Monday, May 4, 2015

TRANSLATION: Man from Mardan

Man from Mardan
مرد مردان
پاکستان میں رنگارنگ سیاستدان دیکھنے میں آئے اور کہا جاسکتا ہے کہ محمد اعظم خان ہوتی بھی حالیہ چند برس میں سیاسی افق پر پھیلنے والی اُس قوس قزاح کا حصہ رہے‘ جن کی شخصیت کے بہت سے رنگ اور بہت سے پہلو تھے۔ اعظم ہوتی گلے کے سرطان میں مبتلا تھے اُور اسی مرض سے 69 برس کی عمر میں اُن کا انتقال ہوا‘ جنہیں 16 اپریل کو اُن کے آبائی قبرستان میں اپنی والدہ ماجدہ کی قبر کے پہلو میں دفن کردیا گیا۔ (اناللہ و انا علیہ راجعون)۔

قوم پرست نظریات رکھنے والے اعظم ہوتی کی زندگی کے آخری ایام نشیب و فراز کا شکار رہے۔ اُنہوں نے ایک جوانسال خاتون سے شادی کی‘ جسے اُن کے اہل خانہ بشمول صاحبزادوں نے دل سے قبول نہیں کیا اور اِس نئے رشتے کی وجہ سے وہ گھریلو تنازعات کی زد میں آگئے۔ اگرچہ اُن کے تنازعات خیرخواہوں کے عمل دخل سے بہت حد تک ختم ہو گئے اور وہ اُس گھر میں آنے جانے لگے جس کا نام ’مردان ہاؤس‘ رکھا تھا اور اُنہوں نے اپنی نگرانی بھی بڑی چاہ سے تعمیر کروایا تھا لیکن اُن کا بیشتر وقت پشاور والے گھر ہی میں بسر ہونے لگا اور یہیں بسترعلالت پر تکلیف دہ بیماری کا مقابلہ کرتے ہوئے اُن کے آخری ایام گزرے۔

وہ سبھی لوگ جو اعظم ہوتی کو قریب سے جانتے تھے‘ اُنہیں معلوم تھا کہ وہ ایک ذہین‘ حاضرجواب‘ باعلم اور وسیع مطالعہ رکھنے والی ایسی شخصیت تھے‘ جن کی شخصی خداداد صلاحیتوں کا شمار ممکن نہیں تھا۔ آپ نواز شریف کے دونوں ادوار حکومتوں کے دوران وفاقی وزیر برائے مواصلات (کیمونیکیشن) رہے اور اِسی دور میں جبکہ اُن کے پاس دو مرتبہ وفاقی وزارتوں کے قلمدان تھے تو اُن کی سماجی حلقوں میں مقبولیت میں بھی اضافہ ہوا لیکن اِس دور سے جڑی ہوئی شہرت بھی عارضی ثابت ہوئی اور اُنہیں ’قومی احتساب بیورو (نیب)‘ نے اِن الزامات پر گرفتار کیا کہ اُنہوں نے بحیثیت وفاقی وزیر مواصلات اپنے عہدے اُور اختیارات کا غلط استعمال کیا۔ اُن پر مالی بدعنوانیوں کے بھی الزامات عائد کئے گئے اور یہ وہ محرکات تھے جس نے اُن کی شہرت و ساکھ پر گہرے منفی اثرات مرتب کئے۔

اعظم ہوتی کی شخصیت اُس وقت بھی متنازعہ بنی جب اُن کے صاحبزادے امیر حیدر خان ہوتی سال 2008ء سے 2013ء کے دوران خیبرپختونخوا کے وزیر اعلیٰ رہے۔ نوجوان وزیراعلیٰ کے والد نے اپنے بیٹے کی وزارت اعلیٰ کے عہد میں فعال کردار ادا کیا اور بہت سے اختیارات اپنے پاس رکھے۔ اگرچہ اُس وقت کی صوبائی حکومت میں اعظم ہوتی کے پاس کوئی باضابطہ قلمدان یا عہدہ نہیں تھا لیکن اُن کی رائے اور نکتۂ نظر حکومتی فیصلوں میں فیصلہ کن حیثیت رکھتی تھی لیکن حقیقت یہ تھی کہ سیاسی طاقت کا مرکز تھے بالخصوص مردان اور اس کے ملحقہ اضلاع جن میں بونیر بھی شامل تھا۔

یہ حقیقت ہماری ’تلخ سیاسی تاریخ‘ کا ایک باب ہے کہ اعلیٰ عہدوں پر فائز سرکاری اہلکار ہر شام باقاعدگی سے اعظم ہوتی کی عدالت میں پیش ہوتے اور وہیں سے اُنہیں احکامات ملتے یا اُنہیں اپنے دن بھر کی کارکردگی پیش کرنا ہوتی۔ وہ سبھی موقع شناس جنہیں کلیدی عہدوں پر تعیناتی چاہئے ہوتی تھی یا جنہیں صوبے کے ترقیاتی کاموں میں بطور ٹھیکہ دار حصہ داری چاہئے ہوتی تھی یا اکثر سرکاری ملازمتیں اعظم ہوتی ہی کے آشیرباد و سفارش سے تقسیم ہوا کرتی تھیں لیکن اِن سبھی الزامات کی حقیقت سے اعظم ہوتی مسلسل انکار کرتے رہے اور اپنے خلاف عائد الزامات کے بارے میں ثبوت طلب کیا کرتے تھے۔ وزیراعلیٰ امیر حیدر ہوتی کے دور میں مردان میں اس قدر ترقیاتی کام ہوئے کہ یہ صوبائی دارالحکومت پشاور کے بعد خیبرپختونخوا کا دوسرا بڑا شہر بن گیا۔ یہ اعزاز بھی اعظم ہوتی ہی کو جاتا ہے کہ اُنہوں نے پشاور اسلام آباد موٹروے کی تعمیر کو اس انداز میں مکمل کرایا کہ یہ پانچ اضلاع‘ صوابی‘ مردان‘ نوشہرہ‘ چارسدہ اور پشاور کو چھوتی ہوئی گزری۔

اعظم ہوتی ایک دردمند دل رکھنے والے انسان تھے۔ وہ سینکڑوں افراد کو ملازمتوں تک رسائی کا سبب بنے اور یہی وجہ ہے کہ ایسے سبھی افراد اور اُن کے اہل خانہ اعظم ہوتی کے مشکور و ممنون رہے۔ خدائی خدمتگار تحریک میں بانی خان عبدالغفار خان (باچا خان) کے ہمراہ جدوجہد و قربانیاں دینے والے بقیدحیات افراد کی تلاش اور مستحقین کی پہلی مرتبہ مالی مدد بھی اعظم ہوتی ہی کے کارہائے نمایاں میں سے ایک ہے۔ اعظم ہوتی ’عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی)‘ کے دیرینہ کارکنوں کو اُن کے نام سے جانتے تھے اور جب کبھی بھی خوشی یا غم کا کوئی موقع ہوتا تو وہ اپنی مصروفیات میں سے وقت نکال کر دیرینہ سیاسی کارکنوں سے جاملتے۔ یہی وجہ تھی کہ وہ بیک وقت امرأ اور غرباء میں مقبول تھے کہ محل نما مکانات سے لیکر غرباء کی جھونپڑیوں کے فرش پر بیٹھنے میں ججھک محسوس نہیں کرتے تھے۔

مردان ہوتی دو ہوتی خاندانوں کا شہر ہے‘ جہاں سے تعلق رکھنے والے ’اعظم ہوتی‘ معروف سیاسی شخصیت خاندان کا حصہ تھے۔ اُن کے والد امیر محمد خان برطانوی راج کے خلاف ’تحریک آزادی‘ کے ہراوّل دستے کا حصہ تھے جنہوں نے باچا خان کے ساتھ اصلاحی و سیاسی عملی جدوجہد میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ اُنہوں نے لاہور کے ایچی سن کالج سے تعلیم حاصل کی اور 1967ء میں پاک فوج کا حصہ بطور ’کیپٹن‘ بنے۔ فوج سے علیحدگی سے قبل اُنہوں نے بھارت کے ساتھ ہوئی ایک جنگ میں بھی حصہ لیا۔ اُن کی عسکری تربیت ہی کا نتیجہ تھا کہ اُنہوں نے نیشنل عوامی پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی کے ’سرخ پوش رضاکاروں‘ کا دستہ مرتب کیا جنہیں ’زلمے پختون‘ کہا جاتا ہے۔ وہ اِس دستے کے سالار (کمانڈر) تھے اور کبھی کبھار خود بھی سرخ لباس اُور ٹوپی بڑے فخر سے زیب تن کیا کرتے تھے۔

اعظم ہوتی نے 1973ء میں خودساختہ جلاوطنی بھی اختیار کی اور وہ افغانستان چلے گئے۔ یہ جلاوطنی راولپنڈی کے لیاقت باغ میں منعقدہ ایک جلسۂ عام میں ہوئی فائرنگ اور بعدازاں ذوالفقار علی بھٹو حکومت کی جانب سے سیاسی مخالفین کو زیر کرنے کے لئے ریاستی وسائل کا استعمال ہونے لگا۔ یاد رہے کہ لیاقت باغ جلسۂ عام میں خان عبدالولی خان‘ اجمل خٹک اور دیگر رہنما بال بال بچ گئے تھے اور اِس قاتلانہ حملے کا الزام بھی اُس وقت ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت ہی پر عائد کیا گیا تھا۔ اُس وقت کے بلوچ اور پختون رہنما افغانستان جلاوطن ہو گئے اور وہیں سے پاکستان کو عدم استحکام کا شکار کرنے کے لئے فعال ہوگئے کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ اُنہیں پاکستان میں رہتے ہوئے سیاسی جدوجہد کی آزادی نہیں تھی اور وہ اپنے حقوق کے لئے بغاوت کے راہ پر چل نکلے۔

اعظم ہوتی نے بھرپور سیاسی و نجی زندگی بسر کی اور اُن کے کچھ اقدامات نے اُنہیں رنج و غم میں بھی مبتلا کیا۔ اُنہیں اپنا گھر ’مردان ہاؤس‘ چھوڑنا پڑا کیونکہ اُن کے اپنے صاحبزادوں حیدر ہوتی اُور غزن ہوتی سے اختلافات شدت اختیار کر گئے تھے۔ اُنہیں ایک موقع پر ’اے این پی‘ سے بھی الگ کر دیاگیا۔ وہ ترک دنیا جیسی زندگی بسر کرنے لگے۔ ایک فراموش انسان کی۔ اُن کی صحت بھی رفتہ رفتہ خاندان کے لوگوں کی طرح اُن کا ساتھ چھوڑتی رہی اور حالت یہ ہوگئی کہ ایک وقت کا خوبرو جوان اِس قدر لاغر ہوا‘ کہ اُس کی پہچان ہی ممکن نہ رہی۔ ایک بھرپور محبتوں بھری زندگی بسر کرنے والے اعظم ہوتی کا تنہائی و بیماری سے شکست کھاتے ہوئے اختتام افسوسناک اور دردبھرا ہے۔

 (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: رحیم اللہ یوسفزئی۔ ترجمہ: شبیر حسین اِمام)

No comments:

Post a Comment