ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
ترغیبِ تفکر
ترغیبِ تفکر
ایبٹ آباد کی یونین کونسل نواں شہر سے براستہ الیاسی مسجد‘ ٹھنڈا چوا‘ پی
ایم اے روڈ‘ جناح آباد اور منڈیاں تک کی پٹی شاہراہ قراقرم سے بل کھاتی
ہوئی سپلائی‘ جھگیاں اور دھمتوڑ کو ایک مالا کی صورت ایک دوسرے سے ملاتی ہے
اور ایبٹ آباد چھاؤنی کے انہیں علاقوں پر مشتمل 5 وارڈوں پر مشتمل
کنٹونمنٹ بورڈ کے انتخابات کی تیاریاں زوروشور سے جاری ہیں۔ مختلف سیاسی
جماعتوں کے نامزد‘ حمایت یافتہ اُمیدواروں کے مرکزی دفاتر کی رونقیں سرشام
بڑھ جاتی ہیں‘ جہاں رنگ برنگے پوسٹروں اور آس پاس درجنوں درجن گاڑیاں کھڑی
دیکھ کر یقین ہو جاتا ہے کہ ہمارے ہاں ہر کام اور بالخصوص مالی وانتظامی
اختیارات والے انتخابی عمل کو کس قدر اہمیت دی جاتی ہے! یاد رہے کہ
’’کنٹونمنٹ بورڈ ابیٹ آباد‘‘ کی پانچ نشستوں کے لئے 48 افراد نے بطور
اُمیدوار خود کو انتخابی احتساب کے لئے پیش کیا جن میں سے دو اُمیدواروں
کے کاغذات تکنیکی بنیادوں پر مسترد کر دیئے گئے۔ 18 اُمیدواروں نے اپنے
کاغذات واپس لے لئے اُور اَب 28 اُمیدوار پانچ نشستوں کے لئے ایک دوسرے کے
مدمقابل ہیں۔ وارڈ نمبرایک میں دو اُمیدوار آزاد جبکہ ایک ایک تحریک انصاف
اُور مسلم لیگ نواز کی جانب سے نامزد کردہ ہیں۔ وارڈ نمبر دو میں ایک آزاد
جبکہ یہاں بھی مسلم لیگ (نواز) اور تحریک انصاف کے نامز اُمیدوار مدمقابل
ہیں۔ وارڈ نمبر تین میں چھ اُمیدوار آزاد جبکہ پیپلزپارٹی‘ تحریک انصاف اور
مسلم لیگ نواز کا ایک ایک اُمیدوار اہل علاقہ سے ووٹ کا طلبگار ہے۔ وارڈ
نمبر چار سے ایک آزاد جبکہ تین جماعتیں تحریک انصاف‘ پیپلزپارٹی اور نواز
لیگ کا ایک ایک نامزد اُمیدوار کامیابی کا خواہشمند ہے اور وارڈ نمبر پانچ
سے چار آزاد جبکہ تین تحریک انصاف‘ پیپلزپارٹی اور نواز لیگ سے تعلق رکھتے
ہیں۔ کنٹونمنٹ بورڈ ایبٹ آباد کے انتخابات میں 22ہزار 80 مرد جبکہ 18 ہزار
229 خواتین 45 پولنگ اسٹیشنوں میں 25اپریل کے روز ووٹ ڈالیں گے۔
ایبٹ آباد کنٹونمنٹ کی کارکردگی کا جائزہ لیاجائے تو اِس ادارے کی جانب سے سہولیات کی فراہمی حیرت انگیز طور پر محدود جبکہ کنٹونمنٹ کی حدود ایک وسیع علاقے کا احاطہ کئے ہوئے ہے۔ لمحۂ فکریہ ہے کہ کنٹونمنٹ بورڈ کی جانب سے مقرر کردہ ٹیکسوں کی شرح ضلعی انتظامیہ (میونسپل اتھارٹی) کے مقابلے زیادہ ہے لیکن دونوں ادارے اپنی اپنی حیثیت میں محدود مالی وسائل کے سبب وہ تاثر قائم کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے جو ایبٹ آباد کے شایان شان ہے۔ کنٹونمنٹ بورڈ کی حدود میں ایسی سڑکیں‘ گلیاں اور نالیاں دکھائی دیتی ہیں جو خستہ حال ہیں۔ نکاسی آب کا پانی جابجا کھڑا نظر آتا ہے۔ گندگی و غلاظت کے انبار کا حجم اگرچہ گذشتہ چند ہفتوں میں کچھ کم ہوا ہے لیکن ایبٹ آباد میں صفائی کی صورتحال بہتر بنانے اور تعمیر و ترقی کے عمل میں حسب ضرورت توسیع کے لئے ابھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے لیکن جس انداز میں ’کنٹونمنٹ بورڈ‘ کی 5وارڈوں کے لئے اراکین سیاسی وابستگیوں سے جڑے ہیں اور جس انداز میں ایبٹ آباد کی سیاسی قیادت درپردہ‘ پس پردہ اور باپردہ اپنے اپنے ہم خیالوں کی حمایت کررہی ہے اُسے دیکھتے ہوئے اِس بات کی اُمید بہت کم دکھائی دیتی ہے کہ کامیاب ہونے کے اُمیدوار چھاؤنی کی حدود میں بہتری کے لئے خاطرخواہ کردار ادا کر سکیں گے۔ سیدھی سادی بات کوسیاسی اور اَنا کا مسئلہ بنا دیا گیا ہے۔
کنٹونمنٹ بورڈ ہوں یا بلدیاتی انتخابات‘ سیاسی نامزدگی کسی اُمیدوار کا تعارف تو ہو سکتی ہے لیکن ووٹ دینے کا فیصلہ سیاسی بنیاد پر نہیں بلکہ خدمت کے جذبے اور بالخصوص اُس نئی قیادت کے حق میں ہونا چاہئے جو اپنے اپنے علاقے کی حدود میں رہنے والے ’ہر خاص و عام‘ خدمت کا جذبہ (ظرف) رکھتی ہو‘ یقیناًایسے افراد کی تلاش آسان نہیں جو کسی نہ کسی سیاسی جماعت یا سیاسی فکر و نظریئے سے وابستگی نہ رکھتے ہوں لیکن بلدیاتی سطح پر انتخابات کی گلی محلے کی تعمیر و ترقی اُور صفائی کی صورتحال سے کہیں زیادہ اہمیت ہے۔ منتخب نمائندوں کو ٹیکسوں کی شرح منصفانہ بنانی ہے۔ انہیں پینے کے صاف پانی کی فراہمی کا جائزہ لینا ہوگا۔ اُنہیں تجاوزات اور قبضہ مافیا کے خلاف سینہ سپر ہونا پڑے گا‘ جن کی پشت پناہی اور سرپرستی کرنے والے سیاسی کرداروں کی وجہ سے انتظامیہ مستقل دردسر کا شکار ہے۔ منتخب نمائندوں کو شہری زندگی سے متعلق شعور اُجاگر کرنے میں کلیدی کردار ادا کرنا ہو گا۔ اُنہیں تعلیم وصحت کے حوالے سے آگہی کا حصہ بننا ہوگا۔ گردوپیش پر نظر رکھنا ہوگی کہ منظم جرائم پیشہ یا عسکریت پسند اپنے قدم نہ جما سکیں‘اگرچہ ایبٹ آباد میں کوئی ’نوگو ایریا‘ نہیں لیکن ایسے علاقے ضرور ہیں جہاں دن ڈھلے پولیس اہلکار جانے سے کتراتے ہیں۔ جرائم کی بڑھتی ہوئی شرح کے ذمہ دار دامے ‘درہمے‘سخنے اِن انتخابات میں بالواسطہ یا بلاواسطہ حصہ لے رہے ہیں‘ اپنے اپنے قومی و صوبائی حلقوں میں زیادہ سے زیادہ حمایت برقرار رکھنے کے لئے سیاسی قائدین بھی خطرے کی علامات سے نظریں چُرا رہے ہیں!
عسکریت پسندوں سے دلی ہمدردیاں‘ اخلاقی حمایت اور پشت پناہی کرنے والے بھی اِن دنوں فارغ نہیں اُور مذہبی بنیادوں پر منافرت پھیلانے والے اپنے اپنے ’ووٹ بینک‘ کی قیمت پر اہمیت جتلاتے دکھائی دیتے ہیں تو کیا یہ پورا عمل ’ہم عوام‘ کے لئے معنی خیز اور نتیجہ خیز قرار دیا جاسکتا ہے؟بات صرف ایبٹ آباد تک محدود نہیں رکھنی چاہئے بلکہ خیبرپختونخوا کے طول و عرض میں 10 کنٹونمنٹ بورڈ کی 30 وارڈوں کے لئے برپا انتخابی گہماگہمیوں میں جیت اور ہار پر مبنی نتائج کی حد سے آگے سوچنے اور بڑھنے کی ضرورت ہے اُور ایک طویل تعطل کے بعد ہونے والے کنٹونمنٹ بورڈ بشمول بلدیاتی انتخابی (ہمہ جہت) عمل کو ’سیاسی وابستگیوں‘ سے بالاتر ہو کر زیادہ سنجیدگی و تفکر سے دیکھنے سمجھنے اُور سمجھانے کی ضرورت ہے۔
ایبٹ آباد کنٹونمنٹ کی کارکردگی کا جائزہ لیاجائے تو اِس ادارے کی جانب سے سہولیات کی فراہمی حیرت انگیز طور پر محدود جبکہ کنٹونمنٹ کی حدود ایک وسیع علاقے کا احاطہ کئے ہوئے ہے۔ لمحۂ فکریہ ہے کہ کنٹونمنٹ بورڈ کی جانب سے مقرر کردہ ٹیکسوں کی شرح ضلعی انتظامیہ (میونسپل اتھارٹی) کے مقابلے زیادہ ہے لیکن دونوں ادارے اپنی اپنی حیثیت میں محدود مالی وسائل کے سبب وہ تاثر قائم کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے جو ایبٹ آباد کے شایان شان ہے۔ کنٹونمنٹ بورڈ کی حدود میں ایسی سڑکیں‘ گلیاں اور نالیاں دکھائی دیتی ہیں جو خستہ حال ہیں۔ نکاسی آب کا پانی جابجا کھڑا نظر آتا ہے۔ گندگی و غلاظت کے انبار کا حجم اگرچہ گذشتہ چند ہفتوں میں کچھ کم ہوا ہے لیکن ایبٹ آباد میں صفائی کی صورتحال بہتر بنانے اور تعمیر و ترقی کے عمل میں حسب ضرورت توسیع کے لئے ابھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے لیکن جس انداز میں ’کنٹونمنٹ بورڈ‘ کی 5وارڈوں کے لئے اراکین سیاسی وابستگیوں سے جڑے ہیں اور جس انداز میں ایبٹ آباد کی سیاسی قیادت درپردہ‘ پس پردہ اور باپردہ اپنے اپنے ہم خیالوں کی حمایت کررہی ہے اُسے دیکھتے ہوئے اِس بات کی اُمید بہت کم دکھائی دیتی ہے کہ کامیاب ہونے کے اُمیدوار چھاؤنی کی حدود میں بہتری کے لئے خاطرخواہ کردار ادا کر سکیں گے۔ سیدھی سادی بات کوسیاسی اور اَنا کا مسئلہ بنا دیا گیا ہے۔
کنٹونمنٹ بورڈ ہوں یا بلدیاتی انتخابات‘ سیاسی نامزدگی کسی اُمیدوار کا تعارف تو ہو سکتی ہے لیکن ووٹ دینے کا فیصلہ سیاسی بنیاد پر نہیں بلکہ خدمت کے جذبے اور بالخصوص اُس نئی قیادت کے حق میں ہونا چاہئے جو اپنے اپنے علاقے کی حدود میں رہنے والے ’ہر خاص و عام‘ خدمت کا جذبہ (ظرف) رکھتی ہو‘ یقیناًایسے افراد کی تلاش آسان نہیں جو کسی نہ کسی سیاسی جماعت یا سیاسی فکر و نظریئے سے وابستگی نہ رکھتے ہوں لیکن بلدیاتی سطح پر انتخابات کی گلی محلے کی تعمیر و ترقی اُور صفائی کی صورتحال سے کہیں زیادہ اہمیت ہے۔ منتخب نمائندوں کو ٹیکسوں کی شرح منصفانہ بنانی ہے۔ انہیں پینے کے صاف پانی کی فراہمی کا جائزہ لینا ہوگا۔ اُنہیں تجاوزات اور قبضہ مافیا کے خلاف سینہ سپر ہونا پڑے گا‘ جن کی پشت پناہی اور سرپرستی کرنے والے سیاسی کرداروں کی وجہ سے انتظامیہ مستقل دردسر کا شکار ہے۔ منتخب نمائندوں کو شہری زندگی سے متعلق شعور اُجاگر کرنے میں کلیدی کردار ادا کرنا ہو گا۔ اُنہیں تعلیم وصحت کے حوالے سے آگہی کا حصہ بننا ہوگا۔ گردوپیش پر نظر رکھنا ہوگی کہ منظم جرائم پیشہ یا عسکریت پسند اپنے قدم نہ جما سکیں‘اگرچہ ایبٹ آباد میں کوئی ’نوگو ایریا‘ نہیں لیکن ایسے علاقے ضرور ہیں جہاں دن ڈھلے پولیس اہلکار جانے سے کتراتے ہیں۔ جرائم کی بڑھتی ہوئی شرح کے ذمہ دار دامے ‘درہمے‘سخنے اِن انتخابات میں بالواسطہ یا بلاواسطہ حصہ لے رہے ہیں‘ اپنے اپنے قومی و صوبائی حلقوں میں زیادہ سے زیادہ حمایت برقرار رکھنے کے لئے سیاسی قائدین بھی خطرے کی علامات سے نظریں چُرا رہے ہیں!
عسکریت پسندوں سے دلی ہمدردیاں‘ اخلاقی حمایت اور پشت پناہی کرنے والے بھی اِن دنوں فارغ نہیں اُور مذہبی بنیادوں پر منافرت پھیلانے والے اپنے اپنے ’ووٹ بینک‘ کی قیمت پر اہمیت جتلاتے دکھائی دیتے ہیں تو کیا یہ پورا عمل ’ہم عوام‘ کے لئے معنی خیز اور نتیجہ خیز قرار دیا جاسکتا ہے؟بات صرف ایبٹ آباد تک محدود نہیں رکھنی چاہئے بلکہ خیبرپختونخوا کے طول و عرض میں 10 کنٹونمنٹ بورڈ کی 30 وارڈوں کے لئے برپا انتخابی گہماگہمیوں میں جیت اور ہار پر مبنی نتائج کی حد سے آگے سوچنے اور بڑھنے کی ضرورت ہے اُور ایک طویل تعطل کے بعد ہونے والے کنٹونمنٹ بورڈ بشمول بلدیاتی انتخابی (ہمہ جہت) عمل کو ’سیاسی وابستگیوں‘ سے بالاتر ہو کر زیادہ سنجیدگی و تفکر سے دیکھنے سمجھنے اُور سمجھانے کی ضرورت ہے۔
![]() |
Cantonment Board elections and our political objectives |
No comments:
Post a Comment