ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
امور معلومہ
امور معلومہ
خیبرپختونخوا میں ترمیم شدہ موجودہ بلدیاتی نظام کا ڈھانچہ 43 ہزار 954
نشستوں پر ایستادہ ہے‘ جس کے لئے سیاسی جماعتوں اور آزاد حیثیت سے انتخابات
میں بطور اُمیدوار حصہ لینے والوں کی مجموعی تعداد 93 ہزار231 ہے لیکن
الیکشن کمیشن ذرائع کے مطابق اُمیدواروں کی حتمی فہرستیں ابھی مرتب نہیں کی
گئی ہیں۔ بلدیاتی انتخابات کا شدت سے انتظار کا اندازہ اِس بات سے لگایا
جا سکتا ہے کہ الیکشن کمیشن کو 1 لاکھ 3 ہزار 522 درخواستیں موصول ہوئیں جن
میں سے 93 ہزار 231 ضلع اُور تحصیل کونسلز کے اُمیدواروں کے کاغذات
ابتدائی جانچ پڑتال کے بعد درست قرار دیئے گئے لیکن خیبرپختونخوا کے کئی
ایسے اضلاع ہیں جنہوں نے اُمیدواروں کی حتمی فہرستیں ابھی مرتب کرکے پشاور
میں الیکشن کمیشن کے صوبائی دفتر کو ارسال نہیں کیں۔صوبائی دارالحکومت
پشاور میں بلدیاتی نشستوں کے لئے 3 ہزار 762 انتخابی اُمیدواروں کو انتخابی
نشانات جاری کئے جاچکے ہیں۔ ان میں 221ضلعی کونسل‘ 255 تحصیل و ٹاؤن
کونسل‘ 1 ہزار 598 جنرل کونسلر‘ 419 خواتین کے لئے مخصوص نشستوں‘ 643 مزدور
کسان‘ 588 نوجوان اور 38 افراد اقلیتی نشستوں کے لئے اُمیدوار ہیں۔
خیبرپختونخوا میں بلدیاتی انتخابات کے لئے کل 10 ہزار 855 پولنگ اسٹیشن
بنائے جائیں گے جن میں سے 3 ہزار 940 پولنگ مراکز کو حساس اور 2 ہزار 837کو
انتہائی حساس قرار دیا گیا ہے۔
بلدیاتی انتخابات حجم کے لحاظ سے قومی و صوبائی اسمبلی کے لئے مقابلوں سے زیادہ بڑے بلکہ پرہجوم ہیں جن کے لئے اُمیدواروں کے ناموں کی حتمی فہرستیں بھی مکمل نہیں ہوسکیں تو اِس کی بنیادی وجہ ٹیکنالوجی کے استعمال سے حتی الوسع گریز اور سرکاری اداروں میں پائی جانے والی رازداری کی عمومی عادت ہے۔ کمپیوٹر کے ترقی یافتہ دور میں جبکہ ’ڈیٹابیس‘ پر مبنی سافٹ وئر وسائل کے ذریعے اَربوں صارفین کے کوائف‘ اُن کی عادات‘ پسند و ناپسندیدگی اور دیگر معمولات کے بارے میں ہزاروں صفحات پر مشتمل تفصیلات محفوظ رکھی جاسکتی ہیں لیکن بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان میں ڈیٹا (کوائف‘ مفروضات‘ اَمور معلومہ‘ اَمر معلومہ‘ حقائق یا مشاہدات) کا وجود بھی ہے؟ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے ہاں ’ڈیٹا‘ وجود ہی نہیں رکھتا‘ وہ غلط فہمی کا شکار ہیں کیونکہ کسی بھی سرکاری محکمے میں جائیں الماریاں فائلوں اور کاغذات سے بھری ہوئی ملیں گی‘ جن میں انواع و اقسام کا ڈیٹا ’عمر قید‘ رکھا جاتا ہے لیکن جب امور معلومہ یا کسی معلوم امر کے بارے میں دریافت کیا جائے تو مشکل اِس لئے ہوتا ہے کہ ’ڈیٹا‘ منظم انداز میں مرتب یا ترتیب سے رکھا نہیں جاتا اُور بسا اُوقات اِنتظامی امور میں شفافیت نہ ہونے کی وجہ سے بھی سوال پوچھنے والے کی تسلی تشفی نہیں ہو پاتی۔ المیہ یہ بھی ہے کہ ’امور معلومہ‘ تک رسائی سے صرف عام آدمی یا ذرائع ابلاغ ہی محروم نہیں بلکہ خواص بھی اِس جھنجھٹ میں نہیں پڑتے۔ سرشام نجی ٹیلی ویژن چینلوں پر ’ٹاک شوز‘ میں اِظہارخیال کرنے والے سیاستدانوں کو اُن کی فرفر بولنے کی عادت و تربیت بچا لیتی ہے وگرنہ کہنے کو اُن کے پاس جو دعوے ہوتے ہیں‘ اُنہیں ثابت کرنے کے لئے متعلقہ ’ڈیٹا‘ نہیں ہوتا۔
’اَمور معلومہ‘ کی ضرورت سماجی بہبود‘ انسانی حقوق کے محافظوں‘ سیاستدانوں‘ درس و تدریس کرنے والے معلمین‘ واعظین‘ کسی شعبے سے متعلق تحقیق کاروں اُور ذرائع ابلاغ کو ہوتی ہے اور اِسی بنیادی ضرورت و تقاضے کے تحت ’معلومات تک رسائی (رائٹ ٹو انفارمیشن)‘ نامی قانون سازی کرنا پڑی جو کسی جادو کی چھڑی کا نام نہیں کہ قانون منظور اور لاگو ہونے کے بعد صورتحال بدل جاتی اور سرکاری محکمے ڈیٹا تک رسائی عام کر دیتے! یقیناً’معلومات تک رسائی‘ کا قانون وقت گزرنے کے ساتھ برق رفتاری کے ساتھ مطلوبہ نتائج بھی دے گا اُور اس کے ذریعے معلومات حاصل کرنے کی مقررہ قیمت بھی کم ہو جائے گی۔ تجویز ہے کہ جامعات کی سطح پر معلومات (ڈیٹا) اکٹھا کرنے کا بندوبست کیا جائے۔ طلبہ اس شعبے میں تحقیق کریں اور مستقل بنیادوں پر سرکاری اِداروں‘ سیاسی و غیرسیاسی حکومتوں کے چابکدستیوں‘ حکمت عملیوں اُور ان کے نتائج‘ اثرات‘ ماحولیاتی تنوع‘ موسم‘ زراعت و دیگر شعبوں بشمول قدرتی آفات اور ان سے نمٹنے کے لئے اختیار کئے جانے والے تکنیکی و تحقیقی طریقۂ کار کے بارے دستیاب معلومات یکجا کرکے اس کی تشہیر بذریعہ انٹرنیٹ کی جائے۔ اس مقصد کے لئے صوبائی اُور وفاقی سطح پر پریس انفارمیشن ڈیپارٹمنٹس کی خدمات سے بھی استفادہ کیا جاسکتا ہے۔ نجی شعبے میں فعال جامعات بھی اِس سلسلے میں مقامی سطح پر معلومات اکٹھا کر سکتی ہیں‘ جنہیں اگر ملک کے مختلف حصوں کی جامعات کے ساتھ جوڑ دیا جائے تو پورے ملک کی ایسی ’ڈیٹابیس‘ تیار ہو جائے گی‘ جو منصوبہ سازوں سے لیکر اصلاح کاروں‘ غیرملکی سرمایہ کاروں‘ ملکی وغیرملکی اِمدادی اِداروں اور تعلیم و تحقیق کے عمل کو زیادہ بامقصد و سہل بنانے کا مؤجب ہوگی۔
پس تحریر: بلدیاتی اِنتخابات میں بطور اُمیدوار حصہ لینے والوں سے درخواست ہے کہ وہ ’ٹریفک سائن بورڈز‘ اور اُن معلوماتی و اطلاعاتی بورڈز پر پوسٹرز یا اِسٹکرز چسپاں نہ کریں کیونکہ اِس سے ایک تو بیرون شہر سے آنے والوں کو راستہ تلاش کرنے یا فاصلوں سے متعلق رہنمائی میں دقت ہوتی ہے اُور دوسرا ٹریفک سائن بورڈز یا اطلاعیہ بورڈز پر ایک خاص قسم کا اسٹکر لگا ہوتا ہے جو پوسٹر اکھاڑنے سے کارآمد نہیں رہتا۔ سرکاری املاک کو نقصان پہنچانا اور سرکاری وسائل سے یوں اظہار مروت کی روش‘ اصلاح کی متقاضی ہے۔
بلدیاتی انتخابات حجم کے لحاظ سے قومی و صوبائی اسمبلی کے لئے مقابلوں سے زیادہ بڑے بلکہ پرہجوم ہیں جن کے لئے اُمیدواروں کے ناموں کی حتمی فہرستیں بھی مکمل نہیں ہوسکیں تو اِس کی بنیادی وجہ ٹیکنالوجی کے استعمال سے حتی الوسع گریز اور سرکاری اداروں میں پائی جانے والی رازداری کی عمومی عادت ہے۔ کمپیوٹر کے ترقی یافتہ دور میں جبکہ ’ڈیٹابیس‘ پر مبنی سافٹ وئر وسائل کے ذریعے اَربوں صارفین کے کوائف‘ اُن کی عادات‘ پسند و ناپسندیدگی اور دیگر معمولات کے بارے میں ہزاروں صفحات پر مشتمل تفصیلات محفوظ رکھی جاسکتی ہیں لیکن بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان میں ڈیٹا (کوائف‘ مفروضات‘ اَمور معلومہ‘ اَمر معلومہ‘ حقائق یا مشاہدات) کا وجود بھی ہے؟ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے ہاں ’ڈیٹا‘ وجود ہی نہیں رکھتا‘ وہ غلط فہمی کا شکار ہیں کیونکہ کسی بھی سرکاری محکمے میں جائیں الماریاں فائلوں اور کاغذات سے بھری ہوئی ملیں گی‘ جن میں انواع و اقسام کا ڈیٹا ’عمر قید‘ رکھا جاتا ہے لیکن جب امور معلومہ یا کسی معلوم امر کے بارے میں دریافت کیا جائے تو مشکل اِس لئے ہوتا ہے کہ ’ڈیٹا‘ منظم انداز میں مرتب یا ترتیب سے رکھا نہیں جاتا اُور بسا اُوقات اِنتظامی امور میں شفافیت نہ ہونے کی وجہ سے بھی سوال پوچھنے والے کی تسلی تشفی نہیں ہو پاتی۔ المیہ یہ بھی ہے کہ ’امور معلومہ‘ تک رسائی سے صرف عام آدمی یا ذرائع ابلاغ ہی محروم نہیں بلکہ خواص بھی اِس جھنجھٹ میں نہیں پڑتے۔ سرشام نجی ٹیلی ویژن چینلوں پر ’ٹاک شوز‘ میں اِظہارخیال کرنے والے سیاستدانوں کو اُن کی فرفر بولنے کی عادت و تربیت بچا لیتی ہے وگرنہ کہنے کو اُن کے پاس جو دعوے ہوتے ہیں‘ اُنہیں ثابت کرنے کے لئے متعلقہ ’ڈیٹا‘ نہیں ہوتا۔
’اَمور معلومہ‘ کی ضرورت سماجی بہبود‘ انسانی حقوق کے محافظوں‘ سیاستدانوں‘ درس و تدریس کرنے والے معلمین‘ واعظین‘ کسی شعبے سے متعلق تحقیق کاروں اُور ذرائع ابلاغ کو ہوتی ہے اور اِسی بنیادی ضرورت و تقاضے کے تحت ’معلومات تک رسائی (رائٹ ٹو انفارمیشن)‘ نامی قانون سازی کرنا پڑی جو کسی جادو کی چھڑی کا نام نہیں کہ قانون منظور اور لاگو ہونے کے بعد صورتحال بدل جاتی اور سرکاری محکمے ڈیٹا تک رسائی عام کر دیتے! یقیناً’معلومات تک رسائی‘ کا قانون وقت گزرنے کے ساتھ برق رفتاری کے ساتھ مطلوبہ نتائج بھی دے گا اُور اس کے ذریعے معلومات حاصل کرنے کی مقررہ قیمت بھی کم ہو جائے گی۔ تجویز ہے کہ جامعات کی سطح پر معلومات (ڈیٹا) اکٹھا کرنے کا بندوبست کیا جائے۔ طلبہ اس شعبے میں تحقیق کریں اور مستقل بنیادوں پر سرکاری اِداروں‘ سیاسی و غیرسیاسی حکومتوں کے چابکدستیوں‘ حکمت عملیوں اُور ان کے نتائج‘ اثرات‘ ماحولیاتی تنوع‘ موسم‘ زراعت و دیگر شعبوں بشمول قدرتی آفات اور ان سے نمٹنے کے لئے اختیار کئے جانے والے تکنیکی و تحقیقی طریقۂ کار کے بارے دستیاب معلومات یکجا کرکے اس کی تشہیر بذریعہ انٹرنیٹ کی جائے۔ اس مقصد کے لئے صوبائی اُور وفاقی سطح پر پریس انفارمیشن ڈیپارٹمنٹس کی خدمات سے بھی استفادہ کیا جاسکتا ہے۔ نجی شعبے میں فعال جامعات بھی اِس سلسلے میں مقامی سطح پر معلومات اکٹھا کر سکتی ہیں‘ جنہیں اگر ملک کے مختلف حصوں کی جامعات کے ساتھ جوڑ دیا جائے تو پورے ملک کی ایسی ’ڈیٹابیس‘ تیار ہو جائے گی‘ جو منصوبہ سازوں سے لیکر اصلاح کاروں‘ غیرملکی سرمایہ کاروں‘ ملکی وغیرملکی اِمدادی اِداروں اور تعلیم و تحقیق کے عمل کو زیادہ بامقصد و سہل بنانے کا مؤجب ہوگی۔
پس تحریر: بلدیاتی اِنتخابات میں بطور اُمیدوار حصہ لینے والوں سے درخواست ہے کہ وہ ’ٹریفک سائن بورڈز‘ اور اُن معلوماتی و اطلاعاتی بورڈز پر پوسٹرز یا اِسٹکرز چسپاں نہ کریں کیونکہ اِس سے ایک تو بیرون شہر سے آنے والوں کو راستہ تلاش کرنے یا فاصلوں سے متعلق رہنمائی میں دقت ہوتی ہے اُور دوسرا ٹریفک سائن بورڈز یا اطلاعیہ بورڈز پر ایک خاص قسم کا اسٹکر لگا ہوتا ہے جو پوسٹر اکھاڑنے سے کارآمد نہیں رہتا۔ سرکاری املاک کو نقصان پہنچانا اور سرکاری وسائل سے یوں اظہار مروت کی روش‘ اصلاح کی متقاضی ہے۔
![]() |
DATA collection on universities level importance |
No comments:
Post a Comment