ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
قابل قبول دھاندلی
قابل قبول دھاندلی
ایک سے بڑھ کر ایک عجیب اور نئی بات ’پاکستان کے سیاسی منظرنامے‘ کاخاصہ
ہے جس سے ہر کوئی اپنی اپنی ذہنی صلاحیت‘ ظرف‘ مطالعے اور بصیرت کے مطابق
محظوظ ہو سکتا ہے۔ مئی دو ہراز تیرہ کے ’عام انتخابات‘ میں ہوئی ’مبینہ
دھاندلی‘ کی تحقیقات کرنے کے لئے ’جوڈیشل کمیشن‘ اور قوم کی عدالتوں میں
الگ الگ مقدمات زیرسماعت ہیں۔
اصولی طور پر ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ 1: جوڈیشل کمیشن کی تشکیل کے بعد سیاسی رہنما ذرائع ابلاغ میں اِس معاملے سے متعلق بیان بازی سے گریز کرتے۔ ایسے ماہرانہ ٹاک شوز کی زینت نہ بنتے جو اپنے پروگراموں کی مقبولیت کے لئے اُس بال کی کھال اُتارنے کی کوشش کرتے ہیں‘ جس کا اکثر وجود ہی نہیں ہوتا۔ 2: ’عام انتخابات‘ میں ہوئی ’مبینہ دھاندلی‘ کے حوالے سے جس کسی کے پاس جتنے ثبوت بھی تھے اُنہیں صرف اور صرف ’جوڈیشل کمیشن‘ کے سامنے پیش کیا جاتا۔ اس بات پر پابندی ہوتی کہ جب تک جوڈیشل کمیشن کوئی فیصلہ نہیں کرلیتا‘ اِس موضوع پر کسی دوسرے پلیٹ فارم پر بات نہ کی جائے اُور 3: بیان بازی اُور اجتماعات میں معاملے کو اچھال کر اپنے سیاسی فائدہ لینے اور عوام کے جذبات سے کھیلنے کی بجائے ایک دھاندلی جیسی ایک تکنیکی اُلجھن کو خالصتاً تکنیک ہی سے سلجھایا جاتا لیکن صورتحال اِس کے قطعی برعکس ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے قومی اسمبلی کے حلقہ 122کے بارے میں ’نیشنل ڈیٹابیس اینڈ رجسٹریشن اتھارتی (نادرا)‘ کی ایک رپورٹ ذرائع ابلاغ کے سامنے لہرا کر پیش کی‘ جس میں 30 ایسے پولنگ اسٹیشنوں کا ذکر موجود تھا‘ جن کو ایک جیسے نمبر دیئے گئے تھے۔ اُن کا کہنا تھا کہ ایک ہی نمبر رکھنے والے ڈھائی درجن پولنگ اسٹیشن ایسے ’دریافت‘ ہوئے جہاں ڈالے گئے ووٹ عام انتخابات میں ہوئی کھلم کھلا دھاندلی کی نشاندہی کرتے ہیں لیکن نادرا ترجمان کی جانب سے فوری طور پر وضاحت سامنے آ گئی کہ یہ تاثر بے بنیاد ہے کہ تیس پولنگ اسٹیشن ایک جیسے نمبروں پر مشتمل تھے اور تحریک انصاف کی جانب سے جو کچھ بھی بیان کیا گیا ہے‘ اس کا حقیقت یا نادرا سے کوئی تعلق نہیں۔
عجیب صورتحال ہے کہ مئی دوہزار تیرہ کے عام انتخابات سے متعلق دو الگ الگ محاذوں پر تحقیقات ہو رہی ہیں۔ ایک تو بند کمرے میں جوڈیشل کمیشن کے اراکین سرجوڑ کر بیٹھے ہیں اور باریک بینی سے معاملے کی ہر ایک پرت کو اُٹھا اُٹھا کر دیکھ رہے ہیں اور دوسری طرف ذرائع ابلاغ کے ذریعے پوری قوم دوہزار تیرہ کے عام انتخابات کے بارے میں ایک ذہن بنائے بیٹھی ہے کہ دھاندلی ہوئی یا نہیں ہوئی۔ یہ صورتحال انصاف تک رسائی کے عمل کی راہ میں بڑی رکاوٹ اور اِس بات کی نشاندہی کر رہا ہے کہ بحیثیت قوم ہم نہ تو منظم ہیں اور نہ مہذب۔ ہماری سیاسی قیادت چاہے وہ حکمراں ہو یا حزب اختلاف خاطرخواہ سیاسی بالغ النظری کا مظاہرہ نہیں کر رہی۔ غیرمحتاط بیانات داغنا اور پھر اپنے بیانات سے مکر جانا ہمارے سیاستدانوں کا ’محبوب مشغلہ‘ ہے اگر ایسا نہ ہوتا تو مئی دوہزار تیرہ کے عام انتخابات کے بارے میں خود مسلم لیگ (نواز) کے یہ بیانات برائے حوالہ پیش نہ کئے جاتے کہ ’’۔۔۔گیارہ مئی دوہزار تیرہ کے روز ہوئی پولنگ میں دھاندلی ہوئی تھی!‘‘ کم و بیش سبھی سیاسی جماعتوں نے کسی نہ کسی مرحلے پر اُن عام انتخابات کی شفافیت اور نتائج پر سوال اُٹھایا (اعتراض کیا)‘ جن کی نگرانی کرنے والے آزاد و غیرسرکاری ایک سے زیادہ ادارے (فیفان اور پلڈاٹ) نے مجموعی طور پر اِن انتخابات کے ’حاصل‘ کو تسلی بخش قرار دیا تھا۔
پاکستان کی سبھی سیاسی جماعتوں میں جن نکات پر ’ملا جلا اتفاق رائے‘ پایا جاتا ہے وہ یہ ہیں کہ ۔۔۔ 1: ہمارے ہاں بناء دھاندلی عام انتخابات کا انعقاد ممکن ہی نہیں۔ 2: جس کسی کا جہاں بس چلتا ہے وہ قومی یا صوبائی حتیٰ کہ سینیٹ کے لئے ہونے والے انتخابی عمل میں بھی دھاندلی ضرور کرتا ہے۔ 3: عام انتخابات کے دن کہیں منظم تو کہیں اِکا دُکا دھاندلی ہونا معمول ہے اُور 4: پاکستان میں کوئی ایک بھی ایسا انتخاب نہیں ہوا‘ جس میں کسی نہ کسی درجے کی دھاندلی نہ ہوئی ہو۔ تو جہاں دھاندلی کے بارے میں اِس قدر واضح اور فیصلہ کن ’وزنی‘ رائے موجود ہو وہاں دھاندلی کو دل کی طرح زبان سے قبول کرنے میں کوئی حرج و قباحت نہیں ہونی چاہئے اور ہر سیاسی جماعت اپنے اپنے انتظامی ڈھانچے میں ایک ایک ’دھاندلی ونگ‘ کا بھی اضافہ کرلے تو کیا عجب ہے تاکہ آئندہ اُس کی حق تلفی کا امکان ہی باقی نہ رہے۔ جس سیاسی جماعت کا ’دھاندلی ونگ‘ جتنا مضبوط‘ منظم و فعال اُور شاطر ہوگا‘ وہی دوسرے پر برتری لے جائے گا۔ یوں آئے روز کی تکرار سے وقت ضائع نہیں ہوگا اُور قوم تذبذب و تفکرات کا شکار ہو کر تقسیم بھی دکھائی نہیں دے گی کہ ’نادیدہ قوتوں‘ نے اُس کے منڈیٹ کو چوری کر لیا ہے! سیاسی جماعتوں میں پائے جانے والے اختلافات ختم کرنے کا بھی یہی ایک حل باقی بچا ہے کہ ہر کوئی اپنی اپنی بساط کے مطابق دھاندلی کرے۔
سینیٹ جانز ہائی سکول (اندرون کوہاٹی گیٹ پشاور) میں انگریزی زبان کے معلم دراز قد‘ ماسٹر اسٹیفن کی یاد آ رہی ہے جن کی خاصیت یہ تھی کہ وہ مثالوں کے عرق میں باتوں کو گھول کر نصاب کے خشک اسباق سے متعلق اِس طرح درس دیتے کہ طالبعلموں کو رٹہ لگانے یا شام کے اوقات میں ٹیوشن سنٹر جانے کی حاجت یا ضرورت ہی پیش نہ آتی۔ اُن کے تدریسی اسلوب کی ایک خوبی یہ بھی تھی کہ وہ نہایت ہی شفیق اور طالبعلموں سے گھل مل جایا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ اُن کی نگرانی امتحانی ہال میں مقرر کی گئی اُور وہ جیسے ہی ہال میں داخل ہوئے تو بلند آواز میں کہا ۔۔۔ ’’سب کو آج نقل کرنے کی کھلی اجازت ہے۔‘‘ ابھی اُن کی بات مکمل بھی نہیں ہوئی تھی کہ مرجھائے ہوئے چہروں پر حیرت و خوشی دوڑ گئی۔ ہال تالیوں سے گونج اُٹھا لیکن فوراً ہی اُنہوں نے اپنی بات یہ کہہ کر مکمل کر دی کہ ’’۔۔۔ہاں نقل کرنے کی اجازت ہے لیکن یہ عمل مجھے نظر نہ آئے۔‘‘ الیکشن کمیشن آف پاکستان کو بھی دھاندلی کرنے کی مشروط اجازت مرحمت فرما دینی چاہئے تاکہ ’’آئندہ عام اتنخابات میں کسی بھی سیاسی جماعتوں کو دھاندلی کی شکایت نہ ہو لیکن شرط یہ ہونی چاہئے کہ (موجودہ صورتحال کے برعکس) دھاندلی جملہ انتخابی عملے (بشمول ریٹرنگ آفیسرز) کو نظر نہ آئے۔‘‘
جمہوریت کا استحکام‘ پاکستان کی خوشحالی اور طرزحکمرانی کی اصلاح شفاف طریقے سے کرائے گئے عام انتخابات کے بناء ممکن ہی نہیں۔ اِس مرحلۂ فکر پر عام آدمی (ووٹر) کی بیداری بھی اشد ضروری ہے‘ جسے اپنے ووٹ کی صرف قیمت کا ہی نہیں بلکہ اہمیت کا بھی کماحقہ اِحساس ہونا چاہئے۔
اصولی طور پر ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ 1: جوڈیشل کمیشن کی تشکیل کے بعد سیاسی رہنما ذرائع ابلاغ میں اِس معاملے سے متعلق بیان بازی سے گریز کرتے۔ ایسے ماہرانہ ٹاک شوز کی زینت نہ بنتے جو اپنے پروگراموں کی مقبولیت کے لئے اُس بال کی کھال اُتارنے کی کوشش کرتے ہیں‘ جس کا اکثر وجود ہی نہیں ہوتا۔ 2: ’عام انتخابات‘ میں ہوئی ’مبینہ دھاندلی‘ کے حوالے سے جس کسی کے پاس جتنے ثبوت بھی تھے اُنہیں صرف اور صرف ’جوڈیشل کمیشن‘ کے سامنے پیش کیا جاتا۔ اس بات پر پابندی ہوتی کہ جب تک جوڈیشل کمیشن کوئی فیصلہ نہیں کرلیتا‘ اِس موضوع پر کسی دوسرے پلیٹ فارم پر بات نہ کی جائے اُور 3: بیان بازی اُور اجتماعات میں معاملے کو اچھال کر اپنے سیاسی فائدہ لینے اور عوام کے جذبات سے کھیلنے کی بجائے ایک دھاندلی جیسی ایک تکنیکی اُلجھن کو خالصتاً تکنیک ہی سے سلجھایا جاتا لیکن صورتحال اِس کے قطعی برعکس ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے قومی اسمبلی کے حلقہ 122کے بارے میں ’نیشنل ڈیٹابیس اینڈ رجسٹریشن اتھارتی (نادرا)‘ کی ایک رپورٹ ذرائع ابلاغ کے سامنے لہرا کر پیش کی‘ جس میں 30 ایسے پولنگ اسٹیشنوں کا ذکر موجود تھا‘ جن کو ایک جیسے نمبر دیئے گئے تھے۔ اُن کا کہنا تھا کہ ایک ہی نمبر رکھنے والے ڈھائی درجن پولنگ اسٹیشن ایسے ’دریافت‘ ہوئے جہاں ڈالے گئے ووٹ عام انتخابات میں ہوئی کھلم کھلا دھاندلی کی نشاندہی کرتے ہیں لیکن نادرا ترجمان کی جانب سے فوری طور پر وضاحت سامنے آ گئی کہ یہ تاثر بے بنیاد ہے کہ تیس پولنگ اسٹیشن ایک جیسے نمبروں پر مشتمل تھے اور تحریک انصاف کی جانب سے جو کچھ بھی بیان کیا گیا ہے‘ اس کا حقیقت یا نادرا سے کوئی تعلق نہیں۔
عجیب صورتحال ہے کہ مئی دوہزار تیرہ کے عام انتخابات سے متعلق دو الگ الگ محاذوں پر تحقیقات ہو رہی ہیں۔ ایک تو بند کمرے میں جوڈیشل کمیشن کے اراکین سرجوڑ کر بیٹھے ہیں اور باریک بینی سے معاملے کی ہر ایک پرت کو اُٹھا اُٹھا کر دیکھ رہے ہیں اور دوسری طرف ذرائع ابلاغ کے ذریعے پوری قوم دوہزار تیرہ کے عام انتخابات کے بارے میں ایک ذہن بنائے بیٹھی ہے کہ دھاندلی ہوئی یا نہیں ہوئی۔ یہ صورتحال انصاف تک رسائی کے عمل کی راہ میں بڑی رکاوٹ اور اِس بات کی نشاندہی کر رہا ہے کہ بحیثیت قوم ہم نہ تو منظم ہیں اور نہ مہذب۔ ہماری سیاسی قیادت چاہے وہ حکمراں ہو یا حزب اختلاف خاطرخواہ سیاسی بالغ النظری کا مظاہرہ نہیں کر رہی۔ غیرمحتاط بیانات داغنا اور پھر اپنے بیانات سے مکر جانا ہمارے سیاستدانوں کا ’محبوب مشغلہ‘ ہے اگر ایسا نہ ہوتا تو مئی دوہزار تیرہ کے عام انتخابات کے بارے میں خود مسلم لیگ (نواز) کے یہ بیانات برائے حوالہ پیش نہ کئے جاتے کہ ’’۔۔۔گیارہ مئی دوہزار تیرہ کے روز ہوئی پولنگ میں دھاندلی ہوئی تھی!‘‘ کم و بیش سبھی سیاسی جماعتوں نے کسی نہ کسی مرحلے پر اُن عام انتخابات کی شفافیت اور نتائج پر سوال اُٹھایا (اعتراض کیا)‘ جن کی نگرانی کرنے والے آزاد و غیرسرکاری ایک سے زیادہ ادارے (فیفان اور پلڈاٹ) نے مجموعی طور پر اِن انتخابات کے ’حاصل‘ کو تسلی بخش قرار دیا تھا۔
پاکستان کی سبھی سیاسی جماعتوں میں جن نکات پر ’ملا جلا اتفاق رائے‘ پایا جاتا ہے وہ یہ ہیں کہ ۔۔۔ 1: ہمارے ہاں بناء دھاندلی عام انتخابات کا انعقاد ممکن ہی نہیں۔ 2: جس کسی کا جہاں بس چلتا ہے وہ قومی یا صوبائی حتیٰ کہ سینیٹ کے لئے ہونے والے انتخابی عمل میں بھی دھاندلی ضرور کرتا ہے۔ 3: عام انتخابات کے دن کہیں منظم تو کہیں اِکا دُکا دھاندلی ہونا معمول ہے اُور 4: پاکستان میں کوئی ایک بھی ایسا انتخاب نہیں ہوا‘ جس میں کسی نہ کسی درجے کی دھاندلی نہ ہوئی ہو۔ تو جہاں دھاندلی کے بارے میں اِس قدر واضح اور فیصلہ کن ’وزنی‘ رائے موجود ہو وہاں دھاندلی کو دل کی طرح زبان سے قبول کرنے میں کوئی حرج و قباحت نہیں ہونی چاہئے اور ہر سیاسی جماعت اپنے اپنے انتظامی ڈھانچے میں ایک ایک ’دھاندلی ونگ‘ کا بھی اضافہ کرلے تو کیا عجب ہے تاکہ آئندہ اُس کی حق تلفی کا امکان ہی باقی نہ رہے۔ جس سیاسی جماعت کا ’دھاندلی ونگ‘ جتنا مضبوط‘ منظم و فعال اُور شاطر ہوگا‘ وہی دوسرے پر برتری لے جائے گا۔ یوں آئے روز کی تکرار سے وقت ضائع نہیں ہوگا اُور قوم تذبذب و تفکرات کا شکار ہو کر تقسیم بھی دکھائی نہیں دے گی کہ ’نادیدہ قوتوں‘ نے اُس کے منڈیٹ کو چوری کر لیا ہے! سیاسی جماعتوں میں پائے جانے والے اختلافات ختم کرنے کا بھی یہی ایک حل باقی بچا ہے کہ ہر کوئی اپنی اپنی بساط کے مطابق دھاندلی کرے۔
سینیٹ جانز ہائی سکول (اندرون کوہاٹی گیٹ پشاور) میں انگریزی زبان کے معلم دراز قد‘ ماسٹر اسٹیفن کی یاد آ رہی ہے جن کی خاصیت یہ تھی کہ وہ مثالوں کے عرق میں باتوں کو گھول کر نصاب کے خشک اسباق سے متعلق اِس طرح درس دیتے کہ طالبعلموں کو رٹہ لگانے یا شام کے اوقات میں ٹیوشن سنٹر جانے کی حاجت یا ضرورت ہی پیش نہ آتی۔ اُن کے تدریسی اسلوب کی ایک خوبی یہ بھی تھی کہ وہ نہایت ہی شفیق اور طالبعلموں سے گھل مل جایا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ اُن کی نگرانی امتحانی ہال میں مقرر کی گئی اُور وہ جیسے ہی ہال میں داخل ہوئے تو بلند آواز میں کہا ۔۔۔ ’’سب کو آج نقل کرنے کی کھلی اجازت ہے۔‘‘ ابھی اُن کی بات مکمل بھی نہیں ہوئی تھی کہ مرجھائے ہوئے چہروں پر حیرت و خوشی دوڑ گئی۔ ہال تالیوں سے گونج اُٹھا لیکن فوراً ہی اُنہوں نے اپنی بات یہ کہہ کر مکمل کر دی کہ ’’۔۔۔ہاں نقل کرنے کی اجازت ہے لیکن یہ عمل مجھے نظر نہ آئے۔‘‘ الیکشن کمیشن آف پاکستان کو بھی دھاندلی کرنے کی مشروط اجازت مرحمت فرما دینی چاہئے تاکہ ’’آئندہ عام اتنخابات میں کسی بھی سیاسی جماعتوں کو دھاندلی کی شکایت نہ ہو لیکن شرط یہ ہونی چاہئے کہ (موجودہ صورتحال کے برعکس) دھاندلی جملہ انتخابی عملے (بشمول ریٹرنگ آفیسرز) کو نظر نہ آئے۔‘‘
جمہوریت کا استحکام‘ پاکستان کی خوشحالی اور طرزحکمرانی کی اصلاح شفاف طریقے سے کرائے گئے عام انتخابات کے بناء ممکن ہی نہیں۔ اِس مرحلۂ فکر پر عام آدمی (ووٹر) کی بیداری بھی اشد ضروری ہے‘ جسے اپنے ووٹ کی صرف قیمت کا ہی نہیں بلکہ اہمیت کا بھی کماحقہ اِحساس ہونا چاہئے۔
![]() |
Let's the rigging be allowed to have transparent elections |
No comments:
Post a Comment