Sunday, April 19, 2015

Apr2015: Vehicle managment in KP

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
مال مفت!
خیبرپختونخوا حکومت کی ہر اُس بے قاعدگی پر نظر ہے‘ جو حکومتی وسائل خردبرد کرنے کے روائتی طور طریقوں اور شاہانہ طرز حکمرانی سے متعلق ہو۔ سرکاری گاڑیوں کا غلط استعمال ایک عرصے سے جاری ہے اور تبدیلی کا نعرہ لگا کر حکومت بنانے والوں کے عہد میں بھی جاری ہے‘ جس کے بارے میں حکمراں جماعت کی تشویش تو شروع دن ہی سے تھی لیکن یہ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ اصلاح کا عمل کہاں سے شروع کیا جائے۔ افسرشاہی ایک ایسا منظم گروہ جو ایک دوسرے کے مفادات کا تحفظ کرنے میں ثانی نہیں رکھتا اُور یہی وجہ ہے کہ جب حکومت نے جملہ سرکاری گاڑیاں واپس کرنے کا حکم دیا تو اِس سختی کو نرم کرنے کے لئے اعلیٰ عہدوں پر فائز افسروں نے سرکاری گاڑی رکھنے کے اہلیت کا مطالبہ تنخواہ کے ساتھ اضافی مراعات کی صورت منوا لیا اُور اب طے یہ ہوا ہے کہ سرکاری افسروں کے زیراستعمال گاڑیاں واپس لی جائیں گی۔ اِس بات کا فیصلہ کیا گیا ہے کہ صوبائی حکومت مزید گاڑیوں کی خریداری نہیں کرے گی اور جو گاڑیاں مختلف اداروں کے زیراستعمال ہیں اُنہیں واپس لے کر نیلام کر دیا جائے گا۔

عینی شاہد ہوں کہ محکمۂ صحت کے ایک اعلیٰ اہلکار اور اُن کے عزیزواقارب کے بچوں کو مختلف سرکاری سکولوں میں پہنچانے کے لئے ’سرکاری گاڑی‘ ایندھن اُور ڈرائیور‘ کا استعمال کرتے دیکھ کر سابق صوبائی وزیر صحت سے رابطہ کیا تو اُنہوں نے اِس قدر تعجب اور حیرت کا اظہار کیا جیسے اُنہیں میری بات کا یقین ہی نہ آ رہا ہو۔ مذکورہ گاڑی کا نمبر‘ ڈرائیور کا نام‘ ڈرائیور کا موبائل نمبر اور ضلعی اعلیٰ اہلکار کے کوائف سمیت مذکورہ گاڑی کا غیرسرکاری استعمال موجودہ حکومت کی تشریف آوری سے قبل جاری تھا لیکن افسوسناک امر یہ ہے کہ یہ عمل جوں کا توں آج بھی جاری ہے۔ اعلیٰ نجی تعلیمی اداروں کے باہر صبح یا چھٹی کے اوقات میں چند منٹ کھڑے ہوکر اِس بے قاعدگی کا خود بھی مشاہدہ کیا جاسکتا ہے کہ کتنے بچوں کو ’پک اینڈ ڈراپ‘ کرنے کے لئے سرکاری نمبر پلیٹوں والی گاڑیاں آتی ہیں۔ سیکورٹی کی بہانہ بنا کر کئی سرکاری اہلکاروں نے اپنی گاڑیوں کی نمبر پلیٹوں کی جگہ جعلی نمبر پلیٹیں بھی لگا رکھی ہیں حالانکہ یہ رعائت صرف غیرملکی سفارتخانوں کے عملے یا امدادی اداروں میں کام کرنے والے غیرملکیوں دی گئی تھی لیکن سرکاری ایندھن‘ ڈرائیور اُور سیاہ شیشوں والی گاڑی میں بیٹھنے کا مزا ہی کچھ اُور ہے۔ ہمیں اِس بات پر قطعی کوئی تعجب نہیں کہ سرکاری وسائل بشمول گاڑیوں کا غلط استعمال عام ہے کیونکہ یہ بات بھی ’تکبر‘ کی نشانیوں میں سے ایک ہے کہ ہم عہدوں اور مراعات کی لالچ میں نہ تو دیانت کے اصولوں کا خیال رکھتے ہیں اور نہ ہی اِس بات کو ملحوظ رکھا جاتا ہے کہ عوام کے خون پسینے کی کمائی ’امانت‘ ہے۔ کسی سرکاری محکمے کے اہلکار کو یہ کہتے ہوئے نہیں سنا گیا کہ وہ ’عوام کا خادم ہے۔‘ سب کے سب حکمران بنے ہوئے ہیں اور سب کے سب کی آنکھیں آسمان سے لگی ہوئی ہیں!

خیبرپختونخوا حکومت نے ’غیرترقیاتی اخراجات‘ میں کمی کے لئے کثیرالجہتی حکمت عملی مرتب کی ہے جس کے ایک جز کے طور پر ’ایڈمنسٹریشن اینڈ فنانس ڈیپارٹمنٹ‘ کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ صرف سرکاری ملازمین ہی نہیں بلکہ وزرأ حتی کہ وزیراعلیٰ کے زیراستعمال گاڑیوں کے اخراجات کم کئے جائیں۔ اس سلسلے میں تیار کردہ حکمت عملی کے تحت تمام افسروں‘ وزرأ بشمول پارلیمانی سیکرٹری جو سرکاری گاڑی رکھنے کے اہل ہیں کو یہ پیشکش کی جائے گی کہ وہ سرکاری گاڑی واپس کریں اور اِس کے عوض ملنے والی مراعات سے یا تو اپنے لئے گاڑی خریدیں یا پھر کسی دوسرے ذریعہ آمدورفت کا استعمال کریں۔ سرکاری دوروں کے لئے بھی ذاتی گاڑی کا استعمال ہی کرنے کی حکمت عملی مرتب کی گئی ہے جس کے لئے ایندھن دیا جائے گا۔ یہ فیصلہ بھی ہوا ہے کہ سرکاری اداروں میں ایک سے چار عدد تک گاڑیاں دی جائیں گی تاہم اِس بارے میں حتمی فیصلہ آئندہ ہفتے ہوگا کہ کونسا محکمہ کتنی گاڑیاں زیراستعمال رکھ سکتا ہے۔ صوبائی حکومت سرکاری گاڑیوں کو الگ رنگ دینے پر بھی غور کر رہی ہے تاکہ اگر کوئی سرکاری گاڑی دفتری اوقات کے بعد بازار میں دکھائی دے جس میں بیگمات یا ’شاہی بچے‘ سوار ہوں۔ صوبائی حکومت کے سامنے کئی ایک ایسے ممالک کی مثالیں موجود ہیں جہاں سرکاری وسائل بالخصوص گاڑیوں کے غیرسرکاری اِستعمال پر نظر رکھی جاتی ہے۔ اِس سلسلے میں ہمسایہ ممالک بھارت‘ چین اور ایران کی حکمت عملی کا بھی جائزہ لینا ضروری ہے‘ جس میں سرکاری اہلکار پابند ہیں کہ وہ اپنے ملک میں بنی ہوئی آٹھ سو سے ایک ہزار سی سی تک کی چھوٹی گاڑیاں استعمال کریں حتیٰ کہ وزرائے اعلیٰ بھی ملک ہی میں تیار شدہ گاڑیاں استعمال کرتے ہیں۔

لمحۂ فکریہ ہے کہ ’’خیبرپختونخوا میں 13 ہزار 572 گاڑیاں حکومت کے نام پر رجسٹرڈ ہیں اُور اِن کی تعداد میں ہر مالی سال کے ساتھ اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔‘‘ صوبائی حکومت نے رواں مالی سال کے دوران خریدی گئی نئی گاڑیاں بھی نیلام کرنے کا فیصلہ کیا ہے جن پر مارچ 2015ء تک 9 کروڑ 57 لاکھ روپے خرچ ہوئے تھے جبکہ فنانس ڈیپارٹمنٹ نے بھی ایک کروڑ گیارہ لاکھ روپے کی گاڑیاں خریدی ہیں۔ لیکن اگر سرکاری اہلکاروں سے یونہی مراعات واپس لی جاتی رہیں‘ جب اختیارت محدود اور ذاتی‘ سیاسی و کاروباری مفادات کا حصول بھی ممکن نہ ہو اور بذریعہ قانون بدعنوانی کرنے کے مواقع بھی کم ہوتے چلے جائیں تو پھر قانون ساز ایوانوں‘ بلدیاتی انتخابات اُور کنٹونمنٹ انتخابات میں وقت اور مالی وسائل کی سرمایہ کاری کون کرے گا؟ سب سے بڑھ کر ’بناء مراعات‘ سرکاری ملازمت کرے گا کون؟
PTI led KP govt looking to take back all the govt vehicles, soon

No comments:

Post a Comment