ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
زمونگ ماشومان
زمونگ ماشومان
پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی اہلیہ ’ریحام خان‘ کو
خیبرپختونخوا میں اُن ’’بے گھر بچوں کی سفیر‘‘ نامزد کیا گیا ہے‘ جن کی
فلاح و بہبود اُور سہارا صوبائی حکومت کی ایک نئی ترجیح کے طور پر سامنے
آئی ہے اور اُمید کی جاسکتی ہے کہ جس طرح تعلیم کے شعبے میں ’ہنگامی حالت‘
کا نفاذ کرکے صوبے کا ہر بچہ سکول جانے لگا ہے‘ سرکاری سکولوں کا معیار
تعلیم نجی ہم عصر اداروں سے بہتر ہوگیا ہے اور نجی شعبے کے مقابلے زیادہ
تنخواہیں و مراعات باقاعدگی سے وصول کرنے والے اساتذہ اپنی مالی خوشحالی سے
زیادہ درس و تدریس کو مقصد حیات بنا بیٹھے ہیں۔ سرشام آباد ہونے والے
’ٹیوشن سنٹر‘ ویران دکھائی دینے لگے ہیں اور ’مفادات کا تصادم‘ ختم کرنے کے
لئے فیصلہ سازی کے منصب سے اُن منتخب نمائندوں کو الگ کر دیا گیا ہے‘ جن
کی وزارتیں اُن کے ذاتی یا خاندانی کاروبار کے پھلنے پھولنے میں اہم کردار
اَدا کر رہی تھیں! بالکل اسی طرح ’ریحام خان‘ کو دیئے جانے والے اعزاز سے
جڑی شہرت و مقبولیت کے علاؤہ کچھ فائدہ خیبرپختونخوا کے ’بے گھر بچوں‘ کو
بھی ہوگا‘ جن کے سروں پر ’ریحام خان‘ جیسی ماں‘ عمران خان جیسے والد اور
تحریک انصاف جیسی خیرخواہوں چھتری موجود نہیں!
بارہ اپریل کو پشاور میں منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ریحام خان نے ’سٹریٹ چلڈرن‘ کی اصطلاح پر ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے پشتو زبان کا ایک جملہ بول کر اپنے انتخاب کا ایک جواز عیاں کردیا۔ اُنہوں نے کہا ’’یہ سٹریٹ چلڈرن نہیں بلکہ ’دا زمونگ ماشومان دی‘ (یہ ہمارے بچے ہیں۔) ریحام خان نے اپنے تین بچوں اور عمران خان کے دو بچوں کا ذکر کرنا بھی مناسب سمجھا‘ جن کے سر پر شفقت کا ہاتھ رکھنے والوں کی کمی نہیں۔ چونکہ ریحام خان صحافی بھی رہ چکی ہیں‘ اِس لئے جانتی ہے کہ دلیل سے بات کرنے کا ڈھنگ کیا ہے۔ اپنی تقریر میں اُنہوں نے کئی ایک مثالیں مثال دیں‘ جن میں سے ایک بچوں کے جوتوں سے متعلق تھی کہ ہم اپنی اولاد کے لئے بھی وہی کچھ پسند کرتے ہیں‘ جودوسروں کے پاس دیکھتے ہیں لیکن دوسروں کے بچوں کی ضروریات پوری کرنے سے متعلق ہمارے ہاں کے سرمایہ دار طبقات زیادہ حساس نہیں ہوتے۔ دوسری مثال میں اُُنہوں نے بچوں پر ترس کھانے کے عمومی رویئے کو تنقید کا نشانہ بنایا کہ کس طرح گاڑی میں بیٹھ کر کسی بے گھر یا بھیک مانگنے والے بچے کی طرف ’ایک سو روپے‘ کا نوٹ اچھال دیا جاتا ہے‘ حالانکہ ایسے تمام بچوں کی سرپرستی حکومت اور معاشرے کے مخیر خواتین و حضرات کا ذمہ داری بنتی ہے۔ سماجی بہبود کے لئے ایک محکمہ موجود ہے۔ زکوۃ کی وصولی اور اُس کو خرچ کرنے کے لئے بھی ایک باقاعدہ محکمہ موجود ہے۔ بے گھر چھوٹے بڑے بچوں کے لئے امان گاہیں الگ سے قائم ہیں۔ ’سوئٹ ہوم منصوبے‘ کے ذریعے بے گھر بچوں کو بہترین نجی اداروں میں قیام و طعام و تعلیم کے مواقع فراہم کئے جارہے ہیں جبکہ صوبائی حکومت کی جانب سے کئی نجی فلاحی اِداروں کی سرپرستی بھی باقاعدگی سے کی جاتی ہے‘ جو ’للسائل و المحروموں‘کے لئے صحت و تعلیم اور فلاح و بہبود کے منصوبوں کی سرپرستی کر رہے ہیں۔ ’بینظیر انکم سپورٹ پروگرام‘ سے مستفید ہونے والوں کا ’آڈٹ‘ کرایا جائے تو سیاسی عمل دخل کی وجہ سے سنگین بے قاعدگیاں سامنے آئیں گی‘ جس کی وجہ سے سالانہ اربوں روپے ضائع ہو رہے ہیں! اِن تمام کوششوں کو باہم مربوط کرنے کی ضرورت ہے۔ صرف ’بے گھر ہی نہیں بلکہ کم آمدنی اور غربت کا شکار خاندانوں کے بچوں‘ کی الگ الگ ضروریات کو سمجھنا ہوگا جس کے لئے درکار بچوں کی نہ تو درست تعداد ہمیں معلوم ہے اور نہ ہی اُن محرکات کے بارے سائنسی بنیادوں پر تحقیق کی گئی ہے کہ جن کے باعث معروف چوراہوں سے لیکر گلی محلوں تک بچے محنت مشقت کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ خودستائش کی بجائے اِس سنگین مسئلہ کو بنیاد سے سمجھنا اور اِس کے حل کی کوششوں کو بڑے منظرنامے کا حصہ بنانا ہوگا۔ ہم سب جانتے ہیں کہ غربت و افلاس کی وجہ سے بچوں کو تعلیم دلوانے کی بجائے ہنرمند بنانے کو ترجیح دی جاتی ہے کیونکہ ہمارے ہاں تعلیم طبقات میں بٹ چکی ہے۔ ایک جیسا نصاب نہیں رہا۔ اساتذہ کی قابلیت اور تعلیمی نظم و ضبط‘ تعلیمی اداروں سے متعلق قواعد پر سختی سے عمل درآمد نظر نہیں آتا‘ تعلیم ایک صنعت بن چکی ہے اور سرکاری تعلیمی اداروں کے نتائج مثالی نہیں رہے تو یہ سوچ غالب ہوگئی ہے کہ بچوں کو درسگاہ بھیجنے سے زیادہ بہتر یہ ہوگا کہ وہ کسی آٹو ورکشاپ‘ حجام‘ چائے خانہ‘ ہوٹل‘ ریسٹورنٹ‘ ترکھان‘راج‘ درزی یا دستکار کے ہمراہ کر دیا جائے جہاں غیرروائتی حاصل ہونے والا ’کسبی علم‘ تمام زندگی اُن کی رہنمائی و کفالت کے لئے کافی ہوگا لیکن اگر وہ (خدانخواستہ) سکول گئے تو تعلیم مکمل کرنے کے بعد بناء سیاسی تعلق‘ سفارش یا رشوت ’درجۂ چہارم‘ کی ملازمت بھی نہیں ملے گی‘ جس کی مثالیں ہمارے اردگرد پھیلی ہوئی ہیں!
کیا اس سے زیادہ ’’تاریک بات‘‘ کوئی دوسری ہو سکتی ہے کہ ہمارے ہاں ایک طبقہ تعلیم حاصل کرنے کو اچھے مستقبل کی ضمانت نہیں سمجھتا؟ کیا اِس فکروعمل کی تحریک کو تبدیل کرنے اور سرکاری تعلیمی اِداروں کا وقار بحال کرنے کی اپنی جگہ اہمیت و ضرورت نہیں؟ کیا خیبرپختونخوا حکومت ’مثالی سکولوں‘ کے نام سے ایسی درسگاہیں نہیں بنا سکتی جو نمائشی مقاصد کے لئے نہ ہوں اور جنہیں اُن دور دراز علاقوں میں قائم کیا جائے جہاں میدانی علاقوں کی نسبت موسمی شدت کے اثرات کم ہوں؟
حکومت کی اپنی کئی ایک ضروریات ہوتی ہیں‘ جن میں جذباتی اعلانات کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا لیکن اگر ’پائیدار نتائج‘ درکار ہیں تو فیصلہ سازوں کو ’طویل المدتی منصوبہ بندی‘ کرنا ہوگی۔ اگر ملک گیر سطح پر مردم شماری کا عمل التوأ کا شکار ہے تو صوبائی سطح پر یہی عمل جامعات کے طلباء و طالبات کے ذریعے کم وقت اور کم خرچ سے مکمل کیا جا سکتا ہے۔ یقیناًاُن بچوں کو بھی توجہ کی ضرورت ہے جو شورش زدہ قبائلی علاقوں سے نقل مکانی کرنے والے خاندانوں کے ہمراہ ہیں۔ بات صرف بے گھر بچوں تک ہی محدود نہیں اور نہ ہی اِسے محدود سمجھنا چاہئے بلکہ اُن یتیم بچوں کا مستقبل کیا ہے جن کی کفالت کرنے والی بیوائیں گھر گھر کام کرنے کے باوجود پس وپیش نہیں کر پاتیں؟ سرمایہ داروں کے ہاں گھریلو ملازم کے طور پر کام کرنے والے بچوں کا کیا مجھ سے‘ آپ سے اُور ہمارے حکمرانوں سے کوئی تعلق نہیں کیا یہ ’زمونگ ماشومان‘ نہیں؟
بارہ اپریل کو پشاور میں منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ریحام خان نے ’سٹریٹ چلڈرن‘ کی اصطلاح پر ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے پشتو زبان کا ایک جملہ بول کر اپنے انتخاب کا ایک جواز عیاں کردیا۔ اُنہوں نے کہا ’’یہ سٹریٹ چلڈرن نہیں بلکہ ’دا زمونگ ماشومان دی‘ (یہ ہمارے بچے ہیں۔) ریحام خان نے اپنے تین بچوں اور عمران خان کے دو بچوں کا ذکر کرنا بھی مناسب سمجھا‘ جن کے سر پر شفقت کا ہاتھ رکھنے والوں کی کمی نہیں۔ چونکہ ریحام خان صحافی بھی رہ چکی ہیں‘ اِس لئے جانتی ہے کہ دلیل سے بات کرنے کا ڈھنگ کیا ہے۔ اپنی تقریر میں اُنہوں نے کئی ایک مثالیں مثال دیں‘ جن میں سے ایک بچوں کے جوتوں سے متعلق تھی کہ ہم اپنی اولاد کے لئے بھی وہی کچھ پسند کرتے ہیں‘ جودوسروں کے پاس دیکھتے ہیں لیکن دوسروں کے بچوں کی ضروریات پوری کرنے سے متعلق ہمارے ہاں کے سرمایہ دار طبقات زیادہ حساس نہیں ہوتے۔ دوسری مثال میں اُُنہوں نے بچوں پر ترس کھانے کے عمومی رویئے کو تنقید کا نشانہ بنایا کہ کس طرح گاڑی میں بیٹھ کر کسی بے گھر یا بھیک مانگنے والے بچے کی طرف ’ایک سو روپے‘ کا نوٹ اچھال دیا جاتا ہے‘ حالانکہ ایسے تمام بچوں کی سرپرستی حکومت اور معاشرے کے مخیر خواتین و حضرات کا ذمہ داری بنتی ہے۔ سماجی بہبود کے لئے ایک محکمہ موجود ہے۔ زکوۃ کی وصولی اور اُس کو خرچ کرنے کے لئے بھی ایک باقاعدہ محکمہ موجود ہے۔ بے گھر چھوٹے بڑے بچوں کے لئے امان گاہیں الگ سے قائم ہیں۔ ’سوئٹ ہوم منصوبے‘ کے ذریعے بے گھر بچوں کو بہترین نجی اداروں میں قیام و طعام و تعلیم کے مواقع فراہم کئے جارہے ہیں جبکہ صوبائی حکومت کی جانب سے کئی نجی فلاحی اِداروں کی سرپرستی بھی باقاعدگی سے کی جاتی ہے‘ جو ’للسائل و المحروموں‘کے لئے صحت و تعلیم اور فلاح و بہبود کے منصوبوں کی سرپرستی کر رہے ہیں۔ ’بینظیر انکم سپورٹ پروگرام‘ سے مستفید ہونے والوں کا ’آڈٹ‘ کرایا جائے تو سیاسی عمل دخل کی وجہ سے سنگین بے قاعدگیاں سامنے آئیں گی‘ جس کی وجہ سے سالانہ اربوں روپے ضائع ہو رہے ہیں! اِن تمام کوششوں کو باہم مربوط کرنے کی ضرورت ہے۔ صرف ’بے گھر ہی نہیں بلکہ کم آمدنی اور غربت کا شکار خاندانوں کے بچوں‘ کی الگ الگ ضروریات کو سمجھنا ہوگا جس کے لئے درکار بچوں کی نہ تو درست تعداد ہمیں معلوم ہے اور نہ ہی اُن محرکات کے بارے سائنسی بنیادوں پر تحقیق کی گئی ہے کہ جن کے باعث معروف چوراہوں سے لیکر گلی محلوں تک بچے محنت مشقت کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ خودستائش کی بجائے اِس سنگین مسئلہ کو بنیاد سے سمجھنا اور اِس کے حل کی کوششوں کو بڑے منظرنامے کا حصہ بنانا ہوگا۔ ہم سب جانتے ہیں کہ غربت و افلاس کی وجہ سے بچوں کو تعلیم دلوانے کی بجائے ہنرمند بنانے کو ترجیح دی جاتی ہے کیونکہ ہمارے ہاں تعلیم طبقات میں بٹ چکی ہے۔ ایک جیسا نصاب نہیں رہا۔ اساتذہ کی قابلیت اور تعلیمی نظم و ضبط‘ تعلیمی اداروں سے متعلق قواعد پر سختی سے عمل درآمد نظر نہیں آتا‘ تعلیم ایک صنعت بن چکی ہے اور سرکاری تعلیمی اداروں کے نتائج مثالی نہیں رہے تو یہ سوچ غالب ہوگئی ہے کہ بچوں کو درسگاہ بھیجنے سے زیادہ بہتر یہ ہوگا کہ وہ کسی آٹو ورکشاپ‘ حجام‘ چائے خانہ‘ ہوٹل‘ ریسٹورنٹ‘ ترکھان‘راج‘ درزی یا دستکار کے ہمراہ کر دیا جائے جہاں غیرروائتی حاصل ہونے والا ’کسبی علم‘ تمام زندگی اُن کی رہنمائی و کفالت کے لئے کافی ہوگا لیکن اگر وہ (خدانخواستہ) سکول گئے تو تعلیم مکمل کرنے کے بعد بناء سیاسی تعلق‘ سفارش یا رشوت ’درجۂ چہارم‘ کی ملازمت بھی نہیں ملے گی‘ جس کی مثالیں ہمارے اردگرد پھیلی ہوئی ہیں!
کیا اس سے زیادہ ’’تاریک بات‘‘ کوئی دوسری ہو سکتی ہے کہ ہمارے ہاں ایک طبقہ تعلیم حاصل کرنے کو اچھے مستقبل کی ضمانت نہیں سمجھتا؟ کیا اِس فکروعمل کی تحریک کو تبدیل کرنے اور سرکاری تعلیمی اِداروں کا وقار بحال کرنے کی اپنی جگہ اہمیت و ضرورت نہیں؟ کیا خیبرپختونخوا حکومت ’مثالی سکولوں‘ کے نام سے ایسی درسگاہیں نہیں بنا سکتی جو نمائشی مقاصد کے لئے نہ ہوں اور جنہیں اُن دور دراز علاقوں میں قائم کیا جائے جہاں میدانی علاقوں کی نسبت موسمی شدت کے اثرات کم ہوں؟
حکومت کی اپنی کئی ایک ضروریات ہوتی ہیں‘ جن میں جذباتی اعلانات کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا لیکن اگر ’پائیدار نتائج‘ درکار ہیں تو فیصلہ سازوں کو ’طویل المدتی منصوبہ بندی‘ کرنا ہوگی۔ اگر ملک گیر سطح پر مردم شماری کا عمل التوأ کا شکار ہے تو صوبائی سطح پر یہی عمل جامعات کے طلباء و طالبات کے ذریعے کم وقت اور کم خرچ سے مکمل کیا جا سکتا ہے۔ یقیناًاُن بچوں کو بھی توجہ کی ضرورت ہے جو شورش زدہ قبائلی علاقوں سے نقل مکانی کرنے والے خاندانوں کے ہمراہ ہیں۔ بات صرف بے گھر بچوں تک ہی محدود نہیں اور نہ ہی اِسے محدود سمجھنا چاہئے بلکہ اُن یتیم بچوں کا مستقبل کیا ہے جن کی کفالت کرنے والی بیوائیں گھر گھر کام کرنے کے باوجود پس وپیش نہیں کر پاتیں؟ سرمایہ داروں کے ہاں گھریلو ملازم کے طور پر کام کرنے والے بچوں کا کیا مجھ سے‘ آپ سے اُور ہمارے حکمرانوں سے کوئی تعلق نہیں کیا یہ ’زمونگ ماشومان‘ نہیں؟
![]() |
First lady Reham Khan declared as ambassador for "Street Children" in KP |
No comments:
Post a Comment