Saturday, May 9, 2015

May2015: Law for universities

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
حرف آخر!
ایک عرصے سے اعلیٰ تعلیمی اِداروں میں اِصلاحات کے لئے قانون سازی کی ضرورت محسوس کی جارہی تھی اُور اِس سلسلے میں مختلف شعبوں کے ماہرین کی جانب سے کئی ایک تجاویز یا غوروخوض کا نتیجہ بھی سامنے آ رہا تھا‘ جس کا مجموعہ بصورت ’خیبرپختونخوا جامعات کا ترمیمی قانون 2015ء‘ آٹھ مئی کو منظور کر لیا گیا ہے۔ بنیادی طور پر اِس مسودۂ قانون کی وجہ سے حکومت کو خیبرپختونخوا میں جامعات کے معاملات میں زیادہ عمل دخل کا قانونی اختیار مل گیا ہے۔ جب صوبائی اسمبلی میں کسی مسودۂ قانون کی منظوری دے جاتی ہے تو اُس وقت ’حزب اختلاف‘ کی طرف سے اُٹھائے جانے والے نکات کو زیادہ اہمیت دینے کی روایت موجود نہیں۔

 جامعات کے بارے مسودۂ قانون کے پیش ہونے سے منظوری تک کے مراحل پر رازداری حاوی رہی۔ منظوری کے لمحات میں جب موجود اراکین اسمبلی کی جانب سے ترامیم کے حوالے سے بات کرنے کی اجازت و توجہ چاہی گئی تو اُسے نظرانداز کر دیا گیا اور یہی وجہ رہی ہوگی کہ حزب اختلاف سے تعلق رکھنے والے اراکین صوبائی اسمبلی نے اِس قانون میں ترامیم احتجاجاً واپس لے لیں اور کچھ ترامیم تو ایسی بھی تھیں‘ جنہیں پیش کرنے والے اُس وقت ایوان میں موجود نہیں تھے لہٰذا ’جامعات کا ترمیمی قانون‘ کی منظوری کی راہ میں کوئی بھی اعتراض یا ترمیم رکاوٹ نہ بن سکی۔ حتمی قانون میں شامل کی گئیں کئی ایک ترامیم ایسی بھی ہیں‘ جو حزب اختلاف کی جانب سے پیش کی گئیں تھیں۔ یاد رہے کہ یہ مسودۂ قانون 17فروری کو صوبائی اسمبلی میں پیش کیا گیا تھا اور حتمی صورت میں جب اِسے منظور کیا گیا تو جن 7 ترامیم کو شامل کیا گیا ہے ان میں زیادہ تر حکومت سے تعلق رکھنے والے اراکین کی جانب سے تجویز کی گئیں تھیں۔

سب سے اہم بات یہ ہے کہ صوبائی حکومت کو وائس چانسلر کی تعیناتی میں زیادہ اختیار مل گیا ہے۔ طے یہ ہوا ہے کہ ہر یونیورسٹی کی ’اکیڈیمک ریسرچ کمیٹی‘ تین افراد کے نام تجویز کر کے حکومت کو ارسال کرے گی‘ جس پر حتمی رائے سیاسی حکومت کی ہوگی کہ وہ کسے وائس چانسلر بنانا چاہتی ہے۔ اِس مرحلۂ فکر پر 2012ء میں منظور کیا جانے والا ایک قانون بھی لائق توجہ ہے جو ’عوامی نیشنل پارٹی‘ کے دور حکومت میں منظور ہوا تھا اُور وائس چانسلر کے انتخاب کا یہی طریقۂ کار اُس وقت سے تجویز کیا گیا تھا کہ تین افراد میں سے کسی ایک کا انتخاب بطور وائس چانسلر کیا جائے۔ موجودہ قانون میں تعلیمی قابلیت کو شرط بنا دیا گیا ہے کہ صرف وہی شخص (مرد یا عورت) وائس چانسلر بن سکے گا یا گی جس کے پاس ’پی ایچ ڈی‘ یا اِس کے مساوی علم و تحقیق کی ڈگری (تعلیمی سند) ہوگی۔ جب فروری کے تیسرے ہفتے میں یہ مسودۂ قانون اسمبلی میں پیش کیا گیا تھا تب اِس کم سے کم تعلیمی اہلیت کی شرط اُس کا حصہ نہیں تھی۔ خوش آئند ہے کہ ’تعلیم کی اہمیت‘ کو سمجھ لیا گیا ہے۔ ماضی و حال میں تو وائس چانسلر کا انتخاب سیاسی بنیادوں پر کیا جاتا رہا ہے۔ جس کی حکومت اُسی سے تعلق رکھنے والا وائس چانسلر ہونا ایک معمول رہا ہے۔ مسودہ قانون کی چوتھی شق (کلاز فور) کے چھٹے جز (سب سیکشن چھ) میں کہا گیا ہے کہ وائس چانسلر کی تعیناتی تین برس کی مدت کے لئے ہوگی اور اُس کی تنخواہ مارکیٹ ریٹ کے مطابق مقرر کی جائے گی۔ اس سلسلے میں مزید جزئیات طے کرنے کا اختیار صوبائی حکومت کو سونپا گیا ہے۔ علاؤہ ازیں عہدوں پر اجارہ داری ختم کرنے کے لئے سرکاری جامعات کے وائس چانسلر دو مرتبہ سے زیادہ ایک عہدے پر تعینات نہیں رہ سکیں گے۔

خیبرپختونخوا اسمبلی میں منظوری سے قبل جامعات کے ترمیمی بل پر بحث و مباحثہ ہونا چاہئے تھا۔ یہ کوئی جوہری راز تو نہیں تھا جسے اِس قدر خفیہ رکھا گیا لیکن ہمارے ہاں قانون سازی کے حوالے سے بحث یا غوروخوض کی کوئی روایت نہیں ملتی۔ ضرورت اِس امر کی ہے کہ موجودہ صوبائی حکومت جس انداز اور رفتار سے قانون سازی کر رہی ہے‘ اس میں مختلف درجات پر مشاورت کی رسم متعارف کرانے میں کوئی مضائقہ نہیں اور اب بھی تاخیر نہیں ہوئی کہ موجودہ اور آئندہ ہونے والی قانون سازی سے قبل دوسروں کے مؤقف کو یکساں اہمیت دی جائے۔ چونکہ کوئی حرف‘ حرف آخر نہیں ہوتا اور زمین پر بننے والا کوئی بھی قانون خرابیوں سے پاک نہیں ہوتا لیکن اِسے حتی الواسع جامع بنانے کی دانستہ کوشش ضرور کی جا سکتی ہے اور ایسی کوشش ضرور کی جانی چاہئے۔

 اعلیٰ تعلیم کا شعبہ زیادہ توجہ چاہتا ہے‘ جہاں تعلیمی اداروں میں سیاسی سرگرمیوں کے منفی اثرات پر بھی غور ہونا چاہئے۔ جب سیاسی ترجیحات کی بنیاد پر وائس چانسلر کا انتخاب معمول بنا دیا گیا تو وہاں طلبہ کی کس طرح ترغیب دی جاسکتی ہے کہ وہ اپنی ذہنی و جسمانی صلاحیتیں‘ وقت جیسی قیمتی جنس زیادہ بامقصد اُور صحت مند سرگرمیوں میں خرچ کریں۔

اعلیٰ تعلیمی اداروں میں نصاب کے علاؤہ دیگر کتب سے تعلق اور کتب خانوں (لائبریریوں) کی رونقیں بڑھانے کے لئے دستیاب جدید ٹیکنالوجی کے زیادہ سے زیادہ استعمال پر بھی غور ہونا چاہئے۔ نئی قانون سازی سے منتخب نمائندوں نے جامعات پر زیادہ اختیارات تو حاصل کر لئے ہیں لیکن کیا اِس عمل سے وہ ’حسب وعدہ تبدیلی‘ آئے گی جس سے درس و تدریس‘ تحقیق و تقریر اُور تحریر کے عمل میں بہتری کا ہدف حاصل ہو پائے گا‘ جس کی کمی ایک عرصے سے محسوس کی جا رہی ہے؟

No comments:

Post a Comment