Monday, May 11, 2015

May2015: Elections culture

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
انتخابی ثقافت
بلدیاتی انتخابات کے لئے پشاور سمیت خیبرپختونخوا کے طول و عرض میں شہری و دیہی علاقوں کو ’دلہن‘ کی طرح سجا دیا گیا ہے۔ ہر طرف رنگ برنگے پوسٹرز‘ بینرز‘ پینافلیکس آویزاں دکھائی دے رہے ہیں۔ سرمایہ دار انتخابی اُمیدوار اپنی اپنی مالی حیثیت کا مظاہرہ کرنے کے اِس نادر موقع پر ’بذریعہ اشتہارات‘ ایک دوسرے پر برتری حاصل کرنے کو اپنی شان وشوکت کے خلاف سمجھتے ہیں اُور ایسا پہلی مرتبہ بھی نہیں ہو رہا بلکہ ہمارے ہاں تو اِس قسم کی سیاسی گہماگہمیاں ’عام انتخابات کی درخشاں روایات‘ کا حصہ ہیں‘ جنہیں دل سے تسلیم کر لیا گیا ہے۔ توقع تھی کہ مہنگائی کی وجہ سے اِس مرتبہ تشہیری مہمات نسبتاً کم پیمانے پر دیکھنے میں آئیں گی لیکن بلدیاتی اداروں کے لئے انتخابات کا ماحول دیکھ کر تو یقین ہی نہیں آ رہا کہ یہ کسی بھی طرح قانون ساز اسمبلیوں کے لئے مقابلوں سے کم اہم یا کم ترجیح رکھتے ہیں! کیا اسراف کی یہ اشکال ترک کرنے کی ضرورت نہیں؟ کیا ہر گلی‘ ہر نکڑ اور شہر کے ہر دروازے کو سیاسی پیغامات سے ڈھانپنے کی روایت ختم نہیں ہونی چاہئے؟

مسئلہ صرف یہ نہیں کہ بلدیاتی یا دیگر عام انتخابات کے مواقع پر ایک سے بڑھ کر ایک اخراجات کرنا ہمارے ہاں کی ’انتخابی ثقافت (کلچر)‘ کا حصہ ہے بلکہ بات یہ ہے کہ جب انتخابات کا دور ختم ہو بھی جائے تو یہ پوسٹرز‘ بینرز وغیرہ اُتارے (ہٹائے) نہیں جاتے۔ کامیاب ہونے والوں کا رویہ (مؤقف) یہ ہوتا ہے کہ وہ اِس بات کو اپنا حق سمجھتے ہیں کہ حامی یا مخالف اُن کی تصاویر اَزبر رکھیں جبکہ مقابلے میں ہارنے والوں کو توفیق نہیں ہوتی کہ وہ جس جوش و جذبے سے بینرز‘ پوسٹرز‘ پینافلیکس اُور دیواروں پر لکھائی (وال چاکنگ) کرکے گردوپیش کو آلودہ کر دیتے ہیں تو پھر اِس کی صفائی بھی اِسی اہتمام (گرمجوشی) کریں۔ اِس سلسلے میں اگر میونسپل حکام (ضلع و تحصیل کی حدود میں) ’تشہیری محصول (ٹیکس)‘ عائد کر دیں تو حاصل ہونے والی مالی وسائل سے بعداَز اِنتخابات چھوٹے بڑے شہروں‘ قصبوں اور دیہی علاقوں میں ’صفائی (نکھارنے) کا عمل‘ حسب ضرورت شروع کیا جا سکے گا۔ ماضی میں پشاور کے شہری علاقوں پر مشتمل ’ٹاؤن ون‘ کے فیصلہ سازوں نے صفائی کی اہمیت اُجاگر کرنے کے لئے خود بھی ’وال چاکنگ‘ کروائی‘ جس کے ’دھبے‘ ہنوز دیکھے جا سکتے ہیں! ہم دوسروں کو کیسے وال چاکنگ سے گریز کرنے کا مشورہ دے سکتے ہیں جبکہ خود بھی اِسی علت کو جائز سمجھیں! میونسپل حکام کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اِس مرحلے پر خاموش تماشائی بننے کی بجائے بلدیاتی اُور آئندہ ہر قسم کے انتخابات کے لئے ایک الگ سے ’ضابطۂ اخلاق‘ جاری کریں اور عملاً ثابت کریں کہ اُنہیں پشاور کی فکر ہے اور اِس تشویش کا اظہار بھی کیا جائے کہ فصیل شہر کے مختلف حصوں میں بنے ہوئے دروازوں پر ہر قسم کے اشتہارات آویزاں کرنے کی ’مکمل پابندی‘ ہو گی۔

 توجہ طلب ہے کہ تعمیر و ترقی صرف گلی‘ محلے‘ نالے‘ نالیاں‘ دروازے اُور تاریخ و ثقافت سے جڑے آثار کی بحالی ہی نہیں بلکہ پشاور کی حقیقی قدر اُس وقت ہوگی جب اِس کے وسائل سے ناجائز استفادہ اُور اِس کی خوبصورتی کو متاثر کرنے والے جملہ محرکات بشمول فکر و عمل کی اصلاح کی جائے گی۔ میونسپل حکام کو یہ بات بھی ابھی باور کرانی ہے کہ پشاور ایک امانت کے طور پر اُن کے سپرد ہے اور دیانت کا تقاضا یہ ہے کہ اِس بیش بہا امانت کی حفاظت اُسی طرح کی جائے‘ جیسا کہ ہم اپنے گھر اور اُس چار دیواری کی کرتے ہیں جو ہمارے نام ہوتا ہے۔

سیاسی و غیرسیاسی (آزاد حیثیت سے) اِنتخابی اُمیدواروں میں ایک اُور قدر مشترک بھی پائی جاتی ہے کہ وہ تمام دن غائب لیکن سرشام سے رات گئے تک گلی گلی اور کوچے کوچے دستک دیتے ہیں۔ اِس عمل کو ’رابطہ عوام‘ کہا جاتا ہے اور مزے کی بات یہ ہے کہ اپنے ہی خرچ سے تازہ یا مصنوعی پھولوں کے ہار پہلے تقسیم کئے جاتے ہیں اور پھر اُمیدوار کے گلے سے اُتار کر کسی دوسرے گلی میں بھیج دیئے جاتے ہیں۔ سیاسی روایات میں ’اپنی مدد آپ کے تحت‘ اِس قسم کے ’شاندار استقبال‘ کا نظارہ معمول کی بات بن چکی ہے۔ اُمیدواروں اور اُن کے سرگرم حامیوں سے دست بستہ عرض ہے کہ وہ دیر رات گئے ’رابطہ عوام مہمات‘ سے گریز کریں۔ بہتر یہی ہوگا کہ عشاء کی نماز تک ہی موسمی گرمی میں سیاسی سرگرمیوں کا اضافہ کیا جائے۔ تیز (دھار) موسیقی‘ لاوڈ سپیکر (پبلک ایڈریسنگ سسٹم) کا استعمال‘ زندہ باد کے فلک شگاف نعروں سے بچوں کی نیند متاثر ہوتی ہے‘ جنہیں اگلے دن الصبح اُٹھ کر سکول جانا ہوتا ہے۔ کھیل تماشے اور سیاست کے لئے اُوقات کا تعین بھی ضابطۂ اخلاق کا حصہ ہونا چاہئے‘ بالخصوص پشاور جیسے اُن سبھی شہری علاقوں میں جہاں سٹریٹ لائٹس اور امن و امان کی نسبتاً بہتر صورتحال کا انتخابی اُمیدوار ناجائز فائدہ اُٹھا رہے ہیں۔ اِس مرحلۂ فکر پر ملک کی بڑی و معروف سیاسی جماعتوں سے (التجائیہ) توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ اپنے اپنے نامزد اُمیدواروں اور کارکنوں کے نام پیغام جاری کریں اور اُنہیں ’حقوق العباد‘ کے اُن پہلوؤں سے بھی روشناس (متعارف) کرائیں جو ووٹ مانگنے کی دھن میں پائمال ہو رہے ہیں۔ سیاسی قیادت کے علاؤہ منبر و محراب سے وعظ و نصیحت پر مبنی تکرار بھی کارآمد و مفید کردار اَدا کر سکتی ہے لیکن یہ اَصول پیش نظر رہے کہ ’’دل سے جو (بھی) بات نکلتی ہے‘(صرف وہی) اَثر رکھتی ہے!‘‘

بلدیاتی اِنتخابات میں بطور اُمیدوار حصہ لینے والوں کو اگر ’پشاور‘ کی ضروریات اور یہاں کے باسیوں کے مسائل کا اِدراک ہے تو یہ کافی نہیں۔ اُنہیں ’پشاور کے ظاہری حسن‘ خوبصورتی اُور اُس شکل و صورت کا بھی کماحقہ احساس ہونا چاہئے۔ ہم اپنی آنے والی نسلوں کے لئے ’پشاور کو کس حالت‘ میں چھوڑ کر جائیں گے اور کیا یہ شہر کسی کباڑخانے جیسا دکھائی دینا چاہئے کہ جو ہمیشہ مسند و منصب پانے کا شوق رکھنے والوں کے رحم وکرم پر ہی رہے؟ کیا پشاور کی خدمت اور یہاں کے رہنے والوں کو درپیش مسائل کا حل بناء قیادت و انتخاب ممکن نہیں؟ کیا ہمیں ایسے سماجی کارکنوں کی بھی ضرورت ہے جو خودنمائی یا بذریعہ انتخابات منتخب ہونے کا شوق نہ رکھتے ہوں؟ ایسی مخلص قیادت ہونی چاہئے جو سیاست کے اصل مفہوم یعنی اصلاح کاری سے آگاہ ہو؟ ضرورت اِس امر کی ہے کہ شہری و دیہی علاقوں کے حسن کو ماند کرنے کا سبب بنے والے جملہ محرکات پر غور اُور ان کی اصلاح کی جائے۔ ہم اپنے قول و فعل پر غور کریں کہ کیا یہ ماحول دوست ہے‘ کہیں ہم غیردانستہ طور پر (شعوری طور پر نہ چاہتے ہوئے بھی) اپنے ہی شہری و دیہی علاقوں کی خوبصورتی کے دشمن تو نہیں بنے ہوئے؟

No comments:

Post a Comment