Wednesday, April 29, 2015

Apr2015: Measures to avoid cyclone

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
تفکرات
ایک کے بعد ایک اِمتحان۔ ایک کے بعد ایک زیادہ بڑی مشکل۔ ’’منیرؔ مجھ کو اک اُور دریا کا سامنا تھا۔۔۔میں ایک دریا کے پار اُترا‘ تو میں نے دیکھا!‘‘ پشاور پر نازل ہونے والی ہر ایک قدرتی آفت زیادہ جانی و مالی نقصان کا سبب بنتی ہے کیونکہ ہم اپنے ماضی سے سبق نہیں سیکھتے اور مستقبل پر نظر نہیں رکھتے! ہماری منتخب نمائندوں سے وابستہ توقعات پوری نہیں ہو رہیں تو ایسی کوئی درخشاں مثال ہمیں ماضی میں بھی ڈھونڈے سے نہیں ملتی‘ جس میں مگرمچھ کے آنسوؤں کا مقصد ذرائع ابلاغ کی تسلی و تشفی سے زیادہ نہ ہو! سرکاری وسائل اور اختیارات رکھنے والوں کے شب و روز کا اگر قریب سے مشاہدہ کیا جائے تو اُن کی ترجیحات سے یہ حقیقت واضح بھی ہو جاتی ہے کہ ’’شاخ در شاخ ظلم ڈھا کر بھی۔۔۔ آندھیاں معتبر نہیں ہوتیں!‘‘

پشاور سے ٹکرانے والے ’ہوائی بگولے‘ کی سائنسی تشریح یہ ہے کہ افغانستان کے راستے آنے والی ہواؤں کا ملاپ جبکہ قدرے گرم اور معتدل موسم سے ہوا‘ تو اُن کے مزاج میں سختی آگئی‘‘ لیکن ہمارے ہاں ماحولیاتی درجۂ حرارت زیادہ ہونے کی وجوہات کا ایک تعلق شہری علاقوں میں رہنے والوں کے طرز معاشرت و رہن سہن سے بھی ہے۔ مثال کے طور پر ہم سردیوں میں گرم کپڑے پہننے کی بجائے گیس کے ہیٹر جلا کر پورا کمرہ گرم رکھتے ہیں۔ جس کے پاس جتنے مالی وسائل ہوتے ہیں وہ اُتنا ہی غیرمحتاط اور ’ماحول دشمن‘ زندگی بسر کرتا ہے۔ گرمیوں میں خیبرپختونخوا کے بالائی علاقوں (گلیات) میں مستقل ٹھکانہ بنانے والے اپنے پیچھے کوڑے کچرے کے ڈھیر اور جنگلی حیات کی قبریں چھوڑ جاتے ہیں۔ مچھروں اور کیڑے مکوڑے جن کی پہاڑی مقامات پر ماحولیاتی تنوع میں خاص اہمیت ہوتی ہے‘ اُن پر کیمیائی مادے چھڑکے جاتے ہیں۔ پلاسٹک کے شاپنگ بیگز اور اشیائے خوردونوش کے خالی ڈبے یہاں وہاں پھینک دینا تو جیسے نسل درنسل منتقل ہونے والی وراثت کا حصہ ہو! ماحول دوستی‘ ماحول شناسی سے مشروط ہے اور جب تک ہم اِس حقیقت کا ادراک نہیں کر لیتے‘ چاہے کہیں بھی گزربسر کریں‘ ہماری وجہ سے دوسرے بھی قدرتی آفات کے نرغے میں آتے رہیں گے۔

تیز ہوا‘ آندھی اور موسلادھار بادوباراں کے سامنے شاہراؤں کے کنارے نصب قدآور ’اشتہاری اعلانات (بل بورڈز)‘ بھی نہ ٹھہر سکے! اِس سلسلے میں پشاور کے ترقیاتی ادارے (پی ڈی اے) نے ایک ضابطۂ اخلاق مرتب کررکھا ہے‘ جس پر عمل درآمد کرانے کی ضرورت ہے۔ طوفان کی وجہ سے جو ’بل بورڈز‘ زمین بوس نہیں ہوئے اُن کی بنیادیں بُری طرح ہل چکی ہیں اور آئندہ کوئی کم شدت کا طوفان اُنہیں منہدم کر سکتا ہے۔ عمومی طور پر مصروف چوراہوں اور شاہراؤں کے کنارے یہ ’بل بورڈز‘ نصب کئے جاتے ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ توجہ حاصل کر سکیں۔ موجودہ حالات میں ضرورت اِس امر کی ہے کہ جی ٹی روڈ (این فائیو) سمیت پشاور شہر کے اندرونی بازاروں میں جابجا لگنے والے ’بل بورڈز‘ہٹائے جائیں جو ایک مستقل خطرہ اور سر پر لٹکنے والی تلوار جیسے ہیں۔

پشاور میں نکاسی آب کا نظام سنجیدہ اور فوری توجہ چاہتا ہے۔ مختلف ادوار میں بننے والی گلیاں اور سڑکیں اِس قدر بلندی پر بنائی گئیں ہیں اور تہہ در تہہ بلند ہوتی رہیں ہیں کہ رہائشگاہیں اور کاروباری مراکز نیچے رہ گئے ہیں۔ جی ٹی روڈ کی توسیع میں بھی اِس بات کا خیال نہیں رکھا گیا کہ ہشتنگری سے چغل پورہ تک کے علاقوں کے پانی کا بہاؤ کدھر جائے گا۔ سیٹھی ٹاؤن (خالصہ) کے علاقے اگرچہ نشیبی نہیں لیکن وہاں سے نکاسی آب ایک دیرینہ مسئلہ ہے۔ گلبہار‘ کوہاٹی چوک‘ چوک ناصر خان اور شعبہ چوک جیسے مصروف بازار بارش کی صورت تالاب کا منظر پیش کرنے لگتے ہیں کیونکہ زیرزمین نکاسی کے نظام (شاہی کھٹہ) پر قائم تجاوزات ختم نہیں کی جاسکیں۔ اُمید تھی کہ مرحلہ وار مہم میں بازاروں کے بعد قبرستانوں اور پھر شاہی کھٹے پر قائم ہونے والی تجاوزات ختم کی جائیں گی لیکن ضلعی انتظامیہ اور میونسپل حکام کی گرمجوشی اُور عزم مصلحتوں کا شکار ہوتا دکھائی دے رہا ہے (خدا کرے ایسا نہ ہو۔)

قدرتی آفات کے بارے میں ہمارا نصاب تعلیم معلومات سے خالی ہے۔ ماحول دوستی اور ماحولیاتی تنوع پر چند ایک اسباق کہیں نہ کہیں مل ہی جاتے ہیں لیکن کرۂ ارض کی بقاء و حیات کے ضامن ’زراعت اور موسم‘ جیسے موضوعات کو مستقل اور خاطرخواہ اہمیت و توجہ نہیں دی جارہی۔ اِس سلسلے میں ذرائع ابلاغ بھی یقیناًایک کلیدی کردار ادا کرسکتے ہیں (اور انہیں کرنا بھی چاہئے) کیونکہ محکمۂ موسمیات کے مطابق آنے والے دنوں میں مزید ایسے طوفان متوقع ہیں‘ جن کی شدت زیادہ بھی ہو سکتی ہے! تجویز ہے کہ ’سرسبزوشاداب پشاور‘ کے نام سے تحریک شروع کی جائے‘ جس میں ’گھر گھر ہریالی‘ کے اہداف مقرر کرکے (ممکنہ مقامات پر) شجرکاری اور گھریلو سطح (چھوٹے پیمانے) پر کاشتکاری کی سرپرستی و حوصلہ افزائی ہونی چاہئے۔ زرعی و موسمی شعبے میں تحقیق کرنے والے خود کو رضاکارانہ طور پر پیش کریں تاکہ ذرائع ابلاغ کے ذریعے عام آدمی تک یہ موضوع منتقل کیا جا سکے کہ ماحولیات کے تحفظ میں ہماری بقاء اور اِس کے توازن میں بگاڑ کسی بھی صورت نہ تو ہمارے حال اور نہ ہی ہماری آنے والی نسلوں کے حق میں مفید ثابت ہوگا۔
How do we save our environment & population

No comments:

Post a Comment