Sunday, May 3, 2015

TRANSLATION: Reupee overcalued

Rupee overvalued
روپے کی اضافی قدر
رواں مالی سال (دو ہزار چودہ پندرہ) کے اِبتدائی پانچ ماہ کے دوران پاکستان کا ’تجارتی (درآمدات و برآمدات کے درمیان عدم توازن پر مبنی) خسارہ‘ 34.78 فیصد رہا۔ وفاقی ادارہ برائے شماریات کے مطابق مالی سال 2015ء کے دوران ’جولائی سے جنوری تک‘ تجارتی خسارہ 17.96فیصد تھا جس میں جولائی تا فروری مزید 16 فیصد کا اضافہ ہوا۔

تصور کیجئے کہ پاکستان میں درآمد ہونے والی تمام اشیاء میں سب سے زیادہ حصہ تیل (پیٹرولیم مصنوعات) کا ہے جو 30فیصد بنتا ہے۔ جنوری 2015ء کے دوران عالمی منڈی میں تیل کی قیمت میں غیرمعمولی کمی دیکھنے میں آئی۔ تیل 108 ڈالر فی بیرل سے کم ہو کر 44 ڈالر فی بیرل پر آگیا لیکن اِس کے باوجود بھی پاکستان کے تجارتی خسارہ میں کمی دیکھنے میں نہیں آئی اور ہمارا تجارتی خسارہ مزید 16فیصد بڑھ گیا جس کا مطلب ہے کہ جولائی سے فروری تک کے عرصے میں 14.1 ارب ڈالر کا تجارتی خسارہ ہم برداشت کر چکے ہیں۔

تشویشناک امر یہ ہے کہ پاکستان کی برآمدات میں کمی ہو رہی ہے اور اس کے کئی ایک دیگر محرکات بھی ہیں لیکن توانائی کا بحران ایسی حقیقت ہے جس کی وجہ سے پاکستان کا پیداواری شعبہ (چاہے وہ بڑی صنعتیں ہوں یا اِن صنعتوں کے لئے خام مال تیار کرنے والے چھوٹے کاروبار) سب کی کارکردگی متاثر ہورہی ہے اور افسوسناک امر یہ ہے کہ دوہزار تیرہ کے عام انتخابات میں پاکستان کی اکثریت کا اعتماد حاصل کرنے والی مسلم لیگ (نواز) کی موجودہ وفاقی حکومت نے اقتدار میں آنے کے بعد سے ایک واٹ بھی بجلی پیدا نہیں کی۔ دوسری اہم بات پاکستان میں کاروبار کرنے کی لاگت میں اضافہ ہے اور اس کی وجہ بھی وفاقی حکومت ہی کی کارکردگی ہے جس نے ’اداروں میں ڈھانچہ جاتی اصلاحات‘ متعارف نہیں کرائیں‘ جن کی اشد ضرورت محسوس کی جارہی ہے۔ تیسرا محرک ہنرمند افرادی قوت کی کمی ہے۔ حقیقت کی نگاہ سے دیکھا جائے تو یہ تینوں بنیادی محرکات عرصہ دراز سے ہماری معیشت و اقتصادیات پر منفی اثرات مرتب کر رہے ہیں اور موجودہ حکومت سمیت ماضی کے حکمرانوں نے بھی باوجود ادراک ہونے کے بھی اِس معاشی و اقتصادی بہتری کے لئے خاطرخواہ اقدامات نہیں کئے۔

پاکستانی روپے کی قدر میں بھی ردوبدل توجہ چاہتا ہے۔ سال 2014ء کے دوران امریکہ کے ڈالر نے عالمی کرنسیوں کے مقابلے کم و بیش 13 فیصد اپنی قدر بڑھائی اور گذشتہ تین ماہ کے دوران تو امریکہ کے ڈالر کی قدر میں 10فیصد اضافہ ہوا ہے‘ یہ ردوبدل اس قدر غیرمعمولی ہے کہ ایسا سو سال میں ایک یا دو مرتبہ ہی ہوتا ہے۔ اگر ہم دنیا کی دیگر کرنسیوں کو دیکھیں تو انڈونیشیا کی کرنسی (روپیہ) 6 فیصد‘ ملائیشیا کی کرنسی(رینگیٹ) 5 فیصد‘ ترکی کی کرنسی (لیرا) 11فیصد اور جنوبی افریقہ کی کرنسی (رینڈ) کی قدر میں 6فیصد کمی ہوئی ہے۔

اگر ہم ترقی یافتہ ممالک کی اقتصادیات کو دیکھیں تو امریکہ کے وفاقی زرمبادلہ کے ذخائر مستحکم دکھائی دیتے ہیں کیونکہ اُنہوں نے اپنے ڈالر چھاپنے میں ہاتھ روکے رکھا۔ یورپ کا مرکزی بینک امریکہ کے برخلاف رہا جس نے کھلے دل سے نوٹ چھاپے۔ جاپان کا مرکزی بینک ’نیپان گینکو‘ نے بھی یہی کیا اور امریکہ کا ڈالر مستحکم ہوتا چلا گیا۔ اِس عالمی تناظر میں پاکستان کا جائزہ لیں۔ ستمبر 2013ء سے پاکستانی روپے کی حقیقی قدر (ریئل ایفیکٹیو ایکسچینج ریٹ) میں 10.6فیصد کا اضافہ ہوا لیکن کب؟ پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن (اپٹیما) کے چیئرمین ایس ایم تنویر کہتے ہیں کہ ’’پاکستانی کرنسی کی شرح تبادلہ اور ردوبدل کی وجہ سے برآمدات پر منفی اثر مرتب ہوتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ 20 ٹیکسٹائل ملیں اب تک بند ہو چکی ہیں جبکہ 100دیگر ٹیکسٹائل ملیں ایسی ہیں جنہیں مالی مشکلات درپیش ہیں اور شاید وہ زیادہ عرصہ اِس دباؤ کو برداشت نہ کرسکیں۔‘‘

یہ دلیل بھی دی جاسکتی ہے کہ چونکہ ہماری درآمدات برآمدات سے زیادہ ہیں‘ اِس لئے ہم نے اپنے روپے کی قدر کو حقیقی قیمت پر رکھنے کی بجائے کچھ زیادہ وقعت دے رکھی ہے لیکن کرنسی کی اِس اضافی قدر کے باعث ہماری برآمدات عالمی مارکیٹ میں قیمتوں کا مقابلہ نہیں کرپا رہیں۔ اگر ہم پاکستانی کرنسی کی حقیقی قدر کو دیکھیں تو ڈالر کے مقابلے روپے کا شرح تبادلہ 112سے 115 روپے ہوناچاہئے۔

پاکستان کے مرکزی بینک (اسٹیٹ بینک آف پاکستان) نے روپے کی قدر کو مستحکم کرنے کے لئے کئی ایک اقدامات کئے ہیں اور اِن قابل قدر اقدامات کا سہرا‘ اسٹیٹ بینک کے 18ویں گورنر اشرف محمود وتھرا کے سر جاتا ہے۔ اُمید کی جاسکتی ہے کہ اسٹیٹ بینک کرنسی مارکیٹ میں دیگر ممالک کی کرنسی کی قدر میں کمی کا نوٹس لے گی۔ کیا روپے کی قدر کو اِس کی حقیقی قیمت سے بڑھا کر پیش کرنا پاکستان کے بنیادی اقتصادی ڈھانچے کے لئے خطرناک نہیں؟ کیا ہم حقیقت میں ایک ایسے روپے کا بوجھ برداشت کرسکتے ہیں جس کی قدر کا تعین (خودفریبی سے کام لیتے ہوئے) غیرحقیقی اَنداز میں کیا گیا ہو؟

(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: شبیر حسین اِمام)

1 comment:

  1. Rupee overvalued?
    Dr Farrukh Saleem
    Sunday, May 03, 2015

    Our trade deficit widened by 34.78 percent in the first five months of the current fiscal year. As per data from Pakistan Bureau of Statistics (PBS), Pakistan’s trade deficit widened by 17.96 percent during July-January of FY2015. Lo and behold, the trade deficit over July to February widened by a wholesome 16 percent.

    Imagine; our oil import bill accounts for a good 30 percent of our entire imports and the OPEC basket price has come down from $108 per barrel in June 2014 to $44 per barrel in January 2015. But our trade deficit still widened by 16 percent to a colossal $14.1 billion from July through February.

    Red alert: our exports are falling – falling like nine pins. Wasn’t GSP+ expected to boost our exports? Yes, the energy crisis is an issue – and the PML-N is yet to add a single wattage. Yes, the cost of doing business in Pakistan is an issue – and the PML-N is yet to undertake any structural reform. Yes, the shortage of skilled labour is an issue. To be certain, these are issues that have been with us for a long time.

    For the record, something very rare is happening in the currency markets. In 2014, the US dollar gained 13 percent against a basket of world currencies. And over the past three months, the US dollar gained a hefty 10 percent – that’s very rare in the currency markets; a once in a decade such a sharp movement. Look at what is happening to other emerging market currencies: Indonesian rupiah is down 6 percent; Malaysian ringgit is down 5 percent; Turkish lira is down 11 percent; and the South African rand is down 6 percent.

    Look at what is happening in the developed economies: the US Federal Reserve is tightening (read: not printing too many dollars); the European Central Bank is loosening (read: printing euros like crazy); and the Nippon Ginko, the central bank of Japan, is also loosening. So, what is happening is that the dollar is going through the roof.

    Look at what is happening in Pakistan: since September 2013, the real effective exchange rate (REER) of the rupee has appreciated by 10.6 percent (exactly when.

    According to S M Tanveer, Chairman All Pakistan Textile Mills Association (APTMA), “20 textile mills have already closed down operations due to loss of competitiveness oozing out of real exchange appreciation” and that“100 textile mills are vulnerable to viability issue and seriously considering of closing down.”

    Yes, it can be argued that because our imports are more than our imports we ought to keep our rupee slightly overvalued. The current overvaluation, however, is making our goods uncompetitive in the international markets. If REER is to be used as a yardstick, the rupee trading in the range of Rs112 to-a-dollar to Rs115 to-a-dollar will serve Pakistan’s economic interests the best.

    SBP has done a fine job in taking the volatility out of our foreign currency market – and Ashraf Mahmood Wathra, the 18th governor, should be given credit for that. How about SBP taking a look at how our competing emerging markets have depreciated their currencies? Isn’t it time for some steady manoeuvring? Isn’t the rupee’s overvaluation sort of risky for Pakistan’s economic fundamentals? Can we really afford an overvalued rupee?

    ReplyDelete