ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
مایوس کن حقائق
مایوس کن حقائق
پاکستان میں بچے بھی محفوظ نہیں! صحت و تعلیم سے لے کر کم عمری میں مشقت‘
اَغوأ‘ جنسی تشدد اور قتل جیسے انتہائی جرائم کا نشانہ بچے ہیں۔ سپارک نامی
غیرسرکاری تنظیم نے بچوں کے خلاف ہونے والے جرائم کے مختلف پہلوؤں پر
روشنی ڈالتے ہوئے مایوس کن حقائق پر مبنی ’سالنامہ‘ ’’بچوں کی حالت (زار)
2014ء‘‘ شائع کیا ہے‘ تاکہ اَرباب اِختیار‘ فیصلہ سازوں اور منتخب نمائندوں
کو ترجیحات بناتے ہوئے آسانی رہے۔ رپورٹ کے مطابق گزشتہ برس (سال دو ہزار
چودہ میں) بچوں کے خلاف تشدد کے تقریباً 70ہزار کیسز رپورٹ ہوئے‘ تاہم
اندازہ ہے کہ رپورٹ نہ کیے جانے والے کیسز کی تعداد اِس سے کہیں زیادہ
ہوسکتی ہے۔ ایک آزاد رپورٹ ساحل کے ظالمانہ نمبرز رپورٹ 2014ء کے اعدادو
شمار کا حوالہ دیتے ہوئے بیان کیا گیا ہے کہ ’’بچوں کے خلاف جنسی تشدد کے
ایک ہزار 786کیسز‘ رپورٹ ہوئے جن میں سے لڑکیوں کے خلاف ایک ہزار ایک سو
بہتّر کیسز اور باقی چھ سو سولہ لڑکوں کے خلاف تھے جو گذشتہ سال جنوری سے
جون کے دوران رپورٹ کیے گئے۔‘‘ گزشتہ سال اس طرح کے واقعات کی کل تعداد تین
ہزار پانچ سو آٹھ رہی‘ جس سے اِس بات کی نشاندہی ہوتی ہے کہ ایسے واقعات
میں گزشتہ سال کی بہ نسبت سترہ فیصد تک اضافہ ہوا ہے۔ سپارک کی رپورٹ کا
کہنا ہے کہ لڑکیوں اور لڑکیوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے بارہ سو پچیس
کیسزسامنے آئے‘ جن میں اجتماعی زیادتی کے واقعات بھی شامل ہیں جبکہ
258واقعات میں لڑکوں اور لڑکیوں کے ساتھ اجتماعی زیادتی کا ارتکاب کیا گیا۔
رپورٹ کا مزید کہنا ہے کہ کم ازکم ایک سو بیالیس متاثرہ بچوں کو جنسی حملے
کے بعد قتل کردیا گیا۔ اس مسئلے پر تحقیق سے یہ انکشاف بھی ہوا ہے کہ
’’جنسی استحصال کے آٹھ فیصد متاثرین کی عمریں چھ سے دس سال کے درمیان تھیں۔
چھبیس فیصد گیارہ سے پندرہ برس کی عمرکے تھے جبکہ گیارہ فیصد سولہ سے
اٹھارہ برس کے عمروں کے درمیان تھے۔ یہاں تک کہ ان میں جنسی استحصال کے
متاثرین میں چند ایک سال تک کی عمر کے بچے بھی شامل تھے۔‘‘ جنسی استحصال کی
مختلف اشکال کے بارے میں رپورٹ کا کہنا ہے کہ 775متاثرہ بچوں کو اغوأ کرنے
کے بعد ان کا جنسی استحصال کیا گیا۔ 313لڑکیوں اور 147لڑکوں کے ساتھ جنسی
زیادتی کی گئی‘ 100کو اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا‘ 94لڑکیاں جنسی
زیادتی سے بچنے میں کامیاب ہوگئیں‘ 63لڑکوں کے ساتھ اجتماعی زیادتی کی گئی
اور 53کی بچپن میں شادیاں کردی گئیں۔ ملک میں ان کیسز کی شرح شہری و دیہی
علاقوں میں 33سے 67فیصد تھی‘ بچوں کے استحصال کے اکثر کیسز پنجاب میں رپورٹ
کیے گئے‘ جن کی تعداد دوہزار چون تھی۔ اس کے بعد 875کیسز سندھ‘
297بلوچستان‘ 152خیبرپختونخو‘ 90اسلام آباد‘ 38آزاد جموں و کشمیر اور ایک
ایک کیس گلگت بلتستان اور وفاق کے زیرانتظام قبائلی علاقے میں رپورٹ ہوئے۔
اس رپورٹ کے مطابق اغوا کے کیسز میں سات فیصد تک اضافہ ہوا۔ سال 2013ء میں
اس طرح کے کیسز کی تعداد سترہ سو چھ تھی جبکہ سال 2014ء میں یہ بڑھ کر
اٹھارہ سو اکتیس ہوگئی! جس سے اشارہ ملتا ہے کہ گزشتہ سال روزانہ اوسطاً
پانچ بچوں کو اغوا کیا گیا! کیا یہ امر لائق تشویش نہیں ہونا چاہئے کہ ایک
سال کے دوران تیزاب کے حملوں سے چالیس بچے متاثر ہوئے جن میں گیارہ لڑکے
اور اُنتیس لڑکیاں ہیں!
کم سنی میں بچوں کی شادیاں بھی ایک ایسا موضوع ہے جس پر بچوں کے حقوق کے لئے کام کرنے والے زیادہ توجہ چاہتے ہیں اور اُن کا مطالبہ ہے کہ قانون سازی کے ذریعے ایسی شادیوں پر پابندی عائد کی جائے۔ نوعمر بچوں کا سکولوں سے باہر ہونا شرح خواندگی میں کمی اور مستقبل کے مسائل کی نشاندہی کرتا ہے۔ پانچ سے نو سال کی عمر کے ڈھائی کروڑ پاکستانی بچے سکولوں سے باہر ہیں! یاد رہے کہ سکول جیسی نعمت سے محروم بچوں کی تعداد کے لحاظ سے پاکستان عالمی سطح پر دوسرے نمبر پر ہے! رپورٹ کے مطابق پاکستان پیدائشی بچوں کی اموات کی شرح 2013ء میں ایک ہزار میں چھیاسی تھی لیکن یہ شرح ’ملینیئم ڈیویلپمنٹ گولز‘ کے تحت ایک ہزار پیدائش میں 52بچوں کے ہدف سے کافی دور ہے۔ سال 2014ء کے اختتام تک چاروں صوبوں کے حراستی مراکز میں نابالغ مجرموں کل تعداد ایک ہزار چار سو چھپن تھی‘ ان میں سے بڑی اکثریت مقدمات کا سامنا کررہے تھے۔ قیدی بچوں کی سب سے زیادہ تعداد پنجاب میں 757تھی‘ اس کے بعد خیبر پختونخوا میں 301‘ سندھ میں 291 اُور صوبہ بلوچستان میں 107تھی۔
پاکستان سے متعلق عالمی ادارۂ محنت (آئی ایل اُو) کے اعدادوشمار بھی زیادہ کہنا ہے کہ پاکستان میں ایک کروڑ پچیس لاکھ بچے کسی نہ کسی صورت میں مزدوری کرتے ہیں جبکہ یونیسیف کا تخمینہ ہے کہ ایک کروڑ بچے 2012ء میں مزدوری کرنے پر مجبور ہیں۔ رپورٹ کے مطابق سکول سے باہر بچوں اور محنت مشقت و مزدوری پر مجبور خاندانوں کی بڑی تعداد کی وجہ سے بہت سے بچے بے ہنرافرادی قوت میں متحرک کردار ادا کررہے ہیں جبکہ محتاط اندازے کے مطابق محنت کرنے والے کم عمر بچوں میں ڈھائی لاکھ سے زیادہ بچے بطور گھریلو ملازمین غیرمحفوظ ماحول میں کام کررہے ہیں اور ایسی کوئی قانون سازی موجود نہیں جس کے ذریعے کم عمر بچوں سے مشقت لینے والوں کو اپنا طرزعمل تبدیل کرنے پر مجبور کیا جاسکے۔ یاد رہے کہ سال 2013ء میں گھریلو ملازمین پر تشدد کل اکیس کیسیز رپورٹ کیے گئے تھے‘ جن میں سے آٹھ بچوں کی اموات ہوگئی تھیں!
غیرسرکاری تنظیمیں ایک عرصے سے ایسی رپورٹیں شائع کرتی ہیں جن میں بچوں‘ خواتین اور معاشرے کے دیگر کمزور طبقات کے خلاف ہونے والے جرائم کا ذکر ہوتا ہے جنہیں سن سن کر فیصلہ سازوں کے کان پک چکے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ آئندہ برس بھی زیادہ بھیانک اُور مایوس کن حقائق پر مشتمل سالنامہ جاری ہوگا‘ جس کے بارے میں ذرائع ابلاغ میں اظہار خیال بھی ہوگا لیکن بچوں کو تحفظ دینے سے متعلق قوانین اور قواعد پر عمل درآمد کرانا کس کی ذمہ داری ہے؟ اگر قانون موجود ہے اور اُس پر عمل درآمد نہیں ہورہا تو عدالتیں خاموش تماشائی کیوں بنی ہوئی ہیں؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ جن بچوں کا استحصال ہو رہا ہے‘اُن کا تعلق صرف اور صرف غربت زدہ نچلے طبقات سے ہے!
کم سنی میں بچوں کی شادیاں بھی ایک ایسا موضوع ہے جس پر بچوں کے حقوق کے لئے کام کرنے والے زیادہ توجہ چاہتے ہیں اور اُن کا مطالبہ ہے کہ قانون سازی کے ذریعے ایسی شادیوں پر پابندی عائد کی جائے۔ نوعمر بچوں کا سکولوں سے باہر ہونا شرح خواندگی میں کمی اور مستقبل کے مسائل کی نشاندہی کرتا ہے۔ پانچ سے نو سال کی عمر کے ڈھائی کروڑ پاکستانی بچے سکولوں سے باہر ہیں! یاد رہے کہ سکول جیسی نعمت سے محروم بچوں کی تعداد کے لحاظ سے پاکستان عالمی سطح پر دوسرے نمبر پر ہے! رپورٹ کے مطابق پاکستان پیدائشی بچوں کی اموات کی شرح 2013ء میں ایک ہزار میں چھیاسی تھی لیکن یہ شرح ’ملینیئم ڈیویلپمنٹ گولز‘ کے تحت ایک ہزار پیدائش میں 52بچوں کے ہدف سے کافی دور ہے۔ سال 2014ء کے اختتام تک چاروں صوبوں کے حراستی مراکز میں نابالغ مجرموں کل تعداد ایک ہزار چار سو چھپن تھی‘ ان میں سے بڑی اکثریت مقدمات کا سامنا کررہے تھے۔ قیدی بچوں کی سب سے زیادہ تعداد پنجاب میں 757تھی‘ اس کے بعد خیبر پختونخوا میں 301‘ سندھ میں 291 اُور صوبہ بلوچستان میں 107تھی۔
پاکستان سے متعلق عالمی ادارۂ محنت (آئی ایل اُو) کے اعدادوشمار بھی زیادہ کہنا ہے کہ پاکستان میں ایک کروڑ پچیس لاکھ بچے کسی نہ کسی صورت میں مزدوری کرتے ہیں جبکہ یونیسیف کا تخمینہ ہے کہ ایک کروڑ بچے 2012ء میں مزدوری کرنے پر مجبور ہیں۔ رپورٹ کے مطابق سکول سے باہر بچوں اور محنت مشقت و مزدوری پر مجبور خاندانوں کی بڑی تعداد کی وجہ سے بہت سے بچے بے ہنرافرادی قوت میں متحرک کردار ادا کررہے ہیں جبکہ محتاط اندازے کے مطابق محنت کرنے والے کم عمر بچوں میں ڈھائی لاکھ سے زیادہ بچے بطور گھریلو ملازمین غیرمحفوظ ماحول میں کام کررہے ہیں اور ایسی کوئی قانون سازی موجود نہیں جس کے ذریعے کم عمر بچوں سے مشقت لینے والوں کو اپنا طرزعمل تبدیل کرنے پر مجبور کیا جاسکے۔ یاد رہے کہ سال 2013ء میں گھریلو ملازمین پر تشدد کل اکیس کیسیز رپورٹ کیے گئے تھے‘ جن میں سے آٹھ بچوں کی اموات ہوگئی تھیں!
غیرسرکاری تنظیمیں ایک عرصے سے ایسی رپورٹیں شائع کرتی ہیں جن میں بچوں‘ خواتین اور معاشرے کے دیگر کمزور طبقات کے خلاف ہونے والے جرائم کا ذکر ہوتا ہے جنہیں سن سن کر فیصلہ سازوں کے کان پک چکے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ آئندہ برس بھی زیادہ بھیانک اُور مایوس کن حقائق پر مشتمل سالنامہ جاری ہوگا‘ جس کے بارے میں ذرائع ابلاغ میں اظہار خیال بھی ہوگا لیکن بچوں کو تحفظ دینے سے متعلق قوانین اور قواعد پر عمل درآمد کرانا کس کی ذمہ داری ہے؟ اگر قانون موجود ہے اور اُس پر عمل درآمد نہیں ہورہا تو عدالتیں خاموش تماشائی کیوں بنی ہوئی ہیں؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ جن بچوں کا استحصال ہو رہا ہے‘اُن کا تعلق صرف اور صرف غربت زدہ نچلے طبقات سے ہے!
![]() |
Children Status Report about Pakistan |
No comments:
Post a Comment