The changed Afghan policy
نئی اَفغان پالیسی
نئی اَفغان پالیسی
افغانستان میں تحریک طالبان نامی مزاحمت کاروں نے اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنے
کے لئے نئی حکمت عملی کے تحت کاروائیوں کا آغاز کر دیا ہے جس کی تیس اپریل
کو پاکستان کی جانب سے مذمت سامنے آئی ہے۔ اگرچہ پاکستان کے لئے ایسا کرنا
آسان نہیں کہ وہ خود کو افغانستان کی تحریک طالبان سے اپنی ماضی کی
وابستگی سے انکار کرسکے لیکن تیس اپریل کو پاکستان کی جانب سے جو اعلان کیا
گیا وہ اسلام آباد کے دیرینہ مؤقف سے متصادم اُور باعث حیرت ضرور ہے۔
پاکستان کے دفتر خارجہ کی ترجمان تسنیم اسلم نے افغانستان میں پائیدار قیام
امن کے لئے مفاہمتی کوششوں میں اضافہ کرنے کی ضرورت پر زوردیا۔ افغانستان
میں داخلی طورپر اور عالمی سطح پر جاری مفاہمتی کوششوں میں اگرچہ پاکستان
کو شریک نہیں کیا گیا لیکن پاکستان کی طرف سے متعدد مرتبہ نیک خواہشات کا
اظہار کیا جاچکا اور اِن مفاہمتی کوششوں کے سلسلے میں پاکستان نے ایک مرتبہ
پھر اپنا دیرینہ مؤقف دہرایا ہے کہ وہ افغانستان کی سرزمین پر قیام امن کا
خواہاں ہے۔ دفتر خارجہ کی ترجمان کی جانب سے افغان حکومت کے اس الزام کی
بھی تردید سامنے آئی ہے کہ حال ہی طالبان کی جانب سے افغانستان میں جو
مزاحمتی تحریک کے جاری سلسلے کی نئی کاروائیوں کا آغاز ہوا ہے‘ اس میں سرحد
پار یعنی پاکستان سے آنے والے عسکریت پسند بھی شریک ہیں۔ پاکستان
افغانستان میں امن کے مذاکراتی عمل پر منفی اثرات مرتب کرنے والے جملہ
عوامل کی مذمت کرتا آیا ہے کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ اگر عسکری کاروائیاں
ہوتی رہیں تو اِس سے مفاہمتی مذاکراتی عمل متاثر ہوسکتا ہے۔
تحریک طالبان نے افغانستان کے مختلف حصوں میں ’عزم‘ کے نام سے ’موسم بہار‘ کے آغاز پر تازہ دم حملوں کا آغاز کر رکھا ہے جس کی وجہ سے بہت سے علاقوں سے مقامی افراد نقل مکانی پر بھی مجبور ہوئے ہیں بالخصوص صوبہ قندوز میں صورتحال زیادہ کشیدہ ہے۔ افغان طالبان کی اِن حالیہ پرزور عسکری کاروائیوں کے منفی اثرات پاک افغان تعلقات پر بھی اثرانداز ہو رہے ہیں کیونکہ افغان حکام و حکمرانوں کا مسلسل اِس بات پر اصرار رہا ہے کہ پاکستان سرحد پار عسکریت پسندی کو ہوا دے رہا ہے۔ افغانستان کی وزارت داخلہ نے اشرف غنی احمدزئی کے عہدۂ صدارت سنبھالنے کے بعد 29 ستمبر 2014ء کے بعد سے یہ مؤقف اپنایا ہے اور ماضی ہی کی طرح پاکستان کو موردالزام ٹھہرایا جاتا ہے۔
پاکستان نے ہمیشہ کوشش کی ہے کہ وہ افغان طالبان قیادت کو افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھنے کے لئے آمادہ اور عملاً تیار کر سکے لیکن یہ سبھی کوششیں رنگ نہیں لائیں۔ قطر میں جاری ’پگواش کانفرنس‘ میں اَفغان سیاسی دھڑوں اور حکومت کے ساتھ طالبان فریق بھی شریک ہیں لیکن یہ محض ایک میل جول ہے‘ امن مذاکرات نہیں جیسا کہ دنیا کو باور کرایا جارہا ہے۔ افغان حکومت اُمید رکھتی تھی کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات مارچ کی ابتدأ میں شروع ہوں گے جس میں پاکستان بھی بطور ثالث شریک ہوگا۔ حال ہی میں افغان حکومت کے رہنماؤں سے ملاقات کے دوران اُنہوں نے پاک فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف اور خفیہ ادارے ’انٹرسروسیز انٹلی جنس (آئی ایس آئی)‘ کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل رضوان اختر کی جانب سے اِس یقین دہانی کا ذکر کیا کہ مستقبل میں افغان طالبان صدر اشرف غنی کی حکومت سے براہ راست مذاکرات کرنا چاہتے ہیں۔ اگرچہ اِس بارے میں پاکستان حکومت یا فوج کی جانب سے کوئی بات کھلے عام نہیں کی گئی کہ آیا انہوں نے ایسی کوئی ضمانت دی ہے یا نہیں اور شاید افغان حکام اسی وجہ سے مایوس دکھائی دیتے ہیں کیونکہ اسلام آباد نے مبینہ طور پر اُن سے کئے ہوئے ’وعدے‘ تاحال پورے نہیں کئے۔افغان حکام اپنے ملک کی داخلی صورتحال میں پاکستان کے کردار بارے حقیقت پسندانہ انداز سے نہیں سوچ رہے اور سمجھ رہے ہیں کہ شاید افغان طالبان کو اگر پاک فوج کی جانب سے کہا جائے کہ وہ اپنی جدوجہد ترک کر دیں تو وہ ایسا ہی کریں گے۔ یہ کلی طور پر درست تاثر نہیں۔ سچی بات تو یہ ہے کہ پاکستان کا تحریک طالبان افغانستان کے سربراہ ملا محمد عمر پر کچھ اثر ہے لیکن وہ پاکستان کے فرمان تابع نہیں اور نہ ہی پاکستان کا اُن کی فیصلہ سازی یا عمل میں اختیار ہے۔ پاکستان نے ہمیشہ کوشش کی ہے کہ وہ افغانستان میں قیام امن کے لئے اَپنا کردار اَدا کرے اُور اَفغانستان سے مثالی تعلقات اِستوار کئے جائیں۔ اس سلسلے میں پاکستان کے سیکرٹری خارجہ اعزاز احمد چوہدری کی خدمات اور کوششیں قابل ذکر و ستائش ہیں جنہوں نے حال ہی میں افغان طالبان سے درخواست کی ہے کہ وہ موسم بہار میں شروع کی جانے والی ’عزم‘ کاروائیوں کو روکیں۔ حال ہی میں جرمنی کے ایک ادارے ’فریڈرچ ایلبرٹ اسٹیفنگ‘ کے زیراہتمام اسلام آباد میں سیمینار کا انعقاد ہوا‘ جس کا موضوع ’ افغانستان و پاکستان کے درمیان تعلقات کی بہتری کے ساتھ خطے میں قیام امن و خوشحالی‘ بھی تھی اور اِس موقع پر اعزاز چوہدری نے جو خطاب کیا وہ بہت ہی پرمغز تھا لیکن افغانستان کے بارے میں منعقد ہونے والی اِس اہم نشست کے بارے میں ذرائع ابلاغ نے زیادہ تشہیر نہیں کی۔ ایک اہم نکتہ اُن کی تقریر کا یہ بھی تھا کہ عین ممکن ہے کہ طالبان موسم بہار کی کاروائی کا آغاز نہ کریں بلکہ یہ مہم چند ایسے افراد کی جانب سے کی جائے جو نہیں چاہتے کہ افغانستان میں امن کو موقع ملنا چاہئے۔
(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: رحیم اللہ یوسفزئی۔ ترجمہ: شبیر حسین اِمام)
تحریک طالبان نے افغانستان کے مختلف حصوں میں ’عزم‘ کے نام سے ’موسم بہار‘ کے آغاز پر تازہ دم حملوں کا آغاز کر رکھا ہے جس کی وجہ سے بہت سے علاقوں سے مقامی افراد نقل مکانی پر بھی مجبور ہوئے ہیں بالخصوص صوبہ قندوز میں صورتحال زیادہ کشیدہ ہے۔ افغان طالبان کی اِن حالیہ پرزور عسکری کاروائیوں کے منفی اثرات پاک افغان تعلقات پر بھی اثرانداز ہو رہے ہیں کیونکہ افغان حکام و حکمرانوں کا مسلسل اِس بات پر اصرار رہا ہے کہ پاکستان سرحد پار عسکریت پسندی کو ہوا دے رہا ہے۔ افغانستان کی وزارت داخلہ نے اشرف غنی احمدزئی کے عہدۂ صدارت سنبھالنے کے بعد 29 ستمبر 2014ء کے بعد سے یہ مؤقف اپنایا ہے اور ماضی ہی کی طرح پاکستان کو موردالزام ٹھہرایا جاتا ہے۔
پاکستان نے ہمیشہ کوشش کی ہے کہ وہ افغان طالبان قیادت کو افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھنے کے لئے آمادہ اور عملاً تیار کر سکے لیکن یہ سبھی کوششیں رنگ نہیں لائیں۔ قطر میں جاری ’پگواش کانفرنس‘ میں اَفغان سیاسی دھڑوں اور حکومت کے ساتھ طالبان فریق بھی شریک ہیں لیکن یہ محض ایک میل جول ہے‘ امن مذاکرات نہیں جیسا کہ دنیا کو باور کرایا جارہا ہے۔ افغان حکومت اُمید رکھتی تھی کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات مارچ کی ابتدأ میں شروع ہوں گے جس میں پاکستان بھی بطور ثالث شریک ہوگا۔ حال ہی میں افغان حکومت کے رہنماؤں سے ملاقات کے دوران اُنہوں نے پاک فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف اور خفیہ ادارے ’انٹرسروسیز انٹلی جنس (آئی ایس آئی)‘ کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل رضوان اختر کی جانب سے اِس یقین دہانی کا ذکر کیا کہ مستقبل میں افغان طالبان صدر اشرف غنی کی حکومت سے براہ راست مذاکرات کرنا چاہتے ہیں۔ اگرچہ اِس بارے میں پاکستان حکومت یا فوج کی جانب سے کوئی بات کھلے عام نہیں کی گئی کہ آیا انہوں نے ایسی کوئی ضمانت دی ہے یا نہیں اور شاید افغان حکام اسی وجہ سے مایوس دکھائی دیتے ہیں کیونکہ اسلام آباد نے مبینہ طور پر اُن سے کئے ہوئے ’وعدے‘ تاحال پورے نہیں کئے۔افغان حکام اپنے ملک کی داخلی صورتحال میں پاکستان کے کردار بارے حقیقت پسندانہ انداز سے نہیں سوچ رہے اور سمجھ رہے ہیں کہ شاید افغان طالبان کو اگر پاک فوج کی جانب سے کہا جائے کہ وہ اپنی جدوجہد ترک کر دیں تو وہ ایسا ہی کریں گے۔ یہ کلی طور پر درست تاثر نہیں۔ سچی بات تو یہ ہے کہ پاکستان کا تحریک طالبان افغانستان کے سربراہ ملا محمد عمر پر کچھ اثر ہے لیکن وہ پاکستان کے فرمان تابع نہیں اور نہ ہی پاکستان کا اُن کی فیصلہ سازی یا عمل میں اختیار ہے۔ پاکستان نے ہمیشہ کوشش کی ہے کہ وہ افغانستان میں قیام امن کے لئے اَپنا کردار اَدا کرے اُور اَفغانستان سے مثالی تعلقات اِستوار کئے جائیں۔ اس سلسلے میں پاکستان کے سیکرٹری خارجہ اعزاز احمد چوہدری کی خدمات اور کوششیں قابل ذکر و ستائش ہیں جنہوں نے حال ہی میں افغان طالبان سے درخواست کی ہے کہ وہ موسم بہار میں شروع کی جانے والی ’عزم‘ کاروائیوں کو روکیں۔ حال ہی میں جرمنی کے ایک ادارے ’فریڈرچ ایلبرٹ اسٹیفنگ‘ کے زیراہتمام اسلام آباد میں سیمینار کا انعقاد ہوا‘ جس کا موضوع ’ افغانستان و پاکستان کے درمیان تعلقات کی بہتری کے ساتھ خطے میں قیام امن و خوشحالی‘ بھی تھی اور اِس موقع پر اعزاز چوہدری نے جو خطاب کیا وہ بہت ہی پرمغز تھا لیکن افغانستان کے بارے میں منعقد ہونے والی اِس اہم نشست کے بارے میں ذرائع ابلاغ نے زیادہ تشہیر نہیں کی۔ ایک اہم نکتہ اُن کی تقریر کا یہ بھی تھا کہ عین ممکن ہے کہ طالبان موسم بہار کی کاروائی کا آغاز نہ کریں بلکہ یہ مہم چند ایسے افراد کی جانب سے کی جائے جو نہیں چاہتے کہ افغانستان میں امن کو موقع ملنا چاہئے۔
(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: رحیم اللہ یوسفزئی۔ ترجمہ: شبیر حسین اِمام)
![]() |
The Changed Afghan policy by Rahimullah Yusufzai |
No comments:
Post a Comment