Tuesday, April 14, 2015

Apr2015: TRANSLATION How Pakistan should respond

How Pakistan should respond
پاکستان کا ردعمل؟
اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہو گا کہ پاکستان ایک غلط وقت میں غلط مقام پر کھڑا ہے‘ جہاں اُسے یہ فیصلہ کرنا ہے کہ وہ عرب ممالک کے اُس عسکری اتحاد کا حصہ بنے یا اِس سے الگ رہے اور چونکہ پاکستان نے غیرجانبدار رہنے کا اصولی فیصلہ جمہوری انداز میں کر لیا ہے تو اس کے منفی اثرات یہ مرتب ہوسکتے ہیں کہ اہم اتحادی عرب ممالک کی حمایت اور مشکل کی کسی گھڑی میں اُن کا تعاون ہمارے شامل حال نہ ہو۔ درحقیقت چند عرب ممالک کی جانب سے یمن کی داخلی صورتحال میں فریق بننے کا فیصلہ ہی غلطی پر مبنی تھا اور پھر وہ یہ خواہش کرنے لگے کہ پاکستان بھی اُن کی غلطی میں حصہ دار بن جائے۔ اِس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان اور عرب ممالک بالخصوص سعودی عرب کے دیرینہ تعلقات رہے ہیں اور پاکستان اِن تعلقات کو انتہائی قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہوئے اہمیت بھی دیتا ہے لیکن اِس دلی و مذہبی لگاؤ کا یہ مطلب ہرگز نہیں بنتا کہ اگر کوئی عرب ملک غلطی کرے گا تو پاکستان بھی اُس کی تائید و حمایت کرنے اندھوں جیسی تقلید کرنے لگے گا۔ عرب ممالک کو پاکستان کے داخلی حالات کا ادراک کرنا چاہئے۔ دوست وہ ہوتا ہے جو اپنے دوست کی مجبوریوں کو سمجھے۔ پاکستان داخلی طورپر بیک وقت ایک سے زیادہ فوجی کاروائیاں کر رہا ہے جیسا کہ آپریشن ضرب عضب اور آپریشن خیبرٹو سے ہم سب واقف ہیں لیکن اِن کاروائیوں کا دائرہ صرف قبائلی علاقوں ہی تک محدود نہیں بلکہ ملک گیر سطح پر خوف و دہشت کی علامت بننے والوں کے خلاف بھرپور کاروائی جاری ہے‘ جس میں پاک فوج کو یکسوئی اور مزید وسائل کی بھی ضرورت ہے کیونکہ دشمن اِس حد تک معاشرے میں سرایت کر چکا ہے کہ ایک تو اُس کی ظاہری وفوری شناخت ممکن نہیں اور دوسرا وہ گوریلا طرز جنگ اختیار کئے ہوئے ہے‘ جس کا مقابلہ کرتے ہوئے اگر فوج احتیاط سے کام نہیں لیتی تو اندیشہ ہے کہ بے گناہ افراد اِس کی زد میں آ جائیں گے۔ پھر قومی سطح پر دہشت گردی کے خلاف ایک ’ایکشن پلان‘ کی بھی منظوری دی جاچکی ہے‘ جسے مکمل کرنا بھی فوج ہی کی ذمہ داریوں کا حصہ ہے اب اگر کسی ملک کی فوج ایک سے زیادہ داخلی محاذوں پر مصروف ہو اور اُسے اپنی افرادی قوت اُور وسائل میں اضافے پر بھی توجہ دینی ہو‘ تو یہ بات ناممکن حد تک دشوار ہو سکتی ہے کہ وہ کسی تیسرے اور بیرون ملک محاذ کی جانب پیشقدمی کرنا شروع کردے۔ پاکستان کی فوجی و سیاسی قیادت کے لئے یہ بات انتہائی ضروری ہے کہ اس کی پہلی‘ دوسری اور تیسری ترجیح پاکستان ہی ہونی چاہئے۔

عرب ممالک یمن کے تنازعہ کو مختلف نظر سے دیکھ رہے ہیں اور پاکستان کی دفاعی اور سیاسی قیادت اِس مسئلے کو الگ زوایئے سے دیکھ رہی ہے۔ پاکستان کا نکتۂ نظر یہ ہے کہ یمن کی داخلی صورتحال سے سعودی عرب میں مقامات مقدسہ سمیت وہاں کے شاہی خاندان کی حکومت کو بھی کوئی خطرہ نہیں۔ پاکستان سمیت کئی مسلمان ممالک یہ بھی سمجھتے ہیں کہ یمن کا تنازعہ شیعہ سنی نہیں بلکہ یہ خالصتاً دو گروہوں کے درمیان خانہ جنگی ہے‘ جو کلمہ گو مسلمان ہیں اور عرب ممالک کو اُمت کے درمیان اختلاف ختم کرنے کے لئے اپنا کردار ادا کرنا چاہئے ناکہ اُس آگ کو بھڑکایا جائے جو محض اقتدار و اختیارات پر دسترس حاصل کرنے کے لئے لگائی گئی ہے اگر مسلمان ممالک اسی طرح داخلی طورپر کمزور ہوتے رہے اور اُن کے ہمسایہ ممالک بالخصوص مسلم امہ کی قیادت کا زعم رکھنے والے عرب حکمرانوں کو چاہئے کہ وہ بڑے بھائی جیسا کردار اَدا کریں اور اپنا اثرورسوخ یا رعب و دبدبے کا اِستعمال کرتے ہوئے متحارب گروہوں کو ایک دوسرے سے بات چیت پر آمادہ کریں اور تنازعات باہم مل بیٹھ کر حل کریں تاکہ مسلم دنیا کے بارے میں اِس منفی تاثر کی نفی ہو سکے کہ یہ لوگ برداشت نہیں رکھتے حالانکہ اسلام کا لغوی مطلب ہی سلامتی اور امن سے ماخوذ ہے۔ ہمیں اپنوں اور غیروں پر یہ ثابت کرنا ہوگا کہ اسلام کے ماننے والے امن پسند ہیں‘ وہ دوسروں کی جان ومال کے تحفظ کو فرض عین سمجھتے ہیں اور کسی ایک انسان کا قتل اُن کے نزدیک پوری انسانیت کے قتل کے مترادف فعل ہے۔

اصولی طور پر پاکستان کو اپنی معیشت و اقتصادیات کو مضبوط بنانے پر توجہ دینی چاہئے تاکہ وہ دوسروں کی مالی مدد اور معاونت پر انحصار ہی نہ کرے۔ یہ عمل اگر فوری طورپر ممکن نہیں تو ہمارے حکمرانوں کو چاہئے کہ اِس ہدف کو بتدریج حاصل کریں کیونکہ جب تک ہمارے ہاتھ میں کشکول رہے گا‘ ہم دوسروں کی خواہشات کے سامنے نہ صرف ہتھیار ڈالتے رہیں گے بلکہ اپنے ملکی وسائل کی ترقی اور ضروریات کے لئے بھی دوسروں کی منظوری کے محتاج بنے رہیں گے جیسا کہ ایران پاکستان گیس پائپ لائن منصوبہ ہے‘ جو سالہا سال سے التوأ کا شکار ہے کیونکہ مبینہ طور پر امریکہ نہیں چاہتا کہ پاکستان اور ایران کے درمیان قربت و معاشی و اقتصادی تعلقات میں اضافہ ہو۔ اِس مرحلے پر پاکستان یہ بھی کر سکتا ہے کہ عرب ممالک کی تنظیم سے اپنے تعلقات بہتر بنائے۔ پاکستان اِس پوزیشن میں ہے کہ وہ عرب ممالک اور یمن کی متحارب قیادت کے درمیان اختلافات بذریعہ بات چیت ختم کرا سکتا ہے۔ دوسرا پاکستان اپنی خارجہ پالیسی کے خدوخال ازسرنو تشکیل دے سکتا ہے بالخصوص عرب ممالک اور مشرق وسطی کے حالات کے تناظر میں بھی خارجہ پالیسی واضح ہونی چاہئے جسے دیکھتے ہوئے دوست و دشمن ممالک پاکستان سے کسی بھی بات کا مطالبہ کرنے سے پہلے جان لیں کہ ہماری سوچ کیا ہے اور ہم کس حد تک تعاون کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ تیسرا وزیر اعظم ملک کی اقتصادی صورتحال کو بہتر بنانے کے لئے وزیر خزانہ اسحاق ڈار کو طلب کر کے سنجیدہ اور جامع بات چیت کرسکتے ہیں تاکہ پاکستان کو آمدن کے پائیدار اور مستقل وسائل میں اضافہ کیا جاسکے۔ یہ کام سال 2019 ء یا 2024ء میں بننے والی جمہوری حکومتوں کے لئے نہیں چھوڑنا چاہئے بلکہ یہ انتہائی اہم ہے اور اِسے آج کے آج ہی ہوناچاہئے۔
پاکستان کا بجٹ آئندہ دو ماہ میں متوقع ہے اور اس کا بیشتر حصہ تو تیار بھی ہوچکا ہے۔ ہماری افسرشاہی اِس بات کی ماہر ہے کہ وہ غیرترقیاتی اخراجات کی روایت کو برقرار رکھے جبکہ پاکستان کی ضرورت ہر ایک پائی کا دانشمندانہ استعمال ہے۔ اپنی چادر دیکھ کر پاؤں پھیلانے کی ضرورت ہے اور بیرونی امداد پر کم سے کم انحصار کرتے ہوئے قرضہ جات کی ادائیگی کے لئے مالی وسائل مختص کرنا ہوں گے۔ چوتھا اقدام یہ تجویز کیا جاتا ہے کہ پاکستان عرب دنیا میں اپنی ساکھ اور اہمیت بڑھانے کے لئے سفارتکاری میں سرمایہ کاری کرے۔

 پاکستان کو قائم ہوئے 70 برس ہونے لگے ہیں اور اب تک ہمیں عرب ممالک کی تجارتی و افرادی قوت کی منڈیوں میں حسب ضرورت یا خاطرخواہ مقام نہیں مل سکا۔ پانچویں ضرورت ایران کے ساتھ تعلقات میں گرمجوشی لانی ہے۔ اِس کا قطعی یہ مطلب نہیں کہ ہم ایران کے انتہائی قریب چلے جائیں یا اُس کی ہر بات کی تائید کرنا شروع کردیں بلکہ ایران میں موجود توانائی کے وسائل سے استفادہ کرکے پاکستان توانائی بحران سے نکل بھی سکتا ہے اور اپنے توانائی کے وسائل کو ترقی بھی دے سکتا ہے جو اِس بحران کا ایک پائیدار حل ثابت ہوگا۔ ضرورت اِس امر کی ہے کہ پاکستان کا وسیع تر مفاد دوسروں کو سمجھانے کی بجائے ہمارے حکمران اور فیصلہ ساز اِس حقیقت کا ادراک کریں کہ پاکستان کی بقاء داخلی امن و سلامتی سے جڑی ہے۔ ہمارا استحکام اور بحرانوں سے نجات صرف اور صرف قیام امن کی محتاج ہے‘ جس کے لئے جاری جدوجہد ایک فیصلہ کن اور نازک مراحل سے گزر رہی ہے اور اِس وقت اگر توجہ کسی دوسری طرف مبذول کی گئی تو اِس سے انتشار بڑھے گا‘ بحرانوں کی شدت میں اضافہ ہوگا اور ملک میں پہلے ہی سے بلند سطحوں کو چھونے والی بیروزگاری‘ غربت و افلاس اور اقتصادی پیداواری سرگرمیوں میں کمی آئے گی۔ ہمیں جوش کی نہیں ہوش سے کام لینے کی ضرورت‘ کل سے زیادہ آج ہے!

 (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: مشرف زیدی۔ ترجمہ: شبیر حسین اِمام)
How Pakistan should respond

No comments:

Post a Comment