Wednesday, May 13, 2015

May2015 TRANSLATION FATA a comedy of reforms

FATA: a comedy of reforms
قبائلی علاقہ جات: اِصلاحات کا دھوکہ
وفاق کے زیرانتظام قبائلی علاقہ جات پاکستان کا ایک اہم حصہ ہیں‘ جو گذشتہ 69 سال سے دوران مختلف وفاقی حکومتوں کے ادوار میں غیرمعمولی طور پر متاثر ہوئے ہیں۔ درحقیقت قبائلی علاقے ایک تجربہ گاہ کے طور پراستعمال ہوئے جہاں ہر حکمراں نے اپنی دانست کے مطابق تجربے کئے ہیں۔

آمر حکمرانوں نے قبائلی علاقوں سے متعلق حکمت عملیاں مرتب کرتے ہوئے اپنے ملکی مفادات کی بجائے امریکہ کے مفادات کا زیادہ خیال رکھا اُور انہوں نے کوشش کی کہ وہ مغربی دنیا کو خوش رکھیں تاکہ اُن کے دور حکمرانی کو طول مل سکے۔ اس عمل کے دوران برسرزمین انتظامیہ نے قبائلی علاقوں پر اپنا تسلط قائم رکھا اور یہاں کے رہنے والوں کو محکوم و مجبور بنا کر اُن کے بنیادی یا جمہوری حقوق غصب کئے رکھے۔ دوسری طرف جن سویلین افراد کو قبائلی علاقوں میں تعینات کیا گیا اُنہوں نے نام نہاد ترقیاتی منصوبے جو حقیقت میں وجود ہی نہیں رکھتے تھے مکمل نہ ہوسکے۔ ترقیاتی حکمت عملی کے لئے مختص خطیر مالی وسائل قبائلی علاقوں کی بجائے ذاتی اثاثوں میں اضافے کا سبب بنے اور یہ قبائلی سرزمین سونے کی کان جیسی سمجھی گئی جس سے اپنی جیبیں بھریں گئیں۔ موجودہ حکومت بھی ماضی کے حکمرانوں سے اِس لحاظ سے مختلف نہیں کہ انہوں نے قبائلی علاقوں سے وہی سلوک روا رکھا ہوا جو ماضی میں تھا۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ماضی میں قبائلی علاقوں میں اصلاحات کے لئے جو کمیشن بنائے گئے اُن کی سفارشات کو عملی جامہ پہنایا جاتا لیکن خیبرپختونخوا کے گورنر نے اپنی تقرری کے فوراً بعد ایک نیا کمیشن بنا دیا۔ ذرائع ابلاغ میں شائع ہونے والی اطلاعات کے مطابق ڈیرھ برس کے بعد کمیشن نے دیگر تجاویز کے ہمراہ یہ تجویز بھی دی ہے کہ ایک نیا کمیشن بنایا جائے جو اس کی مرتب کردہ شفارشات کے مختلف پہلوؤں پر غور کرتے ہوئے ان کے عملی اطلاق بارے لائحہ عمل تجویز کرسکے۔ ملاحظہ کیجئے کہ قبائلی علاقوں میں اصلاحات کے لئے حکومت کی کارکردگی‘ سوچ اور ترجیحات یہ ہیں!

کم وبیش ایک برس پہلے کی بات ہے کہ مجھے پشاور میں قبائلی علاقوں کے لئے اصلاحات مرتب کرنے والے کمیشن کے اجلاس میں شرکت کے لئے طلب کیا گیا۔ میں اجلاس میں شریک ہوا اور سب سے پہلے یہ اعتراض اُٹھایا کہ قبائلی علاقوں کے بارے غوروخوض کرنے کے لئے جو کمیشن بنایا گیا ہے اس میں سوائے ایک رکن کے دیگر اراکین کا تعلق قبائلی علاقوں سے نہیں اور کچھ تو ایسے ہیں جو پشتو زبان بولنا یا سمجھنا بھی جانتے اور جب اُنہیں قبائلی علاقوں کے رسم و رواج‘ تہذیب وثقافت اور قبائلی سوچ کا اندازہ ہی نہیں تو وہ کسی ایسے علاقے کے لئے سفارشات کیسے اور کیونکر مرتب کر سکتے ہیں اور میرا نکتۂ نظر آج بھی یہی ہے کہ جو لوگ قبائلی رسم ورواج‘ روایات‘ طرز معاشرت اور بودوباش کو نہیں سمجھ سکتے وہ بھلا کیسے اپنی ذمہ داریوں سے کماحقہ عہدہ برآء ہو سکتے ہیں۔ میرے تمام خدشات درست ثابت ہوئے۔ خطیر رقم اور وقت برباد کرنے کے بعد کمیشن کی جانب سے سفارش کردہ اصلاحات کی کوئی اہمیت نہیں لیکن اس وقت اور پیسے کے ضیاع کے لئے کس کو ذمہ دار ٹھہرایا جائے؟ کوئی نہیں سنتا اور حکومت کی خواہش ہی دکھائی نہیں دیتی کہ وہ درست کام کے لئے درست افراد کا انتخاب کرے اور یہی وجہ ہے کہ ہم سوائے وقت ضائع کرنے کے اور کچھ بھی حاصل نہیں کر پارہے۔

ہمیں ایسی حکومت کا نام ونشان نہیں ملتاجس نے قبائلی علاقوں کی اہمیت کا احساس کرتے ہوئے ان علاقوں میں رہنے والوں کو خاطرخواہ توجہ دی ہو۔ ذرائع ابلاغ کے ذریعے خوب تشہیر کرنے کے ذریعے زیادہ سے زیادہ زور اس بات پر ہوتا ہے کہ قبائلی علاقوں کی قسمت کا تعین کرنے والے اِن علاقوں کا دورہ کرتے ہیں۔ وہاں چنیدہ مدعوین سے رسمی ملاقات کرتے ہیں۔ اِن اعلیٰ سطحی دوروں میں قبائلی علاقوں میں رہنے والے عام لوگوں سے نہ تو ملاقاتیں ہوتی ہیں اور نہ ہی تبادلۂ خیال۔ حکومتی اراکین جن چنیدہ مدعوین سے ملاقاتیں کرکے اُنہیں اصلاحات اُور قبائلی علاقوں کی تعمیر وترقی کے بارے میں کوششوں سے آگاہ کرتے ہیں وہ عمل کے فقدان کی وجہ سے کوئی معنی یا اہمیت نہیں رکھتی۔ قبائلی علاقوں سے تعلق رکھنے والے عام لوگ اِس قسم کے دوروں کو ایک فاصلے سے دیکھتے ہوئے اِن کا مذاق اُڑاتے ہیں! یہ طرز عمل تبدیلی چاہتا ہے۔ ہمیں اس بات پر غور کرنا ہوگا کہ قبائلی علاقوں کی تعمیر و ترقی کا ہدف کیوں حاصل نہیں ہوسکا۔ قبائلی علاقوں کے رہنے والوں کے بنیادی انسانی حقوق کیوں غصب ہیں۔ انہیں جمہوری عمل کا حصہ بنانے کی راہ میں حائل رکاوٹیں کیا ہیں۔ عمومی تاثر یہی ہے کہ ایک مخصوص سوچ رکھنے والا طبقہ نہیں چاہتا کہ قبائلی علاقوں میں تعمیر وترقی کا دور دورہ ہو۔ وہ چاہتے ہیں قبائلی علاقے یونہی مسائل میں الجھے رہیں اور ترقی سے محروم رہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ قبائلی علاقوں کے رہنے والے ناخواندہ رہیں تاکہ وہ اپنے حقوق نہ مانگ سکیں تاکہ یہ اپنے مقاصد حاصل کرتے رہیں۔

قبائلی علاقوں کے رہنے والوں اور سیکورٹی اداروں کے درمیان اعتماد کا فقدان پایا جاتا ہے۔ ہمیں اِن فاصلوں کوختم کرنے اور دونوں فریقین کے تحفظات کو سمجھنا ہوگا کیونکہ دونوں فریقین علاقے میں مسلح عسکریت پسندوں کی موجودگی کے حوالے سے الگ الگ نکتۂ نظر رکھتے ہیں لیکن اگر قبائلی علاقوں کے عوام اور سیکورٹی اداروں کے درمیان پائی جانے والی غلط فہمیوں کا ازالہ ہوجاتا ہے تو اس اتفاق رائے کی برکت سے قبائلی علاقے پھر سے امن کا گہوارہ بن سکتے ہیں۔ اس ضمن میں پہلا کام تو یہ کرنا ہوگا کہ قبائلی علاقوں میں رہنے والوں کو بھی ملک کے دیگر حصوں میں رہنے والوں کے مساوی حقوق دیئے جائیں ناکہ اُنہیں دشمن یا کسی دوسرے سیارے کی مخلوق سمجھا جائے۔ اس ہدف کے حاصل کرنے کے لئے صرف ایک ہی محرک و عملی طور پر ممکن بنانا ہوگا کہ قبائلی علاقوں کے رہنے والوں اور سیکورٹی اداروں کے درمیان اختلافات ختم کئے جائیں اور یہ دونوں فریق ایک دوسرے پر اعتماد رکھیں اور بھروسہ کریں۔

 (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ایاز وزیر۔ ترجمہ: شبیر حسین اِمام)

No comments:

Post a Comment