔ اُنہیں پاکستان اور ہمارے ہمسایہ ایران کے ساتھ تعلقات کی نزاکت و اہمیت اور اِس سے جڑے تقاضوں کا بھی ادراک کرنا چاہئے۔ یہ موقع پاکستان کے سفارتکاروں کو اپنی غیرمعمولی کارکردگی دکھانے کا ہے کہ وہ عرب دنیا میں پاکستان کے خلاف پائے جانے والے غصے کو غم کریں اور اُس حقیقت کا پرچار کریں جس کی وجہ سے پاکستان نے ’یمن تنازعہ‘ میں فریق کی بجائے اِس سے ’غیرجانبدار‘ رہنے کا فیصلہ کیا ہے۔ موجودہ صورتحال میں دو خطرات ظاہر ہوئے ہیں ایک تو ہمارے انکار سے سعودی عرب کے حکمران خود کو خطرے میں محسوس کر رہے ہیں اور دوسرا جمہوری اسلامی ایران کی خطے میں پوزیشن مستحکم ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ پاکستانی سفارتکاروں کو عرب حکمرانوں اور عرب دنیا کو یہ باور کرانا ہوگا کہ پاکستان کے لئے سعودی عرب اور ایران دونوں کی اہمیت ایک جیسی ہے اور پاکستان کسی کی بھی حمایت یا مخالفت نہیں کررہا۔
امریکہ اور فلپائن کے درمیان ایک دفاعی معاہدہ ہو چکا ہے جس کے تحت اگر کوئی ملک فلپائن یا امریکہ پر حملہ آور ہوگا تو دونوں ممالک اپنی اپنی افواج ایک دوسرے کے دفاع کے لئے استعمال کریں گے۔ ایسا ہی ایک معاہدہ پاکستان اور سعودی عرب کے لئے درمیان بھی ہونا چاہئے لیکن کیا یمن نے سعودی عرب پر حملہ کیا ہے؟
پاکستان اگر سعودی عرب سے ایسا کوئی مشترکہ دفاع کا معاہدہ کرتا ہے تو اس کے عوض اسے اقتصادی فوائد حاصل کرنا چاہیءں۔ مثال کے طورپر قرض پر تیل حاصل کیا جائے‘ پاکستان میں بنی ہوئی مصنوعات کی عرب ممالک کی منڈیوں تک رسائی میں اضافہ کیا جائے۔ پاکستان کی افرادی قوت کو دیگر ممالک کے زیادہ عرب ممالک میں ملازمتوں کے مواقع دیئے جائیں اور تیل و گیس مارکیٹ کے نرخ سے کم قیمت پر حاصل کئے جائیں۔ جس طرح سعودی عرب کو اپنا دفاع عزیز ہے پاکستان کے حکمرانوں کو بھی چاہئے کہ وہ اپنے مضبوط دفاع اور تربیت یافتہ فوجی قوت کا استعمال کرکے ملک کو درپیش توانائی بحران کا حل اور اقتصادی مشکلات کم کرنے کو پیش نظر رکھیں اور اسے اپنی ترجیح بنا کر ایک ایسی صورتحال سے کچھ نہ کچھ حاصل کرنے کی کوشش کریں جو بظاہر پاکستان کے حق میں نہیں۔
(بشکریہ: دِی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ:شبیر حسین اِمام)
پاکستان کی قانون ساز قومی اسمبلی نے کئی دن تک بحث و مباحثے کے بعد فیصلہ کیا لیکن سعودی عرب کی قیادت میں عرب ممالک کے اتحاد کے لئے پاکستان کا یہ فیصلہ ’خطرناک‘ بھی تھا اور اِسے ’غیرمتوقع‘ بھی قرار دیا گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان اور سعودی عرب کی قیادت میں عرب ممالک کا اتحاد ایک ایسے جال میں پھنس گئے ہیں جو ایک دوسرے سے کئے گئے وعدوں سے بُنا ہوا ہے اور دونوں ہی فریق حالات کا اپنے اپنے نکتۂ نظر سے جائزہ لے رہے ہیں اور ایک دوسرے سے مختلف رائے رکھتے ہیں۔ یہ صورتحال نہ تو پاکستان کے حق میں ہے اور نہ ہی اِسے سعودی عرب سمیت اُس کے اتحادی ممالک کے مفاد میں قرار دیا جاسکتا ہے۔ مختلف النظریات دونوں فریقین کو چاہئے کہ وہ ایک دوسرے کی پوزیشن کا ادراک کریں‘ اسے سمجھیں اور ایک دوسرے وابستہ توقعات کو اُس انتہا تک نہ لے جائیں جہاں فاصلے پیدا ہونے لگیں اور ایک دوسرے پر اعتماد کم ہوتا محسوس ہو۔ اس میں شک و شبہ نہیں کہ پاکستان اور سعودی عرب ایک دوسرے دیرینہ دوستانہ تعلقات رکھتے ہیں اور سعودی عرب نے کئی ایک مشکل مواقعوں پر پاکستان کی مدد کی ہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ پاکستان داخلی طور پر ایک ایسی جنگ لڑ رہا ہے جس میں کامیابی اُس کے لئے انتہائی ضروری ہے۔
سعودی عرب اور اس کے اتحادی ممالک جذباتی‘ اپنے مفاد کے اسیر اور حالات کی نزاکت کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔ اُنہیں پاکستان سے جو توقعات اور امیدیں وابستہ تھیں وہ چونکہ پوری نہیں کی گئیں اِس لئے وہ نفسیاتی دباؤ کا شکار ہوگئے۔ اُنہیں پاکستان اور ہمارے ہمسایہ ایران کے ساتھ تعلقات کی نزاکت و اہمیت اور اِس سے جڑے تقاضوں کا بھی ادراک کرنا چاہئے۔ یہ موقع پاکستان کے سفارتکاروں کو اپنی غیرمعمولی کارکردگی دکھانے کا ہے کہ وہ عرب دنیا میں پاکستان کے خلاف پائے جانے والے غصے کو غم کریں اور اُس حقیقت کا پرچار کریں جس کی وجہ سے پاکستان نے ’یمن تنازعہ‘ میں فریق کی بجائے اِس سے ’غیرجانبدار‘ رہنے کا فیصلہ کیا ہے۔ موجودہ صورتحال میں دو خطرات ظاہر ہوئے ہیں ایک تو ہمارے انکار سے سعودی عرب کے حکمران خود کو خطرے میں محسوس کر رہے ہیں اور دوسرا جمہوری اسلامی ایران کی خطے میں پوزیشن مستحکم ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ پاکستانی سفارتکاروں کو عرب حکمرانوں اور عرب دنیا کو یہ باور کرانا ہوگا کہ پاکستان کے لئے سعودی عرب اور ایران دونوں کی اہمیت ایک جیسی ہے اور پاکستان کسی کی بھی حمایت یا مخالفت نہیں کررہا۔
امریکہ اور فلپائن کے درمیان ایک دفاعی معاہدہ ہو چکا ہے جس کے تحت اگر کوئی ملک فلپائن یا امریکہ پر حملہ آور ہوگا تو دونوں ممالک اپنی اپنی افواج ایک دوسرے کے دفاع کے لئے استعمال کریں گے۔ ایسا ہی ایک معاہدہ پاکستان اور سعودی عرب کے لئے درمیان بھی ہونا چاہئے لیکن کیا یمن نے سعودی عرب پر حملہ کیا ہے؟
پاکستان اگر سعودی عرب سے ایسا کوئی مشترکہ دفاع کا معاہدہ کرتا ہے تو اس کے عوض اسے اقتصادی فوائد حاصل کرنا چاہیءں۔ مثال کے طورپر قرض پر تیل حاصل کیا جائے‘ پاکستان میں بنی ہوئی مصنوعات کی عرب ممالک کی منڈیوں تک رسائی میں اضافہ کیا جائے۔ پاکستان کی افرادی قوت کو دیگر ممالک کے زیادہ عرب ممالک میں ملازمتوں کے مواقع دیئے جائیں اور تیل و گیس مارکیٹ کے نرخ سے کم قیمت پر حاصل کئے جائیں۔ جس طرح سعودی عرب کو اپنا دفاع عزیز ہے پاکستان کے حکمرانوں کو بھی چاہئے کہ وہ اپنے مضبوط دفاع اور تربیت یافتہ فوجی قوت کا استعمال کرکے ملک کو درپیش توانائی بحران کا حل اور اقتصادی مشکلات کم کرنے کو پیش نظر رکھیں اور اسے اپنی ترجیح بنا کر ایک ایسی صورتحال سے کچھ نہ کچھ حاصل کرنے کی کوشش کریں جو بظاہر پاکستان کے حق میں نہیں۔
(بشکریہ: دِی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ:شبیر حسین اِمام)
![]() |
Turning crisis into opportunity |
No comments:
Post a Comment