ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
حسب حال ترجیحات
حسب حال ترجیحات
ہم میں سے کون ہے جو خود کو محفوظ سمجھے۔ اگر ہمیں امن وامان سے خطرات لاحق
ہیں تو صورتحال صحت کی سہولیات کے حوالے سے بھی مثالی نہیں۔ حکومت کے
متعدد دعوؤں کے باوجود ملک میں صحت کی صورتحال کی نشاندہی کرنے والے پیمانے
پستی کی جانب اشارہ کر رہے ہیں تو کیا اِس بات پر ہم سب کو تشویش ہونی
چاہئے؟
پانچ مئی کو جاری ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ماں اور بچے کی صحت کو لاحق خطرات میں گذشتہ سال کے مقابلے اضافہ ہوا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ زچگی کے دوران ماؤں کی موت کی شرح کے لحاظ سے پاکستان کا درجہ مزید نیچے گر کر ایک سو انچاسویں نمبر پر معلق ہے۔ یاد رہے کہ گذشتہ برس پاکستان ایک سو سینتالیسویں نمبر پر تھا! یعنی ایک نہیں دو سڑھیاں پھسل کر ہم نے نیا ریکارڈ بھی بنا لیا ہے! ایک ایسے وقت میں جبکہ دیگر ممالک اپنی خامیوں کے بارے میں جان کر حسب حال ترجیحات بنا رہے ہیں اور ہم ہیں کہ دوسرے تو کیا اپنے دیکھا دیکھی بھی اپنے حال پر رحم نہیں کرتے! کیا یہ عجب نہیں کہ افغانستان کو چھوڑ کر خطے کے دیگر تمام ممالک میں صحت کے حوالے سے پاکستان سے کچھ حد تک بہتر حالات رکھتا ہے۔
ماں اور بچے کی صحت کے بارے میں عالمی تنظیم ’سیو دی چلڈرن‘ کی رپورٹ میں یہ بات بھی کہی گئی ہے کہ ’’دنیا بھر میں شہروں کی آبادی میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے اور حکومتیں ایسی غریب ماؤں اور بچوں پر توجہ مرکوز کئے ہوئے ہیں جو مجموعی شہری ترقی کے باوجود بھی زندہ رہنے کے لئے جدوجہد کررہی ہیں۔ کم مالی وسائل رکھنے والے طبقات کی مدد کرنے والی حکومتیں ایسی ’فلاحی ریاستیں‘ ہیں جن کا تصور اسلام نے دیا تھا لیکن افسوس کہ ہم نے برطانوی راج کے چھوڑے ہوئے قانون میں اسلام کی پیوندکاری کی اور اُس فلاح و بہبود والے نظام کی حقانیت سے انکار تو نہیں لیکن اُسے عملاً نافذ کرنے میں حیل و حجت سے کام لیتے رہے!
افسوس صد افسوس کہ پاکستان میں ہر سال زچگی کے دوران ماؤں کی موت کی شرح خطرناک حدوں کو چھو رہی ہے۔ ایک لاکھ پیدائش میں سے 276 بچے مر جاتے ہیں اور پانچ سال سے کم عمر بچوں میں اموات کی شرح لگ بھگ ایک ہزار پیدائش پر 89اموات پچھلی ایک دہائی سے برقرار ہے‘ جس میں بہتری نہیں آ رہی۔ یہ اعدادوشمار اس وقت مزید تشویشناک ہوجاتے ہیں جب مختلف شہری علاقوں میں امیر اور غریب طبقات کے مابین عدم مساوات کا موازنہ کیا جاتا ہے‘ جیسا کہ بلوچستان میں زچگی کے دوران ماؤں کی اموات سات سو سے زیادہ بتائی گئی ہیں۔
شہری علاقوں میں دولت مند طبقات کے مقابلے میں غریب طبقے میں ماؤں کی اموات کی شرح ڈھائی گنازیادہ ہے! ہمیں سوچنا ہوگا کہ آخر کیا وجہ ہے کہ شہری علاقوں میں پیدا ہونے والے غریب بچوں میں دیہی علاقوں کے مقابلے میں اموات کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔ پانچ سال سے کم عمر بچوں میں اموات کی شرح کراچی جیسے شہر میں ایک ہزار پیدائش پر 68اموات ہیں۔ پاکستان کی ایک سو ستر خواتین میں سے ایک کو زچگی کے دوران موت کا خطرہ لاحق رہنا بھی معمولی بات نہیں! فی کس مجموعی قومی آمدنی کے حساب سے ہر پاکستانی کی اوسط آمدنی ایک ہزار تین سو ساٹھ ڈالر بتائی جاتی ہے جس میں خواتین کی قومی حکومت میں شراکت اُنیس فیصد ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق جن ممالک میں سروے کیا گیا‘ ان میں سے دو تہائی میں شہر کے غریب بچوں میں اموات کی شرح شہرکے امیر بچوں کے مقابلے دگنی ہے۔ شہری علاقوں میں امیر اور غریب بچوں کے درمیان بقاء کی شرح میں عدم مساوات گزشتہ دو دہائیوں کے دوران بڑھ گئی ہے۔ ساٹھ فیصد ترقی پذیر ممالک کے شہروں کے غریب بچوں میں دیہی علاقوں کے بچوں کے مقابلے میں موت کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔
صحت کے حوالے سے اگر ہماری حکومتیں اپنا کماحقہ کردار ادا نہیں کر رہیں تو اس کی وجہ اٹھارہویں آئینی ترمیم کو بتایا جاتا ہے جس کے بعد صحت کی سہولیات صوبوں کی ذمہ داری ہے اور وفاقی حکومت خود کو بری الذمہ قرار دے دیتی ہے لیکن کیا ایسا کرنا جائز ہے؟ ’سیو دی چلڈرن پاکستان کی رپورٹ میں اٹھایا جانے والا دوسرا اہم نکتہ یہ ہے کہ اِس کے ذریعے پہلی مرتبہ شہری علاقوں کے غریبوں اور امیروں کے درمیان صحت کی سہولیات میں تفاوت کا تجزیہ پیش کیا گیا ہے‘ قبل ازیں یہی سمجھا جاتا تھا کہ شہری علاقوں میں رہنے والوں کو یکساں علاج معالجے کی سہولیات میسر ہیں لیکن ایسا نہیں بلکہ اچھی خوراک اور علاج کے وسائل پر صرف اور صرف اُنہی کا اختیار ثابت ہوا ہے جن کے پاس سرمایہ ہے۔ اگر ہم کوتاہی کے مرتکب افراد کی نشاندہی کرنا چاہیں تو شاید یہ ممکن ہی نہ ہو کیونکہ سرکاری اداروں کا نظام کچھ ایسا ہے کہ سب کو تنخواہیں اور مراعات تو حسب عہدہ ملتی ہیں لیکن کسی ایک عہدے دار کو کسی ایک کوتاہی کے لئے ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جا سکتا! سرکاری محکموں میں لگن کی کمی‘ ہر مسئلے کے لئے ’شارٹ کٹ‘ اور سیاسی مداخلت کے علاؤہ من پسند تعیناتیوں کے نتائج عام آدمی کو بھگتنا پڑ رہے ہیں۔ س
یاستدانوں کو سوچنا ہوگا کہ اُن کے روئیوں اور من پسند افراد کو انتظامی عہدوں پر فائز کرنے کی بھاری قیمت کن لوگوں کو اٹھانی پڑ رہی ہے۔ ماں اور بچے کی صحت کے حوالے سے اِس حد تک گرنے کے بعد بھی کیا ہم یہ مطالبہ نہیں کرسکتے کہ ’بس کردو بس!‘
پانچ مئی کو جاری ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ماں اور بچے کی صحت کو لاحق خطرات میں گذشتہ سال کے مقابلے اضافہ ہوا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ زچگی کے دوران ماؤں کی موت کی شرح کے لحاظ سے پاکستان کا درجہ مزید نیچے گر کر ایک سو انچاسویں نمبر پر معلق ہے۔ یاد رہے کہ گذشتہ برس پاکستان ایک سو سینتالیسویں نمبر پر تھا! یعنی ایک نہیں دو سڑھیاں پھسل کر ہم نے نیا ریکارڈ بھی بنا لیا ہے! ایک ایسے وقت میں جبکہ دیگر ممالک اپنی خامیوں کے بارے میں جان کر حسب حال ترجیحات بنا رہے ہیں اور ہم ہیں کہ دوسرے تو کیا اپنے دیکھا دیکھی بھی اپنے حال پر رحم نہیں کرتے! کیا یہ عجب نہیں کہ افغانستان کو چھوڑ کر خطے کے دیگر تمام ممالک میں صحت کے حوالے سے پاکستان سے کچھ حد تک بہتر حالات رکھتا ہے۔
ماں اور بچے کی صحت کے بارے میں عالمی تنظیم ’سیو دی چلڈرن‘ کی رپورٹ میں یہ بات بھی کہی گئی ہے کہ ’’دنیا بھر میں شہروں کی آبادی میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے اور حکومتیں ایسی غریب ماؤں اور بچوں پر توجہ مرکوز کئے ہوئے ہیں جو مجموعی شہری ترقی کے باوجود بھی زندہ رہنے کے لئے جدوجہد کررہی ہیں۔ کم مالی وسائل رکھنے والے طبقات کی مدد کرنے والی حکومتیں ایسی ’فلاحی ریاستیں‘ ہیں جن کا تصور اسلام نے دیا تھا لیکن افسوس کہ ہم نے برطانوی راج کے چھوڑے ہوئے قانون میں اسلام کی پیوندکاری کی اور اُس فلاح و بہبود والے نظام کی حقانیت سے انکار تو نہیں لیکن اُسے عملاً نافذ کرنے میں حیل و حجت سے کام لیتے رہے!
افسوس صد افسوس کہ پاکستان میں ہر سال زچگی کے دوران ماؤں کی موت کی شرح خطرناک حدوں کو چھو رہی ہے۔ ایک لاکھ پیدائش میں سے 276 بچے مر جاتے ہیں اور پانچ سال سے کم عمر بچوں میں اموات کی شرح لگ بھگ ایک ہزار پیدائش پر 89اموات پچھلی ایک دہائی سے برقرار ہے‘ جس میں بہتری نہیں آ رہی۔ یہ اعدادوشمار اس وقت مزید تشویشناک ہوجاتے ہیں جب مختلف شہری علاقوں میں امیر اور غریب طبقات کے مابین عدم مساوات کا موازنہ کیا جاتا ہے‘ جیسا کہ بلوچستان میں زچگی کے دوران ماؤں کی اموات سات سو سے زیادہ بتائی گئی ہیں۔
شہری علاقوں میں دولت مند طبقات کے مقابلے میں غریب طبقے میں ماؤں کی اموات کی شرح ڈھائی گنازیادہ ہے! ہمیں سوچنا ہوگا کہ آخر کیا وجہ ہے کہ شہری علاقوں میں پیدا ہونے والے غریب بچوں میں دیہی علاقوں کے مقابلے میں اموات کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔ پانچ سال سے کم عمر بچوں میں اموات کی شرح کراچی جیسے شہر میں ایک ہزار پیدائش پر 68اموات ہیں۔ پاکستان کی ایک سو ستر خواتین میں سے ایک کو زچگی کے دوران موت کا خطرہ لاحق رہنا بھی معمولی بات نہیں! فی کس مجموعی قومی آمدنی کے حساب سے ہر پاکستانی کی اوسط آمدنی ایک ہزار تین سو ساٹھ ڈالر بتائی جاتی ہے جس میں خواتین کی قومی حکومت میں شراکت اُنیس فیصد ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق جن ممالک میں سروے کیا گیا‘ ان میں سے دو تہائی میں شہر کے غریب بچوں میں اموات کی شرح شہرکے امیر بچوں کے مقابلے دگنی ہے۔ شہری علاقوں میں امیر اور غریب بچوں کے درمیان بقاء کی شرح میں عدم مساوات گزشتہ دو دہائیوں کے دوران بڑھ گئی ہے۔ ساٹھ فیصد ترقی پذیر ممالک کے شہروں کے غریب بچوں میں دیہی علاقوں کے بچوں کے مقابلے میں موت کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔
صحت کے حوالے سے اگر ہماری حکومتیں اپنا کماحقہ کردار ادا نہیں کر رہیں تو اس کی وجہ اٹھارہویں آئینی ترمیم کو بتایا جاتا ہے جس کے بعد صحت کی سہولیات صوبوں کی ذمہ داری ہے اور وفاقی حکومت خود کو بری الذمہ قرار دے دیتی ہے لیکن کیا ایسا کرنا جائز ہے؟ ’سیو دی چلڈرن پاکستان کی رپورٹ میں اٹھایا جانے والا دوسرا اہم نکتہ یہ ہے کہ اِس کے ذریعے پہلی مرتبہ شہری علاقوں کے غریبوں اور امیروں کے درمیان صحت کی سہولیات میں تفاوت کا تجزیہ پیش کیا گیا ہے‘ قبل ازیں یہی سمجھا جاتا تھا کہ شہری علاقوں میں رہنے والوں کو یکساں علاج معالجے کی سہولیات میسر ہیں لیکن ایسا نہیں بلکہ اچھی خوراک اور علاج کے وسائل پر صرف اور صرف اُنہی کا اختیار ثابت ہوا ہے جن کے پاس سرمایہ ہے۔ اگر ہم کوتاہی کے مرتکب افراد کی نشاندہی کرنا چاہیں تو شاید یہ ممکن ہی نہ ہو کیونکہ سرکاری اداروں کا نظام کچھ ایسا ہے کہ سب کو تنخواہیں اور مراعات تو حسب عہدہ ملتی ہیں لیکن کسی ایک عہدے دار کو کسی ایک کوتاہی کے لئے ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جا سکتا! سرکاری محکموں میں لگن کی کمی‘ ہر مسئلے کے لئے ’شارٹ کٹ‘ اور سیاسی مداخلت کے علاؤہ من پسند تعیناتیوں کے نتائج عام آدمی کو بھگتنا پڑ رہے ہیں۔ س
یاستدانوں کو سوچنا ہوگا کہ اُن کے روئیوں اور من پسند افراد کو انتظامی عہدوں پر فائز کرنے کی بھاری قیمت کن لوگوں کو اٹھانی پڑ رہی ہے۔ ماں اور بچے کی صحت کے حوالے سے اِس حد تک گرنے کے بعد بھی کیا ہم یہ مطالبہ نہیں کرسکتے کہ ’بس کردو بس!‘
![]() |
Our priorities not matching our problems |
No comments:
Post a Comment