Monday, April 27, 2015

Apr2015: Cyclone hit Peshawar

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
تغافل
پاکستان کی تاریخ کا تیسرا بڑا ’ہوائی بگولے (سائیکلون)‘ چبھیس اور ستائیس اپریل کی درمیانی شب خیبرپختونخوا کے طول و عرض سمیت صوبائی دارالحکومت پشاور سے ٹکڑایا‘ اُور بڑے پیمانے پر تباہی و بربادی پھیلا دی‘ نتیجہ 45 افراد کی ہلاکتیں اور 200سے زائد افراد کے زخمی ہونے کی صورت ظاہر ہوا جس کے بارے میں قدرتی آفات کی ’بروقت اطلاع‘ اُور ’امدادی کاروائیاں‘ کرنے کے لئے ذمہ دار ادارے نے شام 7 بجکر 35 منٹ پر ہنگامی اطلاع جاری کی جبکہ طوفان ٹکرا چکا تھا۔ صوبائی وزیراِطلاعات کا بیان بھی ’آن دی ریکارڈ‘ ہے کہ ’’صوبائی حکومت کو اِس قدر شدت سے آنے والے طوفان کی قبل اَز وقت اِطلاع نہیں دی گئی۔‘‘ موسمی پیشنگوئی کرنے والے ادارے کے پشاور مرکز نے مزید چند روز بادوباران ہونے کی خبر دی ہے!

ایک سو دس کلومیٹر یا اِس سے زیادہ کی رفتار سے آنے والے ’ہوائی بگولے‘ نے اپنے پیچھے تباہی و بربادی کے علاؤہ 2 بنیادی سوالات چھوڑے ہیں۔ پہلا سوال موسمی پیشنگوئی کرنے والے اِدارے سے متعلق ہے کہ صوبائی اُور وفاقی سطح پر قائم ایک سے زیادہ اداروں اُور درجنوں موسمیاتی ماہرین کے تجربے کا عملی اِظہار کیوں دیکھنے میں نہیں آسکا۔ دوسرا سوال ہنگامی حالات میں بروقت اِمدادی کاروائیاں کرنے والے ادارے کی استعداد کا ہے۔ ’’ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں‘ ہر کام کرنے میں۔۔۔ مدد کرنی ہو اُس کی‘ یار کی ڈھارس بندھانا ہو ۔۔۔ بدلتے موسموں کی سیر میں دل کو لگانا ہو۔۔۔ ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں!‘‘ جب بھی ایسی کوئی قدرتی یا غیرقدرتی آفت ہمیں آ لیتی ہے تو سب سے زیادہ اِمدادی اِداروں سے وابستہ اہلکاروں کے ہاتھ پاؤں اور سانسیں پھول جاتی ہیں! معمول ہے کہ ہسپتالوں میں بستر‘ خون‘ علاج معالجے کے وسائل اُور ادویات کم پڑ جاتی ہیں۔ ایکسرے‘ سی ٹی اسکین‘ اِی سی جی‘ اِیم آر آئی اور تشخیص میں کام آنے والے دیگر تجزئیات (ٹیسٹ) کے جھنجھٹ میں پڑنے کی بجائے درد رفع کرنے والی ادویات کے انجکشن لگانے کے بعد بے ہوشی کی حالت میں مرہم پٹی کے ساتھ متاثرہ مریض کو جلدازجلد ہسپتال سے خارج کردیا جاتا ہے۔ یہ حکمت عملی بالکل ’ٹریفک پولیس‘ کے مشابہہ ہے‘ جن ایسی کسی ہنگامی صورتحال میں صرف اور صرف ٹریفک کا بہاؤ بہرحال بحال رکھنے سے زیادہ کچھ نہیں کرتے۔ ہسپتال انتظامیہ کی جانب سے زخمیوں اور مرنے والوں کے اِعدادوشمار جاری کئے جاتے ہیں جن کے مطابق ہلاک اور زخمیوں کی تعداد کے ساتھ جلی حروف میں وہ تعداد بھی درج ہوتی ہے جنہیں ’طبی اِمداد‘ دے کر فارغ کر دیا جاتا ہے۔ ’’اَگر ’مکمل علاج‘ سرکاری ہسپتالوں ہی میں ہونے لگے تو ڈاکٹروں کے نجی کلینک کیسے چلیں گے؟ نجی تجزیہ گاہوں میں لاکھوں روپے کی سرمایہ کاری کرنے والے کیا ’ہاتھ پر ہاتھ‘ دھر کر بیٹھ جائیں؟ ڈاکٹروں اُور ’ادویات فروشوں‘ کے درمیان اِستوار رشتے کیا دیکھتے دیکھتے ٹوٹ جائیں!‘‘

ماحول کی تبدیلی پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ چھبیس اپریل کی شام سے رات گئے تک ’ہوائی بگولہ‘ ایک دستک ہے۔ دو سال قبل سیالکوٹ اور 9 برس قبل سرگودھا میں آنے والی اسی قسم کے طوفان آ چکے ہیں۔ محکمۂ موسمیات کے مرکزی دفتر کے مطابق ’’خیبرپختونخوا میں آنے والے طوفان بادوباراں کی وجہ ’جنگلات کی کٹائی اُور فضائی آلودگی میں اضافہ ہے۔‘‘ یہی دو محرکات کی وجہ سے ’زرعی شعبے‘ پر بھی منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں‘ جو یکساں طور پر قابل تشویش امر ہے لیکن صوبائی حکومت کی ترجیحات میں سرفہرست نہیں۔ ماہرین موسمیات کو یقین ہے کہ آنے والے دنوں میں زیادہ شدت کے طوفان آئیں گے اور اگر ایسا ہوتا ہے تو اس کا نشانہ بھی خیبرپختونخوا ہی کے بالائی و میدانی ہوں گے! پاکستان میں ہوائی بگولوں کی تاریخ اور موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث مزید ایسے طوفانوں کے امکانات کا تقاضا یہ ہے کہ ماحول کے مزاج کو سمجھا جائے۔ قدرت کے مقرر کردہ ’ماحولیاتی توازن‘ پر اَثراَنداز ہونے والے افعال کو سمجھا جائے۔ صنعتی بستیوں کو ماحول دوست اور ماحول دشمن گیسیوں کے اخراج میں کمی لائی جائے۔ شجرکاری مہمات اپنی جگہ لیکن پہلے سے موجود جنگلات کی کٹائی کے عمل کو روکا جائے۔ لکڑی کے استعمال اور اس کی خریدوفروخت پر اضافی ٹیکس لگا کر لکڑی کی طلب و مانگ میں اضافے کے رجحان کی حوصلہ شکنی کی جا سکتی ہے۔ اگر ہم بدترین حالات کا سامنا کرنے کے لئے خود کو ذہنی و اسباب کے ساتھ تیار کر لیں تو یہی بہترین حکمت عملی ہوگی۔ اِس سلسلے میں جاپان کے تجربات سے فائدہ اُٹھایا جاسکتا ہے جہاں قدرتی آفات سے نمٹنے کے لئے بذریعہ کمپیوٹر پیشنگوئیاں کرنے کا طریقۂ کار اختیار کیا گیا ہے اور رواں ہفتے کئی ساحلی علاقوں سے دیہات کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا گیا ہے۔

پاکستان میں قدرتی آفات سے نمٹنے کے لئے جرمن حکومت کی حکمت عملیاں اور منصوبہ بندیوں و تجربات سے استفادہ کیا جاتا ہے جبکہ ہمارے حالات مختلف ہیں اور کوئی مضائقہ بھی نہیں کہ اگر قدرتی آفات سے نمٹنے کے لئے ایک سے زیادہ ممالک کے تجربات سے فائدہ اُٹھا لیا جائے۔ عوام یہ سوال پوچھنے کا حق رکھتے ہیں کہ قومی اور صوبائی سطح پر ہنگامی حالات سے نمٹنے کے لئے اداروں کا وجود تو ہے لیکن اُن کی جانب سے پیشنگوئی تاخیر سے کیوں جاری ہوئی؟ پھر اُس پیشنگوئی میں ’ہوائی بگولے‘ کا ذکر اور تیز ہوا کی رفتار و ممکنہ علاقوں کو لاحق خطرات کا ذکر کیوں نہیں کیا گیا؟ کیا قدرتی آفات سے نمٹنے کے لئے 2 کروڑ روپے سالانہ جیسی خطیر رقم خرچ کرنے سے سوائے چند درجن افراد کی ملازمتوں کے قوم کو کیا کچھ ملا ہے؟ ’’ہم نے مانا کہ تغافل نہ کرو گے لیکن۔۔۔خاک ہو جائیں گے ہم تم کو خبر ہونے تک!‘‘
Cyclone hit Peshawar and left 2 questions on our weather prediction system and disaster management

No comments:

Post a Comment