ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
مشتری ہوشیار باش
مشتری ہوشیار باش
ملک کے دیگر حصوں کی طرح خیبرپختونخوا میں بھی ’بلدیاتی انتخابات‘ کا نازک
مرحلہ درپیش ہے‘ جس میں ہر انتخابی اُمیدوار‘ ہر ممکنہ تشہیری وسائل کے
استعمال کو اپنا حق سمجھتا ہے لیکن حسب سابق اِس مرتبہ بھی ’خدمت کا عزم‘
رکھنے والے ویلیج کونسل‘ تحصیل یا ضلع کے کئی ایک اُمیدوار ایسے بھی ہیں جو
الیکشن کمیشن کی جانب سے اخراجات کی مقررہ حد کو خاطر میں نہیں لا رہے تو
کیا اِس پر آنکھیں بند کر لینی چاہیءں؟ ’آزاد‘ حیثیت اُور سیاسی جماعتوں کی
جانب سے نامزد اُمیدواروں کے درمیان تشہیری مہمات کا یہ مقابلہ اُس ضابطۂ
اخلاق کی کھلم کھلا خلاف ورزی (توہین) ہے‘ جو اِس قسم کے ہر عام انتخاب کے
موقع پر وضع کیا جاتا ہے لیکن اُس کا پاس نہ تو کیا جاتا ہے اور نہ ہی
کروایا جاتا ہے۔ ہمارے سیاسی کلچر کو اگر ایک جملے میں بیان کرنا مقصود ہو
تو وہ بس یہی ہے ’’جو جتنا زیادہ قانون‘ قواعد و ضوابط سے بالاتر ہے‘ وہی
اُتنا سیاسی ہے۔‘‘
صوبائی دارالحکومت پشاور میں آٹو رکشہ کی تعداد کم و بیش پچاس ہزار ہے‘ جن میں تیس ہزار رکشے تو ایک یونین کے جھنڈے تلے متحد بھی ہیں۔ بلدیاتی انتخابات کے موقع پر اِن تین پہیوں والے اُڑن کٹھولے کا استعمال اُمیدوار اپنی اپنی تشہیر کے لئے ڈٹ کر کرتے دکھائی دے رہے ہیں اور ایسا پہلی مرتبہ دیکھنے میں آیا ہے کہ آٹو رکشہ کا اِس طرح اور اِس قدر بڑے پیمانے پر استعمال کیا گیا ہو۔ کم وبیش ہر رکشے کی پشت پر اُمیدواروں کے پیغامات پر مبنی ’پینافلیکس پوسٹرز‘ چسپاں دکھائی دیتے ہیں‘ جن پر دھوپ بارش یا موسم اثرانداز نہیں ہوتے۔ پشاور کے ’آٹورکشہ‘ جنہیں شہر کے کسی بھی حصے میں دندناتے پھرنے کی کھلی اجازت ہے‘ سیاسی و سماجی رہنماؤں جیسی ہی صلاحیتیں اور حقوق رکھتے ہیں۔ اِن کے ’انجن‘ سے پیدا ہونے والا مخصوص شور‘ دھواں دار فضائی آلودگی میں اضافہ‘ نظم و ضبط و ٹریفک قواعد کی خلاف ورزی‘ ’کرایہ نامہ‘ کی حاجت نہ رکھنا اور حد رفتار کے ضوابط کی خلاف ورزی نہ کرنے میں یہ اپنی مثال آپ بلکہ خاص شہرت بھی رکھتے ہیں۔
ماضی میں ہوئے بلدیاتی اور قانون ساز اسمبلیوں کے انتخابات کے مقابلے اِس مرتبہ زیادہ بڑے پیمانے پر تشہیر کے لئے ’آٹو رکشہ‘ سے استفادہ کیا جارہا ہے‘ جس کے بارے میں الیکشن کمیشن کی جانب سے مقرر کردہ ضابطۂ اخلاق میں کوئی شق موجود نہیں۔ اسی طرح چند ایک بلدیاتی امیدواروں کی جانب سے موبائل فونز کے مختصر پیغامات (ایس ایم ایس) کا استعمال بھی ہورہا ہے لیکن فی الوقت اِس جانب زیادہ توجہ مرکوز نہیں اور اس کی کئی ایک وجوہات میں پاکستان ٹیلی کیمونیکشن اتھارٹی کی طرف سے زیادہ سے زیادہ یومیہ ’ایس ایم ایس‘ کی حد مقرر ہونا ہے‘ وگرنہ تو موبائل فون جو پہلے ہی کسی عذاب سے کم نہیں‘ اہل پشاور کے جان کو آ جاتا! اُمید کی جاسکتی ہے کہ آئندہ کسی انتخاب کا ضابطہ اخلاق مقرر کرنے کے موقع پر ارباب اختیار ضرور اس طرف بھی توجہ دیں گے کہ انتخابی اُمیدواروں کو آٹورکشہ سمیت موبائل فونز کے وسائل کا استعمال کرتے ہوئے کس حد تک تشہیر کرنے کا حق حاصل ہے۔
آٹو رکشہ پر پوسٹر چسپاں کرنے کے عوض ڈرائیور یا مالک کو رکشے کی مرمت اور ایندھن کے جملہ اخراجات ادا کئے جاتے ہیں۔ رکشہ ڈرائیور کے بقول ’آٹو رکشہ کی چھت اور باڈی کی مرمت کے اخراجات کے عوض پوسٹر چسپاں کیا گیا ہے‘ جبکہ ایسے آٹورکشہ بھی ہیں‘ جن کا تعلق خاص سیاسی جماعتوں سے ہے اور انہوں نے اپنے نظریاتی و سیاسی تعلق کی بنیاد پر بناء کسی مالی لالچ پوسٹر چسپاں کر رکھے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ اِس قسم کی تشہیری مہمات کم مالی وسائل رکھنے والے اُمیدواروں کے بس کی بات نہیں۔ یہ بات شک و شبے سے بالاتر ہے کہ جس اُمیدوار کی تشہیری مہم جتنی زیادہ ہوگی‘ وہ اُسی قدر رائے دہندگان (ووٹرز) پر اثرانداز ہونے کی صلاحیت رکھے گا۔ چار رنگوں میں کاغذی پوسٹروں‘ اسٹکرز اور پینافلیکس کے بینروں کا سائز الیکشن کمیشن کی جانب سے مقرر کردہ لمبائی چورائی کے مطابق ہونا ہی کافی نہیں بلکہ اِن کی ’’تعداد‘‘ پر بھی غور ہونا چاہئے اور الیکشن کمیشن کو ازخود اِس بات کا نوٹس لینا چاہئے کہ کون سا بلدیاتی اُمیدوار اخراجات میں کن حدوں کو چھو رہا ہے! اِس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کون زیادہ ووٹ حاصل کر کے کامیاب قرار پائے گا یا کون انتخاب میں ہار جائے گا لیکن اِس انتخابی عمل میں ہر اُمیدوار کو مساوی بنیادوں پر حصہ لینے کا حق ضرور حاصل ہونا چاہئے اور اِس حق کا تحفظ صرف اور صرف الیکشن کمیشن کی ذمہ داری بنتی ہے۔
مالی وسائل رکھنے والے یا دھونس کے ذریعے خاص بودوباش کے اُمیدوار اگر بلدیاتی انتخابات پر چھا جانے کی اہلیت رکھتے ہیں تو یہ امر کسی بھی صورت نہ تو خوش آئند قرار دیا جاسکتا ہے اور نہ ہی اِس کی حوصلہ افزائی ہونی چاہئے۔ معاشرے میں عمومی سطح پر اس قدر شعور عام تو نہیں ہوا کہ لوگ اِس قسم کے اخلاقی سوالات اُٹھائیں‘ سوچیں یا بحث کریں اُور نہ ہی عام آدمی کے پاس اتنی فرصت باقی بچی ہے کہ انتخابی اُمیدواروں کی جانب سے اُن پر مسلط ہونے کی کوشش کے خلاف الیکشن کمیشن کے روبرو شکایات کرتے پھریں۔ صاف و شفاف انتخابات کا انعقاد صرف ووٹ ڈالنے کی حد تک ہی محدود نہیں بلکہ الیکشن کمیشن کو اپنا کردار زیادہ فعال طور سے اَدا کرنا ہوگا‘ جس کے لئے ایک قدم آگے بڑھ کر اُن تمام قواعد و ضوابط پر عمل درآمد یقینی بنانا ہوگا‘ جو محض کاغذوں پر تحریر اور فائلوں کی حد تک محدود رہتے ہیں!
پشاور میں آٹو رکشہ کا انتخابی تشہیری مہمات کے لئے استعمال یوں تو ہر کوئی کر رہا ہے لیکن اِن میں اکثریت آزاد اُمیدواروں کی ہے۔ کئی جماعتوں کے آٹو رکشہ پولنگ کے دن تک یومیہ بنیادوں پر حاصل کر لئے ہیں جو ٹیکسی یا سوزوکی کے مقابلے کم خرچ طریقہ ہے۔ پشاور کی ’آٹورکشہ یونین‘ کے عہدیدار اپنی اپنی سیاسی و غیرسیاسی شخصی وابستگیوں کا حق بھی اِس موقع پر کھل کر ادا کررہے ہیں‘ لیکن سوال بدستور موجود ہے کہ انتخابات چاہے بلدیاتی ہوں یا قومی و صوبائی اسمبلیوں کے لئے‘ اِس میں کسی بھی حیثیت سے بطور اُمیدوار حصہ لینے والوں کو اُن کی مالی و سماجی حیثیت کے مطابق نہیں بلکہ مساوی بنیادوں پر اپنا پیغام عام کرنے کا موقع فراہم ہونا چاہئے۔ ’مشتری ہوشیار باش‘ اِس سلسلے میں الیکشن کے ضابطۂ اخلاق پر عمل ’تلقین‘ سے نہیں بلکہ تاکید و نگرانی سے ممکن بنایا جاسکتا ہے۔
صوبائی دارالحکومت پشاور میں آٹو رکشہ کی تعداد کم و بیش پچاس ہزار ہے‘ جن میں تیس ہزار رکشے تو ایک یونین کے جھنڈے تلے متحد بھی ہیں۔ بلدیاتی انتخابات کے موقع پر اِن تین پہیوں والے اُڑن کٹھولے کا استعمال اُمیدوار اپنی اپنی تشہیر کے لئے ڈٹ کر کرتے دکھائی دے رہے ہیں اور ایسا پہلی مرتبہ دیکھنے میں آیا ہے کہ آٹو رکشہ کا اِس طرح اور اِس قدر بڑے پیمانے پر استعمال کیا گیا ہو۔ کم وبیش ہر رکشے کی پشت پر اُمیدواروں کے پیغامات پر مبنی ’پینافلیکس پوسٹرز‘ چسپاں دکھائی دیتے ہیں‘ جن پر دھوپ بارش یا موسم اثرانداز نہیں ہوتے۔ پشاور کے ’آٹورکشہ‘ جنہیں شہر کے کسی بھی حصے میں دندناتے پھرنے کی کھلی اجازت ہے‘ سیاسی و سماجی رہنماؤں جیسی ہی صلاحیتیں اور حقوق رکھتے ہیں۔ اِن کے ’انجن‘ سے پیدا ہونے والا مخصوص شور‘ دھواں دار فضائی آلودگی میں اضافہ‘ نظم و ضبط و ٹریفک قواعد کی خلاف ورزی‘ ’کرایہ نامہ‘ کی حاجت نہ رکھنا اور حد رفتار کے ضوابط کی خلاف ورزی نہ کرنے میں یہ اپنی مثال آپ بلکہ خاص شہرت بھی رکھتے ہیں۔
ماضی میں ہوئے بلدیاتی اور قانون ساز اسمبلیوں کے انتخابات کے مقابلے اِس مرتبہ زیادہ بڑے پیمانے پر تشہیر کے لئے ’آٹو رکشہ‘ سے استفادہ کیا جارہا ہے‘ جس کے بارے میں الیکشن کمیشن کی جانب سے مقرر کردہ ضابطۂ اخلاق میں کوئی شق موجود نہیں۔ اسی طرح چند ایک بلدیاتی امیدواروں کی جانب سے موبائل فونز کے مختصر پیغامات (ایس ایم ایس) کا استعمال بھی ہورہا ہے لیکن فی الوقت اِس جانب زیادہ توجہ مرکوز نہیں اور اس کی کئی ایک وجوہات میں پاکستان ٹیلی کیمونیکشن اتھارٹی کی طرف سے زیادہ سے زیادہ یومیہ ’ایس ایم ایس‘ کی حد مقرر ہونا ہے‘ وگرنہ تو موبائل فون جو پہلے ہی کسی عذاب سے کم نہیں‘ اہل پشاور کے جان کو آ جاتا! اُمید کی جاسکتی ہے کہ آئندہ کسی انتخاب کا ضابطہ اخلاق مقرر کرنے کے موقع پر ارباب اختیار ضرور اس طرف بھی توجہ دیں گے کہ انتخابی اُمیدواروں کو آٹورکشہ سمیت موبائل فونز کے وسائل کا استعمال کرتے ہوئے کس حد تک تشہیر کرنے کا حق حاصل ہے۔
آٹو رکشہ پر پوسٹر چسپاں کرنے کے عوض ڈرائیور یا مالک کو رکشے کی مرمت اور ایندھن کے جملہ اخراجات ادا کئے جاتے ہیں۔ رکشہ ڈرائیور کے بقول ’آٹو رکشہ کی چھت اور باڈی کی مرمت کے اخراجات کے عوض پوسٹر چسپاں کیا گیا ہے‘ جبکہ ایسے آٹورکشہ بھی ہیں‘ جن کا تعلق خاص سیاسی جماعتوں سے ہے اور انہوں نے اپنے نظریاتی و سیاسی تعلق کی بنیاد پر بناء کسی مالی لالچ پوسٹر چسپاں کر رکھے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ اِس قسم کی تشہیری مہمات کم مالی وسائل رکھنے والے اُمیدواروں کے بس کی بات نہیں۔ یہ بات شک و شبے سے بالاتر ہے کہ جس اُمیدوار کی تشہیری مہم جتنی زیادہ ہوگی‘ وہ اُسی قدر رائے دہندگان (ووٹرز) پر اثرانداز ہونے کی صلاحیت رکھے گا۔ چار رنگوں میں کاغذی پوسٹروں‘ اسٹکرز اور پینافلیکس کے بینروں کا سائز الیکشن کمیشن کی جانب سے مقرر کردہ لمبائی چورائی کے مطابق ہونا ہی کافی نہیں بلکہ اِن کی ’’تعداد‘‘ پر بھی غور ہونا چاہئے اور الیکشن کمیشن کو ازخود اِس بات کا نوٹس لینا چاہئے کہ کون سا بلدیاتی اُمیدوار اخراجات میں کن حدوں کو چھو رہا ہے! اِس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کون زیادہ ووٹ حاصل کر کے کامیاب قرار پائے گا یا کون انتخاب میں ہار جائے گا لیکن اِس انتخابی عمل میں ہر اُمیدوار کو مساوی بنیادوں پر حصہ لینے کا حق ضرور حاصل ہونا چاہئے اور اِس حق کا تحفظ صرف اور صرف الیکشن کمیشن کی ذمہ داری بنتی ہے۔
مالی وسائل رکھنے والے یا دھونس کے ذریعے خاص بودوباش کے اُمیدوار اگر بلدیاتی انتخابات پر چھا جانے کی اہلیت رکھتے ہیں تو یہ امر کسی بھی صورت نہ تو خوش آئند قرار دیا جاسکتا ہے اور نہ ہی اِس کی حوصلہ افزائی ہونی چاہئے۔ معاشرے میں عمومی سطح پر اس قدر شعور عام تو نہیں ہوا کہ لوگ اِس قسم کے اخلاقی سوالات اُٹھائیں‘ سوچیں یا بحث کریں اُور نہ ہی عام آدمی کے پاس اتنی فرصت باقی بچی ہے کہ انتخابی اُمیدواروں کی جانب سے اُن پر مسلط ہونے کی کوشش کے خلاف الیکشن کمیشن کے روبرو شکایات کرتے پھریں۔ صاف و شفاف انتخابات کا انعقاد صرف ووٹ ڈالنے کی حد تک ہی محدود نہیں بلکہ الیکشن کمیشن کو اپنا کردار زیادہ فعال طور سے اَدا کرنا ہوگا‘ جس کے لئے ایک قدم آگے بڑھ کر اُن تمام قواعد و ضوابط پر عمل درآمد یقینی بنانا ہوگا‘ جو محض کاغذوں پر تحریر اور فائلوں کی حد تک محدود رہتے ہیں!
پشاور میں آٹو رکشہ کا انتخابی تشہیری مہمات کے لئے استعمال یوں تو ہر کوئی کر رہا ہے لیکن اِن میں اکثریت آزاد اُمیدواروں کی ہے۔ کئی جماعتوں کے آٹو رکشہ پولنگ کے دن تک یومیہ بنیادوں پر حاصل کر لئے ہیں جو ٹیکسی یا سوزوکی کے مقابلے کم خرچ طریقہ ہے۔ پشاور کی ’آٹورکشہ یونین‘ کے عہدیدار اپنی اپنی سیاسی و غیرسیاسی شخصی وابستگیوں کا حق بھی اِس موقع پر کھل کر ادا کررہے ہیں‘ لیکن سوال بدستور موجود ہے کہ انتخابات چاہے بلدیاتی ہوں یا قومی و صوبائی اسمبلیوں کے لئے‘ اِس میں کسی بھی حیثیت سے بطور اُمیدوار حصہ لینے والوں کو اُن کی مالی و سماجی حیثیت کے مطابق نہیں بلکہ مساوی بنیادوں پر اپنا پیغام عام کرنے کا موقع فراہم ہونا چاہئے۔ ’مشتری ہوشیار باش‘ اِس سلسلے میں الیکشن کے ضابطۂ اخلاق پر عمل ’تلقین‘ سے نہیں بلکہ تاکید و نگرانی سے ممکن بنایا جاسکتا ہے۔
![]() |
For campaign auto rickshaws used in Peshawar while violation of the code of conduct is another concern but the ECP officials |
No comments:
Post a Comment