Thursday, April 9, 2015

Apr2015: Unjustified demands

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
گرداب
سب کی آنکھیں ہیں اور اسی لئے ہر ایک کی کوشش ہے کہ وہ آنکھیں دکھا کر اپنا مطالبات منوائے۔ درجہ چہارم کے ملازمین چاہتے ہیں کہ اُنہیں دیگر سرکاری اہلکاروں کے مساوی مراعات دی جائیں کیونکہ وہ یہ حق انسان ہونے کے ناطے رکھتے ہیں۔ اگر ہم انسان ہونے ہی کو بنیاد تسلیم کر لیں تو پھر بیروزگار افراد کو بھی ملازمتیں ملنی چاہیءں۔ جو پڑھنے لکھنے میں کمزور ہوں‘ وہ بھی انسان تو ہیں‘ اِس لئے کسی کو بھی امتحان میں فیل نہیں ہونا چاہئے۔ پاکستان سمیت ترقی پذیر غریب ممالک کا المیہ یہ ہے کہ یہاں حکومت ہی ملازمتیں فراہم کرنے والا بڑا ذریعہ ہوتی ہے اور وہی شخص مقبول ہوتا ہے جو اپنے انتخابی یا آبائی حلقے کے رہنے والوں کو زیادہ سے زیادہ تعداد میں سرکاری ملازم رکھوا سکے۔ ملازمتیں بانٹی جاتی ہیں۔ ملازمتیں فروخت کی جاتی ہیں اور ملازمتیں بطور سیاسی رشوت تقسیم کی جاتی ہیں۔

عہدے اور مراعات پانے والے بھی اِس نظام میں خوش نہیں۔ ایک ایسے مرحلے پر جبکہ خیبرپختونخوا میں بلدیاتی انتخابات کا انعقاد ہونے جا رہا ہے کہ درجۂ چہارم کی طرح خیبرپختونخوا کے اعلی سرکاری ملازمین ’پرووینشل منیجمنٹ سروسیز‘ کے آفیسرز نے بھی دھمکی دے دی ہے کہ اگر اُن کے مطالبات تسلیم نہیں کئے جاتے تو وہ ہڑتال پر چلے جائیں گے۔ اگر ایسا کیا جاتا ہے تو اِس سے دو امور متاثر ہوں گے ایک تو صوبائی بجٹ کی تیاری کا عمل متاثر ہوگا بلکہ آنے والے بلدیاتی انتخابات کی تیاری کے مراحل بھی متاثر ہوسکتے ہیں اور یہ دونوں امور ہی کسی بھی صوبائی حکومت کی طرح اصلاحات پسند موجودہ حکومت کے لئے بنیادی و کلیدی اہمیت کے حامل ہیں۔

افسرشاہی کا مؤقف ہے کہ ’’اُن کی بھرتیوں کے طریقۂ کار پر نظرثانی کی جائے اُور مبینہ طور پر ہونے والی زیادتیوں کا ازالہ کیا جائے۔‘‘ اس سلسلے میں گذشتہ ہفتے پشاور کے ہوٹل میں کم و بیش چارسو صوبائی منیجمنٹ سروسیز سے تعلق رکھنے والے افسران کا اجلاس ہوا‘ جس میں حکومت پر دباؤ ڈال کر اپنے مطالبات منظور کروانے کے لئے مختلف تجاویز زیرغور آئیں۔ ایک سے بڑھ کر ایک ’مخلص مشورہ‘ دینے والوں کی کمی نہیں تھی۔ مقررین کے جذبات بھی آتش فشاں کی طرح اُبل رہے تھے اُور ان میں کسی کو ایک لمحے کے لئے بھی یہ خیال نہیں آیا ہوگا کہ سرکاری ملازمت اور مراعات ملنے کے عوض کیا وہ اپنے عہدوں سے جڑی ذمہ داریاں کماحقہ پوری بھی کر رہے ہیں! اِس مرحلۂ فکر پر درجہ ادنی و اعلیٰ کے مطالبات کے جائز یا ناجائز ہونے سے بحث نہ بھی کی جائے تو سرکاری ملازمین کے طبقات نے جس نازک وقت کا انتخاب کیا ہے‘ اُس سے صرف حکومت پر ہی دباؤ نہیں بڑھے گا بلکہ عام آدمی کی مشکلات میں بھی اضافہ ہوگا جو پہلے ہی مختلف قسم کے امتحانات اور آزمائشوں سے گزر رہا ہے۔ یاد رہے کہ صوبائی ملازمین کی خواہش ہے کہ اُنہیں وفاقی حکومت کے ملازمین (ہم عصروں) کے مساوی تنخواہیں اور مراعات ملنی چاہیءں۔ خیبرپختونخوا میں گریڈ 17 سے 21 کے کم از کم 600 اعلیٰ سرکاری اہلکار ہیں۔ اُن کا یہ مطالبہ بھی ہے کہ وفاقی حکومت کے ملازم افسروں کو صوبائی عہدوں سے الگ کیا جائے کیونکہ یہ آئین اور بالخصوص اٹھارہویں آئینی ترمیم کی خلاف ورزی ہے۔ اسی طرح صوبائی افسروں کو اس بات پر اعتراض ہے کہ نئے فارمولے کے تحت گریڈ 17 کی سیٹوں پر 75 فیصد صوبائی جبکہ 25 فیصد وفاقی افسروں کو تعینات کیا جائے گا لیکن جیسے جیسے ملازمتی دورانیہ بڑھتا ہے ویسے ویسے صوبائی افسروں کا ملنے والے عہدے کم ہوتے جاتے ہیں اُور نتیجہ یہ ہے کہ 21گریڈ کی 65فیصد نشستوں پر وفاقی افسر براجمان دکھائی دیتے ہیں۔

 کیا یہ امتیازی باتیں اعلیٰ تعلیم یافتہ اور بالخصوص ایسے افراد کو زیب دیتی ہیں جن کے کندھوں پر حکومت چلانے کی اصل ذمہ داری عائد ہوتی ہے! صوبائی حکومت کے ایک ذمہ دار کے مطابق یہ مسئلہ آئندہ چند روز میں حل ہو جائے گا۔ صوبائی حکومت نے اِس الزام کی بھی تردید کی ہے کہ حکومت امتیازی سلوک کر رہی ہے اگر ایسا ہوتا تو خیبرپختونخوا میں تعینات 7 کمشنروں میں سے 6کا تعلق صوبائی منیجمنٹ سے نہ ہوتا۔‘‘ فون پر ہونے والی بات چیت کا اختتام ایک ایسے جملے سے ہوا‘ جس کے بعد مزید کچھ کہنے سننے کی ضرورت باقی نہیں رہتی ’’ہم اُس وقت تک ترقی نہیں کرسکتے جب تک انفرادی حیثیت میں مفادات کے اسیر رہیں گے!‘‘

مسائل سوچ بدلنے کی ہے۔ خود کو خادم سمجھنے کی ہے اور اسی مقصد کے لئے بلدیاتی انتخابات ضروری ہیں‘ تاکہ حکمرانوں پر حکمرانی کرنے والی عوام ہو۔ اقتدار کی نچلی سطح تک منتقلی سے اربوں روپے کے ترقیاتی فنڈز کا ضیاع روکا جا سکتا ہے جس کا مصرف سیاسی ترجیحات کی بنیاد پر ہونا ایک معمول بن چکا ہے۔ قانون سازی کے لئے منتخب ہونے والے بڑے فخر سے گلیوں اور نالیوں کے تعمیراتی منصوبوں کا افتتاح کرتے ہیں۔ قبر کے کتبوں جیسی اپنے ناموں کی تختیاں لگا کر ’سرکاری خرچ‘ سے اپنے اثرورسوخ کی نمائش کی جاتی ہے پھر عام انتخابات ایک کاروبار کی صورت بھی اسی وجہ سے اختیار کر چکے ہیں کیونکہ ترقیاتی کاموں کے لئے مالی وسائل میں بڑے پیمانے پر خردبرد کی جاتی ہے۔ ٹھیکیدار جب کمیشن ادا کرکے عاجز آچکے تو اُنہوں نے براہ راست انتخابات میں سرمایہ کاری کرنے کا فیصلہ کیا یعنی اپنے نمائندے کھڑے کرنے شروع کر دیئے جس کا نتیجہ سب کے سامنے ہے کہ ایک تو انتخابی عمل اِس قدر مہنگا ہو چکا ہے کہ عام آدمی بطور اُمیدوار اِس مقابلے میں حصہ لینے کے بارے میں سوچ ہی نہیں سکتا اور دوسرا سیاسی جماعتیں انتخابات سے قبل اعلانیہ یا غیراعلانیہ اتحاد کر کے مختلف النظریات ہونے کے باوجود اپنا اپنا ووٹ بینک بچا لیتی ہیں۔ اگر ہمارے ہاں سیاست نظریات اُور اَصولوں کا نام ہوتی تو کبھی بھی ’اِنتخابی اِتحاد‘ معرض وجود میں نہ آتے۔ عجب ہے کہ بلدیاتی انتخابات کے لئے سیاسی جماعتیں جس طرح سینکڑوں کی تعداد میں ’اتحادی اُمیدوار‘ میدان میں اُتارنے کے لئے تیاریاں کر رہی ہیں اُس سے علاقائی سطح پر مسائل حل ہوں یا نہ ہوں لیکن ایک ایسا طبقہ ضرور بااختیار ہو جائے گا‘ جو سیاست کو کمائی کا ذریعہ اور سیاست و محبت میں ہر کام کو جائز سمجھتا ہے۔ ایسے موقع پرستوں اُور موقع شناسوں بلدیاتی انتخابات کے انتظار میں دن گن رہے ہیں۔

قومی و صوبائی سیاست کے ’گلوبٹ‘ اپنی نئی نسل کو بلدیاتی انتخابات میں بطور ’متبادل قیادت‘ متعارف کرانے کے لئے کمر کس چکے ہیں! مسئلہ اِس نمودونمائش والی سیاسی گرداب سے نکلنے کا ہے۔ اگر ہم ایک بار اِس چکر سے نکلنے میں کامیاب ہو گئے‘ تو پھر دنیا کی کوئی بھی طاقت تبدیلی و اصلاحات اور نئے خیبرپختونخوا کی تشکیل کی راہ میں حائل نہیں ہو سکے گی۔
Govt servant in KP are restless with unjustified demands

No comments:

Post a Comment