Saturday, April 11, 2015

Apr2015: Solid Waste Management for Abbottabad

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
عجز و انکار
یادش بخیر ’ایبٹ آباد‘ پرفضا و پرسکون ماحول والی ایک ایسی وادی ہوا کرتی تھی‘ جہاں سردی کی جانب مائل معطر آب و ہوا‘ موسم کا ایک جیسا مزاج اُور سرسبز پہاڑی سلسلہ محض دیدنی ہی نہیں بلکہ روح کی شادابی و تروتازگی کے لئے بطور ’علاج‘ تجویز کیا جاتا تھا ۔ یہی وجہ تھی جنوری 1853ء میں برطانوی راج کے دوران چھاؤنی کے قیام سے پھیلنے والے اِس شہر کے طول و عرض میں وقت گزرنے کے ساتھ اضافہ ہوتا چلا گیا۔ مختلف وجوہات کی بناء پر ایبٹ آباد ’نقل مکانی‘ کرنے والوں اور یہاں کے مقامی باشندوں کے لئے رہائش اور کاروبار کی ضروریات کا انتظام خاطرخواہ منصوبہ بندی کے تحت نہ ہوسکا۔ جس کے سبب ’بے ہنگم انداز‘ میں سراُٹھانے والے ’رہائشی و تجارتی منصوبے‘ مسئلے کا حل وقتی حل ثابت ہوئے اور یوں جو ایک مسئلہ ایبٹ آباد کی خوبیوں پر حاوی ہو گیا جو گندگی یکجا کرنے کا نظام تھا اور جس کی استعداد میں وقت گزرنے کے ساتھ خاطرخواہ اضافہ محکمہ بلدیات کی ذمہ داری تھی۔

ابتدأ میں کام چلانے کے لئے ’ایبٹ آباد‘ سے جمع کی جانے والی ٹھوس گندگی اُٹھانے کے بعد شہر سے باہر ایک کھائی میں گرانے کا سلسلہ شروع ہوا‘ جو اِس شہر کے واحد داخلی راستے (گیٹ وے) کے کنارے واقع تھی۔ رفتہ رفتہ وہ ڈھلوان بھر گئی اور گندگی کو ٹھونس ٹھونس کر دبانا بھی مزید ممکن نہ رہا۔ اِس مسئلے کا فوری حل یہ نکالا گیا کہ صرف چھاؤنی کی حدود یا مصروف شاہراؤں کے کناروں ہی سے گندگی اکٹھا کی جائیجبکہ نئی بستیوں میں خالی پلاٹ اور برساتی نالے نالیاں گندگی سے بھرتے چلے گئے۔ یہ مسئلہ جوں کا توں موجود ہے اور ہر گزرتے دن یونین کونسل سلہڈ سے یونین کونسل میرپور تک پھیلے ایبٹ آباد کے اُن تمام علاقوں سے ٹھوس گندگی باقاعدگی سے اکٹھا کرنے کا نظام موجود نہیں‘ جو چھاؤنی (کنٹونمنٹ) کی حدود میں نہیں آتے۔ اُمید ہے کہ بلدیاتی انتخابات کے بعد ہر یونین کونسل کی سطح پر ٹھوس گندگی اٹھانے کے لئے مقامی سطح پر ’حکمت عملی‘ تشکیل دی جائے گی کیونکہ خیبرپختونخوا حکومت وعدہ کر چکی ہے کہ وہ بلدیاتی نمائندوں کو ترقیاتی فنڈز کا 30 فیصد حصہ دے گی۔ اصولی طورپر تو سارا ترقیاتی فنڈ یا کم از کم 70فیصد ترقیاتی فنڈ بلدیاتی نمائندوں کے ذریعے خرچ ہونا چاہئے کیونکہ مقامی ضروریات کا احساس و معلومات سب سے زیادہ مقامی افراد ہی کو ہوسکتی ہیں۔ کاش ہم ’فیصلہ سازی‘ کے منصب پر بیٹھ کر ذاتی اختیارات کی بجائے ’اجتماعی مفادات‘ کو ترجیح دیں!

اَیبٹ آباد میں ’ٹھوس گندگی (سالڈ ویسٹ)‘ ٹھکانے لگانے کا منصوبہ عرصہ چار سال سے سردخانے کی نذر ہے‘ جس کی بازگشت 10 اپریل کے روز خیبرپختونخوا اسمبلی میں بھی سنائی دی‘ جب پاکستان مسلم لیگ (نواز) سے تعلق رکھنے والی رکن صوبائی اسمبلی محترمہ رقیہ حنا نے محکمۂ بلدیات کی طرف سے دیئے گئے ایک سوال کے جواب پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’’ایبٹ آباد میں ٹھوس گندگی ٹھکانے لگانے کا منصوبہ موجودہ حکومت کی غفلت کے سبب تاحال فعال نہیں کیا جاسکا اور محکمۂ بلدیات اپنی غفلت چھپانے کے لئے ذمہ داری دوسروں کے کندھوں پر ڈال رہا ہے۔‘‘ اِس بات کی تائید ایبٹ آباد ہی سے تعلق رکھنے والی رکن صوبائی اسمبلی آمنہ سردار نے بھی کی جنہوں نے بات کو مزید آگے بڑھاتے ہوئے یہ مطالبہ کردیا کہ اِس غفلت کے بارے میں تحقیقات ہونی چاہیءں اور (سونے پر سہاگہ) اُنہوں نے مذکورہ منصوبے میں مبینہ بے قاعدگیوں کا بھی اشارتاً ذکر کردیا۔ پارلیمانی طرز حکومت میں قانون ساز ایوانوں کے سامنے ایسے امور پیش ہوتے رہتے ہیں جس میں حزب اختلاف کے اراکین حکومت کی کارکردگی پر تنقید کرنے کا موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ یہی معاملہ ایبٹ آباد میں ٹھوس گندگی ٹھکانے لگانے جیسے سنگین مسئلے کا بھی ہے جو سیاست کی نذر ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ ایک طرف تکرار کے ساتھ حقائق پیش کئے جاتے ہیں اور دوسری طرف عجز و انکار کے ساتھ تکرار پر مبنی بحث کی جاتی ہے لیکن مسلم لیگ نواز کے پاس اِس بات کا جواب ہے کہ عرصہ پچیس برس سے زائد ہزارہ ڈویژن کے صدر مقام ایبٹ آباد پر بلاشرکت غیرے حکومت کرنے کا اُنہوں نے کس خوبی سے جواب دیا؟ کیا دیگر اضلاع سے منتخب ہونے والے نمائندے جب وزیر اعلیٰ کے منصب پر فائز ہوئے تو اُنہوں نے اپنے اضلاع کو ویسی ہی ترقی دی جیسا کہ آج ہمیں ایبٹ آباد میں دکھائی دیتی ہے؟ امر واقعہ یہ ہے کہ صوبائی حکومت اور پاکستان اسٹیٹ آئل (پی ایس اُو) کی جانب سے مشترکہ طورپر ایبٹ آباد سے ٹھوس گندگی تلف کرنے کا منصوبہ بنایا گیا تھا‘ جس میں صوبائی حکومت نے 2 کروڑ 20 لاکھ روپے فراہم کرنا تھے جبکہ حسب وعدہ ’پی ایس اُو‘ نے باقی ماندہ 2 کروڑ 30 لاکھ روپے کی سرمایہ کاری بطور ’سماجی ذمہ داری‘ کرنی تھی۔ صوبائی حکومت نے تو اپنے حصے کے پیسے اور وسائل تو فراہم کر دیئے لیکن ’پی ایس اُو‘ آخری وقت میں اپنے وعدے سے مکر گئی اور نتیجہ یہ ہوا کہ ’’بائیس ملین روپے‘‘ خرچ ہونے کے باوجود یہ منصوبہ تاحال مکمل نہ ہوسکا اُور اب حکومت نجی شعبے کے دیگر اداروں سے مالی تعاون حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہے‘ لیکن چونکہ اِس بارے اِس سے قبل کوئی وضاحت سامنے نہیں آئی‘ اِس لئے حزب اختلاف کو موقع مل گیا کہ وہ اس سلسلے میں ’شکوک و شبہات پیدا کرنے کے ساتھ بدعنوانی جیسے الزامات بھی عائد کردے! یقیناًیہ ذمہ داری صوبائی حکومت (پاکستان تحریک انصاف) ہی کی بنتی ہے کہ وہ ایبٹ آباد میں ٹھوس گندگی ٹھکانے لگانے کے منصوبے کو بہرصورت مکمل کرائے اُور اگر کسی ادارے نے مالی تعاون کی پیشکش واپس لے بھی لی ہے‘ تو باقی ماندہ رقم بھی صوبائی حکومت ہی فراہم کرے کیونکہ موسم گرما میں ملکی و غیرملکی سیاحوں کی آمد کے سبب ایبٹ آباد کی آبادی میں کئی گنا اضافہ ہوجاتا ہے اور جابجا گندگی و غلاظت کے ڈھیر اِس شہر کی آب و ہوا اُور ضلعی انتظامیہ و صوبائی حکومت کی ساکھ متاثر کرنے کا سبب بنتے ہیں۔ اُمید کی جاسکتی ہے کہ ’تعلیمی اداروں کا شہر‘ کہلانے والی اِس جنت نظیر وادی کی بنیادی ضروریات کا احساس کرتے ہوئے ’سیاست‘ سے نہیں ’حساسیت‘ سے کام لیا جائے گا۔
Solid waste management project in Abbottabad need to put in running order

No comments:

Post a Comment