Tuesday, May 5, 2015

May2015: Tourism & enviornment

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
تحفظ ماحول: ترغیب سے ضرورت تک!
خیبرپختونخوا کے بالائی علاقے موسم گرما کے دوران اندرون ملک سے آنے والے سیاحوں کی توجہ کا مرکز ہوتے ہیں لیکن مسئلہ یہ درپیش ہے کہ کس طرح چند دن کے مہمانوں (سیاحوں) کو ماحولیاتی تنوع کی اہمیت سے آگاہ کیا جائے اور اِس بارے میں شعور عام کیا جائے کہ سطح سمندر سے بلند پہاڑی مقامات کی اہمیت کیا ہوتی ہے؟ اِن پہاڑی مقامات پر میدانی علاقوں کی نسبت کیا کچھ کرنے کی ممانعت ہوگی اور موسم کا لطف اٹھانے کے ساتھ سیاحوں یا تجارتی پیمانے پر سیاحوں کو سہولیات فراہم کرنے والے مقامی و غیرمقامی افراد پر کیا کچھ اور کتنی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں؟ کمرشل ازم سے بالائی علاقوں کے سیاحتی مقامات و جنگلی حیات کو لاحق خطرات کیا ہیں اور قدرت کے برقرار کئے ہوئے ماحولیاتی توازن کو برقرار رکھنے میں ہم میں ہر ایک کیا کردار ادا کرسکتا ہے؟

کیا پہاڑی مقامات کی سیر کے لئے آنے والوں کو ’ٹول پلازہ‘ ہدایات تھمائی جائیں اور ایک تحریری حلف نامے پر اُن سے دستخط لئے جائیں کہ وہ اپنے گردوپیش کے ماحول کو سمجھیں گے اور ایسے اقدام یا اقدامات سے حتی الوسع گریز کریں گے‘ جس سے چھوٹے بڑے درختوں یا جنگلی حیات کو نقصان پہنچنے کا احتمال ہو؟ کیا ’ہم زمین ایف ایم‘ کے نام سے ایک مستقل ریڈیو اسٹیشن کی ضرورت بھی ہے جس کے ذریعے وقتاً فوقتاً موسم کی تبدیلیوں کے حوالے سے ہدایات نشر کی جائیں‘ سیاحوں کی رہنمائی‘ اُنہیں سستی اور معیاری رہائش و خوردونوش کے علاؤہ ضلعی انتظامیہ کے مقرر کردہ نرخناموں سے آگاہ کیا جائے۔ سیاحوں کی شکایات سنی اور نشر کی جائیں۔ سیاحوں کو کیا اچھا لگا اور وہ کن شعبوں میں مزید بہتری چاہتے ہیں‘ اِس بارے میں بھی بات چیت ہونی چاہئے۔ مقامی علاقوں کے بارے میں معلومات اور اہم خبروں سے بھی اُنہیں مستقل آگاہ رکھنے کا مستقل انتظام ہونا چاہئے۔ علاؤہ ازیں ماحول دوستی کی ترغیب دینے کے لئے فنون لطیفہ کے شعبے سے تعلق رکھنے والی نامور شخصیات کے پیغامات‘ دل نشیں ہو سکتے ہیں۔ بچوں کو (سبق آموز) لوک کہانیوں کے ذریعے ’ماحول دوستی‘ کے موضوع کی باریکیوں سے روشناس کرایا جاسکتا ہے۔ ترغیب سے ضرورت تک ہمیں تحفظ ماحول بہ امر مجبوری شعوری طورپر اختیار کرنا ہوگا‘ اِس مرحلۂ فکر پر کیا آپ ماحول کو نقصان پہنچانے پر جرمانے اور سزائیں مقرر کرنے کی حمایت کریں گے؟ کیا ایسی گاڑیوں کے بالائی علاقوں میں داخلے پر پابندی ہونی چاہئے جو زیادہ دھواں چھوڑتی ہیں؟ آیئے اپنے مستقبل یعنی ماحول کے بارے میں بات کرنے کی رسم ڈالتے ہیں!
عمومی رویہ یہی ہے کہ گرمی کے ستائے میدانی علاقوں کے رہنے والے جب اپنے گھروں سے خیبرپختونخوا کے ہزارہ یا مالاکنڈ ڈویژنوں یا صوبہ پنجاب کے متصل اضلاع کا رُخ کرتے ہیں تو اپنے ساتھ انواع و اقسام کے کھانے پینے کی اشیاء کے انبار رکھنا نہیں بھولتے‘ جو پلاسٹک کے تھیلے تھیلوں میں بندہوتی ہیں۔ یہ اشیائے استعمال کرنے کے بعد ان کا کوڑا کرکٹ اپنے ساتھ واپس نہیں لے جایا جاتا بلکہ اکثر پہاڑوں کی ڈھلوانوں سے نظر آنے والی جنت نظیر وادیوں کی طرف اچھال دیا جاتا ہے!
 کچھ لوگ یہ کام بناء سوچے سمجھے کرتے ہیں لیکن اچھے خاصے تعلیم یافتہ اور قیمتی گاڑیوں میں بیٹھے سیاحوں کو بھی یہی کچھ کرتے دیکھا گیا ہے کہ وہ گاڑی کا شیشہ نیچے کرکے سگریٹ کے خالی پیک‘ پلاسٹک کے خالی ڈبے‘ مشروبات کی بوتلیں حتی کہ شیشے کی چھوٹی بڑی بوتلیں پھینک کر چلتے بنتے ہیں‘ جو بعدازاں بندروں اور دیگر جنگلی حیات کے ہتھے چڑھ جاتی ہیں اور اُن کی صحت کے لئے خطرناک ہوتی ہیں! یاد رکھیں کہ وہ سبھی اشیاء جو ہم اپنے بچوں کی پہنچ سے دور رکھتے ہیں یا بطور احتیاط جن پر ہدایات درج ہوتی ہیں کہ بچوں کی پہنچ سے دور رکھیں وہ جنگلی حیات کے لئے بھی یکساں خطرہ ہوتی ہیں۔

 دوسری اہم بات تیز آواز میں موسیقی سے لطف اندوز ہونے کا عمومی رویہ (بھیڑچال) ہے۔ چاہے اپنی گاڑی ہو یا پیسے ڈال کر نصف درجن دوست ایک گاڑی میں ٹھونس کر بیٹھے ہوں‘ وہ بلند آواز میں موسیقی بجانے اور یہاں وہاں ناچنے (ڈانس) سے گریز نہیں کرتے۔ کیا ہم نے کبھی سوچا کہ پہاڑی مقامات پر رہنے مقامی افراد کی بھی کوئی زندگی ہے‘ کوئی معمولات اُور روایات ہیں؟ وہاں آذان اور نماز کے اوقات الگ ہوتے ہیں تو وہ کیا ہیں؟ کیونکہ جب ہم کسی بلند مقام پر تیز آواز میں موسیقی بجاتے ہیں تو اُس کی گونج پوری وادی کی خاموشی کو تہس نہس کر دیتی ہے۔ عین ممکن ہے کہ سیاح جس موسیقی سے لطف اندوز ہو رہے ہوں اُس کی آواز کسی گھر میں بچھی ہوئی صف ماتم کا مذاق اُڑا رہی ہو یا پھر کسی مقامی شخص کے ہاں میت کی تدفین کے لئے رسومات عین اُنہی لمحات میں اَدا کی جارہی ہوں! یا وہاں سوگوار خاندان کے افراد دعا (فاتحہ خوانی) کے لئے جمع ہوں جیسا کہ عموماً ہوتا ہے کہ پہاڑی علاقوں میں تدفین کے بعد رسم سوئم (تیسرے دن کی دُعا) تک غم زدہ خاندان سے تعزیت کے لئے آنے والوں کا تانتا بندھا رہتا ہے اور یہ لوگ کسی ایک حجرے‘ قریبی سکول یا کھلے مقام پر جمع ہوتے ہیں۔ تفریح اور موسم سے لطف اندوز ہونا کوئی بُری بات نہیں اگر ایسا کرنے میں تہذیب کے دامن کو ہاتھ سے جانے نہ دیا جائے۔

سیاح کسی رحمت سے کم نہیں کیونکہ مقامی افراد اِنہی کا سارا سال انتظار کرتے ہیں اور پہاڑی مقامات پر جو تھوڑی بہت زندگی و آسائش کے آثار دکھائی دیتے ہیں تو وہ مقامی سیاحوں ہی کی بدولت ہے کیونکہ غیرملکی سیاح تو امن و امان کی غیریقینی صورتحال کے باعث پاکستان کا راستہ ہی بھول چکے ہیں اُور لے دے کر جو مقامی سیاح پہاڑی مقامات کا رخ کرتے بھی ہیں تو اُنہیں زیادہ سے زیادہ سہولیات دینے اور خندہ پیشانی سے ملنے والوں کی مقامی روایات اُور جذبات و احساسات کی بھی قدر کرنی چاہئے۔ انسان چونکہ ایک ایسا جانور ہے جو سماج اور معاشرے کی صورت رہتا ہے اِس لئے ہم زمین‘ ہم زماں اور ہم مکاں ہونے کے الگ الگ تقاضوں کا کماحقہ ادراک کرنے اور انہیں سمجھنے کی اشد ضرورت ہے۔ ایسا نہیں کہ ہم اگر شہروں میں ہیں تو مہذب اور صفائی پسند دکھائی دیں لیکن جب پہاڑی مقامات کا رخ کریں تو محض اپنی تفریح میں نہ تو ماحول کی پرواہ کریں اور نہ ہی مقامی افراد کے جذبات و احساسات کو اہمیت دیں۔

تحفظ ماحول کا بیڑا اُٹھائے ’اِیبٹ آباد‘ کے ماحول دوست‘ محمود اَسلم نے اپنے ’فیس بک اکاونٹ‘ کے ذریعے موسم گرما کے دوران گلیات (ضلع ایبٹ آباد) کی سیر کے آنے والوں کی توجہ کئی ایسی ’چھوٹی چھوٹی لیکن بڑی باتوں‘ کی جانب مبذول کرانے کی کوشش کی ہے‘ جن کی طرف عمومی توجہ کے سبب دھیان نہیں جاتا۔ اُنہوں نے ضلعی حکومت کی توجہ بھی چند اہم اَمور کی جانب مبذول کرائی ہے جیسا کہ ’’ایبٹ آباد سے نتھیاگلی تک سڑک کو مزید کشادہ کرنے اور نتھیاگلی میں گاڑیوں کے لئے ’پارکنگ پلازہ‘ کی تعمیر سے اِس منفرد سیاحتی مقام کے ماحول کو نقصان پہنچنے کا احتمال ہے۔ اُنہوں نے تجویز دی ہے کہ سیاحت کے لئے آنے والے گاڑیوں پر اِنحصار کرنے کی بجائے چند دنوں‘ ہفتوں یا مہینوں قیام کے دوران خود بھی زیادہ سے زیادہ پیدل چلیں اور دوسروں کو بھی پیدل چلنے کی ترغیب دیں۔‘‘ یقیناًماحول دوست اقدامات و امکانات کیا کچھ ہو سکتے ہیں‘ اِس سلسلے میں حکومت و ضلعی انتظامیہ کی موجودگی و سرپرستی میں غوروخوض ہونا چاہئے۔ گلیات سے منتخب ہونے والے عوامی نمائندوں کا بھی فرض بنتا ہے کہ وہ اپنے اپنے ’ووٹ بینک‘ کے ساتھ اُس ماحول کے تحفظ (بقاء و بچاؤ) کے بارے میں ’فکرمند‘ ہوں‘ جو مختلف قسم کے خطرات کی زد میں ہے!

No comments:

Post a Comment