Sunday, May 10, 2015

May2015: Change by the use of technology

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
تبدیلی بذریعہ ٹیکنالوجی
پاکستان تحریک انصاف کی قیادت میں خیبرپختونخوا حکومت کا ’نیا خواب‘ پشاور کو قومی اُفق پر ایک نئی پہچان کے ساتھ متعارف کراتے ہوئے اُس بلند مقام پر فائز کرنا ہے‘ جہاں اِس کی قسمت اُور یہاں کے ہنرمندوں کی صلاحیتوں پر رشک کیا جائے۔ اس سلسلے میں آئی ٹی بورڈ‘ پشاور ٹو پوائنٹ زیرو (Peshawar 2.0) اُور عالمی بینک (World Bank) کے تعاون سے تین روزہ عالمی کانفرنس (Digital Youth Summit 2015) کا آغاز سات مئی کے روز وزیراعلیٰ پرویز خٹک کے خطاب سے ہوا‘ جنہوں نے اِس عزم کو دہرایا کہ صوبائی حکومت ’’ٹیکنالوجی کے شعبے اُور اِس سے وابستہ علوم میں تحقیق کی سرپرستی کے ساتھ اُن ہنرمندوں کی ہرممکن حوصلہ افزائی بھی جاری رکھے گی جو ’انفارمیشن ٹیکنالوجی‘ کو نت نئے تصورات سے روشناس کرا رہے ہیں۔‘‘ یقیناًزرخیز مٹی (تعلیم یافتہ نوجوانوں) کو نمی (حکومتی توجہ)‘ موافق آب و ہوا (مالی وسائل کی فراہمی) اُور سرپرستی (حوصلہ اَفزائی) کی ضرورت ہے‘ جس کے لئے سب سے پہلے تو صوبائی سطح پر ترقیاتی و غیرترقیاتی ترجیحات کا تعین کرتے وقت اِس بات کی گنجائش پیدا کرنا ہوگی کہ روائتی طرز حکمرانی میں ’ٹیکنالوجی‘ پر اِنحصار (کم سے کم) ایک درجہ بڑھایا جائے۔  ترقی یافتہ ممالک کی مثالیں موجود ہیں‘ جن کے مضبوط دفاعی نظام سے لیکر اقتصادی شعبوں کی کارکردگی حتی کہ صحت و تعلیم‘ ذرائع ابلاغ اُور تفریح تک کا انحصار اُور بوجھ افرادی قوت سے زیادہ ٹیکنالوجی نے اُٹھا رکھا ہے۔

 شفاف طرز حکمرانی کے قیام میں ’انفارمیشن ٹیکنالوجی‘ سے زیادہ موزوں کوئی دوسرا متبادل‘ یکساں مفید و قابل عمل حل اگر کوئی دوسرا ہو سکتا ہے تو وہ بھی ’کمپیوٹر اُور انٹرنیٹ‘ ہی کے وسائل پر منحصر ہوگا۔ بائیومیٹرک شناخت کے ذریعے شفاف انتخابات کے انعقاد جیسا ناممکن دکھائی دینے والا ہدف ہو یا تھانہ کچہری کے معاملات کی اصلاح‘ الغرض مالی و انتظامی بدعنوانیوں سے پاک ’طرز حکمرانی‘ بشمول حکومتی اِداروں اُور سرکاری وسائل کے ضیاع کو روکنے کے لئے اب اِس کے سوا کوئی دوسری صورت باقی ہی نہیں رہی لیکن یہ کہ ’معاملات مشینوں‘ کے سپرد کر دیئے جائیں!

وادئ پشاور کو ٹیکنالوجی کا ’صدر مقام (سلیکان ویلی)‘ بنانے کے لئے جاری کوششیں پہلی مرتبہ نہیں ہو رہیں بلکہ ماضی میں بھی ’آئی ٹی پارکس‘ کا قیام عمل میں لایا گیا لیکن جس انداز میں پورے ملک اور دنیا کے مختلف حصوں سے ’انفارمیشن ٹیکنالوجی‘ کے ماہرین ’#DYS15‘ کے لئے پشاور میں جمع ہوئے اُور اِس خالصتاً غیرسیاسی مقاصد کے لئے تعمیری و تخلیقی خیالات کا تبادلہ ہوا‘ اس کی نظیر ماضی میں نہیں ملتی۔ بنیادی طور پر یہ اِس نوعیت کی دوسری کوشش (کانفرنس) تھی‘ جس میں غیرملکی ماہرین اُور ’عالمی بینک‘ کے جیسے ادارے کی شرکت نے اِس کی معنویت میں بے حدوحساب اضافہ کیا ہے لیکن سرکاری خرچ پر قیام وطعام‘ آمدورفت اُور محض تین دن کے لئے نشستن‘ خوردن‘ برخاستن‘ کی حد تک فکروتفکر کی اُڑان کو نہ ہی محدود اور نہ ہی حسب ضرورت و حال دیکھنا چاہئے بلکہ خلاؤں پر نظر رکھنے والی عالمی مارکیٹ میں سافٹ وئر ڈویلپمنٹ‘ سیٹلائٹ کیمونیکیشن‘ موسم کی پیشنگوئی سے لیکر آن لائن اشیائے خوردونوش‘ اجناس اور ملبوسات جیسی بنیادی ضروریات وغیرہ کی خریدوفروخت‘ کلوزسرکٹ کیمروں سے لیکر سائبر سیکورٹی و ڈورن طیاروں جیسی دفاعی ضروریات‘ گھر بیٹھے کل وقتی یا جزوقتی (فری لانس) ملازمتوں کے امکانات یا انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبے میں ’ہنرمند کہلانے کے اصل تقاضوں اور اِس کے اصطلاحی مفہوم سے متعلق جدید تصورات کے بارے سوچ بچار ایک مسلسل اور جاری عمل رہنا چاہئے۔

جیسے کئی دیگر متعلقہ موضوعات کا باریکی سے احاطہ کیا گیا۔ ماہرین نے پرمغز مقالے پیش کئے اور سب سے بڑی بات پشاور کے باسیوں کو ’انفارمیشن ٹیکنالوجی‘ کی نئی جہتیں اُور تقاضے سمجھنے کا موقع میسر آیا۔ انٹرنیٹ سیکورٹی اُور نیٹ ورکنگ جیسے پیچیدہ و عملی علوم سے تعلق رکھنے والے ماہرین سے بالمشافہ ملنے اور تبادلہ خیال کا موقع ملا جس سے یقیناًفائدہ اُٹھایا جائے گا کیونکہ محض نصابی تعلیم ہی آج کے دور کی ضرورت نہیں بلکہ نت نئے تصورات روشناس کرانے اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے اطلاق سے ایک بہتر معاشرے کی تشکیل کرنے کے لئے ’مل بیٹھنے‘ اُور ’تبادلۂ خیال‘ کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔

 ’ڈیجیٹل یوتھ کانفرنس‘ آنکھیں کھول دینے کا ذریعہ تھی‘ جس کے ذریعے پشاور کے نوجوانوں کو ’انفارمیشن ٹیکنالوجی‘ کی وسعت اور اِس کے استعمال سے لامحدود امکانات کے بارے میں بہت کچھ ایسا بھی گہرائی سے جاننے کو ملا ہے‘ جس کے بارے میں اُن کی معلومات سطحی تھیں۔ مثال کے طور پر انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ذریعے کاروبار (آن لائن بزنس) کے نئے امکانات دلچسپی کا مرکز رہے۔ انٹرنیٹ سے ذوق و شوق رکھنے والے اِس ارتقائی عمل سے آشنا ہیں کہ ویب سائٹ ڈویلپمنٹ ’ایچ ٹی ایم ایل‘ سے کہیں درجے بلند ہو چکی ہے۔ ’اینڈرائڈ اُور ایپل‘ موبائل فونز‘ ٹیبلٹس اور تیزرفتار موبائل انٹرنیٹ (تھری جی‘ فور جی) متعارف ہونے کے بعد اِن شعبوں میں پروگرامرز کی خاص گنجائش ہنرمند افرادی قوت کے لئے کشش کا باعث ہیں اور یہی وجہ تھی کہ تین روزہ کانفرنس ’موبائل فونز‘ کے لئے سافٹ وئر کی تیاری کے مختلف مراحل اور موضوع پر ماہرین نے سیرحاصل بات چیت کی۔

ایک زمانہ وہ تھا جب ہر کسی کی خواہش ڈاکٹر یا انجنیئر بننے کی ہوتی۔ والدین بھی بچوں میں یہ عقیدہ راسخ کرنے کے لئے ابتدأ ہی سے ’ذہن سازی‘ کرتے کہ اُنہیں بڑا ہو کر انہی دو شعبوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہے لیکن ’انفارمیشن ٹیکنالوجی‘ سے آگاہ ہوئے بغیر چارہ نہیں رہا۔ ہم اُس دور کے شاید آخری عینی شاہد ہیں جب یہ بات فخر سے کہی جاتی ہے کہ ’’میں کمپیوٹر‘ موبائل سمارٹ فونز‘ انٹرنیٹ اور سماجی رابطہ کاری کے جھنجھٹ میں نہیں پڑتا‘‘ مستقبل میں ایسے نہ تو ایسے کسی معالج کا تصور ملے گا‘ جو انٹرنیٹ سے خائف ہو اور نہ ہی انجنیئرنگ کے شعبے میں ’انفارمیشن ٹیکنالوجی‘ سے بے رخی (تجاہل عارفانہ) اختیار کرنے والوں کی کوئی حیثیت ہوگی۔ ڈیزائن سے لے کر تعمیر تک عملی مراحل میں ٹیکنالوجی پر انحصار رفتہ رفتہ بڑھ رہا ہے اور وہ دن بھی دور نہیں جب فاصلاتی تعلیم کی ترقی یافتہ اشکال میں درس و تدریس اُور امتحانات کے لئے روائتی ’کلاس رومز‘ اُور پابندیوں کی ضرورت ہی نہ رہے۔ خیبرپختونخوا حکومت بالخصوص ’آئی ٹی بورڈ‘ کے جملہ اراکین‘ اور سب سے بڑھ کر ’عالمی بینک (ورلڈ بینک) کے فیصلہ ساز مبارکباد کے مستحق ہیں‘ جنہوں نے پشاور کے نوجوانوں کی صلاحیتوں پر بھروسہ کیا‘ صوبائی حکومت کے خلوص اور کوششوں کو سرخرو ہونے کا موقع فراہم کیا اور اگرچہ سیکورٹی خدشات موجود تھے اور اُنہیں بکتربند گاڑیوں میں سفر کرنا پڑا‘ لیکن اگر حالات کے بدلتے ہوئے تقاضوں کا بروقت ادراک کے بعد اِن کوششوں کو عملی جامہ پہنا دیا جاتا ہے‘ حکومتی سرپرستی محض تین دن کی کانفرنس تک محدود نہیں رہتی تو یقیناًوہ دن دور نہیں ہوگا جب ’پشاور ایک مرتبہ پھر امن کا گہوارہ بن جائے۔

 سردست ضرورت اِس امر کی بھی ہے کہ سرکاری تعلیمی کا معیار بہتر بنانے کے لئے ’انفارمیشن ٹیکنالوجی‘ کے وسائل میں ہرممکنہ اُور ہنگامی بنیادوں پر سرمایہ کاری کی جائے۔ بنیادی و ثانوی درسی و تدریسی سطح پر ’انفارمیشن ٹیکنالوجی‘ متعارف کرانے سے طلباء و طالبات کی حسب رجحانات‘ ذہن سازی ممکن ہے جس کے ثمرات ’ٹیک انقلاب‘ کی صورت ظاہر ہو سکتے ہیں‘ تاہم اِس کے لئے ’خواندہ اساتذہ‘ کی کمی پورا کرنے کے لئے ایک نسل کو اپنے خوابوں کی قربانی دینا ہوگی۔ تین روزہ کانفرنس کے جن شرکاء سے بات کرنے کا موقع ملا‘ اُن کی اکثریت نے معلم بن کر کسی سرکاری سکول سے وابستہ ہونے کے بارے میں نہ کبھی سوچا اُور نہ ہی تذبذب کے عالم میں ایسا کرنے پر رضامندی کا اظہار کیا۔

 ’انفارمیشن ٹیکنالوجی‘ کے عالمی و قومی افق پر پشاور طلوع ہو چکا ہے۔ نوجوان اِس طلوع ہونے والے سورج (اُمید) کی کرنیں ہیں‘ جنہیں اِس یقین کو تقویت دینے کے لئے زیادہ لگن و محنت کا مظاہرہ کرنا ہوگا کہ جنوب مشرق ایشیاء کے قدیم ترین زندہ تاریخی شہر ’’پشاور‘‘ کی شناخت کا ایک نیا حوالہ ’’انفارمیشن ٹیکنالوجی‘‘ بھی ہو سکتی ہے‘ جس سے ’’پشاور‘‘کی شہرت کو یقیناًچار چاند لگ سکتے ہیں۔

No comments:

Post a Comment