$272,000 per day
غیرمنطقی خمیازہ
غیرمنطقی خمیازہ
مائع گیس (ایل این جی) ایک منافع بخش کاروبار ہے‘ جس سے وابستہ ہونے میں
کوئی مضائقہ نہیں۔ یاد رہے کہ ایک نجی ادارے ’ایلینگی ٹرمینل پاکستان
لمیٹیڈ‘ کے سربراہ نے ذرائع ابلاغ سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ اُن کے
ادارے نے کراچی کی بن قاسم بندرگاہ پر ایک ’ایل این جی ٹرمینل‘ نامی
ترقیاتی منصوبہ مکمل کر لیا ہے جس پر 15 کروڑ ڈالر لاگت آئی ہے۔ حیرت انگیز
امر یہ ہے کہ پاکستان حکومت نے 18 کروڑ 80 لاکھ سے زائد پاکستانیوں کی طرف
سے ایلینگی نامی اِس نجی کمپنی سے ایک معاہدہ دستخط کیا ہے جس میں یہ شرط
بھی رکھی گئی ہے کہ حکومت پاکستان چاہے بن قاسم بندرگاہ پر تعمیر ہونے والے
’ایل این جی ٹرمینل‘ کی سہولت سے استفادہ کرے یا نہ کرے لیکن وہ مذکورہ
کمپنی کو ’یومیہ 2 لاکھ 72 ہزار ڈالر‘ اَدا کرے گا!
جب ہم 2 لاکھ 72 ہزار ڈالر کو پورے سال سے ایام سے ضرب دیتے ہیں تو یہ رقم 97 کروڑ ڈالر سالانہ سے زیادہ بنتی ہے کیونکہ حکومت پاکستان ایک معاہدے کی رو سے پابند ہے کہ وہ مذکورہ کمپنی کو اُس کی کل سرمایہ کاری کا 65فیصد حصہ ایک سال میں واپس کرے گا۔ القصہ مختصر مذکورہ ادارہ صرف 600دن میں اپنی پوری سرمایہ کاری حکومت پاکستان سے واپس وصول کر لے گا۔
ایلینگی ٹرمینل پاکستان لمیٹیڈ نامی کمپنی کو یہ قانونی حق حاصل ہے کہ وہ اپنے حصص داروں اور کمپنی کے مفاد میں ایسے کسی ایک یا زیادہ منصوبوں میں سرمایہ کاری کرے‘ جس میں اُس کی سرمایہ کاری محفوظ بھی ہو اور اس پر زیادہ سے زیادہ منافع بھی حاصل ہو۔ کمپنی نے اگر بن قاسم بندرگاہ کراچی پر ’ایل این جی ٹرمینل‘ تعمیر کرنے میں ایک کروڑ پچاس لاکھ ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے اور وہ چھ سو دن میں یہ سرمایہ کاری واپس وصول بھی کر لے گی تو اِس سودے میں کچھ بھی غیرقانونی نہیں البتہ یہ بات ضرور ہے کہ پاکستان حکومت نے سودا کرتے ہوئے اٹھارہ کروڑ اسی لاکھ سے زائد پاکستانیوں کے مفاد کو پیش نظر نہیں رکھا۔ ایک ایسے ملک کی معیشت اور اپنی غربت بھی ہمارے حکمرانوں کو یاد نہیں رہی‘ کہ کس طرح ’الاماشاء اللہ‘ پائی پائی مانگ کر ملک کے انتظامی معاملات شایان شان طور اور شاہانہ انداز میں چلائے جا رہے ہیں!
جب یہ کہا جاتا ہے کہ مائع گیس کی درآمد ایک منافع بخش کاروبار ہے تو اِس کی دلیل یہ ہے کہ مارکیٹ میں فی ایم ایم بی ٹی یو مائع گیس کی قیمت 6.90 ڈالر ہے جسے 8 ڈالر کے عوض خریدا جاتا ہے اور یوں ہر ایک مائع گیس سے بھرے بحری جہاز کی پاکستان آمد کے ساتھ ہی 30 لاکھ ڈالر اضافی منافع ادا کر دیا جاتا ہے! اگر ایک ماہ میں زیادہ نہیں مگر صرف 2 بحری جہاز مائع گیس سے بھرے ہوئے پاکستان آتے ہیں تو ایک سال میں 7 کروڑ 20 لاکھ ڈالر (مارکیٹ میں مروجہ قیمت سے) زیادہ بمعہ اضافی منافع ادا کئے جائیں گے۔
مزید جانئے کہ ضلع مظفر گرڈ اور مائع گیس کی درآمد کے درمیان بھی ایک تعلق موجود ہے۔ کوٹ ادو پاور کمپنی پاکستان میں بجلی پیدا کرنے والا سب سے بڑا نجی ادارہ ہے جس کا دعویٰ ہے کہ وہ یومیہ 1600 میگاواٹ بجلی پیدا کر سکتا ہے۔ نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) کی اجازت سے کوٹ ادو پاور کمپنی کو ’مائع گیس‘ 14.30 ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو کے تناسب سے فراہم کی جائے گی۔
جب پاکستان مائع گیس درآمد کرنے کے بارے میں سوچ رہا تھا تو مجھ معاشی امور کے جائزہ کار سمیت بہت سے اقتصادی ماہرین کو اِس بات کا یقین تھا کہ مائع گیس کی درآمد کا اصل مقصد یہی ہے کہ بجلی پیدا کرنے والے نجی اداروں کو سستا ایندھن میسر کیا جائے تاکہ پیداواری خرچ کم کرکے بجلی کی فی یونٹ قیمت میں کمی لائی جاسکے حسب طلب مقدار میں کم ہونے کے علاؤہ عام آدمی کی قوت خرید سے زیادہ تھی لیکن جس بھاری قیمت کے عوض ’مائع گیس‘ خریدی گئی ہے اُس سے صرف اور صرف فیصلہ سازوں اور سرمایہ داروں کو ہی فائدہ ہوگا‘ جنہیں باآسانی دولت کمانے کا ایک اُور نادر موقع ہاتھ آ گیا ہے۔
یقیناً’مائع گیس‘ کا کاروبار انتہائی منافع بخش دھندا ہے۔ پاکستان میں بجلی پیدا کرنے والے نجی ادارے سالانہ اوسطاً 40فیصد کی شرح سے منافع کما رہے ہیں۔ پاکستان میں بینکاری کا شعبہ سالانہ اوسطاً 30فیصد کے تناسب سے منافع کما رہا ہے۔ اگر ہم گذشتہ چودہ برس کی اوسط نکالیں تو پاکستان میں حصص کے کاروبار سے وابستہ سرمایہ کار سالانہ اوسطاً 24 فیصد منافع کما رہے ہیں لیکن اِن تینوں شعبوں کے منافع کا موازنہ ’مائع گیس‘ سے نہیں کیا جاسکتا جس میں سرمایہ کاری کرنے والوں کو سالانہ اوسطاً 65فیصد کے تناسب سے منافع حاصل ہوگا یقیناًبجلی کے پیداواری ادارے‘ بینکار اور حصص کا کاروبار کرنے والے سوچ رہے ہوں گے کہ وہ بھی کیوں نہ ’مائع گیس‘ ہی کے ’دھندے‘ کا حصہ بن جائیں!
(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ:شبیر حسین اِمام)
جب ہم 2 لاکھ 72 ہزار ڈالر کو پورے سال سے ایام سے ضرب دیتے ہیں تو یہ رقم 97 کروڑ ڈالر سالانہ سے زیادہ بنتی ہے کیونکہ حکومت پاکستان ایک معاہدے کی رو سے پابند ہے کہ وہ مذکورہ کمپنی کو اُس کی کل سرمایہ کاری کا 65فیصد حصہ ایک سال میں واپس کرے گا۔ القصہ مختصر مذکورہ ادارہ صرف 600دن میں اپنی پوری سرمایہ کاری حکومت پاکستان سے واپس وصول کر لے گا۔
ایلینگی ٹرمینل پاکستان لمیٹیڈ نامی کمپنی کو یہ قانونی حق حاصل ہے کہ وہ اپنے حصص داروں اور کمپنی کے مفاد میں ایسے کسی ایک یا زیادہ منصوبوں میں سرمایہ کاری کرے‘ جس میں اُس کی سرمایہ کاری محفوظ بھی ہو اور اس پر زیادہ سے زیادہ منافع بھی حاصل ہو۔ کمپنی نے اگر بن قاسم بندرگاہ کراچی پر ’ایل این جی ٹرمینل‘ تعمیر کرنے میں ایک کروڑ پچاس لاکھ ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے اور وہ چھ سو دن میں یہ سرمایہ کاری واپس وصول بھی کر لے گی تو اِس سودے میں کچھ بھی غیرقانونی نہیں البتہ یہ بات ضرور ہے کہ پاکستان حکومت نے سودا کرتے ہوئے اٹھارہ کروڑ اسی لاکھ سے زائد پاکستانیوں کے مفاد کو پیش نظر نہیں رکھا۔ ایک ایسے ملک کی معیشت اور اپنی غربت بھی ہمارے حکمرانوں کو یاد نہیں رہی‘ کہ کس طرح ’الاماشاء اللہ‘ پائی پائی مانگ کر ملک کے انتظامی معاملات شایان شان طور اور شاہانہ انداز میں چلائے جا رہے ہیں!
جب یہ کہا جاتا ہے کہ مائع گیس کی درآمد ایک منافع بخش کاروبار ہے تو اِس کی دلیل یہ ہے کہ مارکیٹ میں فی ایم ایم بی ٹی یو مائع گیس کی قیمت 6.90 ڈالر ہے جسے 8 ڈالر کے عوض خریدا جاتا ہے اور یوں ہر ایک مائع گیس سے بھرے بحری جہاز کی پاکستان آمد کے ساتھ ہی 30 لاکھ ڈالر اضافی منافع ادا کر دیا جاتا ہے! اگر ایک ماہ میں زیادہ نہیں مگر صرف 2 بحری جہاز مائع گیس سے بھرے ہوئے پاکستان آتے ہیں تو ایک سال میں 7 کروڑ 20 لاکھ ڈالر (مارکیٹ میں مروجہ قیمت سے) زیادہ بمعہ اضافی منافع ادا کئے جائیں گے۔
مزید جانئے کہ ضلع مظفر گرڈ اور مائع گیس کی درآمد کے درمیان بھی ایک تعلق موجود ہے۔ کوٹ ادو پاور کمپنی پاکستان میں بجلی پیدا کرنے والا سب سے بڑا نجی ادارہ ہے جس کا دعویٰ ہے کہ وہ یومیہ 1600 میگاواٹ بجلی پیدا کر سکتا ہے۔ نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) کی اجازت سے کوٹ ادو پاور کمپنی کو ’مائع گیس‘ 14.30 ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو کے تناسب سے فراہم کی جائے گی۔
جب پاکستان مائع گیس درآمد کرنے کے بارے میں سوچ رہا تھا تو مجھ معاشی امور کے جائزہ کار سمیت بہت سے اقتصادی ماہرین کو اِس بات کا یقین تھا کہ مائع گیس کی درآمد کا اصل مقصد یہی ہے کہ بجلی پیدا کرنے والے نجی اداروں کو سستا ایندھن میسر کیا جائے تاکہ پیداواری خرچ کم کرکے بجلی کی فی یونٹ قیمت میں کمی لائی جاسکے حسب طلب مقدار میں کم ہونے کے علاؤہ عام آدمی کی قوت خرید سے زیادہ تھی لیکن جس بھاری قیمت کے عوض ’مائع گیس‘ خریدی گئی ہے اُس سے صرف اور صرف فیصلہ سازوں اور سرمایہ داروں کو ہی فائدہ ہوگا‘ جنہیں باآسانی دولت کمانے کا ایک اُور نادر موقع ہاتھ آ گیا ہے۔
یقیناً’مائع گیس‘ کا کاروبار انتہائی منافع بخش دھندا ہے۔ پاکستان میں بجلی پیدا کرنے والے نجی ادارے سالانہ اوسطاً 40فیصد کی شرح سے منافع کما رہے ہیں۔ پاکستان میں بینکاری کا شعبہ سالانہ اوسطاً 30فیصد کے تناسب سے منافع کما رہا ہے۔ اگر ہم گذشتہ چودہ برس کی اوسط نکالیں تو پاکستان میں حصص کے کاروبار سے وابستہ سرمایہ کار سالانہ اوسطاً 24 فیصد منافع کما رہے ہیں لیکن اِن تینوں شعبوں کے منافع کا موازنہ ’مائع گیس‘ سے نہیں کیا جاسکتا جس میں سرمایہ کاری کرنے والوں کو سالانہ اوسطاً 65فیصد کے تناسب سے منافع حاصل ہوگا یقیناًبجلی کے پیداواری ادارے‘ بینکار اور حصص کا کاروبار کرنے والے سوچ رہے ہوں گے کہ وہ بھی کیوں نہ ’مائع گیس‘ ہی کے ’دھندے‘ کا حصہ بن جائیں!
(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ:شبیر حسین اِمام)
![]() |
$272،000 per day |
No comments:
Post a Comment