Tuesday, April 14, 2015

Apr2015: Condition of prisons

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
قیدیوں کے حقوق
پشاور کے سنٹرل جیل 2 ہزار 200قیدی ہیں جبکہ اِس کی تعمیر کے لحاظ سے یہاں پر مقیم قیدیوں کی کل تعداد 800 افراد سے زیادہ نہیں ہونی چاہئے۔ گنجائش سے زیادہ آبادی کی وجہ سے قیدیوں کو کئی ایک مسائل کا سامنا ہے جن میں سب سے زیادہ تشویشناک ’ٹی بی‘ کا مرض ہے۔ جیل ذرائع کے مطابق اِس سلسلے میں محکمۂ صحت کی وساطت سے ’خیبرپختونخوا انسداد ٹی بی پروگرام‘ کے حکام سے رابطہ کیا گیا ہے کیونکہ صحت کے جائزوں سے معلوم ہوا ہے کہ ’سنٹرل جیل پشاور کے قیدی ’ٹیوبرکلوسیز (ٹی بی)‘ کے مرض کی ایک ایسی حالت میں مبتلا پائے گئے ہیں‘ جس کا اگر مستقل بنیادوں پر فوری علاج نہ کیا گیا تو متاثرہ افراد کی موت ہو سکتی ہے اور وہ دوسرے صحت مند افراد کو بھی متاثر کر سکتے ہیں۔ جیل حکام کے مطابق دس سے بیس ایسے قیدی ہیں جن میں ’ٹی بی‘ کے مرض کی تشخیص ہو چکی ہے اور وہ گذشتہ چھ تا آٹھ ماہ سے ادویات بھی لے رہے ہیں۔ ایسے مریضوں کو جب جیل کے کسی ایک حصے سے دوسرے حصے یا عدالت پیشی کے لئے منتقل کیا جاتا ہے تو متعلقہ حکام کو اُن کی صحت کے بارے خصوصی تاکید کردی جاتی ہے تاکہ اُنہیں دیگر صحت مند افراد (قیدیوں) سے الگ رکھا جائے لیکن چونکہ سنٹرل جیل پشاور میں رہائش کی سہولیات پہلے ہی کم ہیں لہٰذا باوجود خواہش بھی ’ٹی بی‘ سے متاثرہ مریضوں کو صحت مند مریضوں کے ساتھ ہی رکھنا پڑتا ہے جو صحت کے نکتۂ نظر سے درست نہیں لیکن اس بات کو ممکن بنایا گیا ہے کہ ٹی بی کے مریض اپنی ادویات مقررہ وقت پر حاصل اور استعمال کرتے رہیں۔ یاد رہے کہ اگر ’ٹی بی‘ سے متاثرہ کوئی شخص ادویات بروقت نہیں لیتا اور اِس کے علاج کو کسی وجہ سے ادھورا چھوڑ دیتا ہے تو اس سے ’ٹی بی‘ کا مرض پیچیدہ صورت اختیار کرجاتا ہے اور وہ زیادہ خطرناک حالت میں چلا جاتا ہے جس کے علاج کے لئے زیادہ مہنگی اور جدید ادویات کی ضرورت ہوتی ہے۔

خیبرپختونخوا ٹی بی کنٹرول پروگرام حکام کے مطابق ’’سنٹرل جیل پشاور میں ٹی بی سے متاثرہ قیدیوں کے اعدادوشمار اور اُن کے علاج کی سہولیات باقاعدگی سے فراہم کی جا رہی ہیں۔ ٹی بی سے متاثرہ ہر شخص کو چھ سے آٹھ ماہ تک مفت ادویات اور طبی سہولیات فراہم کرنا علاج کا دورانیہ ہے لیکن چونکہ سنٹرل جیل پشاور کی سیکورٹی بھی ایک توجہ طلب مسئلہ ہے‘ اِس لئے صحت کے متعلقہ حکام ایسے مریضوں کا معائنہ کرنے کے لئے باقاعدگی سے جیل خانہ جات کا دورہ نہیں کرسکتے اور یہی وجہ ہے کہ اگر قیدی مریض ادویات نہیں لے رہے یا اُنہیں مختلف دیگر ادویات کی ضرورت ہے تو اِس بارے میں بروقت طبی سہولت فراہم نہیں کی جاسکتی۔‘‘ سنٹرل جیل پشاور میں ایسے ملزمان بھی قید ہیں جو دہشت گردی جیسی وارداتوں میں ملوث بتائے جاتے ہیں اور کئی ایک تو عالمی شہرت کے حامل ہیں جن کی حفاظت پہلے ہی جیل انتظامیہ کے لئے کسی دردسر سے کم نہیں۔ ایسی صورت میں اگر ٹی بی‘ یرقان یا ایڈز جیسے مہلک امراض سے متاثرہ قیدیوں کے بارے میں تصدیق ہو بھی جاتی ہے تو جیل حکام کے نزدیک اِس کی زیادہ اہمیت نہیں کیونکہ انہیں بقول ایک اہلکار ’’یہ جیل ہے کوئی خیرات خانہ نہیں کہ جہاں مفت کا کھانا پینا اور علاج کی فائیو سٹار (پرتعیش) سہولیات بھی فراہم کی جائیں۔ جو لوگ معاشرے کے لئے کسی بھی صورت خطرہ بنتے ہیں اُنہیں نشان عبرت سمجھ کر دوسروں کو سمجھنا چاہئے کہ سنٹرل جیل کئی لحاظ سے خطرناک ہے جہاں سہولیات کی کمی ہے تو ایسے مہلک امراض بھی موجود ہیں‘ جن سے کوئی مبتلا نہیں ہونا چاہے گا۔‘‘

انسداد ٹی بی کنٹرول پروگرام کے حکام کا کہنا ہے کہ ’’جب قیدیوں کو سنٹرل جیل لایا جاتا ہے تو اُن کا معائنہ کرکے انہیں ’ٹی بی‘ یا دیگر امراض سے متاثر ہونے کی صورت مفت علاج فراہم کیا جاتا ہے لیکن صورتحال ’ٹی بی‘ جیسے مرض سے متاثرہ قیدیوں کے حوالے سے تشویشناک ہے کیونکہ جب انہیں رہائی ملتی ہے تو وہ ’ٹی بی‘ کا علاج مکمل نہیں کراتے اور پھر صحت کے متعلقہ حکام یا دفاتر سے رابطہ نہیں کرتے۔‘‘سرکاری اعدادوشمار کے مطابق خیبرپختونخوا میں ٹی بی سے متاثرہ افراد کی تعداد 45 ہزار 369 ہے اور اِن تمام رجسٹرڈ ٹی بی مریضوں کو باقاعدگی سے مفت ادویات دی جاتی ہیں‘ جن کا علاج ’انسداد ٹی بی‘ کے ’گلوبل فنڈ‘ سے ملنے والی مالی و تکنیکی وسائل سے کی جاتی ہے۔ انسداد ٹی بی کے لئے جرمنی کی حکومت بھی امداد دے رہی ہے۔

سنٹرل جیل پشاور کی گنجان آباد علاقے سے بیرون شہر منتقلی کا منصوبہ عرصہ دراز سے سردخانے کی نذر ہے۔ جیل کی سیکورٹی میں اضافے کے لئے بیرونی چاردیواری کے گرد حصار‘ موبائل فون جیمرز اُور کلوز سرکٹ ٹیلی ویژن کیمروں کی تنصیب ہی کافی نہیں بلکہ منشیات فروشی کا منظم کاروبار اور عادی مجرموں کی اجارہ داری تجویز تھی کہ ریٹائرڈ کمانڈوز کو جیل کی سیکورٹی اور داخلی معاملات کی نگرانی سونپی جائے لیکن اِس کی بجائے جن افراد کو سیاسی بنیادوں پر بھرتی کیا گیا اُنہیں سیاسی مداخلت و مبینہ مالی بدعنوانی کی خبریں منظرعام پر آنے کے بعد فارغ بھی کر دیا گیا جو سراپا احتجاج ہیں! اگر ریٹائرڈ کمانڈوز کو تعینات کیا جاتا تو جیل کے اندر جہاں چڑیا پڑ نہیں مار سکتی وہاں جیلر اور متعلقہ عملے کی اجارہ داری ختم ہو جاتی! اَلمیہ ہے کہ‘ جرائم پیشہ عناصر ’سنٹرل جیل پشاور‘ کا نام سن کر گھبراتے نہیں اُور معمولی جرائم میں گرفتار ہونے و الوں کا جب ’سنٹرل جیل‘ جانے کا اِتفاق ہوتا ہے تو یہ سزا اُن کے لئے ساری زندگی کا روگ بن جاتی ہے۔ سنگین صورتحال صرف سنٹرل جیل پشاور کی حد تک ہی محدود نہیں بلکہ خیبرپختونخوا کے دیگر اضلاع میں بھی قیدیوں کے حقوق اُور کی حالت زار متعلقہ حکام و فیصلہ سازوں کی سنجیدہ توجہ چاہتی ہے۔
Issues of prisoners in Central Jail Peshawar

No comments:

Post a Comment