Friday, April 10, 2015

Apr2015: Resultless military ops

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
قربانیاں‘ مفادات‘ تضادات!
’پیش قدمی‘ جاری ہے۔ قبائلی علاقے ’خیبرایجنسی‘ کی تحصیل باڑہ کے میدانی علاقوں سے عسکریت پسندوں کے پاؤں اکھڑ چکے ہیں۔ وہ فوجی حکمت عملی کامیاب ثابت ہوئی ہے جس کا آغاز بیک وقت ہنگو اور باڑہ کے اطراف سے کیا گیا تھا۔ یاد رہے کہ خیبرایجنسی اُور اورکزئی ایجنسی کے علاقوں کو اکتوبر 2014ء سے فروری 2015ء تک جبکہ بعدازاں مارچ 2015ء کی ’خیبرٹو‘ نامی کاروائی کے جملہ اہداف حاصل کر لئے گئے ہیں لیکن کیا یہ سب کافی ہے؟

کون نہیں جانتا کہ 1965ء اور 1971ء کی جنگوں کے بعد افواج پاکستان اُن درپیش داخلی خطرات کا ڈٹ کر مقابلہ کر رہی ہے‘ جو غیرروائتی اور گوریلا جنگ کا حصہ ہیں یعنی دشمن چھپ کر وار کر رہا ہے۔ جس سے نمٹنا روائتی جنگ کی نسبت مشکل ہے۔ دوسری اہم بات عسکریت پسندوں کی پشت پناہی اُور مالی و حربی وسائل فراہم کرنے والی قوتیں ’بغل میں چھڑی‘ منہ میں ’رام رام‘ کہتے دنیا کو یہ باور کرانے کی کوشش کر رہی ہیں کہ جوہری صلاحیت رکھنے والا ملک داخلی طور پر عدم استحکام کا شکار ہے جو اپنا دفاع کرنے کے بھی قابل نہیں رہا اور تیسری مشکل یہ ہے کہ قبائلی علاقوں کا کوئی والی وارث دکھائی نہیں دے رہا‘ جہاں ہر دو تین برس بعد فوجی کاروائی کرنے کی ضرورت پڑتی ہے۔ مؤثر داخلی حفاظتی نظام نہ ہونے کی وجہ سے عسکریت پسند قبائلی علاقوں میں پھر سے اپنے مراکز قائم کر لیتے ہیں! صد افسوس کہ قبائلی علاقوں پر حکمرانی کرنے والے جملہ کردار نہیں چاہتے کہ ’’وہاں امن قائم ہو‘ قبائلی سیاسی و سماجی طور پر مضبوط ہوں اُور اُن کے ہاں ’انصاف‘ عام ہو۔ ہمارے اداروں کی بقاء اور انفرادی مفادات ایسی حکمت عملیوں سے وابستہ ہیں‘ جن کے نتائج ’استحصال ہی استحصال‘ کی صورت ظاہر ہو رہے ہیں۔ قبائلی اگر سکھ کا سانس نہیں لے پا رہے تو اِس کی وجہ انتظامی و سیاسی خلا ہے‘ جسے پُر ہونا چاہئے۔ اُورکزئی ایجنسی سے تعلق رکھنے والے رکن قومی اسمبلی ’ڈاکٹر سیّد غازی غالب جمال المعروف جی جی جمال‘ کے اِیوان زیریں میں دیئے گئے بیان میں چھپے درد کو محسوس کیجئے کہ ’’ہماری ایجنسی سے تعلق رکھنے والے 50فیصد اَفراد نقل مکانی کر کے ذلیل و خوار ہو رہے ہیں!‘‘

ہم صرف ماضی ہی کی نہیں بلکہ حال کی غلطیوں کا خمیازہ بھی بھگت رہے ہیں۔ افغانستان میں 9سال‘ 1 ماہ‘ 3 ہفتے اور 1 دن جنگ کے بعد زخم خوردہ سوویت یونین کا آخری فوجی 15 فروری 1989ء کو واپس واپس ہوا‘ تو وہ بہترین وقت تھا کہ پاکستان میں مقیم افغانوں کو بھی مہاجرت ترک کرنے دیا جاتا لیکن اُس وقت مہاجرین کے امور کے نگران ادارے نے اپنے 7 ہزار ملازمین کے مفادات کو پیش نظر رکھا اُور حیلوں بہانوں سے مہاجرین کو واپس نہ بھیجنے کے لئے فیصلہ سازی کی گئی۔ بات صرف اُن سات ہزار ملازمین کی نہیں تھی بلکہ اُس وقت کے سیاسی کردار بھی مہاجرین کے لئے آنے والی امداد میں برابر حصہ دار تھے۔ اکتیس مارچ کو زیرعنوان ’قربانیوں کا صلہ‘ اِنہی صفحات پر توجہ طلب اَمور کی صورت پیش کیا گیا‘ جس پر ہنوز عمل درآمد ہونا باقی ہے۔

فوجی کاروائیوں ’ضرب عضب‘ خیبرون اور خیبر ٹو‘ کے ذریعے حاصل ہونے والے نتائج کسی بھی طور معمولی نہیں‘ اِس لئے انہیں ضائع بھی نہیں ہونا چاہئے۔ عسکریت پسند افغان سرحدوں تک دھکیل کر محدود کر دیا گیا ہے جس کا نتیجہ ہے کہ انڈس ہائی وے‘ کوہاٹ‘ بنوں‘ ہنگو اور ڈیرہ اسماعیل خان سمیت جنوبی اضلاع اور پشاور کی وادی نسبتاً محفوظ ہو گئے ہیں۔ ساٹھ فیصد جرائم میں کمی کا ذکر خود خیبرپختونخوا کے پولیس سربراہ ناصر خان درانی بھی فخریہ انداز میں کرتے ہیں۔ اِس مرحلے پر فوج کی قربانیوں کا ذکر اور اُنہیں سراہا جانا چاہئے تھا اگر یہ قوت مضبوط اور منظم نہ ہوتی تو ہمارا حشر کسی بھی صورت افغانستان‘ عراق‘ شام‘ صومالیہ اور یمن سے مختلف نہ ہوتا! کیا عام آدمی جانتا ہے کہ قبائلی علاقوں میں موجودہ کاروائی کی قیادت فوج جس کا خصوصی دستہ ’سپیشل سروسیز گروپ (ایس ایس جی)‘ جنہیں ’کمانڈوز‘ بھی کہا جاتا ہے کر رہا ہے۔ خیبرٹو کے دوران وادی تیراہ میں اگر ’ایس ایس جی‘ کی قربانیوں اور ہمت و عزم کی تعریف نہ کی جائے تو بات ادھوری رہے گی۔

خیبرون آپریشن میں دہشت گردوں کو پشاور کی قبائلی علاقے کی حد سے دھکیل دیا گیا اور تحصیل باڑہ کے بڑے علاقے سمیت اورکزئی ایجنسی کے علاقے میدان تک حکومت کی عمل داری قائم کی گئی۔ گیارہ مارچ سے ’خیبرون‘ حکمت عملی کا آغاز ہوا۔ اکیس اور بائیس مارچ کی درمیانی شب تیراہ کے علاقے ’باغ‘ سے ’ایس ایس جی کمانڈوز‘ نے اپنے مخصوص اَنداز میں پیش قدمی شروع کی اور آٹھ گھنٹے پیدل چل کر چوٹیوں پر قبضہ کرکے داد شجاعت حاصل کی اور اُن کی پیچھے ’پیدل فوج (اِنفنٹری یونٹ)‘ علاقوں کا کنٹرول سنبھالتے چلے گئے۔ اِس کاروائی میں ’کوبرا ہیلی کاپٹروں‘ نے بھی عسکریت پسندوں کا صفایا کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا۔ 23 مارچ کی الصبح تحصیل باڑہ کاروائی کا آغاز ہوا لیکن طالبان کے اچانک حملے کی زد میں پوری آرمی یونٹ آ گئی‘ جس میں میجر گلفام حسین اور اُن کے کئی نڈر ساتھیوں نے جام شہادت نوش کیا۔ کمانڈوز کو اِس مضبوط گڑھ پر قبضہ کرنے کے لئے تیراہ سے طلب کیا گیا اُور ایک مرتبہ پھر کمانڈوز کی پیش قدمی ہوئی۔ بوجۂ شدید بارش اور برفباری کی وجہ سے کچھ روز تاخیر کے بعد 5 اپریل کی رات کو دشوار پہاڑی سلسلے کو تین اطراف گھیر لیا گیا اور کمانڈوز نے پہاڑ پر چڑھنا شروع کیا۔ دہشت گرد پہاڑ کے عقب میں ’شیخان‘ نامی گاؤں میں موجود تھے اور انہیں اس بات کی توقع بھی نہیں تھی کہ شیردل جوان راتوں رات پہاڑ پر چڑھ جائیں گے۔

فجر کے قریب ابھی کمانڈوز اپنی پوزیشنیں مستحکم کر ہی رہے تھے کہ کم وبیش پچاس طالبان چوٹی کی طرف آتے ہوئے دکھائی دیئے لیکن ’ایس ایس جی‘ دستے جس میں پندرہ جوان اور کیپٹن شامل تھے اُنہوں نے طالبان گروہ سے مقابلہ کیا۔ اس کاروائی میں دو افسران اور دس جوان شدید زخمی ہوئے‘ جس میں دو موقع پر شہید ہوئے لیکن کمانڈوز نے چوٹیوں پر قبضہ برقرار رکھا۔ کوبرا ہیلی کاپٹروں کے ذریعے زخمیوں کو سی ایم ایچ پشاور منتقل کیا گیا۔8اپریل کو پاک فوج کے سربراہ نے بھی اس چوٹی کا دورہ کیا اور جوانوں کی قربانیوں کو سراہا۔ اب تک 50 کلومیٹر کی راہداری عسکریت پسندوں کے قبضے سے واگزار کرائی جا چکی ہے اور اب جس مقام پر پاک فوج موجود ہے یہ افغان سرحد سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔

ضرورت اِس امر کی ہے کہ قبائلی علاقوں سے خوف و دہشت کے مراکز ختم کرنے اور پاکستان کو لاحق داخلی خطرات سے نمٹنے میں پاک فوج کی قربانیوں اور کردار کو سراہا جائے۔ قبائلی علاقوں کے طول و عرض میں فوجی کاروائیوں کے ٹوٹے پھوٹے اور شکستہ کتبے اِس بات کی گواہی ہیں کہ ملک دشمنوں کے عزائم خاک میں ملاتے ہوئے شہادت کے رتبے پر فائز ہونے والوں کو صرف شمار نہیں بلکہ اُن کی ہرقربانی اور ہر غازی کی قدر کی جائے۔ قبائلی علاقوں پر سیاست اور اس کے وسائل سے استفادہ کرنے والوں کو اپنے قول و فعل پر غور کرنا ہوگا۔
Security Operation in FATA not the only solution to the complex law and order situation 

No comments:

Post a Comment