ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
بجٹ 2015-16ء
بجٹ 2015-16ء
کیا ہم اس بات کو خوش آئند قرار دے سکتے ہیں کہ ہمارے وزیرخزانہ اور مشروط
قرض دینے والے عالمی اداروں بالخصوص عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کے
پالیسی سازوں کے درمیان فکروعمل کی ہم آہنگی پائی جاتی ہے؟ یاد رہے کہ ’آئی
ایم ایف‘ نے حال ہی میں پاکستان سے متعلق اپنا ساتواں جائزہ مکمل کیا جس
میں حکومت کی کارکردگی کو تسلی بخش قرار دیا ہے۔ پاکستان کی مجموعی شرح نمو
0.2 فیصد سے 4.1فیصد تک لانے میں آئی ایم ایف کے دباؤ نے کلیدی کردار ادا
کیا ہے اور آئندہ مالی سال میں اس میں زیادہ مستحکم شرح نمو عام آدمی کو
مہنگا پڑ سکتا ہے۔ نئے مالی سال 2015-16ء کے لئے بجٹ کی تیاری کا عمل جاری
ہے اور اطلاعات کے مطابق حکومت شرح نمو 4.3 فیصد تک لیجانے کا ارادہ رکھتی
ہے۔ اس اضافے سے اُس غیرمعمولی 130 ارب روپے کے اخراجات کے بارے سوچنا
ہوگا جو اندرون ملک مختلف فوجی کاروائیوں پر خرچ ہو رہے ہیں۔ آئندہ مالی
سال کے بجٹ میں زیادہ سے زیادہ ترقیاتی کاموں کے لئے مالی وسائل مختص کرنا
زیرغور ہیں جس سے نہ صرف زیادہ ملازمتیں پیدا ہوں گی بلکہ اس سے نجی شعبہ
بھی ترقی کرے گا۔
پاکستان کی اقتصادی ترقی کا انحصار محصولات (ٹیکسوں) سے مشروط ہے اور آئندہ مالی سال میں بھی ٹیکسوں سے حاصل ہونے والی آمدنی کسی بھی طرح 3.2 کھرب روپے سے زیادہ حاصل ہونے کی توقع نہیں۔ یہ لمحۂ فکریہ ہمیں دعوت دیتا ہے کہ ’ٹیکس نیٹ‘ بڑھایا جائے اور ان طبقات سے زیادہ ٹیکس وصول کیا جائے جو شاہانہ زندگی گزار رہے ہیں لیکن اُن کے پاس حکومت کو دینے کے لئے کچھ نہیں۔ قانون ساز اداروں کے اراکین خود کتنا ٹیکس ادا کرتے ہیں‘ اس بات کو بیان کرنے میں شرم محسوس ہوتی ہے۔ بھلا کسی ملک کے حکمران جب خود ٹیکس ادا نہ کررہے ہوں تو وہ عوام و خواص سے کس طرح اس بات کی توقع کس طرح کر سکتے ہیں کہ وہ بھی اپنے حصے کا ٹیکس ادا کریں۔
آئندہ مالی سال کے لئے بجٹ کی تیاری میں اعلان کردہ کم سے کم اُجرت کے حکمنامے پر بھی عمل درآمد ہونا چاہئے۔ مہنگائی کی بڑھتی ہوئی شرح کے لحاظ سے سرکاری ملازمین کی تنخواہیں اور پینشن میں اضافہ خوش آئند ہے لیکن چونکہ ملازمتوں کی اکثریت غیرسرکاری وسائل پر انحصار کرتی ہے اس لئے نجی شعبے کو مراعات یا نجی شعبے کے لئے ملازمین کے لئے ’بہبود فنڈ‘ کا اجرأ ضروری ہے۔ حکومت کی جانب سے کم سے کم اجرت کی حد مقرر کر دی گئی ہے لیکن اس کے خلاف عدالت سے رجوع کرکے یہ پورا معاملہ عرصہ دراز سے التوأ کا شکار ہے۔ اگر نئے مالی سال کے بجٹ میں کم سے کم اجرت پر نظرثانی کرکے اسے زیادہ حقیقت پسندانہ بنایا جائے اور نجی شعبے کو پابند کیا جائے کہ وہ ملازمین کے حقوق ادا کرے تو یہ ایک خاص مہربانی ہوگی۔ سردست مسئلہ قوانین و قواعد کی کمی کا نہیں بلکہ اِن پر اطلاق نہیں ہورہا۔ مزدوروں کے حقوق کا تحفظ کرنے کے لئے ادارے تو موجود ہیں لیکن اُن کی کارکردگی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ سرمایہ دار طبقات اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے عام انتخابات میں سرمایہ کاری کے ذریعے اُس فیصلہ ساز منصب پر فائز ہوجاتے ہیں جہاں اُن پر قانون ہاتھ نہیں ڈال سکتا۔ بلاامتیاز قانون و قواعد کا اطلاق اور مزدوروں‘محنت کشوں کے حقوق کی ادائیگی عملاً ممکن بنانے کے لئے ’عوام دوست بجٹ‘ کی ضرورت ہمیشہ ہی سے رہی ہے اور اِس مرتبہ بھی بہتری کی صرف توقع ہی کی جاسکتی ہے۔
مالی سال 2014-15ء اختتام پذیر ہونے والا ہے جس کے دس ماہ کے دوران وصول ہونے والوں محصولات کی شرح 2ہزار 560ارب روپے ہے اور وفاقی وزارت خزانہ کی ویب سائٹ پر موجود اعدادوشمار پر اگر بھروسہ کیا جائے تو حکومت اس بات کے قریب ہے کہ وہ 13فیصد اضافی ٹیکس وصول کرنے کا ہدف حاصل کر لے لیکن یاد رہے کہ سیلزٹیکس کی مدمیں حکومت 118 ارب روپے واپس بھی کرے گی‘ جس سے محصولات سے حاصل ہونے والے پچیس سو ساٹھ ارب روپے کا عدد مزید سکڑ جائے گا۔
عام آدمی ماچس کی ایک ڈبی سے فی یونٹ بجلی استعمال کرنے تک ہر شے پر فراخدلی سے ٹیکس ادا کررہا ہے جبکہ اُس کی آمدنی (تنخواہ) سے بھی ٹیکس ادائیگی سے قبل ہی منہا کر لیا جاتا ہے۔ ٹیکس ادا نہ کرنے کی روش غریب و متوسط طبقات میں نہیں بلکہ اعلی و تعلیم یافتہ حکمراں طبقات میں پائی جاتی ہے جو ملک کے زیادہ سے زیادہ وسائل سے استفادہ تو کرتے ہیں لیکن حسب مقام و منصب اپنی ذمہ داری کا احساس نہیں کر رہے۔ آئندہ مالی سال کے بجٹ میں ایک سو سے ایک سو پچاس ارب روپے گردشی قرضہ جات کی ادائیگی اور سیکورٹی آپریشنز کے لئے مختص کئے جا سکتے ہیں اور اگر ہم آمدنی و اخراجات کے میزانیئے (بجٹ) میں پائے جانے والے خسارے کو کم کرنا چاہتے ہیں جو پہلے ہی 180 سے230 ارب روپے کے درمیان معلق ہے تو ضرورت اس امر کی بھی ہے کہ سیکورٹی کے لئے رسک بننے والوں سے محتاط معاملہ کرنے کی بجائے اگر کالعدم تحریکیوں سے وابستگیاں رکھنے والے اُن ایک ہزار سے کم افراد سے سخت معاملہ کیا جائے‘ جو پورے ملک کے لئے دردسر بنے ہوئے ہیں۔ کراچی سے پشاور تک سیکورٹی کی صورتحال میں بہتری اُس وقت تک نہیں آسکتی جب تک قبائلی علاقوں کی حیثیت بندوبستی علاقوں کے مساوی نہیں کر دی جاتی۔ قبائلی علاقوں کے لئے ایک سے زیادہ مرتبہ مرتب کی جانے والی اصلاحات عملی اطلاق چاہتی ہیں اُور بس۔
قومی سطح پر آمدن و اخراجات میں توازن کے لئے ہمیں اپنی چادر دیکھ کر پاؤں پھیلانا ہوگا۔ غیرترقیاتی اخراجات کم کرنے اور سادگی پر مبنی طرز حکمرانی اختیار کرنے کے سوا بھی چارہ نہیں۔ قومی سطح پر سادگی اپنانے اور قومی بچت کی عادت عام کرنے کی بھی اشد ضرورت ہے۔ حال ہی میں تعینات ہونے والے گورنر پنجاب نے ایک عمدہ مثال قائم کی ہے کہ وہ سرکاری رہائش گاہ دفتری اوقات کے علاؤہ استعمال نہیں کریں گے۔ اگر پنجاب کا گورنر ایسا کرسکتا تو دیگر صوبوں کے گورنرز ایسا کیوں نہیں کرسکتے؟ بجٹ کا خسارہ اور اقتصادی مشکلات سے نمٹنے کے لئے عوام سے مزید قربانیوں کی توقع کرنے کی بجائے حکمراں طبقات کو اپنی کارکردگی اور سرکاری وسائل کے استعمال میں احتیاط برتنا ہوگی۔ انہیں صادق و امین بن کر عوام کے ٹیکسوں سے وصول ہونے والی ہر ایک پائی کا دانشمندانہ اور کفایت شعاری پر مبنی استعمال کرنا ہوگا۔ یہ کہاں کا انصاف ہے کہ بجلی کے صارفین سے ’پاکستان ٹیلی ویژن‘ کی لائسینس فیس بصورت ’بھتہ‘ وصول کی جائے لیکن اِس قومی ادارے کے کردار و فعالیت کو ہر دور میں صرف اور صرف حکمرانوں کی تعریف و توصیف تک ہی محدود رکھا جائے! اقتصادی بہتری سماجی اور سیاسی محاذوں پر اسراف ختم کئے بناء ممکن نہیں‘ جس کے لئے خوداحتسابی سے زیادہ کوئی دوسرا حربہ کارگر و کامیاب نہیں ہوسکتا۔
پاکستان کی اقتصادی ترقی کا انحصار محصولات (ٹیکسوں) سے مشروط ہے اور آئندہ مالی سال میں بھی ٹیکسوں سے حاصل ہونے والی آمدنی کسی بھی طرح 3.2 کھرب روپے سے زیادہ حاصل ہونے کی توقع نہیں۔ یہ لمحۂ فکریہ ہمیں دعوت دیتا ہے کہ ’ٹیکس نیٹ‘ بڑھایا جائے اور ان طبقات سے زیادہ ٹیکس وصول کیا جائے جو شاہانہ زندگی گزار رہے ہیں لیکن اُن کے پاس حکومت کو دینے کے لئے کچھ نہیں۔ قانون ساز اداروں کے اراکین خود کتنا ٹیکس ادا کرتے ہیں‘ اس بات کو بیان کرنے میں شرم محسوس ہوتی ہے۔ بھلا کسی ملک کے حکمران جب خود ٹیکس ادا نہ کررہے ہوں تو وہ عوام و خواص سے کس طرح اس بات کی توقع کس طرح کر سکتے ہیں کہ وہ بھی اپنے حصے کا ٹیکس ادا کریں۔
آئندہ مالی سال کے لئے بجٹ کی تیاری میں اعلان کردہ کم سے کم اُجرت کے حکمنامے پر بھی عمل درآمد ہونا چاہئے۔ مہنگائی کی بڑھتی ہوئی شرح کے لحاظ سے سرکاری ملازمین کی تنخواہیں اور پینشن میں اضافہ خوش آئند ہے لیکن چونکہ ملازمتوں کی اکثریت غیرسرکاری وسائل پر انحصار کرتی ہے اس لئے نجی شعبے کو مراعات یا نجی شعبے کے لئے ملازمین کے لئے ’بہبود فنڈ‘ کا اجرأ ضروری ہے۔ حکومت کی جانب سے کم سے کم اجرت کی حد مقرر کر دی گئی ہے لیکن اس کے خلاف عدالت سے رجوع کرکے یہ پورا معاملہ عرصہ دراز سے التوأ کا شکار ہے۔ اگر نئے مالی سال کے بجٹ میں کم سے کم اجرت پر نظرثانی کرکے اسے زیادہ حقیقت پسندانہ بنایا جائے اور نجی شعبے کو پابند کیا جائے کہ وہ ملازمین کے حقوق ادا کرے تو یہ ایک خاص مہربانی ہوگی۔ سردست مسئلہ قوانین و قواعد کی کمی کا نہیں بلکہ اِن پر اطلاق نہیں ہورہا۔ مزدوروں کے حقوق کا تحفظ کرنے کے لئے ادارے تو موجود ہیں لیکن اُن کی کارکردگی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ سرمایہ دار طبقات اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے عام انتخابات میں سرمایہ کاری کے ذریعے اُس فیصلہ ساز منصب پر فائز ہوجاتے ہیں جہاں اُن پر قانون ہاتھ نہیں ڈال سکتا۔ بلاامتیاز قانون و قواعد کا اطلاق اور مزدوروں‘محنت کشوں کے حقوق کی ادائیگی عملاً ممکن بنانے کے لئے ’عوام دوست بجٹ‘ کی ضرورت ہمیشہ ہی سے رہی ہے اور اِس مرتبہ بھی بہتری کی صرف توقع ہی کی جاسکتی ہے۔
مالی سال 2014-15ء اختتام پذیر ہونے والا ہے جس کے دس ماہ کے دوران وصول ہونے والوں محصولات کی شرح 2ہزار 560ارب روپے ہے اور وفاقی وزارت خزانہ کی ویب سائٹ پر موجود اعدادوشمار پر اگر بھروسہ کیا جائے تو حکومت اس بات کے قریب ہے کہ وہ 13فیصد اضافی ٹیکس وصول کرنے کا ہدف حاصل کر لے لیکن یاد رہے کہ سیلزٹیکس کی مدمیں حکومت 118 ارب روپے واپس بھی کرے گی‘ جس سے محصولات سے حاصل ہونے والے پچیس سو ساٹھ ارب روپے کا عدد مزید سکڑ جائے گا۔
عام آدمی ماچس کی ایک ڈبی سے فی یونٹ بجلی استعمال کرنے تک ہر شے پر فراخدلی سے ٹیکس ادا کررہا ہے جبکہ اُس کی آمدنی (تنخواہ) سے بھی ٹیکس ادائیگی سے قبل ہی منہا کر لیا جاتا ہے۔ ٹیکس ادا نہ کرنے کی روش غریب و متوسط طبقات میں نہیں بلکہ اعلی و تعلیم یافتہ حکمراں طبقات میں پائی جاتی ہے جو ملک کے زیادہ سے زیادہ وسائل سے استفادہ تو کرتے ہیں لیکن حسب مقام و منصب اپنی ذمہ داری کا احساس نہیں کر رہے۔ آئندہ مالی سال کے بجٹ میں ایک سو سے ایک سو پچاس ارب روپے گردشی قرضہ جات کی ادائیگی اور سیکورٹی آپریشنز کے لئے مختص کئے جا سکتے ہیں اور اگر ہم آمدنی و اخراجات کے میزانیئے (بجٹ) میں پائے جانے والے خسارے کو کم کرنا چاہتے ہیں جو پہلے ہی 180 سے230 ارب روپے کے درمیان معلق ہے تو ضرورت اس امر کی بھی ہے کہ سیکورٹی کے لئے رسک بننے والوں سے محتاط معاملہ کرنے کی بجائے اگر کالعدم تحریکیوں سے وابستگیاں رکھنے والے اُن ایک ہزار سے کم افراد سے سخت معاملہ کیا جائے‘ جو پورے ملک کے لئے دردسر بنے ہوئے ہیں۔ کراچی سے پشاور تک سیکورٹی کی صورتحال میں بہتری اُس وقت تک نہیں آسکتی جب تک قبائلی علاقوں کی حیثیت بندوبستی علاقوں کے مساوی نہیں کر دی جاتی۔ قبائلی علاقوں کے لئے ایک سے زیادہ مرتبہ مرتب کی جانے والی اصلاحات عملی اطلاق چاہتی ہیں اُور بس۔
قومی سطح پر آمدن و اخراجات میں توازن کے لئے ہمیں اپنی چادر دیکھ کر پاؤں پھیلانا ہوگا۔ غیرترقیاتی اخراجات کم کرنے اور سادگی پر مبنی طرز حکمرانی اختیار کرنے کے سوا بھی چارہ نہیں۔ قومی سطح پر سادگی اپنانے اور قومی بچت کی عادت عام کرنے کی بھی اشد ضرورت ہے۔ حال ہی میں تعینات ہونے والے گورنر پنجاب نے ایک عمدہ مثال قائم کی ہے کہ وہ سرکاری رہائش گاہ دفتری اوقات کے علاؤہ استعمال نہیں کریں گے۔ اگر پنجاب کا گورنر ایسا کرسکتا تو دیگر صوبوں کے گورنرز ایسا کیوں نہیں کرسکتے؟ بجٹ کا خسارہ اور اقتصادی مشکلات سے نمٹنے کے لئے عوام سے مزید قربانیوں کی توقع کرنے کی بجائے حکمراں طبقات کو اپنی کارکردگی اور سرکاری وسائل کے استعمال میں احتیاط برتنا ہوگی۔ انہیں صادق و امین بن کر عوام کے ٹیکسوں سے وصول ہونے والی ہر ایک پائی کا دانشمندانہ اور کفایت شعاری پر مبنی استعمال کرنا ہوگا۔ یہ کہاں کا انصاف ہے کہ بجلی کے صارفین سے ’پاکستان ٹیلی ویژن‘ کی لائسینس فیس بصورت ’بھتہ‘ وصول کی جائے لیکن اِس قومی ادارے کے کردار و فعالیت کو ہر دور میں صرف اور صرف حکمرانوں کی تعریف و توصیف تک ہی محدود رکھا جائے! اقتصادی بہتری سماجی اور سیاسی محاذوں پر اسراف ختم کئے بناء ممکن نہیں‘ جس کے لئے خوداحتسابی سے زیادہ کوئی دوسرا حربہ کارگر و کامیاب نہیں ہوسکتا۔
No comments:
Post a Comment