ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
نازیبا مراعات
نازیبا مراعات
ضمیر بڑی نعمت ہے۔ سات اپریل کو قومی اسمبلی میں تحریک انصاف کے آئینی امور
کے نگران‘ ڈاکٹر عارف علوی نے اپنی جماعت کے اراکین کو ایک ’ای میل‘ پیغام
ارسال کیا جس میں اُن سے پوچھا گیا تھا کہ تحریک انصاف نے دھرنوں کی وجہ
سے سات ماہ تک قومی اسمبلی اجلاسوں میں شرکت نہیں کی۔ اِس سلسلے میں
رہنماؤں‘ کارکنوں اور ذرائع ابلاغ سے وابستہ ایک طبقے کا خیال ہے کہ اراکین
اسمبلی کو ’غیر حاضر‘ رہنے والے عرصے کی مد میں تنخواہ وصول نہیں کرنی
چاہئے اور دوسرا رائے یہ ہے کہ تنخواہ اور دیگر مراعات وصول کرکے تمام پیسہ
شوکت خانم میموریل کینسر ہسپتال کی پشاور شاخ کو عطیہ کردیا جائے۔ اگرچہ
تحریک انصاف کی مرکزی قیادت اِس بارے میں فیصلہ بناء مشاورت لئے بھی کر
سکتی تھی جیسا کہ کئی ایک دیگر معاملات میں اراکین قومی اسمبلی کی مشاورت
کو ضروری نہیں سمجھا گیا اُور ایک ایسی ’کور کمیٹی‘ نے بیشتر فیصلے کئے جو
عوام کے منتخب نمائندوں پر مشتمل نہیں تھی۔ اصولی طور پر ہر منتخب نمائندہ
کورکمیٹی کا رکن ہونا چاہئے اور منتخب نمائندوں ہی سے پارٹی کے کلیدی
فیصلوں کی بابت مشورہ اور رائے لی جائے لیکن غیرمنتخب افراد پارٹی کی
کورکمیٹی پر چھائے رہے اور یہی وجہ تھی کہ جماعتی و ضمنی انتخابات کے
مواقعوں پر کئی ایک ایسے فیصلے ہوئے جن کی بھاری قیمت ’تحریک انصاف‘ کو
چکانا پڑی۔ ڈاکٹر عارف علوی کے مختصر ’ای میل (email)‘ پیغام سے واضح ہو
گیا ہے کہ تحریک انصاف کی سوچ میں واضح تبدیلی آئی ہے‘ اگر ایسا ہی ہے تو
اِس کے ثمرات بلدیاتی انتخابات کے موقع پر اُمیدوار نامزد کرنے کے وقت
عملاً دیکھنے میں آئیں گے لیکن اگر ایسا نہ ہوا‘ اُور تحریک انصاف پر
غیرمنتخب عوامی نمائندے ہی غالب رہے تو یہ ماضی کی غلطیوں سے سبق نہ سیکھنے
کی روایت ہونے کے ساتھ اُس غیرجمہوری سیاسی کلچر کی آئینہ دار بھی ہوگی کہ
تحریک انصاف بھی دیگر روائتی سیاسی جماعتوں کی طرح داخلی طورپر برائے نام
جمہوری ہے‘ اور مرکزی قیادت فیصلے مسلط کرنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتی۔
اگرچہ ڈاکٹر عارف علوی نے کسی ذاتی مؤقف کا اظہار نہیں کیا اُور صرف اپنے
اراکین قومی اسمبلی سے پوچھا ہے کہ کیا وہ سات ماہ کی تنخواہ اور مراعات
حاصل کرنا چاہتے ہیں یا نہیں اور اگر نہیں تو کیا اِس سلسلے میں تحریری طور
پر سپیکر قومی اسمبلی کو آگاہ کردیا جائے جو کہ ایک آئینی طریقہ ہے؟ اِس
سوال کا ایک جواب یہ بھی آیا ہے کہ ’’ڈاکٹر عارف علوی کو اِس قسم کی اِی
میل لکھنی ہی نہیں چاہئے تھی اُور اگر لکھ بھی دی تھی تو پھر اُس میں پارٹی
کے چیئرمین عمران خان کو شامل نہیں کرنا چاہئے تھا کیونکہ ماضی میں ایسی
ہی اِی میلز ذرائع ابلاغ میں زیربحث آتی رہی ہیں۔ اگر کوئی اپنی تنخواہ
لینا چاہتا ہے اور تنخواہ یا مراعات شوکت خانم مموریل ہسپتال کو دینا چاہتا
ہے تو یہ اُس کا ذاتی معاملہ ہے اور اِس سلسلے میں اُس پر کسی بھی قسم کا
اخلاقی دباؤ نہیں ڈالنا چاہئے۔‘‘
’حلوائی کی دکان اور دادا جی کا فاتحہ‘ کرنے والی سوچ تحریک انصاف کو زیب دیتی ہے؟ کیا تحریک انصاف کے عام کارکنوں کی بھی اِس بارے رائے جاننے کی کوشش کی گئی ہے یا صرف 24اراکین قومی اسمبلی کے درمیان ہونے والی ’برقی خط وکتابت‘ اُور آرأ کی روشنی ہی میں معاملہ نمٹا دیا جائے گا؟ اس بارے میں پارٹی کی مرکزی قیادت کی جانب سے وضاحت آنا ضروری ہے‘ وگرنہ اندیشہ ہے کہ یہ پورا معاملہ نجی ٹیلی ویژن چینلوں پر اتنا اُچھالا جائے گا کہ حقیقت تبصروں‘ موازنوں اور غیرمتعلقہ خرافات کے غبار میں کہیں کھو ہی جائے گی۔ یاد رہے کہ تحریک انصاف کے اراکین کی قومی اسمبلی واپسی کے ساتھ ہی اُن کے بقایاجات ادا کرنے کے لئے متعلقہ شعبے نے کاغذی کاروائی کا آغاز کردیا ہے اور۔ مالی سال 2013-14ء کے لئے تحریک انصاف کے ہر رکن قومی اسمبلی کو تنخواہ کی مد میں 3لاکھ 28 ہزار روپے‘ سمپیوٹری الاؤنس کی مد میں 60ہزار‘ آفس مینٹیننس آلاؤنس کی مد میں 96 ہزار‘ ٹیلی فون کی مد میں 1 لاکھ 20 ہزار روپے‘ ایڈہاک ریلیف 2011ء کی مد میں 42 ہزار 852 روپے‘ ایڈہاک ریلیف 2010ء کی مد میں 1 لاکھ 42 ہزار 836 روپے‘ ایڈہاک ریلیف 2012ء کی مد میں 65 ہزار 700 روپے‘ اور ایڈہاک ریلیف 2013ء کی مد میں 32ہزار 856 روپے دیئے جائیں گے۔ مجموعی طور پر سالانہ تنخواہ و مراعات کی مد میں ہر رکن اسمبلی کو 8 لاکھ 88 ہزار 768 روپے جبکہ قومی اسمبلی کے سیشن میں حاضری کی صورت آمدورفت (ٹی اے ڈی اے) کی مد میں 57 ہزار‘ یومیہ الاؤنس کی مد میں 1 لاکھ 89 ہزار روپے‘ گاڑی کے اخراجات کی مد میں 1لاکھ 41 ہزار 750 روپے‘ گھر کے کرائے کی مد میں 3لاکھ 78 ہزار روپے الگ سے دیئے جاتے ہیں۔ جو رکن قومی اسمبلی جتنے زیادہ اجلاسوں میں شرکت کرے گا‘ اُسے اُس قدر زیادہ یومیہ الاؤنس و دیگر مراعات ملیں گی۔ تحریک انصاف کے ہر رکن کو باوجود سات ماہ غیرحاضری کے بھی تنخواہ کے علاؤہ 7 لاکھ 65 ہزار 750 روپے ملنا قرار پائے ہیں۔ اس کے علاؤہ اراکین قومی اسمبلی کو سفری اخراجات بھی دیئے جاتے ہیں جن کے لئے اُنہیں ’بل‘ داخل کرنا ہوتے ہیں چونکہ تحریک انصاف کے بیشتر اراکین قومی اسمبلی سے بیشتر وقت الگ رہے اِس لئے اِس مد میں انہیں کچھ نہیں دیا گیا۔ البتہ ایم این اے ہاسٹل (پارلیمینٹ لاجز) کے کمرے کا سالانہ کرایہ بمعہ جملہ بجلی و گیس اور پانی کے استعمال اُن سے 56 ہزار روپے منہا کئے گئے ہیں جبکہ آمدن پر ٹیکس بھی ادائیگی سے پہلے ہی کاٹ لیا جاتا ہے۔ کیا تحریک انصاف جیسی اصلاح پسند‘ اصولوں اور نظریات پر مبنی امانت و دیانت کا پرچار کرنے والی جماعت کے کسی رکن قومی اسمبلی کے لئے مناسب ہوگا کہ وہ بطور رکن اسمبلی ’’16 لاکھ 54 ہزار 518 روپے‘‘ وصول کرے جبکہ وہ بارہ ماہ کے دوران سات ماہ تک پارلیمانی کاروائی میں شریک بھی نہ رہا ہو؟
تحریک انصاف کے معزز رکن قومی اسمبلی کا خیال ہے کہ چونکہ اُنہوں نے قومی اسمبلی اجلاسوں میں شرکت نہیں کی اِس لئے الاؤنس کی مد میں ملنے والی رقم نہیں لینی چاہئے لیکن تنخواہ کی مد میں ملنے والی رقم اُن کا استحقاق ہے کیونکہ اُن کے استعفے تسلیم نہیں کئے گئے۔ اُن کا یہ بھی کہنا ہے کہ تحریک انصاف کے زیادہ تر اراکین قومی اسمبلی کروڑ پتی یا ارب پتی نہیں ہیں‘ اُور چونکہ سیاست ایک کل وقتی ذمہ داری ہے لہٰذا اُنہیں یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے اہل خانہ کی کفالت کے لئے یہ قومی اسمبلی سے ملنے والی تنخواہ وصول کریں۔ ’’آخر کوئی ہم سے کیوں نہیں پوچھتا کہ صاحب تمہارے بھی بچے ہیں‘ وہ بھی سکول جاتے ہیں‘ وہ بھی کھاتے پیتے ہیں‘ تمہارے اہل خانہ کو خرچ کہاں سے ملتا ہے‘ اگر اُن کے ساتھ معدے لگے ہوئے ہیں تو اُنہیں خوراک بھی چاہئے ہوگی‘ اِس لئے اراکین اسمبلی کو قومی اسمبلی سے ملنے والے پیسے لینے دیئے جائیں۔ آپ کی مہربانی ہو گی۔‘‘
’حلوائی کی دکان اور دادا جی کا فاتحہ‘ کرنے والی سوچ تحریک انصاف کو زیب دیتی ہے؟ کیا تحریک انصاف کے عام کارکنوں کی بھی اِس بارے رائے جاننے کی کوشش کی گئی ہے یا صرف 24اراکین قومی اسمبلی کے درمیان ہونے والی ’برقی خط وکتابت‘ اُور آرأ کی روشنی ہی میں معاملہ نمٹا دیا جائے گا؟ اس بارے میں پارٹی کی مرکزی قیادت کی جانب سے وضاحت آنا ضروری ہے‘ وگرنہ اندیشہ ہے کہ یہ پورا معاملہ نجی ٹیلی ویژن چینلوں پر اتنا اُچھالا جائے گا کہ حقیقت تبصروں‘ موازنوں اور غیرمتعلقہ خرافات کے غبار میں کہیں کھو ہی جائے گی۔ یاد رہے کہ تحریک انصاف کے اراکین کی قومی اسمبلی واپسی کے ساتھ ہی اُن کے بقایاجات ادا کرنے کے لئے متعلقہ شعبے نے کاغذی کاروائی کا آغاز کردیا ہے اور۔ مالی سال 2013-14ء کے لئے تحریک انصاف کے ہر رکن قومی اسمبلی کو تنخواہ کی مد میں 3لاکھ 28 ہزار روپے‘ سمپیوٹری الاؤنس کی مد میں 60ہزار‘ آفس مینٹیننس آلاؤنس کی مد میں 96 ہزار‘ ٹیلی فون کی مد میں 1 لاکھ 20 ہزار روپے‘ ایڈہاک ریلیف 2011ء کی مد میں 42 ہزار 852 روپے‘ ایڈہاک ریلیف 2010ء کی مد میں 1 لاکھ 42 ہزار 836 روپے‘ ایڈہاک ریلیف 2012ء کی مد میں 65 ہزار 700 روپے‘ اور ایڈہاک ریلیف 2013ء کی مد میں 32ہزار 856 روپے دیئے جائیں گے۔ مجموعی طور پر سالانہ تنخواہ و مراعات کی مد میں ہر رکن اسمبلی کو 8 لاکھ 88 ہزار 768 روپے جبکہ قومی اسمبلی کے سیشن میں حاضری کی صورت آمدورفت (ٹی اے ڈی اے) کی مد میں 57 ہزار‘ یومیہ الاؤنس کی مد میں 1 لاکھ 89 ہزار روپے‘ گاڑی کے اخراجات کی مد میں 1لاکھ 41 ہزار 750 روپے‘ گھر کے کرائے کی مد میں 3لاکھ 78 ہزار روپے الگ سے دیئے جاتے ہیں۔ جو رکن قومی اسمبلی جتنے زیادہ اجلاسوں میں شرکت کرے گا‘ اُسے اُس قدر زیادہ یومیہ الاؤنس و دیگر مراعات ملیں گی۔ تحریک انصاف کے ہر رکن کو باوجود سات ماہ غیرحاضری کے بھی تنخواہ کے علاؤہ 7 لاکھ 65 ہزار 750 روپے ملنا قرار پائے ہیں۔ اس کے علاؤہ اراکین قومی اسمبلی کو سفری اخراجات بھی دیئے جاتے ہیں جن کے لئے اُنہیں ’بل‘ داخل کرنا ہوتے ہیں چونکہ تحریک انصاف کے بیشتر اراکین قومی اسمبلی سے بیشتر وقت الگ رہے اِس لئے اِس مد میں انہیں کچھ نہیں دیا گیا۔ البتہ ایم این اے ہاسٹل (پارلیمینٹ لاجز) کے کمرے کا سالانہ کرایہ بمعہ جملہ بجلی و گیس اور پانی کے استعمال اُن سے 56 ہزار روپے منہا کئے گئے ہیں جبکہ آمدن پر ٹیکس بھی ادائیگی سے پہلے ہی کاٹ لیا جاتا ہے۔ کیا تحریک انصاف جیسی اصلاح پسند‘ اصولوں اور نظریات پر مبنی امانت و دیانت کا پرچار کرنے والی جماعت کے کسی رکن قومی اسمبلی کے لئے مناسب ہوگا کہ وہ بطور رکن اسمبلی ’’16 لاکھ 54 ہزار 518 روپے‘‘ وصول کرے جبکہ وہ بارہ ماہ کے دوران سات ماہ تک پارلیمانی کاروائی میں شریک بھی نہ رہا ہو؟
تحریک انصاف کے معزز رکن قومی اسمبلی کا خیال ہے کہ چونکہ اُنہوں نے قومی اسمبلی اجلاسوں میں شرکت نہیں کی اِس لئے الاؤنس کی مد میں ملنے والی رقم نہیں لینی چاہئے لیکن تنخواہ کی مد میں ملنے والی رقم اُن کا استحقاق ہے کیونکہ اُن کے استعفے تسلیم نہیں کئے گئے۔ اُن کا یہ بھی کہنا ہے کہ تحریک انصاف کے زیادہ تر اراکین قومی اسمبلی کروڑ پتی یا ارب پتی نہیں ہیں‘ اُور چونکہ سیاست ایک کل وقتی ذمہ داری ہے لہٰذا اُنہیں یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے اہل خانہ کی کفالت کے لئے یہ قومی اسمبلی سے ملنے والی تنخواہ وصول کریں۔ ’’آخر کوئی ہم سے کیوں نہیں پوچھتا کہ صاحب تمہارے بھی بچے ہیں‘ وہ بھی سکول جاتے ہیں‘ وہ بھی کھاتے پیتے ہیں‘ تمہارے اہل خانہ کو خرچ کہاں سے ملتا ہے‘ اگر اُن کے ساتھ معدے لگے ہوئے ہیں تو اُنہیں خوراک بھی چاہئے ہوگی‘ اِس لئے اراکین اسمبلی کو قومی اسمبلی سے ملنے والے پیسے لینے دیئے جائیں۔ آپ کی مہربانی ہو گی۔‘‘
![]() |
Privileges for PTI MNA while absent from National Assembly |
No comments:
Post a Comment