ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
سورج‘ سوا نیزے پر!
سورج‘ سوا نیزے پر!
خیبرپختونخوا میں ’پاکستان تحریک اِنصاف‘ جس شفاف طرز حکمرانی کے قیام کے
لئے کوشاں اُور پراُمید ہے‘ اُسے عملی جامہ پہنانا اگر ناممکن نہیں تو مشکل
ضرور ہے کیونکہ بدعنوانی ہمارے معاشرے کی رگ و پے میں اِس حد تک سرایت کر
چکی ہے کہ راتوں رات نہ تو تبدیلی لائی جا سکتی ہے اور نہ ہی یہ ہدف بذریعہ
قانون و قواعد مسلط کیا جاسکتا ہے۔ مثال کے طور پر کسی بھی سرکاری ملازمت
کے ضابطۂ اخلاق میں ’مقررہ دفتری اُوقات کی پابندی‘ کرنے کا ذکر ملتا ہے
لیکن کیا ہم کسی سرکاری ملازم کو دیکھ کر اپنی گھڑی میں وقت درست کر سکتے
ہیں؟ کیا ’وقت کی پابندی‘ پر عمل درآمد خیبرپختونخوا اسمبلی اجلاس سے لیکر
ہمارے روزمرہ معمولات کا حصہ ہے؟ سرکاری وسائل اور اِختیارات کا ’اَمانت و
دیانت اُور فرض شناسی‘ کے اصولوں پر استعمال ہونا چاہئے لیکن اِس ’ہونا
چاہئے‘ کو ’آفس آڈر (دفتری حکمنامے)‘ کے ذریعے ممکن نہیں بنایا جا سکتا۔
تھانہ کچہری کے معاملات محض جائز کام کے لئے بھی ’رشوت‘ طلب کرنے کی حد تک ابتر و محدود نہ سمجھے جائیں بلکہ برسرزمین حقیقت تو یہ ہے کہ جرائم پیشہ عناصر کی سرپرستی کرنے میں آج بھی کئی ایک تھانہ جات پیش پیش دکھائی دیتے ہیں‘ وگرنہ یہ بات عملاً ممکن ہی نہیں کہ کسی علاقے میں چھوٹے سٹریٹ کرائمز سے لیکر اغوأ برائے تاوان‘ بھتہ خوری‘ جوئے‘ شراب دیگر منشیات و عصمت فروشی کے اڈے قائم ہوں اُور متعلقہ تھانہ لاعلم رہے! کل کی طرح آج بھی پولیس اہلکار من پسند تھانہ جات میں تعیناتیاں کراتے ہیں اور پشاور پولیس کے ایک اعلیٰ انتظامی آفیسر نے قبائلی علاقوں سے جڑے تھانہ جات کی اہمیت کا ذکر کرتے ہوئے کہہ بیٹھے کہ ’’رنگ روڈ سے متصل تھانہ جات میں تعیناتی کرانے کے لئے جس قدر اُور جس سطح پر سفارش کرائی جاتی ہے‘ اُس کا بیان ممکن نہیں!‘‘ بیچارے عمران خان ’بنی گالا (اسلام آباد)‘ میں بیٹھ کر یقین کر رہے ہیں کہ خیبرپختونخوا میں تبدیلی کا سورج سوا نیزے پر ہے جبکہ برسرزمین (ناقابل تردید‘ ناقابل یقین) حقائق یہ ہیں کہ سیاسی تعصب‘ سفارش‘ سیاست دانوں کی فیصلہ سازی سے متصادم ذاتی و کاروباری مفادات‘ اختیارات و سرکاری وسائل کے ناجائز استعمال‘ صحت و تعلیم جیسے بنیادوں شعبوں میں نجی اِداروں کی اجارہ داری‘ جعلی ادویات اُور عام آدمی کا مختلف طریقوں سے استحصال رسماً نہیں بلکہ حسب روایت جوں کا توں جاری و ساری ہے۔ اگر یہ کہا جائے تو بھی غلط نہیں ہوگا کہ تحریک انصاف ظلم و زیادتی کی ’سیاہ شب‘ میں آسمان پر ایک ستارہ کی صورت اپنے وجود کا ثبوت تو دے رہی ہے لیکن اُس سے رہنمائی لینے کے لئے بھٹکے ہوئے قافلے میں شامل مسافروں کو نہیں بلکہ خود اِس تحریک کے رہنماؤں کو تحریک لینا ہوگی‘ کچھ ہمت دکھانی ہوگی۔ اصلاحات و تبدیلی کا آغاز اپنی ’ذات مکرم بالصفات‘ سے کرنا ہوگا‘ خود کو بطور نمونہ پیش کرنے سے ’عمومی و خصوصی رجحانات‘ بدل سکتے ہیں۔ اپنے بارے میں ’سچ‘ کہنے (اُور سننے) کی جرأت (و ہمت) ہمارے ’قول و فعل‘ کا حصہ بن جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ موجودہ قوانین و قواعد ہی ’خوداحتسابی‘ و ’اصلاح کاری‘ کے لئے کافی و کارگر ثابت ہوں۔
تحریک انصاف ذرائع ابلاغ کی اہمیت سے بھی کماحقہ آگاہ ہے اور اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ پاکستان کی واحد اور قومی سطح کی ایسی سیاسی جماعت ہے جس نے اِنٹرنیٹ کے وسائل سے حتی الوسع استفادہ کرتے ہوئے ’سماجی رابطہ کاری (ویب سائٹس‘ بلاگز‘ ویڈیو بلاگز‘ ٹوئیٹر‘ انسٹاگرام‘ فیس بک‘ وغیرہ) کو جس انداز میں سمجھا ہے وہ سیاسی جماعتوں کی سطح پر اپنی نوعیت کی منفرد و قابل ذکر مثال ہے۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں اِس بات کی گنجائش نہیں ملتی کہ کسی قومی جماعت کا سربراہ پارٹی کے ادنیٰ کارکن کے سامنے یوں جوابدہ دے ہو کہ ’آن کی آن‘ میں وضاحت پیش کرنے اور اپنے متعلق کسی تاثر کی حقیقت بیان کرنے میں حتی الوسع تاخیر نہ کرتا ہو!
انٹرنیٹ پر انحصار کرنے والا ’اِنصاف ریڈیو‘ بھی تحریک انصاف کے ’کارہائے نمایاں‘ کا حصہ اُور ’شفاف طرز حکمرانی‘ کا ہدف حاصل کرنے کی کوشش ہے‘ جس کی نشریات کا معیار بہتر بنانے کی بہرکیف گنجائش تو انکار نہیں کیا جاسکتا لیکن اِس کی افادیت پیشہ ورانہ توجہ سے بڑھائی جاسکتی ہے۔ 2مئی کی دوپہر پشاور کے ’ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر‘ اسامہ احمد وڑائچ ’انصاف ریڈیو‘ کے مہمان تھے‘ جنہوں نے میزبان ’قاضی جلال‘ کے چھبتے ہوئے سوالات اُور ’زبردست‘ کے تکیۂ کلام کا تحمل سے گھنٹہ بھر جوابات دیتے ہوئے ’تجاوزات کے خلاف اُس جاری مہم پر کام کی رفتار میں آئی سست روی کی وضاحت پیش کی‘ جس کی ’منطق و معقولیت‘ پر اعتراض نہیں لیکن کیا ہم نہیں جانتے کہ تجاوزات ہٹانا ہی نہیں بلکہ ترقیاتی کام شروع کرنا بھی مہم کا حصہ تھا‘ جو اطلاعات کے مطابق سیاسی مفادات کے لئے بلدیاتی انتخابات تک مؤخر کر دیا گیا ہے لیکن ضلعی انتظامیہ اور میونسپل حکام اِس بات کی تردید کرتے ہیں! بہرحال توقع تھی کہ تجارتی مراکز کی کشادگی کے بعد ضلعی انتظامیہ تین دیگر اقسام کی تجاوزات کو آڑے ہاتھوں لے گی۔ اِن میں سرفہرست پشاور کے مرکزی اہم باغات (شاہی باغ‘ وزیرباغ‘ چاچا یونس پارک اُور جناح پارک) کی اراضی واگزار کرانا تھی۔ دوئم قبرستانوں پر قائم تجاوزات کا خاتمہ اورقبرستانوں کی اَراضی پر تجاوزات قائم کرنے کے رجحان کی حوصلہ شکنی کرنا تھی‘ جس کی سرپرستی ماضی کے سیاسی حکمران اپنے اپنے ’ووٹ بینک‘ بچانے کے لئے آج بھی کر رہے ہیں۔ سوئم نکاسی آب کے نالے (شاہی کھٹہ) پر قائم پختہ تعمیرات لائق توجہ تھیں جو ایک مستقل دردسر اور دیرینہ مسائل میں شمار تو کئے جاتے ہیں لیکن بااثر تاجر برادری کے اثرورسوخ اُور دباؤ کی وجہ سے اِس کی اصلاح نہیں کی جاتی۔
ضلعی انتظامیہ سے وابستہ اُمیدوں کی اگر کوئی سیدھی سادی فہرست مرتب کی جائے تو اُس میں خالص دودھ کی فراہمی‘ ملاوٹ سے پاک اجناس‘ چھوٹے بڑے ہوٹلوں‘ بیکریوں‘ میں کم سے کم صفائی کے معیار کا احساس و قیام اُور حفظان صحت کے اصولوں کے مطابق اشیائے خوردونوش کا معیار‘ پینے کے صاف پانی تک رسائی‘ رکشے اُور ٹیکسی کے فی کلومیٹر یا فاصلے کے اعتبار سے فی سٹاپ کرائے مقرر کرنا‘ پبلک ٹرانسپورٹ سے جڑی عام آدمی بالخصوص خواتین و طلبہ کی شکایات وغیرہ شامل ہوں گی۔ ’بہت خوب‘ اُور ’زبردست‘ جیسے توصیفی جملوں اور سرکاری اِداروں میں سیاسی مداخلت کی کم ترین شرح کے پرچار سے زیادہ زور بہتری کی گنجائش اور اِصلاحات کے عملی اطلاق پر ہونی چاہئے۔
تحریک انصاف کی مرکزی قیادت بالخصوص سوشل میڈیا بشمول ’انصاف ریڈیو‘ کے نگرانوں کو سمجھنا ہوگا کہ ’افسرشاہی سیاسی مداخلت سے کبھی پریشان نہیں ہوتی بلکہ وہ اپنے وجود و بقاء کے لئے ہر دور میں متحد رہتی ہے۔ ’’وہ تو خوشبو ہے ہواؤں میں بکھر جائے گا۔۔۔مسئلہ پھول کا ہے‘ پھول کدھر جائے گا‘‘ تبدیلی کا وعدہ اِصلاح کاروں نے کیا ہے افسرشاہی نے نہیں کہ جن کی کارکردگی کا یوں کھلے عام احتساب ہو یا جنہیں جوابدہ بناکر پیش عوام کے سامنے کر دیا جائے! اہل پشاور سمیت خیبرپختونخوا کے طول و عرض میں رہنے والوں کو حوصلہ‘ صبر کی تلقین اور ’تبدیلی‘ جیسے ’انقلابی نعرے‘ کی حقیقت کا ’اعتبار‘ دلانا بھی ایک ’واجب الادأ‘ فریضہ ہے‘آخر’’لمبی ہے غم کی شام‘ مگر شام ہی تو ہے!‘‘
تھانہ کچہری کے معاملات محض جائز کام کے لئے بھی ’رشوت‘ طلب کرنے کی حد تک ابتر و محدود نہ سمجھے جائیں بلکہ برسرزمین حقیقت تو یہ ہے کہ جرائم پیشہ عناصر کی سرپرستی کرنے میں آج بھی کئی ایک تھانہ جات پیش پیش دکھائی دیتے ہیں‘ وگرنہ یہ بات عملاً ممکن ہی نہیں کہ کسی علاقے میں چھوٹے سٹریٹ کرائمز سے لیکر اغوأ برائے تاوان‘ بھتہ خوری‘ جوئے‘ شراب دیگر منشیات و عصمت فروشی کے اڈے قائم ہوں اُور متعلقہ تھانہ لاعلم رہے! کل کی طرح آج بھی پولیس اہلکار من پسند تھانہ جات میں تعیناتیاں کراتے ہیں اور پشاور پولیس کے ایک اعلیٰ انتظامی آفیسر نے قبائلی علاقوں سے جڑے تھانہ جات کی اہمیت کا ذکر کرتے ہوئے کہہ بیٹھے کہ ’’رنگ روڈ سے متصل تھانہ جات میں تعیناتی کرانے کے لئے جس قدر اُور جس سطح پر سفارش کرائی جاتی ہے‘ اُس کا بیان ممکن نہیں!‘‘ بیچارے عمران خان ’بنی گالا (اسلام آباد)‘ میں بیٹھ کر یقین کر رہے ہیں کہ خیبرپختونخوا میں تبدیلی کا سورج سوا نیزے پر ہے جبکہ برسرزمین (ناقابل تردید‘ ناقابل یقین) حقائق یہ ہیں کہ سیاسی تعصب‘ سفارش‘ سیاست دانوں کی فیصلہ سازی سے متصادم ذاتی و کاروباری مفادات‘ اختیارات و سرکاری وسائل کے ناجائز استعمال‘ صحت و تعلیم جیسے بنیادوں شعبوں میں نجی اِداروں کی اجارہ داری‘ جعلی ادویات اُور عام آدمی کا مختلف طریقوں سے استحصال رسماً نہیں بلکہ حسب روایت جوں کا توں جاری و ساری ہے۔ اگر یہ کہا جائے تو بھی غلط نہیں ہوگا کہ تحریک انصاف ظلم و زیادتی کی ’سیاہ شب‘ میں آسمان پر ایک ستارہ کی صورت اپنے وجود کا ثبوت تو دے رہی ہے لیکن اُس سے رہنمائی لینے کے لئے بھٹکے ہوئے قافلے میں شامل مسافروں کو نہیں بلکہ خود اِس تحریک کے رہنماؤں کو تحریک لینا ہوگی‘ کچھ ہمت دکھانی ہوگی۔ اصلاحات و تبدیلی کا آغاز اپنی ’ذات مکرم بالصفات‘ سے کرنا ہوگا‘ خود کو بطور نمونہ پیش کرنے سے ’عمومی و خصوصی رجحانات‘ بدل سکتے ہیں۔ اپنے بارے میں ’سچ‘ کہنے (اُور سننے) کی جرأت (و ہمت) ہمارے ’قول و فعل‘ کا حصہ بن جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ موجودہ قوانین و قواعد ہی ’خوداحتسابی‘ و ’اصلاح کاری‘ کے لئے کافی و کارگر ثابت ہوں۔
تحریک انصاف ذرائع ابلاغ کی اہمیت سے بھی کماحقہ آگاہ ہے اور اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ پاکستان کی واحد اور قومی سطح کی ایسی سیاسی جماعت ہے جس نے اِنٹرنیٹ کے وسائل سے حتی الوسع استفادہ کرتے ہوئے ’سماجی رابطہ کاری (ویب سائٹس‘ بلاگز‘ ویڈیو بلاگز‘ ٹوئیٹر‘ انسٹاگرام‘ فیس بک‘ وغیرہ) کو جس انداز میں سمجھا ہے وہ سیاسی جماعتوں کی سطح پر اپنی نوعیت کی منفرد و قابل ذکر مثال ہے۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں اِس بات کی گنجائش نہیں ملتی کہ کسی قومی جماعت کا سربراہ پارٹی کے ادنیٰ کارکن کے سامنے یوں جوابدہ دے ہو کہ ’آن کی آن‘ میں وضاحت پیش کرنے اور اپنے متعلق کسی تاثر کی حقیقت بیان کرنے میں حتی الوسع تاخیر نہ کرتا ہو!
انٹرنیٹ پر انحصار کرنے والا ’اِنصاف ریڈیو‘ بھی تحریک انصاف کے ’کارہائے نمایاں‘ کا حصہ اُور ’شفاف طرز حکمرانی‘ کا ہدف حاصل کرنے کی کوشش ہے‘ جس کی نشریات کا معیار بہتر بنانے کی بہرکیف گنجائش تو انکار نہیں کیا جاسکتا لیکن اِس کی افادیت پیشہ ورانہ توجہ سے بڑھائی جاسکتی ہے۔ 2مئی کی دوپہر پشاور کے ’ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر‘ اسامہ احمد وڑائچ ’انصاف ریڈیو‘ کے مہمان تھے‘ جنہوں نے میزبان ’قاضی جلال‘ کے چھبتے ہوئے سوالات اُور ’زبردست‘ کے تکیۂ کلام کا تحمل سے گھنٹہ بھر جوابات دیتے ہوئے ’تجاوزات کے خلاف اُس جاری مہم پر کام کی رفتار میں آئی سست روی کی وضاحت پیش کی‘ جس کی ’منطق و معقولیت‘ پر اعتراض نہیں لیکن کیا ہم نہیں جانتے کہ تجاوزات ہٹانا ہی نہیں بلکہ ترقیاتی کام شروع کرنا بھی مہم کا حصہ تھا‘ جو اطلاعات کے مطابق سیاسی مفادات کے لئے بلدیاتی انتخابات تک مؤخر کر دیا گیا ہے لیکن ضلعی انتظامیہ اور میونسپل حکام اِس بات کی تردید کرتے ہیں! بہرحال توقع تھی کہ تجارتی مراکز کی کشادگی کے بعد ضلعی انتظامیہ تین دیگر اقسام کی تجاوزات کو آڑے ہاتھوں لے گی۔ اِن میں سرفہرست پشاور کے مرکزی اہم باغات (شاہی باغ‘ وزیرباغ‘ چاچا یونس پارک اُور جناح پارک) کی اراضی واگزار کرانا تھی۔ دوئم قبرستانوں پر قائم تجاوزات کا خاتمہ اورقبرستانوں کی اَراضی پر تجاوزات قائم کرنے کے رجحان کی حوصلہ شکنی کرنا تھی‘ جس کی سرپرستی ماضی کے سیاسی حکمران اپنے اپنے ’ووٹ بینک‘ بچانے کے لئے آج بھی کر رہے ہیں۔ سوئم نکاسی آب کے نالے (شاہی کھٹہ) پر قائم پختہ تعمیرات لائق توجہ تھیں جو ایک مستقل دردسر اور دیرینہ مسائل میں شمار تو کئے جاتے ہیں لیکن بااثر تاجر برادری کے اثرورسوخ اُور دباؤ کی وجہ سے اِس کی اصلاح نہیں کی جاتی۔
ضلعی انتظامیہ سے وابستہ اُمیدوں کی اگر کوئی سیدھی سادی فہرست مرتب کی جائے تو اُس میں خالص دودھ کی فراہمی‘ ملاوٹ سے پاک اجناس‘ چھوٹے بڑے ہوٹلوں‘ بیکریوں‘ میں کم سے کم صفائی کے معیار کا احساس و قیام اُور حفظان صحت کے اصولوں کے مطابق اشیائے خوردونوش کا معیار‘ پینے کے صاف پانی تک رسائی‘ رکشے اُور ٹیکسی کے فی کلومیٹر یا فاصلے کے اعتبار سے فی سٹاپ کرائے مقرر کرنا‘ پبلک ٹرانسپورٹ سے جڑی عام آدمی بالخصوص خواتین و طلبہ کی شکایات وغیرہ شامل ہوں گی۔ ’بہت خوب‘ اُور ’زبردست‘ جیسے توصیفی جملوں اور سرکاری اِداروں میں سیاسی مداخلت کی کم ترین شرح کے پرچار سے زیادہ زور بہتری کی گنجائش اور اِصلاحات کے عملی اطلاق پر ہونی چاہئے۔
تحریک انصاف کی مرکزی قیادت بالخصوص سوشل میڈیا بشمول ’انصاف ریڈیو‘ کے نگرانوں کو سمجھنا ہوگا کہ ’افسرشاہی سیاسی مداخلت سے کبھی پریشان نہیں ہوتی بلکہ وہ اپنے وجود و بقاء کے لئے ہر دور میں متحد رہتی ہے۔ ’’وہ تو خوشبو ہے ہواؤں میں بکھر جائے گا۔۔۔مسئلہ پھول کا ہے‘ پھول کدھر جائے گا‘‘ تبدیلی کا وعدہ اِصلاح کاروں نے کیا ہے افسرشاہی نے نہیں کہ جن کی کارکردگی کا یوں کھلے عام احتساب ہو یا جنہیں جوابدہ بناکر پیش عوام کے سامنے کر دیا جائے! اہل پشاور سمیت خیبرپختونخوا کے طول و عرض میں رہنے والوں کو حوصلہ‘ صبر کی تلقین اور ’تبدیلی‘ جیسے ’انقلابی نعرے‘ کی حقیقت کا ’اعتبار‘ دلانا بھی ایک ’واجب الادأ‘ فریضہ ہے‘آخر’’لمبی ہے غم کی شام‘ مگر شام ہی تو ہے!‘‘
![]() |
Why not elected member feel accountable |
No comments:
Post a Comment