Thursday, May 7, 2015

May2015: Party Tickets & Internal Differences in PTI

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
ایک انار‘ سو بیمار!
پاکستان تحریک انصاف داخلی طور پر ایک مرتبہ انتشار کا شکار ہے اور اِس مرتبہ بلدیاتی انتخابات کے لئے تحریک کی جانب سے نامزد کئے جانے والوں پر تنازعہ ہے۔ دیرینہ کارکنوں کو شکایت گلہ اور فکر ہے کہ نہ صرف مبینہ طور پر مفاد پرست ٹولہ پارٹی کی مقبولیت (ووٹ بینک) سے فائدہ اُٹھائے گا بلکہ جس انداز میں خیبرپختونخوا کے مختلف اضلاع سے کارکنوں کے احتجاج کی اطلاعات آ رہی ہیں اُس سے واضح ہوگیا ہے کہ پارٹی ٹکٹوں کی تقسیم کے لئے مقرر کی جانے والی کمیٹیوں اُس درجے کا ’اِتفاق رائے‘ پیدا نہیں کر سکیں‘ جس کی اُن سے توقع یا اُمید تھی۔ یاد رہے کہ ہر ضلع کی سطح پر منتخب نمائندوں اور تحریک کی ضلعی قیادت پر مبنی کمیٹیاں بنائی گئیں تھیں جنہوں نے بلدیاتی انتخابات کے لئے درخواست گزاروں میں سے تحصیل و ضلع کے لئے ’موزوں اُمیدواروں‘ کا چناؤ کیا۔

 ایبٹ آباد سمیت خیبرپختونخوا کے کئی اضلاع اُور ملک گیر سطح پر اپنے فیصلوں میں خودمختار پارلیمانی کمیٹیوں کے اراکین مستعفی ہوئے جو اِس بات کا ثبوت تھا کہ اختلافات ختم کرنے کی بجائے بلدیاتی انتخابات کے لئے مقررہ پارلیمانی کمیٹیوں نے اُس خلیج کو زیادہ وسیع کر دیا ہے جس کی وجہ سے مئی 2013ء کے عام انتخابات میں بھی پارٹی خاطرخواہ کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کر پائی اور یہ نتیجۂ خیال کوئی راز نہیں بلکہ تحریک کی اپنی ’تحقیقاتی کمیٹی‘ نے بھی تسلیم کیا ہے کہ اگر عام اِنتخابات سے قبل جماعتی اِنتخابات کا انعقاد اُور بعداَزاں پارٹی ٹکٹوں کی غیردانشمندانہ و غیرمنصفانہ تقسیم کی وجہ سے انتخابی نتائج تحریک انصاف کے حق میں نہیں آئے تو کیا یہ سمجھا جائے کہ تحریک انصاف نے اپنی ماضی کی غلطیوں سے کوئی سبق نہیں سیکھا اور بلدیاتی انتخابات کے لئے دیرینہ کارکنوں کو موقع نہیں دیا گیا‘ جبکہ اُنہیں ایسا نہیں کرنا چاہئے تھا۔

دوہزار تیرہ کے عام انتخابات کے بعد تحریک انصاف نے ایک سو چھبیس دن طویل دھرنا دیا اور اِس دھرنے میں بھی ضلعی تنظیموں اور منتخب یا غیرمنتخب نامزد افراد کے درمیان ’سرد جنگ‘ جاری رہی۔ ایک موقع پر تو چیئرمین عمران خان کو سٹیج سے کہنا پڑا کہ ’میں سب کو دیکھ رہے ہیں کہ اِس مرحلے پر کون کون میرے ساتھ ہے!‘ شروع دن سے تحریک انصاف کا المیہ اور حقیقت رہی ہے کہ اس میں صرف اور صرف ایک ’عمران خان‘ ہے۔ تلاش بسیار کے باوجود کوئی دوسرا عمران خان ڈھونڈے سے بھی اگر نہیں مل پا رہا تو کارکنوں کو حقیقت پسندی سے کام لیتے ہوئے حالات کی نزاکت کو سمجھنا چاہئے کہ اُن کے احتجاج سے اُس واحد قومی سیاسی جماعت کو ایک مرتبہ پھر نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے‘ جو پہلے کئی وار سہہ چکی ہے۔ اگر بلدیاتی انتخابات کے لئے نامزدگیوں کی تقسیم میں بے قاعدگیاں ہوئی بھی ہیں تو یہ موقع اُن پر احتجاج کرنے کا نہیں اور نہ ہی دوسروں کو اپنے اوپر اُنگلیاں اُٹھانے کا موقع دینا چاہئے۔

چھ مئی کے روز ’فوارہ چوک‘ ایبٹ آباد کے مقام پر تحریک انصاف کے کارکنوں نے احتجاج کیا‘ ٹائر جلائے‘ اپنی ہی جماعت کے قائدین کے خلاف نعرے بازی کی‘ شعلہ بیان مقررین نے شرانگیز تقاریر کیں‘جو کسی بھی طور منطقی نہیں تھیں۔ یہ کہاں کا انصاف تھا کہ دو گھنٹے سے زائد اُس مصروف ترین شاہراہ کو بند رکھا گیا جس سے ہزاروں مسافروں اور مقامی افراد کو بناء کسی جرم زحمت اُٹھانا پڑی۔ سیاسی جماعتیں اپنی ذات میں داخلی محاذ پر جو چیلنجز رکھتی ہیں اور اُن کی ساخت میں چھوٹی بڑی خامیاں اگر رہ بھی گئیں ہیں تو اُن کی سزا ’عام آدمی‘ کو نہیں ملنی چاہئے جس کا اِس پورے تنازعہ سے کوئی تعلق نہیں بنتا۔

بلدیاتی اِنتخابات کے لئے ٹکٹوں کی تقسیم پر مختلف طریقوں سے اِحتجاج کرنے والوں کو ’تحریک‘ کی جانب سے ’شوکاز نوٹس‘ ملنے چاہیءں اور اِس بات کی جواب طلبی ہونی چاہئے کہ کن وجوہات (محرکات) کی بناء پر وہ اِس انتہاء (بغاوت) پر اُتر آئے ہیں۔ ماضی میں اِس قسم کے احتجاج کو نظرانداز کرنے کی بھاری قیمت چکانا پڑی تھی۔ اگر کسی کارکن یا رہنما کو تحریک کے فیصلوں سے اختلاف ہے تو جذبات کی بجائے ’محتاط جمہوری طرز عمل‘ اختیار کریں اور مہذب انداز میں قیادت کو اپنے مؤقف سے آگاہ کریں۔ اِس سلسلے میں ’تحریک‘ کی جانب سے مرکزی سطح پر ایک شکایات وصول کرنے کا طریقہ کار وضع ہونا چاہئے تھا‘ جہاں سے رابطے کے بعد بصورت عدم تشفی کارکن یہ حق رکھتے کہ وہ اُس قافلے سے علیحدہ ہو جائیں‘ جس میں مبینہ طور پر نظریاتی کارکنوں کا نظرانداز کیا جاتا ہے لیکن قبل ازیں وہ خلوص نیت سے ایک مرتبہ خود سے یہ سوال (کم از کم ایک مرتبہ) ضرور پوچھیں کہ ’نظریاتی کارکن ہونا اور نظریاتی جدوجہد کرنا اِسی کو کہا جاتا ہے کہ کارکنوں کے حسب منشاء پارٹی ٹکٹ تقسیم کئے جائیں؟‘ بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ ’ایک انار ۔۔۔ سو بیمار‘ کی طرح پارٹی ٹکٹ کے لئے ایک سے زیادہ اُمیدواروں کی بیک وقت تمام دلی مرادیں پوری ہوں؟ ضرورت اِس امر کی تھی کہ مرکزی سطح پر ایسا طریقۂ کار (TORs) وضع کیا جاتا‘ جس میں پارٹی ٹکٹ کے لئے کم سے کم قابلیت کامعیار مقرر ہوتا۔ اِس سلسلے میں اُمیدوار کے تعلیمی کوائف‘ عمر‘ تحریک سے وابستگی کا عرصہ‘ بطور کارکن سرانجام دی جانے والی خدمات کے الگ الگ نمبر ہونے چاہیءں تھے۔ یہ بھی ممکن تھا کہ تحریک اپنی تیاری مکمل رکھتی اور درخواست گزاروں کی بجائے تحصیل و ضلع کا ٹکٹ دیرینہ کارکنوں کو خود طلب کرکے دیئے جاتے۔ عین ممکن ہے کہ بہت سے کارکن محض اِس وجہ سے بطور اُمیدوار بلدیاتی انتخابات میں حصہ نہ لے رہے ہوں‘ کیونکہ وہ ایسا کرنے کے لئے خاطرخواہ مالی وسائل نہیں رکھتے۔ دوسری صورت یہ ہوسکتی تھی کہ جب ایک ہی نشست کے لئے زیادہ اُمیدوار تھے تو اُن کے درمیان ’ٹاس (قرعہ اَندازی)‘ کے ذریعے ’اتفاق رائے‘ سے فیصلہ کیا جاسکتا تھا لیکن مسئلہ تو یہ بھی ہے کہ تحریک کے علاؤہ کسی دوسری جماعت میں اِس قدر ’قائدین‘ نہیں۔

سوچ بچار کی بجائے ’جنون (سازشیں‘سرگوشیاں‘ گرمجوشیاں)‘ اگر کسی ایک جماعت کے اکثر کارکنوں کے قول و فعل سے عیاں ہے تو وہ یہی تحریک ہے‘ جسے ’نظم وضبط کا پابند‘ بنا کر ایک ایسی فولادی قوت میں ڈھال کر اصلاحاتی اہداف کا حصول فوری و عملی طور پر ممکن بنایا جا سکتا ہے۔
Irregularities in awarding party tickets, the tradition of PTI remain unchanged for local bodies elections

No comments:

Post a Comment