ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
جرأت‘ بہادری اُور واجب الادأ حقوق
جرأت‘ بہادری اُور واجب الادأ حقوق
سیاست جان جوکھوں کا کام ہے اور اگر کسی کو اِس بات کی حقیقت معلوم نہیں تو
وہ خیبرپختونخوا سے تعلق رکھنے والی سیاسی قیادت کے شب و روز اور معمولات
کا مشاہدہ کرے‘ جنہیں خوف کی آندھیوں اور سروں پر منڈلاتے ہوئے ظلمت کے
’سیاہ بادلوں‘نے گھیر رکھا ہے۔ تیس اپریل کے روز عمرزئی‘ چارسدہ کے مقام پر
’قومی وطن پارٹی‘ کے چیئرپرسن آفتاب احمد خان شیرپاؤ کو ایک مرتبہ پھر
نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی ‘ جس میں ملوث ایک کردار کو خفیہ اداروں نے
گرفتار کر کے نامعلوم مقام پر منتقل کیا لیکن اِس گرفتاری اور جاری تحقیقات
سے چارسدہ پولیس لاعلم ہے۔ یاد رہے کہ اِس حالیہ خودکش حملے کے نتیجے میں
دو افراد ہلاک ہوئے جن میں ایک پولیس اہلکار اور ایک عام شہری تھا۔
آفتاب احمد خان شیرپاؤ نے کئی ایک اعلیٰ انتظامی عہدوں پر خدمات سرانجام دی ہیں‘ آپ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا بھی رہے اور وزیر داخلہ جیسی کلیدی عہدے پر بھی فائز دیکھے گئے‘ جنہوں نے ایسی حکمت عملیوں کی تشکیل میں اپنی بصیرت کا استعمال کیا‘ جس سے ملک کو لاحق داخلی خطرات کم ہوئے اور یہی وجہ ہے کہ وہ عرصہ دراز سے عسکریت پسندوں کے مستقل نشانے پر ہیں اور اب تک چار ایسے خودکش حملوں کا نشانہ بننے سے بال بال محفوظ رہے ہیں۔ کسی رہنما کے نڈر ہونے کے لئے یہی کافی ہے کہ وہ خود پر ہوئے خودکش حملے کے بعد کسی محل یا قلعے میں جا کر پناہ نہ لے بلکہ معمول کی سیاسی مصروفیات جاری رکھے اور اپنے انتخابی حلقے (آبائی علاقے اور گاؤں) والوں کو تنہا نہ چھوڑے۔ ہمیں پختون قوم پرست قیادت ہی میں ایسے ’رہنما‘ ملتے ہیں جو ایک خودکش حملے کا وار بھی نہ سہہ سکے اور اگرچہ اُنہیں خراش تک نہیں آئی لیکن اُنہوں نے اپنے گاؤں کو واپس پلٹ کر نہیں دیکھا!
آفتاب اَحمد خان شیرپاؤ مالی لحاظ سے مستحکم ہیں اور اگر چاہتے تو بہت پہلے بیرون ملک (برطانیہ کسی دوسرے یورپی ملک‘ امریکہ یا متحدہ عرب امارات) میں مستقل سکونت اختیار کر سکتے تھے لیکن سیاست اُن کے لئے بھائی کی وراثت اور ’مقصد حیات‘ ہے۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ اُنہیں سیاست سے محبت نہیں بلکہ مؤدت ہے۔ محبت اور مؤدت کا فرق اِس مثال سے سمجھ لیجئے کہ مچھلی کو پانی سے محبت نہیں بلکہ مؤدت ہے کہ اگر اُسے پانی سے نکالا جائے تو اُس کی ’حیات‘ ہی باقی نہیں رہے گی! آفتاب احمد خان شیرپاؤ خود پر ہوئے ہر حملے کے بعد زیادہ باحوصلہ‘ بے خوف اور پُرجوش دکھائی دیئے۔ عجب ہے کہ اُن کی آواز میں لڑکھراہٹ تک نہیں ہوتی اور ایک موقع پر ہوئے خودکش حملے میں زخمیوں کی عیادت کرنے وہ لنگڑاتے ہوئے جب ہسپتال پہنچے تو اُنہیں دیکھ کر نقاد بھی تعریف کئے بناء نہ رہ سکے یقیناًرہنما وہی ہوتا ہے جس کا جینا مرنا اپنے چاہنے والوں کے ساتھ ہو۔
عمرزئی چارسدہ میں ہوئے خودکش حملے کی تحقیقات خیبرپختونخوا کے ایک سے زیادہ خفیہ ادارے کر رہے ہیں اور اِن تحقیقات سے آگاہ ایک اعلیٰ پولیس اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست پر بتایا ہے کہ ’جاوید‘ نامی ایک شخص کو گرفتار کرکے پوچھ گچھ جاری ہے تاہم جب اِس سلسلے میں چارسدہ کے ڈی ایس پی رضا محمد سے بات کی گئی تو انہیں تحقیقات بارے علم نہیں تھا۔ اب تک ہوئی تحقیقات میں ’نادرا‘ حکام کی مدد سے انگلیوں کے چند نشانات کی تصدیق بھی کر لی گئی ہے جو ایک اہم پیشرفت بیان کی جارہی ہے۔ یاد رہے کہ کالعدم عسکریت پسند تنظیم ’تحریک طالبان پاکستان‘ پہلے ہی اِس خودکش حملے کی ذمہ داری قبول کر چکے ہے جن کا کہنا ہے کہ ’’جانباز علی‘‘ نامی فدائی نے حملہ کیا اور یہ حملہ قبائلی علاقے خیبرایجنسی میں جاری فوجی کاروائی کا ردعمل ہے۔
آفتاب احمد خان شیرپاؤ پر ہوئے تیس اپریل کے حالیہ خودکش حملے کی خاص بات یہ تھی کہ اِس میں حملہ آور خود کو دھماکہ خیز مواد سے اُڑانے سے قبل اُن کی گاڑی پر فائرنگ بھی کی۔ وفاقی حکومت کو اُنہیں بلٹ پروف گاڑی فراہم کرنے میں تاخیر نہیں کرنی چاہئے کیونکہ قوم پرست جماعت سے تعلق رکھنے والے آفتاب احمد خان شیرپاؤ علاقائی رہنما نہیں اور نہ ہی اُن کی سیاسی خدمات کسی سے ڈھکی چھپی ہیں۔ اگرچہ اُن کی جماعت افرادی لحاظ سے زیادہ بڑا حجم نہیں رکھتی لیکن ایک سوچ ضرور رکھتی ہے جو دیگر بڑی جماعتوں میں تلاش کرنی پڑتی ہے۔ شیرپاؤ کے ساتھ ایک ہی المیہ ہے کہ اُن کی جماعت بھی دیگر ہم عصر جماعتوں کی طرح ’شخصیت کے سحر‘ میں مبتلا ہے لیکن اُن کی سیاسی بصیرت‘ معاملہ فہمی‘ صوبائی حقوق پر واضح مؤقف‘ دہشت گردی کے خلاف قومی اتفاق رائے پیدا کرنے کے کوششیں حتیٰ کہ افغانستان میں قیام امن‘ مہاجرین کی واپسی اور پاکستان کے افغانستان سے روابط بہتر بنانے کے سلسلے میں کوششیں اظہرمن الشمس ہیں۔ وہ حکومت کا حصہ ہوں یا نہ ہوں لیکن اُنہوں نے ہر مشکل دور میں خیبرپختونخوا بالخصوص پاکستان میں سیاسی و جمہوری استحکام کے لئے عملی جدوجہد اور پرچار کرکے ایک ایسے بے لوث ’خدائی خدمتگار‘ کا مثالی کردار ادا کیا جو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ اگر وہ دیگر سیاسی قائدین کی طرح اپنے دامن پر ’سرمایہ پرستی‘ اُور فیصلہ سازی کے منصب کو ذاتی و سایسی فوائد اور انتخابی نکتہ نظر‘ کے لئے وقف نہ کرتے تو کوئی دُوسرا دھبہ اُن کے دامن پر نہیں! شیرپاؤ جانتے ہیں کہ اُن کی سیاسی جدوجہد پُرپیچ اور خاردار راہوں پر ہے۔ اُنہیں اٹھائیس اپریل دوہزار سات کا دن بھی یاد ہے‘ جب اُن پر ہوئے حملے سے 31 افراد ہلاک ہوئے تھے اور زخمیوں میں اُن کے صاحبزادے سکندر خان شیرپاؤ بھی شامل تھے۔ اُنہیں اکیس مئی دوہزار سات کا دن بھی یاد ہے جب خودکش حملے سے اُن کا آبائی گاؤں لرز اُٹھا اور اگرچہ کوئی جانی نقصان نہیں ہوا لیکن چار دکانیں تباہ ہوئی تھیں۔ مثالی یاداشت رکھنے والے آفتاب احمد خان شیرپاؤ کے لئے سال دوہزار سات کے دوران وہ تیسرا حملہ بھی ناقابل فراموش ہے‘جس میں خودکش حملہ آور نے مسجد کے تقدس کو بھی روند ڈالا۔
سال 2009ء اور سال 2012ء میں اُن پر ایک ایک جبکہ رواں سال پہلا خودکش حملہ ہوا ہے جس سے مجموعی خودکش حملوں کی تعداد سات ہو گئی ہے یقیناًیہ اُن کی خوش قسمتی ہے اور یقیناًہی قدرت اُن سے کوئی زیادہ بڑا کام لینا چاہتی ہے۔ اِس پورے منظرنامے میں اُن کے لئے پوشیدہ پیغام کو سمجھنے اور حقیقت کے ادراک کا تقاضا یہ ہے کہ مستقبل میں اُن حقوق کی ادائیگی پر بھی توجہ دی جائے جو ہشتنگر کے رہنے والے مزدوروں‘ محنت کشوں اور چھوٹے کاشتکاروں ہی کے نہیں بلکہ پورے صوبے‘ بالخصوص کراچی میں مشکلات کا شکار پختونوں اُور ملک کے دیگر حصوں میں آباد محکوم طبقات کے اُن پر واجب الادأ ہیں۔
آفتاب احمد خان شیرپاؤ نے کئی ایک اعلیٰ انتظامی عہدوں پر خدمات سرانجام دی ہیں‘ آپ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا بھی رہے اور وزیر داخلہ جیسی کلیدی عہدے پر بھی فائز دیکھے گئے‘ جنہوں نے ایسی حکمت عملیوں کی تشکیل میں اپنی بصیرت کا استعمال کیا‘ جس سے ملک کو لاحق داخلی خطرات کم ہوئے اور یہی وجہ ہے کہ وہ عرصہ دراز سے عسکریت پسندوں کے مستقل نشانے پر ہیں اور اب تک چار ایسے خودکش حملوں کا نشانہ بننے سے بال بال محفوظ رہے ہیں۔ کسی رہنما کے نڈر ہونے کے لئے یہی کافی ہے کہ وہ خود پر ہوئے خودکش حملے کے بعد کسی محل یا قلعے میں جا کر پناہ نہ لے بلکہ معمول کی سیاسی مصروفیات جاری رکھے اور اپنے انتخابی حلقے (آبائی علاقے اور گاؤں) والوں کو تنہا نہ چھوڑے۔ ہمیں پختون قوم پرست قیادت ہی میں ایسے ’رہنما‘ ملتے ہیں جو ایک خودکش حملے کا وار بھی نہ سہہ سکے اور اگرچہ اُنہیں خراش تک نہیں آئی لیکن اُنہوں نے اپنے گاؤں کو واپس پلٹ کر نہیں دیکھا!
آفتاب اَحمد خان شیرپاؤ مالی لحاظ سے مستحکم ہیں اور اگر چاہتے تو بہت پہلے بیرون ملک (برطانیہ کسی دوسرے یورپی ملک‘ امریکہ یا متحدہ عرب امارات) میں مستقل سکونت اختیار کر سکتے تھے لیکن سیاست اُن کے لئے بھائی کی وراثت اور ’مقصد حیات‘ ہے۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ اُنہیں سیاست سے محبت نہیں بلکہ مؤدت ہے۔ محبت اور مؤدت کا فرق اِس مثال سے سمجھ لیجئے کہ مچھلی کو پانی سے محبت نہیں بلکہ مؤدت ہے کہ اگر اُسے پانی سے نکالا جائے تو اُس کی ’حیات‘ ہی باقی نہیں رہے گی! آفتاب احمد خان شیرپاؤ خود پر ہوئے ہر حملے کے بعد زیادہ باحوصلہ‘ بے خوف اور پُرجوش دکھائی دیئے۔ عجب ہے کہ اُن کی آواز میں لڑکھراہٹ تک نہیں ہوتی اور ایک موقع پر ہوئے خودکش حملے میں زخمیوں کی عیادت کرنے وہ لنگڑاتے ہوئے جب ہسپتال پہنچے تو اُنہیں دیکھ کر نقاد بھی تعریف کئے بناء نہ رہ سکے یقیناًرہنما وہی ہوتا ہے جس کا جینا مرنا اپنے چاہنے والوں کے ساتھ ہو۔
عمرزئی چارسدہ میں ہوئے خودکش حملے کی تحقیقات خیبرپختونخوا کے ایک سے زیادہ خفیہ ادارے کر رہے ہیں اور اِن تحقیقات سے آگاہ ایک اعلیٰ پولیس اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست پر بتایا ہے کہ ’جاوید‘ نامی ایک شخص کو گرفتار کرکے پوچھ گچھ جاری ہے تاہم جب اِس سلسلے میں چارسدہ کے ڈی ایس پی رضا محمد سے بات کی گئی تو انہیں تحقیقات بارے علم نہیں تھا۔ اب تک ہوئی تحقیقات میں ’نادرا‘ حکام کی مدد سے انگلیوں کے چند نشانات کی تصدیق بھی کر لی گئی ہے جو ایک اہم پیشرفت بیان کی جارہی ہے۔ یاد رہے کہ کالعدم عسکریت پسند تنظیم ’تحریک طالبان پاکستان‘ پہلے ہی اِس خودکش حملے کی ذمہ داری قبول کر چکے ہے جن کا کہنا ہے کہ ’’جانباز علی‘‘ نامی فدائی نے حملہ کیا اور یہ حملہ قبائلی علاقے خیبرایجنسی میں جاری فوجی کاروائی کا ردعمل ہے۔
آفتاب احمد خان شیرپاؤ پر ہوئے تیس اپریل کے حالیہ خودکش حملے کی خاص بات یہ تھی کہ اِس میں حملہ آور خود کو دھماکہ خیز مواد سے اُڑانے سے قبل اُن کی گاڑی پر فائرنگ بھی کی۔ وفاقی حکومت کو اُنہیں بلٹ پروف گاڑی فراہم کرنے میں تاخیر نہیں کرنی چاہئے کیونکہ قوم پرست جماعت سے تعلق رکھنے والے آفتاب احمد خان شیرپاؤ علاقائی رہنما نہیں اور نہ ہی اُن کی سیاسی خدمات کسی سے ڈھکی چھپی ہیں۔ اگرچہ اُن کی جماعت افرادی لحاظ سے زیادہ بڑا حجم نہیں رکھتی لیکن ایک سوچ ضرور رکھتی ہے جو دیگر بڑی جماعتوں میں تلاش کرنی پڑتی ہے۔ شیرپاؤ کے ساتھ ایک ہی المیہ ہے کہ اُن کی جماعت بھی دیگر ہم عصر جماعتوں کی طرح ’شخصیت کے سحر‘ میں مبتلا ہے لیکن اُن کی سیاسی بصیرت‘ معاملہ فہمی‘ صوبائی حقوق پر واضح مؤقف‘ دہشت گردی کے خلاف قومی اتفاق رائے پیدا کرنے کے کوششیں حتیٰ کہ افغانستان میں قیام امن‘ مہاجرین کی واپسی اور پاکستان کے افغانستان سے روابط بہتر بنانے کے سلسلے میں کوششیں اظہرمن الشمس ہیں۔ وہ حکومت کا حصہ ہوں یا نہ ہوں لیکن اُنہوں نے ہر مشکل دور میں خیبرپختونخوا بالخصوص پاکستان میں سیاسی و جمہوری استحکام کے لئے عملی جدوجہد اور پرچار کرکے ایک ایسے بے لوث ’خدائی خدمتگار‘ کا مثالی کردار ادا کیا جو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ اگر وہ دیگر سیاسی قائدین کی طرح اپنے دامن پر ’سرمایہ پرستی‘ اُور فیصلہ سازی کے منصب کو ذاتی و سایسی فوائد اور انتخابی نکتہ نظر‘ کے لئے وقف نہ کرتے تو کوئی دُوسرا دھبہ اُن کے دامن پر نہیں! شیرپاؤ جانتے ہیں کہ اُن کی سیاسی جدوجہد پُرپیچ اور خاردار راہوں پر ہے۔ اُنہیں اٹھائیس اپریل دوہزار سات کا دن بھی یاد ہے‘ جب اُن پر ہوئے حملے سے 31 افراد ہلاک ہوئے تھے اور زخمیوں میں اُن کے صاحبزادے سکندر خان شیرپاؤ بھی شامل تھے۔ اُنہیں اکیس مئی دوہزار سات کا دن بھی یاد ہے جب خودکش حملے سے اُن کا آبائی گاؤں لرز اُٹھا اور اگرچہ کوئی جانی نقصان نہیں ہوا لیکن چار دکانیں تباہ ہوئی تھیں۔ مثالی یاداشت رکھنے والے آفتاب احمد خان شیرپاؤ کے لئے سال دوہزار سات کے دوران وہ تیسرا حملہ بھی ناقابل فراموش ہے‘جس میں خودکش حملہ آور نے مسجد کے تقدس کو بھی روند ڈالا۔
سال 2009ء اور سال 2012ء میں اُن پر ایک ایک جبکہ رواں سال پہلا خودکش حملہ ہوا ہے جس سے مجموعی خودکش حملوں کی تعداد سات ہو گئی ہے یقیناًیہ اُن کی خوش قسمتی ہے اور یقیناًہی قدرت اُن سے کوئی زیادہ بڑا کام لینا چاہتی ہے۔ اِس پورے منظرنامے میں اُن کے لئے پوشیدہ پیغام کو سمجھنے اور حقیقت کے ادراک کا تقاضا یہ ہے کہ مستقبل میں اُن حقوق کی ادائیگی پر بھی توجہ دی جائے جو ہشتنگر کے رہنے والے مزدوروں‘ محنت کشوں اور چھوٹے کاشتکاروں ہی کے نہیں بلکہ پورے صوبے‘ بالخصوص کراچی میں مشکلات کا شکار پختونوں اُور ملک کے دیگر حصوں میں آباد محکوم طبقات کے اُن پر واجب الادأ ہیں۔
No comments:
Post a Comment