Monday, May 4, 2015

APR2015: Unity of voters needed

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
اِنتخابی اِتحاد: اِجتماعی مفاد
جن کا دعویٰ (خوش فہمی) ہے کہ وہ ’خیبرپختونخواکے نبض شناس ہیں‘ اور گیارہ مئی دو ہزار تیرہ کے عام انتخابات میں اُنہیں صوبائی دارالحکومت ’پشاور‘ سمیت صوبے کے پچیس اضلاع میں رہنے والوں کی اکثریت نے صرف اپنا ووٹ ہی نہیں بلکہ قسمت سونپ دی ہے اُنہیں پچیس اپریل کو ہوئے ’کنٹونمنٹ بورڈ‘ کے انتخابی نتائج کو بغوردیکھنا چاہئے‘ کہ کس طرح سیاسی جماعتوں سے اِظہار بیزاری کرنے والوں کی ایک بڑی تعداد کامران ٹھہری اور اکثریتی رجسٹرڈ ووٹرز نہ صرف بلدیاتی انتخابی عمل سے علیحدہ رہے بلکہ جنہوں نے ووٹ ڈالا بھی تو وہ نمایاں طور پر ’سیاست گریز‘ ہی رہے۔ عجب نہیں تھا کہ مختلف النظریات سیاسی جماعتوں نے حسب سابق اپنی سیاسی ساکھ (اُور ناک) بچانے کے لئے ’انتخابی اتحاد‘ کئے۔ اپنے اپنے ووٹ بینک کا سودا کیا۔ مفادات میز پر (سامنے) رکھے۔ تحریری و زبانی وعدے وعید ہوئے اور ایک مرتبہ پھر عملاً ثابت کردیاگیاکہ ہمارے ہاں سیاست نظریات کا نہیں بلکہ مفادات کا نام ہے‘ جس میں ممکنات‘ تصورات اور عجائبات کی نہ تو کوئی کمی ہے اور نہ ہی حدود و قیود۔ سست روی ہی سے سہی لیکن رفتہ رفتہ یہ بات عام آدمی کی سمجھ میں آ رہی ہے کہ کس طرح اُس کی سیاسی وابستگی کو ’مجبوری‘ سمجھ کر ’فروخت‘ کیا جاتا ہے۔ وہ دن دور نہیں جب مختلف سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے بھی ’عام لوگ‘ بھی ’اِتحاد‘ کرکے جماعت کہلانے والے سیاسی شعبدہ بازوں‘ مفاد و سرمایہ پرستوں اور ذاتی و کاروباری مفادات کے پوجاریوں کی قسمت کا فیصلہ کردیں گے جنہوں نے سیاست اور سیاسی ماحول کو آلودہ کر رکھا ہے جنہوں نے سیاست کے ذریعے اپنے تسلط‘ ٹیکس چوری اور کاروباری خیانتوں کے تحفظ و بقاء دے رکھی ہے اور وہ دن زیادہ دور نہیں جب ایسے عناصر سے بذریعہ انتخابات ہی ہمیشہ ہمیشہ کے لئے نجات حاصل کر لی جائے!

کنٹونمنٹ بورڈز کے لئے خیبرپختونخوا میں بھی ملک کے دیگر حصوں کی طرح پولنگ ہوئی تو نتیجہ یہ نکلا کہ آزاد اُمیدواروں نے نسبتاً زیادہ نہ سہی لیکن غیرمتوقع اور غیرمعمولی تعداد میں نشستیں حاصل کیں ہیں۔ اگرچہ قومی وطن پارٹی‘ عوامی نیشنل پارٹی (ولی خان)‘ جمعیت علمائے پاکستان اُور مسلم لیگ (قائد اَعظم) نے کنٹونمنٹ بورڈ پشاور کے اِنتخابات کے لئے اُمیدوار نامزد نہیں کئے لیکن اگر کر بھی لیتے تو خوب جانتے تھے کہ ان کا حشر کیا ہوتا۔ یاد رہے کہ خیبرپختونخوا کی کل 32 کنٹونمنٹ بورڈ (چھاؤنیوں پر مشتمل) وارڈوں (حلقوں) کے لئے اُمیدواروں میں سے 14 ایسے افراد کامیاب ہوئے ہیں جن کا کسی سیاسی جماعت سے تعلق نہیں تھا اور اُنہوں نے مرکب سیاسی اتحادوں کے خلاف ’آزاد‘ حیثیت سے کامیاب ہوکر ثابت کیا ہے کہ ہمارے ہاں حق رائے دہی استعمال کرنے والوں کا شعور کس طرح ہر گزرتے انتخاب کے ساتھ بڑھتا چلا رہا ہے۔

کنٹونمنٹ بورڈ پشاور کی پانچ نشستوں کے لئے پاکستان مسلم لیگ (نواز) نے چار اُمیدوار نامزد کئے اور کوئی ایک بھی کامیاب نہ ہو سکا! مسلم لیگ (قائداعظم) اور جمعیت علمائے اِسلام نے ’عوامی نیشنل پارٹی(اے این پی)‘ کی حمایت پر اِکتفا کیا لیکن ’نواز لیگ‘ اور ’اے این پی‘ جیسے ’ہیوی ویٹ تجربہ کاروں‘ کی شکست نے خود اُنہیں بھی حیران چھوڑا ہے‘ جو دوسروں کو حیران کرنے کا سلیقہ رکھتے ہیں! بلدیاتی انتخابات آنے والے ہیں جس کے لئے ’سہ جماعتی اتحاد‘ کو ’کنٹونمنٹ بورڈز‘ انتخابی نتائج سے بہت کچھ سیکھنا چاہئے۔ سردست فیصلہ یہ ہوا ہے کہ 184 بلدیاتی نشستوں پر جمعیت علمائے اسلام 51‘ اے این پی 70 اُور پیپلزپارٹی 63 حلقوں کے لئے اُمیدوار نامزد کرے گی اور مقابلہ ہوگا صرف اور صرف ’تحریک انصاف‘ کے ساتھ جس میں ٹکٹوں (نامزدگیوں) کی تقسیم پر اختلافات ڈیرہ اسماعیل خان سے ہزارہ ڈویژن تک پھیلے ہوئے ہیں! تحریک انصاف کی اپنی ہی مرتب کردہ ایک تحقیقاتی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ دو ہزار تیرہ کے عام انتخابات میں تحریک کی بڑے پیمانے پر ناکامی کی وجہ وہ جماعتی انتخابات تھے‘ جنہوں نے کارکنوں کو تقسیم کردیا اور یہ جانتے بوجھتے ہوئے بھی بلدیاتی انتخابات کے لئے ٹکٹوں کی تقسیم میں اُن پارلیمانی کمیٹیوں کی سفارشات نظرانداز کی گئیں‘ جس نے تحریک انصاف کے رہنماؤں اور کارکنوں کو ایک مرتبہ پھر تقسیم کر کے رکھ دیا ہے اور اندیشہ ہے کہ بنی گالہ کو ’دو ہزار تیرہ‘ کے عام انتخابات جیسے نتائج ہی بلدیاتی انتخابات میں بھی ’سہنے‘ نہ پڑجائیں!

جماعتی سیاست میں نظم و ضبط‘ قیادت کا سحر‘ اتحاد کے فائدے‘ تقاضے اُور ضروریات اپنی جگہ حقیقت لیکن ’پشاور کی ناقراری‘ کا سبب یہ ہے کہ ہر دُور کی طرح اِسے آج بھی ’قیادت‘ کی طلب ہے۔ سندھ و پنجاب کی مٹی سے اُٹھنے والے نظریات کے لئے ہر قسم کی ’آب و ہوا‘ بھلا کیونکر و کیسے موزوں ہو سکتی ہے یا موافق قرار دی جاسکتی ہے! یہی وجہ ہے کہ ہمیں ہر ایک عام اِنتخاب کے بعد زیادہ شدت سے جو ’بھوک و پیاس‘ ستاتی ہے‘ اُس کا تعلق وسائل کی کمی سے ہرگز نہیں بلکہ وسائل کی ترقی میں غیرحقیقت پسندانہ طرزعمل و ترجیحات ہیں۔ سیاسی جماعتوں نے ’عام آدمی (ووٹر)‘ کو ’غلام‘ بنا رکھا ہے۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے کہ جو ہم نے اُردو زبان کو لونڈی سمجھا اور اُس سے سلوک و برتاؤ بھی لونڈیوں جیسا ہی روا رکھے ہوئے ہیں! جنہیں اُردو کے چند جملے بولنے اور لکھنے میں دقت ہوتی ہے‘ جنہیں ’اُردو گرائمر کی باریکیوں‘ محدود لغت اُور مذکر و مؤنث کے صیغوں میں تمیز نہیں وہی اکثر سرکاری و نجی تعلیمی اداروں میں ’اُردو زبان‘ کی درس و تدریس کرتے دکھائی دیتے ہیں!

سیاست کا حال مختلف نہیں‘ جہاں ذاتی مفاد بالاتر ہے‘ سیاست اُور جمہوریت میں ’دامے درہمے سخنے‘ سرمایہ کاری کرنے والوں کے اگر والوں کے اگر ابھی دن گنے نہیں گئے تو ایسا بصورت عوامی اتحاد ممکن ہے۔ وہ ’خیرخواہ‘ جو انتخابی حلقوں کی تشکیل و ترتیب سے لیکر اُن کے ووٹوں کے اندارج و گنتی تک کے مراحل کے ’ایکسپرٹ (ماہر)‘ ہو چکے ہیں اور اب اِس مہارت کا مقابلہ کرنا بھی ممکن نہیں رہا کیونکہ انتخابی قواعد اور عمل اِس قدر مہنگا اور ناقابل یقین حد تک پیچیدہ عمل بنا دیا گیا ہے کہ اچھی ساکھ و شہرت اور بصیرت رکھنے والے ’باوجود ارادہ و نیت بھی ہمت ہی نہیں کرپاتے!‘ کنٹونمنٹ بورڈ پشاور سمیت خیبرپختونخوا کے انتخابی نتائج اِس مفادپرستانہ سیاسی و ذاتی ترجیحات والے منظرنامہ میں تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتے ہیں‘ اگر ہم نوشتۂ دیوار پڑھ سکیں۔ اگر ہم اپنے گردوپیش اور حاصل شدہ نتائج پر غور کر سکیں‘ جو ایک ایک کی گنتی سے ’روایت شکن اشارہ‘ دے رہے ہیں۔ کاش کہ ہم دیکھ سکیں۔ کاش کہ ہم سمجھ سکیں۔ کاش کہ ’ہم عوام‘ بھی اِجتماعی مفاد کے لئے متحد ہو سکیں!

No comments:

Post a Comment