Lights out!
روشنیاں گُل
روشنیاں گُل
توانائی بحران سے نمٹنے کے لئے حکومت کا فیصلہ خوش آئند ہے جس کے تحت
تجارتی مراکز رات 8 بجے جبکہ کھانے پینے کے کاروبار (ریسٹورنٹ‘ہوٹل وغیرہ)
رات گیارہ بجے کے بعد بند کروائے جائیں۔ یہ حکم ہر لحاظ سے ہمارے برسرزمین
حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا گیا ہے اور ہم کسی بھی صورت دیر رات گئے تک
بازار اُور کھانے پینے کے مراکز کھلا رکھنے کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ ہمیں
بجلی کا ہرایک یونٹ سوچ سمجھ کر خرچ کرنا ہوگا کیونکہ موجودہ توانائی بحران
فوری طور پر حل ہونے کی صرف یہی ایک صورت باقی نظر آتی ہے۔ خوش آئند یہ
امر بھی ہے کہ پاکستان میں توانائی کی بچت کے بارے میں ہر خاص و عام بات
کرنے لگا ہے‘ وگرنہ اب تک تو ہم اِس مسئلے کو کسی اُور ہی ملک کا مسئلہ
سمجھتے تھے۔
چند برس قبل پہلے جب پنجاب حکومت نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ شادی ہال رات دس بجے تک بند کر دیئے جائیں تو اس بارے میں ایک خاص طبقے نے بہت مخالفت کی۔ شادہ ہال کے مالکان نے الگ سے شکایات کیں کہ اُن کے کاروبار خراب ہو رہے ہیں جبکہ مرغیاں بیچنے والوں کو گلہ تھا کہ اُنہیں بھی خسارہ ہونے لگا ہے۔ ہم میں سے ہر کوئی بھی اپنے حصے کی ذمہ داری اور فرض ادا کرنے کے لئے آمادہ نہیں۔
تصور کیجئے کہ ہم شادی بیاہ کی تقریبات پر کتنا بیجا خرچ کرتے ہیں۔ سماجی امور کے ماہرین کو اِس بارے میں ضرور تحقیق کرنی چاہئے۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ نکاح اور رخصتی کی ایک سادہ سی تقریب ہو جس کے اختتام یا اگلے دن احباب کی دعوت کر دی جائے اور اِس دعوت میں وہی کچھ ہو جو ہم روزمرہ کھاتے ہیں لیکن شادی بیاہ تو ہمارے ہاں دولت کی نمائش کا ذریعہ بن چکی ہے۔ ہم اپنی حیثیت سے زیادہ خرچ کرنے کو وقار کی علامت سمجھتے ہیں اور اگر اِس کے لئے ہمیں مقروض ہونا بھی پڑے تو دریغ نہیں کرتے اور ایسا ہونے کا ایک سبب بھارت کی فلمیں‘ ڈرامے اور ثقافتی یلغار بھی ہے‘ جس نے ہم سے اپنی اقدار بھلا دی ہیں۔ ہم پہلے یہ سنتے آئے ہیں کہ دلہن تیار ہونے کے لئے بیوٹی پارلر جاتی ہے لیکن اب تو دولہا بھی بیوٹی پارلر سے تیار ہوتے ہیں اور کچھ بیوٹی پارلر تو ایسے بھی ہیں جو اچھے بھلے انسان کو راجھستان کے شہزادے کی شکل و صورت میں ڈھال دیتے ہیں اور اُس کے سر پر ایک بڑی پگڑی‘ گلے میں ڈوپٹہ اور رنگ برنگی جھالریں لگا کر اُسے سجا دیتے ہیں۔
ایک پاکستانی خاتون کی شادی امریکہ کے محکمۂ پولیس کے اہکار سے ہوئی۔ شادی کی تقریب پاکستان میں سرانجام پائی اور جب وہ امریکی واپس اپنے وطن گیا اور اُس نے اپنے ساتھیوں کو شادی کی تصاویر دکھائیں تو سب اُس کی شیروانی اور سر پر رنگوں بھری پگڑی دیکھ کر حیران رہ گئے۔ اس کے بعد تو یہ معمول بن گیا کہ دفتر میں جس کسی کو اپنے کام سے اکتاہٹ محسوس ہوتی وہ اُس کے چیمبر میں جاکر شادی کی وہ تصاویر دیکھنے کا تقاضا کرتا تاکہ کچھ محظوظ ہو سکے!
ہمارے بزرگ وہ کہانیاں بیان کرتے ہیں جس میں تقسیم سے قبل ہندوؤں کی شادیاں میں انتہائی کم پیسے خرچ کئے جاتے تھے لیکن اُس وقت بھی مسلمان اپنی شادی کی تقریبات پر بہت خرچ کیا کرتے تھے اور اکثر ہندوؤں سے پیسے بھاری سود پر قرض لیا کرتے تھے۔
پاکستان کا کاروباری مرکز کراچی روشنیوں کا شہر کہلاتا تھا اور یہ وجۂ تسمیہ بھی مشہور تھی کہ کراچی کبھی نہیں سوتا۔ اُس وقت جب کراچی کا موازنہ لاہور سے کرتے ہوئے کہا جاتا کہ لاہور سرشام بند ہونے والا شہر ہے لیکن پھر یہ نظام بھی بدل گیا اور لاہور پوری پوری رات جاگنے لگا۔ تمام رات جاگنے والی طرز زندگی سے جڑی اپنی ہی پیچیدگیاں ہوتی ہیں۔ اگر ہماری قوم نے یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ اُسے دن کی روشنی میں اپنے کام نہیں نمٹانے اور تمام رات جاگنا ہے تو پھر اس کے لئے بڑے آبی ذخائر تعمیر کرنے کی مخالفت کرنے والوں کی مخالفت کی جاتی۔ بڑے ڈیم اور بجلی کے بڑے پیداواری منصوبوں میں سرمایہ کاری کی جاتی کیونکہ ہماری ضرورت بڑھ گئی تھی۔ کالا باغ ڈیم جیسے منصوبے پر پورے ملک میں اتفاق رائے پیدا کرنا ایک ناممکن کام دکھائی دیتاہے۔ پاکستان تحریک انصاف کی خیبرپختونخوا حکومت یوں تو ہر قومی مسئلے کے حل کے لئے کوشاں ہے لیکن اس نے کالا باغ ڈیم جیسے منصوبے پر پیش رفت کے لئے زیادہ کوششیں نہیں کیں۔ کالا باغ ڈیم کی تعمیر ایک خالصتاً تکنیکی مسئلہ تھا جسے سیاسی بنا کر متنازعہ بنا دیا گیا ہے اور اب اِس ڈیم کی تعمیر ہوتی ممکن دکھائی نہیں دیتی۔
سوال یہ ہے کہ توانائی بحران کے بارے میں سب جانتے ہیں تو پھر تاجر دکاندار اور کاروباری حضرات رات آٹھ بجے اپنی اپنی مصروفیات سمیٹنے کے لئے آمادہ کیوں نہیں؟ دکانداروں کا مؤقف ہے کہ بیگمات شاپنگ کے لئے رات گئے تشریف لاتی ہیں۔ ہوٹل والوں کا کہنا ہے کہ نصف شب کے بعد گاہگ آنا شروع ہوتے ہیں۔ لمحۂ فکریہ ہے کہ لاہور میں ایسے کئی ریسٹورنٹ ہیں جن کے نام بھی بمشکل لئے جا سکتے ہیں۔ ان ہوٹلوں میں ایک وقت کے کھانے کا بل ایک ہزار سے کسی صورت کم نہیں ہوتا اور کیا یہ عجب نہیں کہ ایک ہزار روپے ہمارے ہاں ایک پورے کنبے کے ایک ہفتے کے راشن کا خرچ بھی ہوتا ہے!
وہ تمام طبقات جو مارکیٹوں کے رات آٹھ بجے بند ہونے کی مخالفت کرتے ہیں اُنہیں علم ہونا چاہئے کہ یورپ کے کئی ایسے شہر ہیں جہاں شام پانچ بجے مارکیٹیں بند ہو جاتی ہیں۔ ہمیں دیہی علاقوں میں رہنے والوں کی حالت زار کے بارے میں سوچنا چاہئے جنہیں بجلی فراہم ہی نہیں یا جنہیں شہروں کی نسبت زیادہ دیر لوڈشیڈنگ کا عذاب جھیلنا پڑ رہا ہے۔ غریبوں کو صرف اِس لئے متاثر نہیں ہونا چاہئے کیونکہ سرمایہ دار راتوں کو محظوظ ہونا چاہتے ہیں۔
(بشکریہ: دِی نیوز۔ تحریر: اِفتخار اے خان۔ ترجمہ:شبیرحسین اِمام)
چند برس قبل پہلے جب پنجاب حکومت نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ شادی ہال رات دس بجے تک بند کر دیئے جائیں تو اس بارے میں ایک خاص طبقے نے بہت مخالفت کی۔ شادہ ہال کے مالکان نے الگ سے شکایات کیں کہ اُن کے کاروبار خراب ہو رہے ہیں جبکہ مرغیاں بیچنے والوں کو گلہ تھا کہ اُنہیں بھی خسارہ ہونے لگا ہے۔ ہم میں سے ہر کوئی بھی اپنے حصے کی ذمہ داری اور فرض ادا کرنے کے لئے آمادہ نہیں۔
تصور کیجئے کہ ہم شادی بیاہ کی تقریبات پر کتنا بیجا خرچ کرتے ہیں۔ سماجی امور کے ماہرین کو اِس بارے میں ضرور تحقیق کرنی چاہئے۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ نکاح اور رخصتی کی ایک سادہ سی تقریب ہو جس کے اختتام یا اگلے دن احباب کی دعوت کر دی جائے اور اِس دعوت میں وہی کچھ ہو جو ہم روزمرہ کھاتے ہیں لیکن شادی بیاہ تو ہمارے ہاں دولت کی نمائش کا ذریعہ بن چکی ہے۔ ہم اپنی حیثیت سے زیادہ خرچ کرنے کو وقار کی علامت سمجھتے ہیں اور اگر اِس کے لئے ہمیں مقروض ہونا بھی پڑے تو دریغ نہیں کرتے اور ایسا ہونے کا ایک سبب بھارت کی فلمیں‘ ڈرامے اور ثقافتی یلغار بھی ہے‘ جس نے ہم سے اپنی اقدار بھلا دی ہیں۔ ہم پہلے یہ سنتے آئے ہیں کہ دلہن تیار ہونے کے لئے بیوٹی پارلر جاتی ہے لیکن اب تو دولہا بھی بیوٹی پارلر سے تیار ہوتے ہیں اور کچھ بیوٹی پارلر تو ایسے بھی ہیں جو اچھے بھلے انسان کو راجھستان کے شہزادے کی شکل و صورت میں ڈھال دیتے ہیں اور اُس کے سر پر ایک بڑی پگڑی‘ گلے میں ڈوپٹہ اور رنگ برنگی جھالریں لگا کر اُسے سجا دیتے ہیں۔
ایک پاکستانی خاتون کی شادی امریکہ کے محکمۂ پولیس کے اہکار سے ہوئی۔ شادی کی تقریب پاکستان میں سرانجام پائی اور جب وہ امریکی واپس اپنے وطن گیا اور اُس نے اپنے ساتھیوں کو شادی کی تصاویر دکھائیں تو سب اُس کی شیروانی اور سر پر رنگوں بھری پگڑی دیکھ کر حیران رہ گئے۔ اس کے بعد تو یہ معمول بن گیا کہ دفتر میں جس کسی کو اپنے کام سے اکتاہٹ محسوس ہوتی وہ اُس کے چیمبر میں جاکر شادی کی وہ تصاویر دیکھنے کا تقاضا کرتا تاکہ کچھ محظوظ ہو سکے!
ہمارے بزرگ وہ کہانیاں بیان کرتے ہیں جس میں تقسیم سے قبل ہندوؤں کی شادیاں میں انتہائی کم پیسے خرچ کئے جاتے تھے لیکن اُس وقت بھی مسلمان اپنی شادی کی تقریبات پر بہت خرچ کیا کرتے تھے اور اکثر ہندوؤں سے پیسے بھاری سود پر قرض لیا کرتے تھے۔
پاکستان کا کاروباری مرکز کراچی روشنیوں کا شہر کہلاتا تھا اور یہ وجۂ تسمیہ بھی مشہور تھی کہ کراچی کبھی نہیں سوتا۔ اُس وقت جب کراچی کا موازنہ لاہور سے کرتے ہوئے کہا جاتا کہ لاہور سرشام بند ہونے والا شہر ہے لیکن پھر یہ نظام بھی بدل گیا اور لاہور پوری پوری رات جاگنے لگا۔ تمام رات جاگنے والی طرز زندگی سے جڑی اپنی ہی پیچیدگیاں ہوتی ہیں۔ اگر ہماری قوم نے یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ اُسے دن کی روشنی میں اپنے کام نہیں نمٹانے اور تمام رات جاگنا ہے تو پھر اس کے لئے بڑے آبی ذخائر تعمیر کرنے کی مخالفت کرنے والوں کی مخالفت کی جاتی۔ بڑے ڈیم اور بجلی کے بڑے پیداواری منصوبوں میں سرمایہ کاری کی جاتی کیونکہ ہماری ضرورت بڑھ گئی تھی۔ کالا باغ ڈیم جیسے منصوبے پر پورے ملک میں اتفاق رائے پیدا کرنا ایک ناممکن کام دکھائی دیتاہے۔ پاکستان تحریک انصاف کی خیبرپختونخوا حکومت یوں تو ہر قومی مسئلے کے حل کے لئے کوشاں ہے لیکن اس نے کالا باغ ڈیم جیسے منصوبے پر پیش رفت کے لئے زیادہ کوششیں نہیں کیں۔ کالا باغ ڈیم کی تعمیر ایک خالصتاً تکنیکی مسئلہ تھا جسے سیاسی بنا کر متنازعہ بنا دیا گیا ہے اور اب اِس ڈیم کی تعمیر ہوتی ممکن دکھائی نہیں دیتی۔
سوال یہ ہے کہ توانائی بحران کے بارے میں سب جانتے ہیں تو پھر تاجر دکاندار اور کاروباری حضرات رات آٹھ بجے اپنی اپنی مصروفیات سمیٹنے کے لئے آمادہ کیوں نہیں؟ دکانداروں کا مؤقف ہے کہ بیگمات شاپنگ کے لئے رات گئے تشریف لاتی ہیں۔ ہوٹل والوں کا کہنا ہے کہ نصف شب کے بعد گاہگ آنا شروع ہوتے ہیں۔ لمحۂ فکریہ ہے کہ لاہور میں ایسے کئی ریسٹورنٹ ہیں جن کے نام بھی بمشکل لئے جا سکتے ہیں۔ ان ہوٹلوں میں ایک وقت کے کھانے کا بل ایک ہزار سے کسی صورت کم نہیں ہوتا اور کیا یہ عجب نہیں کہ ایک ہزار روپے ہمارے ہاں ایک پورے کنبے کے ایک ہفتے کے راشن کا خرچ بھی ہوتا ہے!
وہ تمام طبقات جو مارکیٹوں کے رات آٹھ بجے بند ہونے کی مخالفت کرتے ہیں اُنہیں علم ہونا چاہئے کہ یورپ کے کئی ایسے شہر ہیں جہاں شام پانچ بجے مارکیٹیں بند ہو جاتی ہیں۔ ہمیں دیہی علاقوں میں رہنے والوں کی حالت زار کے بارے میں سوچنا چاہئے جنہیں بجلی فراہم ہی نہیں یا جنہیں شہروں کی نسبت زیادہ دیر لوڈشیڈنگ کا عذاب جھیلنا پڑ رہا ہے۔ غریبوں کو صرف اِس لئے متاثر نہیں ہونا چاہئے کیونکہ سرمایہ دار راتوں کو محظوظ ہونا چاہتے ہیں۔
(بشکریہ: دِی نیوز۔ تحریر: اِفتخار اے خان۔ ترجمہ:شبیرحسین اِمام)
![]() |
Kilowat save is kilowatt earned |
No comments:
Post a Comment